(زاہد صدیق مغل صاحب کے ایک تنقیدی مضمون کا جائزہ)
ماہنامہ ’’ الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے اگست، ستمبر اور اکتوبر ۲۰۰۸ء کے شماروں میں تین قسطوں پر مشتمل جناب محمد زاہد صدیق مغل (استاد نیشنل یونیورسٹی فاسٹ، کراچی) کا مضمون بعنوان ’’اسلامی معاشیات یا سرمایہ داری کا اسلامی جواز‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں اس وقت کے اسلامی ماہرین معاشیات پر اس الزام کے ساتھ کھل کر تنقید کی گئی ہے کہ و ہ اسلام اور سرمایہ داری میں اصولاً کوئی فرق نہیں کرتے، کیونکہ جن تحریرات کو اسلام کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، ان کااصل مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کے نتیجے میں زیادہ لذت پرستی، نفع خوری اور ترقی ممکن ہو سکے گی۔ اسلامی ماہرین معاشیات پر تنقید کے سلسلے میں ان کا اصل ہدف مولانا محمد تقی عثمانی صاحب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ اس ضمن میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی کاوشیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں.... پاکستان میں اسلامی بینکاری وغیرہ پر سب سے عمدہ تحقیق مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمائی ہے۔ لہٰذا ہمارے پیش نظر آپ کی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت‘‘ ہے۔ مولاناکی قدآور شخصیت اورعلمائے کرام کے سامنے خطبات کی صورت میں پیش کیے جانے کی بنا پر اس کتاب کی علمی اہمیت وثقاہت (Authenticity) دیگر کتب سے بہت بڑھ کر ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو مدارس میں ایک بنیادی نصابی کتاب کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے۔‘‘ (شمارہ اگست، ص ۱۸)
مولانا تقی عثمانی صاحب کو قدآور شخصیت کہنے اور ان کے علمی مقام ومرتبہ کو تسلیم کر لینے کے باوجود صدیق مغل صاحب کی تنقید میں بہت زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ ان کے انداز تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے ایک بلند علمی مرتبہ ومقام پر فائز شخص کسی معمولی علم رکھنے والے شخص پر سخت تنقید کر رہا ہو۔ وہ اپنے مضمون کو غور وفکر کے لیے پیش کرنے کے بجائے ابتدا ہی سے اس وضاحتی نوٹ سے کرتے ہیں: ’’ راقم الحروف کے خیال میں اسلامی معاشیات و بینکاری سے منسلک تمام حضرات خلوص دل کے ساتھ اسے خدمت اسلام سمجھتے ہیں اور ان کی غلطی اجتہادی خطا پر محمول ہے‘‘۔ گو یاپر وفیسر مغل صاحب کا اجتہاد ہے کہ ان سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے۔ پھر مولانا تقی عثمانی صاحب کا ایک اقتباس درج کرنے کے بعد مطلب اخذ کرتے ہیں:
’’ گویا مولانا مانتے ہیں کہ اصل انسانی مسئلہ تزکیہ نفس نہیں کہ جس کے بعد اس کی ضرورتیں اور خواہشات کم ہو جائیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ کار ہے جسے استعمال کر کے وہ ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ خواہشیں پوری کر سکے۔‘‘ (شمارہ ستمبر، ص۳۲) ’’ آپ کے خیال میں اسلام لبر ل سرمایہ دارانہ معیشت کا حامی ہے۔‘‘ ( ستمبر، ص۳۹) طلب رسدکے قوانین کو فطری مان کر ’’مولانا بے خبری میں ایڈیم سمتھ کے یہ مفروضے بھی مان بیٹھے ہیں کہ ...‘‘.(ستمبر ص ۳۴) سمتھ کے اقتباس درج کرنے کے بعدلکھتے ہیں: ’’مزے کی بات ہے کہ مولانا کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں ... حیرت ہے کہ نفس پرستی کی اس روحانیت کو مان لینے کے بعد مولانا کے پاس ’’اصلاحی خطبات‘‘ بیان فرمانے اور چھپوانے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ (ستمبر، ص۳۵) ’’انہی معنوں میں مولانا سوشل ڈیمو کریٹ نظریات کے حامی بن جاتے ہیں۔‘‘ (ستمبر، ص۳۵) ’’مولانا کا کاروبار کو نفع خوری کے ساتھ جوڑنا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات بلکہ انسانی تاریخ کے بھی خلاف ہے۔‘‘ (ستمبر، ص ۴۰)
صدیق مغل صاحب کے ان اقتباسات سے تنقید کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
صدیق مغل صاحب نے مولانا تقی عثمانی صاحب پر جو شدید تنقید کی ہے، اس کاجائزہ لینے سے پہلے مولانا کی اس کتاب کا مختصر سا تعارف جس کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید کی گئی ہے۔
