مکاتیب

ادارہ

(۱)

گرامی قدر جناب محمد عمار خان ناصر۔ زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کی شان دار تالیف ’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ نظر نواز ہوئی۔ اس عنایت پر سراپا سپاس ہوں۔ رسیدگی پر فوری ہدیہ تشکر اس لیے نہیں ارسال کر سکا کہ کتاب کے حوالے سے چند سطور تحریر کرنے کا ارادہ تھا، لیکن ہنوز اس خواہش کی تکمیل نہیں کر سکا، اس لیے سوچا کہ تاخیر سے ہی سہی، کتاب ارسال کرنے پر شکریہ ادا کر دیا جائے۔ بہت مدت بعد کسی فقہی موضوع پر انتہائی سلیقے سے لکھی گئی کوئی کتاب پڑھنے کو میسر آئی ہے۔ کوشش کروں گا کہ اپنی پسندیدگی کے پہلووں کو تفصیل سے قلم بند کر سکوں۔

کتاب پر مولانا زاہد الراشدی کا پیش لفظ اور اس کے بعد آپ کے ایک خاندانی بزرگ کا تہنیت نامہ (مطبوعہ الشریعہ) پڑھ کر خوشی دوبالا ہوئی اور بے ساختہ یہ شعر ذہن میں آیا ؂

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی

آپ کے توسط سے ان دونوں حضرات گرامی کی خدمت میں عرض ہے ؂

جو میں کہہ دوں تو سمجھا جائے مجھ کو دار کے قابل
جو تو کہہ دے تو تیری بزم کا دستور ہو جائے

تاہم میرا مشاہدہ ہے کہ علماء حق کا فرمودہ ہر کلمہ ’’کلمہ حق‘‘ ہوتا ہے اور اس پر ایمان نہ لانے سے ’’کراچی سے پشاور تک‘‘ فتووں کی توپوں کے دہانے کھل جاتے ہیں۔

اگر کتاب کے سب سے اہم مستدل ’’عقل عام‘‘ کی کہیں وضاحت ہوتی تو شاید بہت سی گتھیاں سلجھ جاتیں، کیونکہ عقل عام کی بنا پر کئی ممالک میں شراب نوشی، لاٹری اور ہم جنسی ازدواج کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے اور سزائے موت کو عقل عام کی بنا پر کبھی ختم کیا جاتا ہے اور کبھی رائج کر دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی غیر منصوص مسائل میں عقل عام سے فیصلے کرنے کا اختیار اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے، مگر عقل عام کی حدود اربعہ کا تعین کیسے ہو؟ جب کہ مختلف طبقات اور ادوار میں مختلف ثقافتی، معاشی اور سماجی پس منظر کے حامل افراد کی عقل عام با یک دگر مختلف نظر آتی ہے۔

(ڈاکٹر) محمد طفیل ہاشمی ۔ اسلام آباد

(۲)

مکرم ومحترم جناب مولانا مفتی عبد الواحد صاحب زید مجدہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ کے حوالے سے آپ کی تنقیدی تحریر موصول ہوئی۔ میں ممنون ہوں کہ آپ نے خیر خواہی اور اصلاح کے جذبے سے علمی اسلوب میں میرے نقطہ نظر پر تنقید کی ہے۔ ان شاء اللہ اسے ’الشریعہ‘ کے آئندہ شمارے میں شائع کر دیا جائے گا۔ اگر ممکن ہو تو ازراہ کرم اس کی سافٹ کاپی مجھے ای میل کروا دیں۔ شکریہ!