دار العلوم کراچی کے تعاون سے ادارہ ’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ میں کچھ تربیتی کورس علمائے کرام اور خاص طور پر فتویٰ سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے منعقد کیے گئے تاکہ انہیں معیشت کے موجودہ تصورات اور عصر حاضر میں کاروبار کی مختلف صورتوں کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔ یہ کورس ایک تجریاتی نوعیت کا تھا۔ اس کورس میں شریک مفتی محمد مجاہد صاحب نے پورے درس کو ٹیپ ریکارڈ کی مدد سے تحریری شکل میں محفوظ کیا۔ مولاناکی کتاب’’ اسلام اور جدید معیشت وتجارت‘‘ بنیادی طورپر اس تحریر سے تیار کی گئی ہے، البتہ مولانا نے اس پر نظر ثانی کرکے مناسب ترمیم واضافہ کیا ہے۔
مولانا لکھتے ہیں کہ: ’’ یہ کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے بلکہ سلسلہ وار تقاریر کا مجموعہ ہے۔ مولانا مفتی محمد مجاہد نے یہ تقاریر لفظ بہ لفظ مرتب نہیں کیں بلکہ تقاریر کا خلاصہ اور مغز اپنے الفاظ میں مرتب کیا ہے۔ لہٰذا انداز بیان میں اختصار ملحوظ رہا ہے اور فاضل مرتب نے طویل بحثو ں کو مختصر الفاظ اور تعبیرات میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، اس لیے عام قاری شاید بعض جگہ گنجلک محسوس کرے، لیکن امیدہے کہ اہل علم اسے قدرے توجہ سے پڑھیں گے تو ان شاء اللہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ ان تقاریر کے براہ راست مخاطب علمائے کرام تھے، اس لیے خاص طور پر فقہی بحثوں میں فقہی اصطلاحات بکثرت استعمال ہوئی ہیں اور مضامین کا انتخاب بھی انہی کی ضرورت کے مطابق کیا گیا ہے۔ یہ گفتگو اس موضوع پر حرف آخر نہیں ہے۔ اسے ہر مسئلے میں احقر کی طرف سے حتمی فیصلہ بھی سمجھنا نہیں چاہیے‘‘۔
اس تمہید کے بعد صدیق مغل صاحب کی مولانا پر تنقید کاجائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تین قسطوں میں تیس سے زائد صفحات پر شائع ہونے والے اس مضمون کا بنیادی موضوع اسلامی معیشت ہے اور اس میں اسلامی ماہرین معاشیات کی اجتہادی خطا کہہ کر گویا اجتہاد بھی کیا گیا ہے۔ لیکن بہت زیادہ تعجب ہے کہ تیس سے زائد صفحات کے پورے مضمون میں تنقید کرتے ہوئے یا اپنے خیال کی تائید اور وضاحت کے لیے قرآن کی کسی ایک آیت، کسی ایک حدیث یا کسی عالم وفقیہ کے ارشادات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف ایک جگہ اپنی بنائی گئی ایک فرضی مثال کے سلسلے میں ایک صحابی کے مزاح کے ذکر کے لیے بخاری شریف کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا اصل موضوع سے براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا۔ امام غزالی ؒ کے چند مختصر اقتباسات جن میں حب دنیا کی مذمت اور زہد کی ترغیب دی گئی ہے، درج کیے گئے ہیں۔ پورے مضمون میں سرمایہ دارانہ نظام کے کلی انہدام اور خاتمہ کومقصد قرار دے کر سرمایہ دارانہ نظام کی ایک ایک بات کے خلاف قرآن وحدیث کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی عقلی توجیہات، فرضی مثالوں اور پھر اپنے ذاتی استنباط سے دلائل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ( اس بات کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا) ۔
مولانا تقی عثمانی صاحب پر تنقید کرنے کے لیے ان کی کتاب سے مختلف مقامات سے ٹکڑے ٹکڑے لے کر حوالے نقل کرنے اور پھر ان سے نتائج اخذ کرنے کا طریقہ ناقابل فہم ہے۔ مثلاً کتاب پر تنقید کی ابتدا اس طرح کرتے ہیں کہ پہلے ان کا یہ حوالہ، جو اکنامکس اور معاشیات کے معنی اور مطلب بتانے کے ضمن میں ہے، نقل کرتے ہیں: ’’ انسانی وسائل محدود ہیں اور اس کے مقابلے میں ضروریات اور خواہشات بہت زیادہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لا محدود ضروریات اور خواہشات کو محدود وسائل کے ذریعے کس طرح پور اکیا جائے؟ اقتصاد اور اکنامکس کے یہی معنی ہیں کہ ان وسائل کو اس طریقے سے استعمال کیا جائے کہ ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہو سکیں۔‘‘ (شمارہ ستمبر، ص ۳۲) اس حوالے کو نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’گویا مولانا مانتے ہیں کہ Scarcity (لامحدود خواہشات اور محدود وسائل میں فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت) ایک فطری انسانی کیفیت کا نام ہے اور اصل انسانی مسئلہ ’’تزکیہ نفس‘‘ نہیں کہ جس کے بعد اس کی ضرورتیں اور خواہشات کم ہو جائیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ کارہے جسے استعمال کرکے وہ ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ خواہشیں پوری کر سکے۔‘‘ (ستمبر، ص ۳۲)
ذرا غور تو کیجیے کہ مغل صاحب نے مولانا کے اقتباس کو کس طرح کیا معنی پہنا دیے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے ابھی بحث کا آغاز کیا ہے، اکنامکس یا معاشیات کی تعریف کی ہے، معیشت کیا ہوتی ہے، اس کے بنیادی مسائل کیا ہوتے ہیں، ابھی وہ بتانے شروع کیے ہیں۔ پھر وہ سرمایہ دارانہ نظام کا ذکر کرتے ہیں، اس کے اصول بتاتے ہیں۔ پھر اشتراکیت کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں اور اشتراکیت پرتنقید وتبصرہ کرتے ہیں۔ پھر سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید وتبصرہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد صفحہ ۳۸ پر جا کر و ہ معیشت کے اسلامی احکام بتانا شروع کرتے ہیں اور یہیں سے مولانا کا بیان کردہ اسلامی نظریہ شروع ہو تا ہے، لیکن مغل صاحب اکنامکس کی تعریف وتشریح، جو کی جاتی ہے، میں سے ہی اقتباس نکال کر اس کومولانا تقی عثمانی صاحب کا نظریہ قرار دیتے ہیں۔ سمجھ سے بالا ہے کہ مغل صاحب نے یہ کہاں سے کس طرح سمجھ لیا کہ ’’تزکیہ نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کا پورا کرنا‘‘ مولانا کا نظریہ ہے۔ اور پورے مضمون میں جگہ جگہ اس کا ذکر کرتے ہیں کہ مولانا ’’لامحدود انسانی خواہشات کی تکمیل کرنا انسانی فطرت کاجائز اظہار‘‘ مانتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ مغل صاحب نے ذمہ داری سے اپنی باتیں تحریر نہیں کیں۔ مولاناکی سیدھی اورسادہ سی بات کو پیچ در پیچ بنا کر اپنے معنی پہنا دیے ہیں۔ مولانا تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر نفس انسانی اپنی ذات میں اور اپنی فطرت میں تو خواہشات کو پورا کرنے اور برے کاموں کا تقاضا کرنے والا ہے۔ (اللہ کے نبی حضرت یوسف بھی فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی خصوصی توفیق ودستگیری نہ ہوتی تو میرا نفس بھی دوسرے نفوس بشریہ کی طرح ہوتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: معارف القرآن از مفتی محمد شفیع اور تفسیرعثمانی از علامہ شبیر احمد عثمانی، سورۃ یوسف آیت ’وما ابری نفسی ‘کے تحت) مولانا تقی عثمانی صاحب انسانی نفس کی عمومی کیفیت بتا کر بات شروع کر رہے ہیں اور صدیق مغل صاحب انسانی نفس کی اسی عمومی کیفیت کو مولانا کا نظریہ بتا رہے ہیں۔ پھر انسان کی خواہشات پر مولانا تقی عثمانی صاحب خدائی پابندیوں (قرآن وسنت) اور دیگر شرعی پابندیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ سب سے پہلے تو اسلام نے معاشی سرگرمیوں پر حلال وحرام کی کچھ ایسی ابدی پابندیاں عائد کی ہیں جو ہر زمانے میں اور ہرجگہ نافذا لعمل ہیں مثلاً سود، قمار، سٹہ، اکتناز، احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی اور دوسری تمام بیوع باطلہ کو کلی طور پر ناجائز قرار دے دیا کیونکہ یہ چیزیں عموماً اجارہ داریوں کاذریعہ بنتی ہیں اور ان سے معیشت میں ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح ان تمام چیزوں کی پیداوار اور خرید وفروخت کو حرام قرار دے دیا جن سے معاشرہ کسی بد اخلاقی کا شکار ہو اور جس میں لوگوں کے سفلی جذبات بھڑکا کرناجائز طریقے سے آمدنی حاصل کرنے کا راستہ پیدا کیا جائے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ خدائی پابندیاں قرآن وسنت کے ذریعے عائد کی گئی ہے، انہیں اسلام نے انسان کی ذاتی عقل پر نہیں چھوڑا..... تاکہ انسان اپنی عقلی تاویلات کے سہارے ان سے چھٹکارا حاصل کر کے معیشت اور معاشرے کو ناہمواریوں میں مبتلا نہ کر سکے۔ انہی کے ساتھ اسلامی شریعت نے حکومت وقت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی عمومی مصلحت کے تحت کسی ایسی چیز یا ایسے فعل پر بھی پابندی عائد کر سکتی ہے جو بذات خود حرام نہیں، بلکہ مباحات کے دائرے میں آتی ہے لیکن اس سے کوئی اجتماعی خرابی لاز م آتی ہے۔‘‘ (اسلام اور جدید معیشت وتجارت، ص ۴۰، ۴۱)
پھر اخلاقی پابندیوں کا ذکر کرتے ہیں: ’’دین کی تعلیمات میں یہ بات قدم قدم پر واضح کی گئی ہے کہ معاشی سرگرمیاں اور ان سے حاصل ہونے والے مادی فوائد انسان کی زندگی کا منتہا ئے مقصود نہیں ہے۔ قرآن وسنت کاتمام تر زور اس بات پر ہے کہ یہ دنیاوی زندگی ایک محدود اور چند روزہ زندگی ہے.... انسان کی اصل کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں چار پیسے زیادہ کما لے۔‘‘ (ایضاً ص ۴۲، ۴۳)