جہاں تک آپ کے تبصرے سے اتفاق یا عدم اتفاق کا تعلق ہے تو میرے ناقص فہم کے مطابق آپ کی موجودہ تحریر بحث میں کسی ایسے نکتے کا اضافہ نہیں کرتی جس کی روشنی میں، مجھے اپنے نقطہ نظر پر فوری نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہو۔ ان میں سے دیت کے حوالے سے میرے موقف پر آپ نے ’’سنت کی تشریعی حیثیت کو بالکل نظر انداز‘‘ کرنے، ’’منکرین حدیث کی سی بات کرنے‘‘ اور ’’مقادیر میں عقل وقیاس‘‘ کو دخل دینے کی پھبتیاں کسی ہیں جو میرے موقف کی نہایت ناروا ترجمانی ہے، اس لیے کہ زیر بحث نکتہ سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ زیر بحث نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کی جو مقدار مقرر فرمائی، وہ تشریع کے دائرے کی چیز ہے یا قضا اور سیاسہ کے دائرے کی۔ میں نے قرآن مجید کے نصوص کی روشنی میں یہ اخذ کیا ہے کہ شارع دیت سے متعلق قوانین کی عملی صورت کو کوئی مخصوص شکل نہیں دینا چاہتا، بلکہ اس نے اس معاملے کو ’معروف‘ پر منحصر قرار دیا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اہل عرب کے معروف کو اختیار فرمایا تو وہ اسی اصول کا ایک اطلاق تھا اور جس طرح معروف سے متعلق دیگر تمام معاملات میں تغیر وتبدل کی گنجایش مانی جاتی ہے، اسی طرح اس معاملے میں بھی یہ گنجایش موجود ہے۔ یہی صورت مرد اور عورت کی دیت میں فرق کی ہے۔ اگر قرآن یا سنت میں یہ قرار دیا گیا ہو کہ ایسا کوئی فرق شرعی طور پر لازم ہے تو اس سے سرتابی کی مجال نہیں، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو صحابہ کی آرا اور فتاویٰ کو بھی اہل عرب کے عرف پر مبنی سمجھنا چاہیے، نہ کہ ایک ابدی شرعی حکم کی حیثیت دے دینی چاہیے۔ 

اس راے پر تنقید کا درست طریقہ یہ تھا کہ آپ یہ واضح فرماتے کہ قرآن کے نصوص ’دیۃ مسلمۃ‘ اور ’اتباع بالمعروف‘ سے اس معاملے کا معروف پر منحصر ہونا ثابت نہیں ہوتا اور یا کم از کم یہ بتاتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے دیت کی مقدار اور عاقلہ وغیرہ کے معاملات میں اہل عرب کے جس معروف کو اختیار کیا، اس کے ابدی شرعی حکم ہونے کے الگ سے یہ اور یہ دلائل ہیں۔ ’دیۃ مسلمۃ‘ کے تحت جصاص کے استدلال کے دفاع میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے، وہ میر ے لیے ناقابل فہم ہے، اس لیے کہ بالفرض نکرہ یہاں تعظیم کے لیے ہو (جس کا نہ کوئی قرینہ ہے نہ ضرورت)، تب بھی اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ متکلم اس سے دیت کی کسی معہود مقدار کی طرف اشارہ کر کے اس کی پابندی کی ہدایت کر رہا ہے؟ نکرہ تعظیمی سے یہ استدلال آخر عربیت کے کس اصول کے تحت درست ہے؟

زنا کی سزا کے ضمن میں بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ کی بیان کردہ توجیہ کی بنیاد نساء کی آیت ۱۵ کو شادی شدہ خواتین سے جبکہ آیت ۱۶ کو غیر شادی شدہ عورت سے متعلق قرار دینے نیز قرآن مجید میں رجم کی آیت کو منسوخ التلاوۃ دون الحکم ماننے پر مبنی ہے۔ میں نے ان دونوں نکتوں کے حوالے سے جو اشکالات اپنی کتاب میں اٹھائے ہیں، ان کا کوئی تشفی بخش جواب آپ کی توجیہ سے نہیں ملتا۔

بہرحال اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر کرتے ہوئے، میں دوبارہ آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایک طالب علم کی آرا کو علمی تنقید کا موضوع بنانے کی ضرورت محسوس کی اور اس کے لیے اپنا قیمتی وقت فارغ کیا۔ میں امید رکھتا ہے کہ آپ کی طرف سے خیر خواہانہ تنقید اور راہنمائی کا سلسلہ آئندہ بھی قائم رہے گا۔ واجرکم علی اللہ

محمد عمار خان ناصر

(۳)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بعافیت ہوں گے

نومبر ۲۰۰۸ کے ’’نقیب ختم نبوت‘‘ میں عرصہ دراز کے بعد ایک اچھی پیش رفت نظر سے گزری کہ قائد احرار حضرت مولانا سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کی صدارت میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں مختلف مکاتب فکر پر مشتمل ’’متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ قائم کی گئی۔ اس سے دلی خوشی ہوئی۔ خدا کرے اس پر یکسوئی ومستقل مزاجی کے ساتھ مسلسل کام ہو۔......

قادیانیوں کو سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں کے تشتت وافتراق سے پہنچ رہا ہے کہ قادیانی مسئلہ پر کام کرنے کے لیے ہر ایک نے اپنی اپنی دکان کھول رکھی ہے۔ یہاں (برطانیہ میں) بھی مختلف لوگوں نے اس مسئلہ کو پیشہ بنا لیا ہے کہ بڑوں کی قربانیوں کے طفیل اس عنوان پر اناپ شناپ گفتگو کر کے پیسہ بٹورنا آسان ہے۔ یہاں ہر مکتب فکر آج کل اپنی کانفرنس الگ الگ کر رہا ہے۔ گزشتہ ۳۴ سال سے منظر بندہ کے سامنے ہے۔ یہاں اصلاً ختم نبوت کانفرنس تو ہم دیوبندیوں نے شروع کی تھی۔ اس میں تمام مسالک فکر شریک ہو جاتے تھے۔ اگر ہم وسعت ظرفی سے کام کرتے رہتے کہ چند بریلوی، سلفی، جماعت اسلامی کے مقررین کو دعوت دے کر تقریر کا موقع فراہم کرتے تو شاید اس عنوان پر ان لوگوں کی الگ الگ کانفرنسیں نہ ہوتیں، مگر ہم نے ختم نبوت کو بھی خالص دیوبندی موضوع بنا کر کام کیا۔ اسی طرح ہم لوگوں نے پاکستان میں بھی مجلس ختم نبوت کی صدارت پر ہمیشہ کے لیے اپنا استحقاق بنا لیا۔ کیا بگڑ جاتا اگر رسمی طورپر صدر مختلف مکاتب فکر سے بنا لیا جاتا اور کام ہم کرتے رہتے۔ .....

سپاہ صحابہ کے نام پر مولانا جھنگویؒ نے سنی بیداری کی جو تحریک شروع کی تھی، اگر وہ فکری ونظریاتی بیداری تک محدود رہتی تو بہت مفید کام ہو جاتا، مگر جذبات کی رو میں بہہ کر مار دھاڑ کی طرف مڑ گئی یا موڑ دی گئی۔ نتیجتاً ہمارے چوٹی کے اکابر علماے کرام جو بہت کچھ علمی ودینی کام کر رہے تھے، اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب اس تحریک کا حسرت ناک انجام ہمارے سامنے ہے۔ عصر حاضر کی ہر ایسی تحریک کا، جو عصری شعور وبصیرت سے عاری ہو، یہی انجام ہوگا کہ وہ ایسے راستے پر چل پڑے گی جو بند گلی میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں آزادی کے فوراً بعد مولانا ابو الکلام آزاد نے علما کو یہی پیغام دیا تھا کہ دین کے ہر کام وتحریک کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو نتیجہ تباہی ہوگا۔

شعبان المعظم میں پاکستان کے تین درجن کے قریب دیوبندی اکابر علما کا فتویٰ نظر سے گزرا کہ تمام غیر سودی واسلامی بینک حرام اور اسلام کی دعوت وتعلیم کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال حرام۔ اب تک ان بزرگوں کے نہ دلائل سامنے آئے نہ متبادل راستہ۔ .... چند ماہ پہلے ہمارے ختم نبوت کے مشہور عالم وبزرگ کا ایک طویل مضمون نظر سے گزرا تھا۔ آپ کے الفاظ یہ تھے: ’’ٹی وی وسی ڈیز کے مادر پدر آزاد پروگرام، لچر واہیات ڈرامے، ننگی فلمیں، حیا سوز مناظر اتنا نقصان نہیں پہنچا رہے جتنا یہ نام نہاد دینی پروگرام ..... اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ موجودہ ٹی وی چینلوں کے نام نہاد دینی پروگرام نئی نسل کے لیے ننگی اور بلیو پرنٹ فلموں سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔ .... لہٰذا ٹی وی پر آکر ٹی وی کی خباثتوں کا سد باب کرنا ایسا ہی غلط ہے جیسے پیشاب کی غلاظت کو پیشاب سے دھونا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

آپ آج کل ختم نبوت تحریک کے اکابر علما میں ہیں۔ ایک طرف مرزائیوں کی دعوت پوری دنیا میں بشمول مکہ ومدینہ روزانہ ۲۰ گھنٹہ جاری ہے۔ کیا اس ذہن کے ساتھ مرزائیوں کا مقابلہ ممکن ہے؟ بدقسمتی سے تقویٰ کے ایسے تماشے پورے عالم اسلام اور پوری دنیا میں صرف ہمارے ہاں ہی رہ گئے ہیں۔ کیا مٹھی بھر ابناء اللہ واحباء ہ کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمان اور ان کے علما گمراہ اور جہنمی ہیں؟ تقویٰ کی بات بہت اچھی چیز ہے مگر اسے فتویٰ بنا کر عوام پرمسلط کرنا؟ کلام اس میں ہے۔ میرا خیال ہے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان شاید ایسے مفتی صاحبان اور مولویوں کو ربذہ کے جنگل میں جلا وطن فرما دیتے۔ معاف کیجیے، قلم سے اپنے بزرگوں کی شان میں سخت باتیں نکل گئیں۔ ان بزرگوں کو تقویٰ مبارک ہو، مگر جو چیز تقویٰ کے خلاف ہو، وہ ناپسندیدہ، مکروہ کہی جائے گی نہ کہ حرام، اور اس ابتلا کے دور میں اسے فتویٰ بنا کر عوام پر لادنا تو بہت بڑا فتنہ ہوگا۔