ان اقتباسات پر ذرا غور کیجیے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب معاشی سرگرمیوں پر قرآن وسنت کی عائد کردہ پابندیاں بتا رہے ہیں، حتیٰ کہ مباح فعل یا چیز پر بھی پابندی کی صورت ذکر کر رہے ہیں اور آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کر اخلاقی پابندیوں کی فکر اور احساس کی بات کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود صدیق مغل صاحب مولانا کا نظریہ یہ بتا رہے ہیں کہ ’’اصل انسانی مسئلہ تزکیہ نفس نہیں کہ جس کے بعد اس کی ضرورتیں اور خواہشات کم ہو جائیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ کار ہے جسے استعمال کر کے وہ ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ خواہشیں پوری کر سکے۔‘‘ بات جب اسلامی معاشیات کی ہو رہی ہے تو کیا ان پا بندیوں کے علاوہ بھی خواہشات کو کم کرنے کی کچھ پابندیاں ہیں؟ اگر ہیں تو صدیق مغل صاحب کو قرآن وسنت کے حوالے سے ذکر کرنی چاہییں تھیں۔ کیا خواہشات کو کم کرنے اور نفس کا تزکیہ کرنے کے لیے قرآن وسنت اورشریعت کے بتائے گئے اصولوں اور احکامات کی پابندی کے علاوہ بھی کوئی طریقہ موجود ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جتنی پابندیاں لگائی ہیں، کیا خواہشات کے پورا کرنے پر وہ اس سے بھی زیادہ لگانا چاہتے ہیں؟ (صدیق مغل صاحب کی فکر کیا ہے، بعد میں ذکر ہوگا)۔
اس بات کی وضاحت علامہ ا بن خلدون نے کیا عمدہ طریقے سے کی ہے۔ وہ انسان کوبعض افعال سے روکنے کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ خوب یاد رکھیے! دنیا ایک قسم کی سواری ہے جس پر سوار ہو کر لوگ آخرت کی طرف جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو سواری سے محروم رہے گا، وہ منزل تک پہنچ نہ سکے گا۔ انسانی افعال کے سلسلے میں اگر شریعت کسی چیز سے روکتی ہے یا اس کی برائی کرتی ہے یا اس کے چھوڑنے کا مشورہ دیتی ہے تو اس کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کو بالکل ہی چھوڑ دیا جائے یا اس کی جڑ ہی اکھاڑ کر پھینک دی جائے۔ شریعت کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ان افعال کو مقدور بھر صحیح اور جائز اغراض میں پھیر دینا چاہیے تاکہ ان کا مصرف صحیح اور جائز ہو اور تمام مقاصد دائرہ حق میں آ جائیں..... اس لیے خواہشات کی اس لیے برائی نہیں کی گئی کہ خواہشات کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے کیونکہ جس کی شہوت باطل ہوتی ہے، وہ انسانی حقوق ادا کرنے پر قادر نہیں رہتا۔ شہوت کامطلق نہ ہونا انسان میں عیب ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کا رخ جائز طریقوں میں پھیر دیا جائے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، حصہ اول، اردو ترجمہ، نفیس اکیڈمی، کراچی، ص ۳۳۱)
اسلامی معاشیات پر مضمون تحریر کرتے ہوئے سب سے زیادہ زور امام غزالی ؒ کے ان اقتباسات پر دیا گیا ہے جن میں حب دنیا کی مذمت اور زہد کی ترغیب دی گئی ہے۔ صدیق مغل صاحب امام صاحب کی باتیں نقل کرتے ہیں: ’’ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے..... وہ شخص جو مال جمع کرنے کو اپنا مقصد بتاتاہے، ملعون ہے..... وہ شخص جو بازار اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے جاتاہے، حقیقی مقصد (نجات) کو نہیں پا سکتا۔‘‘ (شمارہ ستمبر، ص۴۰) چونکہ صدیق مغل صاحب کا اصل مقصد سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے( تفصیل بعد میں آئے گی) اس لیے وہ امام غزالی ؒ کی تعلیمات سے صرف چند وہ اقتباسات لیتے ہیں جو مال ودنیا کی ہر طرح مذمت کرتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان کے سامنے ہر وقت آخرت کی زندگی ہونی چاہیے اور اس کا ذکر مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی کیا ہے( جیسا کہ پہلے گزر چکا) لیکن بات تو ہو رہی اسلامی معیشت کی جس میں معیشت کے مطابق کمانا اور خرچ کرنا ہے۔ اس موقع پر یہ بات کی جائے گی کہ ’’جو شخص بازار میں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے جاتا ہے، حقیقی مقصد کو نہیں پا سکتا‘‘ اور اسی طرح صرف دنیا سے محبت نہ کرنے اور زہد کی باتیں کی جائیں تو بازار تو بند ہو گا ہی، اپنی ضرورتیں کہاں سے اور کیسے پوری کی جائیں گی؟ معیشت ہی نہیں رہے گی تو اسلامی بنانے کا مسئلہ ویسے ہی ختم ہو جائے گا، جب کہ صحابہ کرامؓ تو بازاروں میں تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ خلیفہ ہونے کے بعد بھی حسب معمول کندھوں پر کپڑوں کے تھان رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ (سیرالصحابہ :۱/ ۷۷) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن الربیع انصاریؓ سے بھائی چارہ کرا دیا۔ وہ انصار میں سب سے زیادہ مالدار اور فیاض طبع تھے۔ کہنے لگے میں اپنا نصف مال ومنال تمہیں بانٹ دیتا ہوں۔ عبد الرحمن بن عوف نے جواب دیا، خدا تمہارے مال ومنال اور اہل وعیال میں برکت دے، مجھے صرف بازار دکھا دو۔ لوگوں نے بنی قینقاع کے بازار میں پہنچا دیا۔ وہاں سے واپس آئے تو کچھ گھی اور پنیر وغیرہ نفع میں بچا لائے۔ دوسرے روز باقاعدہ تجارت شروع کر دی۔ (سیرالصحابہ، ۲/ ۹۴، ۹۵)
صدیق مغل صاحب نے امام غزالی ؒ کے جو چند حوالے نقل کیے ہیں، وہ سب کے سب دنیا سے بے رغبتی اور زہد اختیار کرنے سے متعلق ہیں اور انہی حوالوں کی بنیاد پر وہ اسلامی معاشیات کا نقشہ تیار کرانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ زور دے کر کہتے ہیں ’’ان تعلیمات کو بار بار پڑھئے اور اپنے دل پر ہاتھ کر فیصلہ کیجیے کہ اسلامی معاشیات اس میں کہاں فٹ ہوتی ہے۔‘‘ (ستمبر، ص۴۰) لہٰذایہاں امام غزالیؒ کی کچھ تعلیمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ان کو پڑھ کر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’ یہ کہ اپنی صنعت وتجارت میں رہنے سے یہ قصد کرے کہ ایک فرض کفایہ ادا کرتا ہوں، کیونکہ اگر صنعتیں یا تجارتیں بالکل چھوڑ دی جائیں تو معاش کے کارخانے جاتے رہیں اور اکثر لوگ تباہ ہو جائیں کہ سب کا انتظام سب کی معاونت سے ہو رہا ہے اورا س میں ایک ایک فریق ایک ایک کاذمے دار ہے۔ اور اگر سب کے سب ایک ہی صنعت کرنے لگیں تو اور صنعتیں چھوٹ جائیں اور سب لوگ ہلاک ہو جائیں۔‘‘ (احیاء العلوم اردو، جلد ، ص ۱۴۸) ظاہر ہے، سب کی ضروریات پورا کرنے کے لیے آج کے دور کی صنعتیں کارخانے ہی ہیں۔ گویاامام صاحب ؒ کارخانے لگانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اور فرماتے ہیں: ’’ واضح ہو کہ رب الارباب اور مسبب الاسباب نے دارین کی تقسیم اس طرح فرمائی ہے کہ آخرت کو جزا اور سزا کا مقام ٹھہرایا ہے اور دنیا کومحنت اور اضطراب کے ساتھ مستعد ہو کر کمانے کا مکان قرار دیا ہے... اور جب تک طلب معاش میں آداب شرعیہ کا پابند نہ ہوگا، اس کے حق میں دنیا وسیلہ آخرت کبھی نہ ہو گی۔‘‘ ( ایضاً ص، ۱۰۸) کسب معاش کی فضیلت اور اس کی ترغیب کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وجعلنا النہار معاشا( اور بنا دیا دن کو روزگار) اس کو احسان جتانے کی جگہ ذکر فرمایا: ’وجعلنا لکم فیھا معایش قلیلا ماتشکرون‘‘۔ اس آیت میں معیشت کو نعمت فرمایا اوراس پر شکر کی طلب کی... حضرت عیسیٰ نے ایک شخص کودیکھ کر اس سے پوچھا کہ توکیا کام کرتا ہے؟ اس نے عرض کیاکہ خداتعالیٰ کی عبادت کر تا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ تیرے نان ونفقہ کی کفالت کون کرتا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میرا بھائی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تیرا بھائی تجھ سے زیادہ عابد ہے۔‘‘ (ایضاً، ص۱۰۸، ۱۰۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خشکی اور تری کی تجارت کیاکرتے تھے، بس ان کا اقتدا کافی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۱۱۱)
دنیا سے کیا مراد ہے، حب دنیا کسے کہتے ہیں ،مال رکھ سکتے ہیں یا نہیں، کس کے لیے رکھنا مفید ہے، کس کے لیے مضر ہے، اس طرح کی بہت سی باتیں امام غزالیؒ کی تعلیمات میں سینکڑوں صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ صرف احیاء العلوم کو ہی دیکھ لیا جائے تو اخلاص وریا، تکبر وخودپسندی، ریاضت، غضب وحسد، بخل، حصول رزق، فقروزہد، حلال وحرام غرض کہ بیسیوں عنوانات کے تحت یہ باتیں کہیں بہت تفصیل سے اور کہیں مختصر بیان کی گئی ہیں۔ صبر وشکر کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:’’یہ وہ باتیں ہیں کہ لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔ بہت سے آدمی نیک بخت اس طرح کے ہیں کہ اچھے مال سے گو بہت سا فائدہ ہو اٹھاتے ہیں یعنی اللہ کے راستے میں اور خیرات میں اس کو خرچ کرتے ہیں تو ایسا مال اگر اس توفیق کے ساتھ آدمی کے پاس ہو تو اس کے حق میں نعمت ہے۔ اور بہت سے آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ تھوڑے مال سے ضرر پاتے ہیں یعنی ہمیشہ اس کو کم جانتے ہیں اور خدا سے شکوہ اور طلب زیادہ کی کیا کرتے ہیں تو اس طرح کا مال اس عدم توفیق کے ساتھ اس کے حق میں مصیبت ہے۔‘‘ (احیاء العلوم، جلد، ۴، ۱۶۸،۱۶۹) لیجیے یہاں مال کا زیادہ ہونا مفید اور نیت اور دلی کیفیت کی وجہ سے مال کا کم ہونا نقصان دہ اور مصیبت بتایا جا رہا ہے۔