(مولانا) محمد عیسیٰ منصوری۔ لندن

(۴)

نومبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاہور کے ایک پروفیسر صاحب کا خط ان کی خواہش کے بغیر شائع کر دیا گیا ہے۔ (’’یہ خط اشاعت کی غرض سے نہیں، توجہ کی غرض سے ہے۔ باقی آپ صاحب اختیار ہیں۔‘‘) آپ نے بھی کچھ کہے بغیر پروفیسر موصوف کا خط شائع کر کے گیند کو قارئین کے کورٹ میں پھینک دیا ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک قاری کے طور پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مگر قارئین کی یاد دہانی کے لیے، خط کی بعض سطور کا دوبارہ نقل کرنا مناسب ہے:

’’جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ترجمان القرآن، قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد پر طعنہ زنی اور گاہے گاہے بہتان طرازی کا ایک ہوکا پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ خدمت کوئی ایڈووکیٹ صاحب انجام دیتے ہیں۔‘‘

خط سے واضح ہے کہ موصوف کا ترجمان القرآن اور اس کے متعلقین سے تعلقِ خاص ہے، مگر اتنا گہرا بھی نہیں کہ وہ اپنی ملازمت کو خطرے میں ڈال کر جماعت کے ساتھ باقاعدہ وابستگی اختیار کر لیتے۔ بہرحال جماعت اور متعلقین جماعت پر طعن و بہتان کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اگر پروفیسر صاحب موصوف پانچ حملوں میں سے قابل اعتراض جملے یا اجزا کی نشاندہی کر دیتے تو قارئین الشریعہ بیدار لوگ ہیں، وہ اس کا نوٹس لیتے۔ آخر الشریعہ اور ترجمان کے قارئین میں کچھ تو فرق ہے۔ وہاں تو کیفیت یہ ہے کہ سو صفحے کے پرچے میں دو صفحے قارئین کے لیے مخصوص ہیں۔ ایک خط کے لیے اوسطاً تین سطریں آتی ہیں۔ ان میں بحث کی بجائے صرف توصیف ہی کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ مثلاً پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب ترجمان میں ایک مضمون لکھیں اور اس کی توصیف میں ان کی اہلیہ پروفیسر نگہت منصور صاحبہ دو سطریں لکھ کر ارسال کریں تو یہ خط شائع ہو جائے گا۔

ایک قاری کے طور پر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کالجوں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ پروفیسروں میں یہ کیفیت اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ اپنے مضمون اور طلبہ میں کسی بڑی مہارت اور خدمت انجام دینے کے بجائے اپنے دائرۂ کار سے باہر دوسرے شعبوں کی جانب نکل آتے ہیں تو پھر ان کا انداز عمل اسی معیار پر رہتا ہے۔ پروفیسر صاحب موصوف کی صلاحیتوں اور خدمات کے اعتراف کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے ملازم ہوتے ہوئے اس طرح کے نظریاتی اور سیاسی کاموں میں وقت دے کر اپنے ملازمت کار کے ساتھ کس قدر انصاف کر رہے ہیں۔ پھر جماعت کے رکن بنے بغیر جماعت کی اندرونی کیفیت کا اتنا ادراک کیسے کر سکتے ہیں کہ ایک شخص کے اخراج تک پر رائے زنی کر سکیں؟ ان کی سرکاری حیثیت اور غیر سرکاری قلم کاری کو بیک وقت نباہنے کے لیے جس درجے کی مصلحت آرائی لازم ہو گی، وہ ان کو حق گوئی کی ابتدائی سطح پر بھی رہنے دے گی؟ اخوان المسلمون کے بارے میں اندرونی اور تکلیف دہ کہانیوں کا بیان تو ترجمان میں پورے اہتمام سے جگہ پا سکتا ہے، مگر مجلس عمل کی توصیف میں سیاہ کیے گئے آٹھ صفحات سے متعلق چند سوال چھاپنے اور پھر ان کے جواب کی توفیق ایسے پروفیسر صاحبان کے زیر سایہ مرتب ہونے والے موقر ماہنامے میں کیسے جگہ پا سکتے ہیں! تصورات کی دنیا میں رہنے والے پروفیسر صاحبان میدان کی کشا کش اور اس کے رموز اور مشکلات کیسے جان سکتے ہیں۔ جماعت کو ایک مشن جاننے والے کسی رکن کی رکنیت کے اخراج کا قلق کسی پروفیسر کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔ یہ پروفیسر حضرات تو سرکاری صنعت سے بنا ہوا سونے کا چمچہ لے کر شعور کی گولیاں کھیلنا سیکھے ہیں۔ ان کی اپنی کیفیت تو یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کا ایک سے دوسرے مقام پر تبادلہ ہو جائے تو پھر ان پر کیا گزرتی ہے، حالانکہ تبادلہ نوکری سے فراغت نہیں ہوتا۔ جب کہ ایک مشنری کارکن کی بد عنوان امرا کے ہاتھوں اخراج سزائے موت سے کسی طرح بھی کم تر نہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پروفیسر صاحب موصوف تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ گوجرانوالہ کی حد تک جماعت سے خارج کیے جانے والوں کی ساری کیفیت سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ خود موصوف کے خسر بھی اس مرحلہ سے گزرے۔ یہاں جماعت بدعنوان امرا کی شرکت محدود بن کر رہی ہے۔ راستی، فعالیت ایسے امرا کے ہاتھوں جرم بنی رہی۔ صاحب امر پر بدعنوانی کے شبہہ تک کا اظہار گناہ کبیرہ خیال کیا گیا۔ اس کا خمیازہ اخراج کی صورت میں نہ نکلے، یہ ہو نہیں سکتا۔ اخراج کے لیے ایک ہی وجہ ہمیشہ سامنے آتی رہی اور وہ نظم کی خلاف ورزی کا مہمل الزام ہے۔ جہاں تک میرے اخراج کا تعلق ہے، مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں، بلکہ فخر ہے۔ پچھتائیں وہ ارکان جماعت جو جماعت میں مداہنت سے کام لے کر اپنی رکنیت بچائے ہوئے ہیں، یا وہ جو رکن بننے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ اخراج نہ ہو جائے۔ 

پروفیسر صاحب جماعت کے رکن بنیں، پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ کس حد تک حق گوئی کا فرض ادا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ محترم پروفیسر خورشید احمد سے منسوب ’شذرات‘ کی آڑ میں مشرف جیسے نا مشرف حکمرانوں پر آئے دن چڑھائی تو سرکاری پروفیسری کے باوجود چل سکتی ہے۔ یہاں بھی ضمیر کے خلاف لکھنے کا فرض ادا کرنے کا اعتراف پروفیسر صاحب موصوف کبھی کبھی نجی محفل میں کر ہی لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ضمیر کے خلاف لکھنے کا لائسنس مستقلاً حاصل کرنے کا اعزاز ان کے لیے کافی ہے؟ ایسے لوگ سید مودودی کی حریت فکر کے وارث ٹھہریں تو حریت فکر کا سوچتے ہی خود کشی پر آمادگی کتنی آسان ہو گی۔

ترجمان القرآن سے متعلق پروفیسر صاحبان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شاید وہ اپنے آپ کو دیگر پرچوں کے بھی نگران مدیر سمجھنے لگتے ہیں۔ قارئین ’الشریعہ‘ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ پرچہ کھلے بحث و مباحثے کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس کے صفحات گواہ ہیں کہ اس میں رئیس التحریر جناب مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ اپنے حلقے کے مولانا تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن تک پر سخت سے سخت تنقید شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح تبلیغی جماعت پر نقد بھی ایک بار نہیں کئی بار ہوئی ہے۔ سروس بیک گراؤنڈ کے لوگ آزاد منش لوگوں کی خون جگر سے لکھی ہوئی تحریروں کی تہہ تک کیسے پہنچ سکتے ہیں! ان کا قلم، قلب و ضمیر کی دستک کا آئینہ دار کیسے ہو سکتا ہے؟ جمود و مصلحت کی زنجیریں ان کو لکھنے کے لیے آزاد کیسے کر سکتی ہیں؟ 

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ۔ گوجرانوالہ

مکاتیب

(جنوری ۲۰۰۹ء)

تلاش

Flag Counter