پھر فرماتے ہیں: ’’ مثلاً مال پر ہی غور سے دیکھو۔ کتنا بڑا فائدہ اس کا ہے کہ کھانے پینے وغیرہ ضروریات سے بے فکر رہتا ہے، ورنہ محتاج آدمی مال اگر تحصیل علم یا کسب کمال کرنا چاہے اور اس کے پاس قو ت بشری کی صورت کچھ نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بدون ہتھیار کے لڑائی کی کوشش کرے.... مفلسی میں کوئی کام آدمی سے نہیں بن پڑتا، ہر وقت تلاش معاش اور فکر لباس اور دوسرے ترددات میں مبتلا رہتا ہے۔‘‘ (ایضاً ص،۱۷۶، ۱۷۵) اور عزت وجاہ کے حصول کو شریعت میں کس قدر عمومی طور پر ناپسند کیا جاتا ہے اور تصوف میں تو خاص طور پر حب جاہ کی مذمت کی جاتی ہے، لیکن دیگر اعلیٰ خصوصیات کے علاوہ تصوف کے امام ٖغزالی ؒ مال کے فوائد ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور عزت وجاہ کے باعث آدمی اپنے نفس پر سے ذلت اور ظلم دفع کرتاہے اور اس کی حاجت سب اہل اسلام کو ہے۔ اس واسطے کہ کوئی اہل ایمان ایسا نہیں ہوتا جس کا کوئی دشمن موذی نہ ہو یا ظالم کہ اس کو عمل نہ کرنے دے اورتشویش وپریشانی میں ڈال دے، حالانکہ د ل ایمان دار کار اس مال ہے۔ جب وہی تشویش وتردد میں رہے گا تو پھر کیا کر سکتا ہے، مگر یہ تشویش عزت وجاہ سے دفع ہو جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۱۷۷)
یہی بات مولانااشرف علی تھانوی عنوان ’’عزت ومال مطلوب ہیں‘‘ کے تحت فرماتے ہیں: ’’اس تقریر سے معلوم ہو گیا کہ عزت ومال دونوں مطلوب اور ممدوح ہیں، مہروب عنہ اور مذموم نہیں ہیں۔ اور جومال و جاہ کی مذمت کرتے ہیں، ان کا عنوان تعبیری مختصر ہوتا ہے، مقصود مذمت کرنا حب مال اور حب جاہ کا ہے اور حب بھی وہ جو حق تعالیٰ کی محبت سے بڑھی ہوئی ہو کہ ان کی ہوس میں اللہ تعالیٰ کے حکم بھی پس پشت ڈال دے۔ چنانچہ ارشاد ہے، قل ان کان آباء کم وابناء کم ، الیٰ آخر، سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ مذموم اور منہی عنہ نہ مال ہے نہ جاہ اور حب ما ل نہ حب جاہ بلکہ مال اور جاہ کی وہ حب مضرہے جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے اور اس کے مقابلے میں دین کی بھی پروا نہ رہے۔‘‘ (اشرف الجواب، ص ۳۳۰، ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان)
میں سوچ رہا تھا کہ صدیق مغل صاحب کی امام غزالی ؒ کی تفصیلی بحثوں میں سے چند اقتباسات سے حب دنیا اور زہد کی چھیڑی ہوئی اس بحث کو، جو کہ طویل ہوتی جا رہی ہے، کیسے سمیٹا جائے۔ حضرت تھانوی کے ان چند جملوں نے میری پریشانی دور کر دی۔ ان چند جملوں میں کتنی زیادہ جامعیت پائی جاتی ہے! ایسی ہی باتوں کی وجہ سے وہ حکیم الامت مشہور ہیں۔
زاہد صدیق مغل صاحب کے مضمون میں بڑی بنیادی غلطی یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے جس فکر اور نظریے کے تحت مولانا تقی عثمانی صاحب پر تنقید کی ہے، وہ اسلامی تعلیمات پر مبنی معلوم نہیں ہوتی۔ ان کی فکر اور نظریہ صرف سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اوراس کا خاتمہ ہے۔ اس کے لیے جو بھی دلائل میسر آ جائیں، ان سے کام لیا جائے۔ آئیے ان کی فکر کاایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
صدیق مغل صاحب لکھتے ہیں: ’’ پس یاد رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کے لیے اس وقت تک کوئی مثبت اسلامی حکمت عملی تیار نہیں کی جا سکتی جب تک تجزیے کا نقطہ ماسکہ جزوی تفصیلات نہیں بلکہ نظام نہ بن جائے۔‘‘ (شمارہ ستمبر، ص۳۹) گویا ایسی مثبت اسلامی حکمت عملی تیار کی جائے جس سے سرمایہ دارانہ نظام، جزوی تفصیلات نہیں، مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ پھر ان کا کہنا ہے: ’’ اسلامی ماہرین معاشیات پرامید ہیں، ’اسلام کا فروغ ہوگا‘۔ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی مثال اس سے بہترین شاید ہی دی جا سکے، کیونکہ اس لائحہ عمل کا مقصد سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی کا انہدام (Destruction) نہیں بلکہ اس کی اسلامی تطہیر (Reconstruction) اور سرمایہ داری کی اسلامی توجیہ (Islamic Version of capitalism) تیار کرنا ہے۔ یہ حکمت عملی اپنانے والے مفکرین کبھی اس سوال کو جواب نہیں دیتے کہ اس نام نہاد (Shariah compliance) کے نتیجے میں جوانفرادیت ومعاشرت عام ہو رہی ہے، وہ اسلامی ہے یاسرمایہ دارانہ؟ ‘‘( شمارہ اگست ص۲۶) پھر اپنا مقصد اور ہدف اس طرح بتاتے ہیں: ’’ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام سے نکلے ہوئے اداروں پر ایک کل کی نظر سے فتویٰ لگائیں۔‘‘ (شمارہ اکتوبر ص۳۳) سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمہ کو مقصد قراردینے کے بعد وہ ایک دوسری بات کرتے ہیں: ’’ اسلامی معاشیات کی ایک بڑی خامی ساخت ( structure) اور مقصدیت (spirit) کے تعلق باہمی کونظر انداز کرنا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے یہ نقطہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر جو طریقہ اختیار کیا جاتاہے، اس کی ساخت (structure) کا حصول مقصد اور اس کے دوام کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ساخت وڈھانچے کے اندر جو روح ( Spirit or subsance) موجود ہوتی ہے، اسے اس ساخت سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (شمارہ ستمبر ص۲۶) سرمایہ دارانہ نظام کے اداروں میں کارپوریشن اور کمپنی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’کمپنی انسان کی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی خواہش کا عملی اظہار ہے۔ اس ڈھانچے (structure) کا اور کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی یہ کسی اور مقصدیت کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔کسی معاشرے میں کمپنی کا وجود اور اس کا فروغ اس بات کی ضمانت ہے کہ افراد بڑھوتری سرمایہ کواپنا مقصد حیات بناتے چلے جائیں۔‘‘ (ایضاً ص۲۹) ان اقتباسات سے صدیق مغل صاحب کی فکر ونظریہ واضح طور پر یہ بنتا ہے:
۱۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ مقصد ہے۔ (۲) سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق ہر ہر ادارہ ( کمپنی، کارپوریشن وغیرہ) کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ (ساخت کا حصول مقصد سے گہرا تعلق ہوتا ہے)۔ (۳) سرمایہ دارانہ نظام کے ان اداروں کو اسلام اور شریعت کے مطابق نہیں بنا یا جا سکتا، بلکہ اس طرح کرنے سے سرمایہ دارانہ نظام کو اور زیادہ فروغ حاصل ہو گا، لہٰذاسرمایہ دارانہ نظام سے نکلے ہوئے اداروں پر ایک کل کی نظر سے فتویٰ لگائیں۔ (کارل مارکس کی بنیادی فکر بھی سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے)۔
کون کہتاہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اچھا ہے اورا سے اختیار کرنا چاہیے۔ اس نظام میں تو سرمائے کا ارتکاز ہے، ظلم ہے، استحصال ہے، خود غرضی اور نفس پرستی ہے، خواہشات کو معبود بنا کر زندگی کا اسی میں کھپانا اور برباد کرناہے، اسی کی وجہ سے اخلاقی برائیاں اور بگاڑ ہے، عریانی وفحاشی ہے، لیکن اس سب کے باوجود اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اگر معیشت کے بارے میں کوئی اصول اور طریقہ اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ قرآن وحدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور وہ سرمایہ دارانہ نظام کی ساخت میں بھی کہیں موجود ہے تو اس اسلامی اصول کو صرف اس لیے رد کر دیاجائے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی موجود ہے؟ اسلام کے معاشی نظام میں ایک اہم اصول نجی ملکیت ہے۔ اسی نجی ملکیت کی بنیادپر زکوٰۃ، حج، صدقات واجبہ، صدقات نافلہ، وراثت اور دیگر کئی احکامات ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی نجی ملکیت کا اصول بلکہ بنیادی اصو ل ہے۔ تو چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت ہے، لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے کل میں ہونے کی وجہ سے نجی ملکیت کے اصول کو اسلام میں سے نکال دینا چاہیے۔ یہاں یہی کہاجائے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت ہے، لیکن اس کی مزید تفصیلات اس کی اپنی ہیں اور اس کے نتائج واثرات اس کے اپنے ہیں اور اسلام میں نجی ملکیت ہے تو اس کے بہت سارے تفصیلی احکامات اپنے ہیں اور اس کے ثمرات وبرکات اپنے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کا اس کے تمام اداروں کے ساتھ انہدام اور خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ان اداروں کو اسلامی بنانے کی کوشش کو نہ صرف غیر اسلامی کہتے ہیں، بلکہ لذت پرستی، نفع خوری، اور سرمایہ داری کے فروغ کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور تیسری طرف وہ واضح طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ’’یہ بات درست ہے کہ سن ۲۰۰۸ء میں آئیڈیل اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ممکن نہیں‘‘۔ (شمارہ اکتوبر، ص ۳۱) تو ایسی صورت میں مضمون کا مقصد کیا ہے؟
صدیق مغل صاحب اپنی ایک نئی فکر اور نیا نظریہ پیش کرتے ہیں جو قرآن وحدیث کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل کی بنیاد پر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو ایک کل کی حیثیت سے ختم کرنے کو مقصد قرار دے کر صرف ساخت( structure) کو اسلامی بنانے کو وہ غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اسلامی معاشیات کے مطابق زید کے ’دائرۂ شریعت کے پابند لذت پرستی اور نفع خوری‘ کے اس رویے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ معاشرے میں سب کے لیے زیادہ لذت پرستی ممکن ہو سکے گی اور صحیح معنی میں سرمایے میں اضافے اور ترقی کا عمل تیز ہو سکے گا۔‘‘ (شمارہ اگست، ص۲۴) پھر ان کا کہنا ہے: ’’خوب یاد رہے کہ دائرۂ شریعت کی پابند معاشیات وبینکاری کا فروغ مقاصد الشریعہ وتزکیے وغیر ہ کانہیں بلکہ لذت پرستی، حرص وحسد، دنیا پرستی، بڑھوتری سرمایے کے فروغ کا ہم معنی ہے۔‘‘ (شمارہ اگست، ص۲۹) اس کے ساتھ ہی وہ مزید وضاحت کرتے ہیں: ’’یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اصل سوال یہ نہیں کہ کیا حرام نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ شریعت کامدعا کیا ہے، شریعت کا مقصد کس قسم کی انفرادیت ومعاشرت کا فروغ ہے۔ معاشرتی وریاستی پالیسیاں ’مطلوب‘ کے معیار سے طے پاتی ہیں نہ کہ عدم حرمت سے۔‘‘ (شمارہ اکتوبر، ص ۲۹)
صدیق مغل صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیںیہ کہ ریاستی پالیسیاں مطلوب یعنی سرمایہ دارانہ نظام کو اور اس سے متعلقہ اداروں کو کل کی حیثیت سے ختم کرنا‘ کے معیار سے طے پاتی ہیں۔ کیا دائرۂ شریعت کا پابند رہ کر اور حلال و حرام، جائز وناجائز، مباح اور غیر مباح کو معیار بنا کر معیشت کے اداروں کو قائم کرنا اور چلانا اسلامی نہیں کہلاتا؟ کیا معیشت کو اسلامی بنانے کے لیے دائرۂ شریعت کافی نہیں ہے؟ کیا اس نظریے میں کارل مارکس کی فکر اور نظریہ موجود نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ایک کل کی حیثیت سے ختم کرنے کو معیار مطلوب قرار دے کر ریاستی ومعاشرتی پالیسیاں طے کی جائیں؟ پھر صدیق مغل صاحب کس حدتک پہنچ گئے ہیں کہ معیشت میں دائرۂ شریعت کی پابندی کے باوجود اسے نفع خوری، لذت پرستی، حرص وحسد اور دنیا پرستی کہہ رہے ہیں۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کوکافی نہیں سمجھتے اور اس میں اپنی عقل سے اضافہ کرناچاہتے ہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی فکروسوچ کے تدارک کے لیے مولانا تقی عثمانی صاحب نے ان اصولی باتوں میں پہلے ہی تحریر کر دیا تھا اور اس وجہ سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کی باتوں میں کتنی جامعیت پائی جاتی ہے۔ وہ معیشت کے اسلامی احکام بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ خدائی پابندیاں قرآن وسنت کے ذریعہ عائد کی گئی ہیں۔ انہیں اسلام نے انسان کی ذاتی عقل پرنہیں چھوڑا کہ اگر اس کی عقل مناسب سمجھے تو یہ پابندی عائد کر دے اور اگر مناسب نہ سمجھے تو عائدنہ کرے...... یہ خدائی پابندیاں جوقرآن وسنت نے عائد کی ہیں، بہر صورت واجب العمل ہیں، خواہ انسا ن کوان کی عقلی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔‘‘ (اسلام اور جدید معیشت وتجارت، ص ۴۰)
’شریعت کامدعا کیا ہے‘ کہہ کر صدیق مغل صاحب اپنے قائم کردہ نظریہ ’’سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ‘‘ کو شریعت کا معیار مطلوب قرار دے کر اسلامی معیشت کی ساخت (structure) تیار کرنا چاہتے ہیں۔ شریعت کا مقصد ومدعا اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی بندگی اوراس کی اطاعت کی جائے۔ اللہ سے تعلق قائم کیا جائے۔ اس کے ہر حکم کومانا جائے جس کا مظاہرہ عبادات وطاعات کے ذریعہ ہوتا ہے۔ ا ن عبادات وطاعات کے ثمرات وبرکات بہت زیادہ ہیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ علما وحکما نے عبادات وطاعات کی حکمتیں اور فوائد بیان کیے ہیں، لیکن ان حکمتوں اور فوائد کا حصول مقصودنہیں ہے۔ مصالح دنیوی اور فوائد کے حصول کو مقصد قرار دے کر احکامات بنائے اور ترتیب نہیں دیے جاتے۔ مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: ’’ احکام شریعت کو مصالح دنیوی کی بنا قرار دینا خطرناک مسلک ہے۔ اس طرز تقریر میں زہر بھرا ہوا ہے۔ جو اس کو جان لے گا وہ سمجھ لے گا کہ یہ لوگ ایسے اسرار بیان کرکے اسلام کے ساتھ دوستی نہیں کرتے بلکہ دشمنی کرتے ہیں اور یہ لوگ حامی اسلام نہیں بلکہ اسلام کے نادان دوست ہیں۔‘‘ (اشرف الجواب، ص ۲۸۱)
اس مضمون کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں: ’’ غرض ان حضرات (انگلستان کے) نے مجھے لکھا کہ قربانی خودشریعت کا مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود غرباکی امداد ہے اور ابتدائی اسلام میں لوگوں کے پاس نقد کم تھا، مویشی زیادہ تھے، اس لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ جانور ذبح کر کے غربا کو گوشت دے دو اور اس زمانہ میں نقد بھی بہت زیادہ موجود ہے، غلہ بھی موجود ہے۔ پس آج کل بجائے قربانی کے نقد روپے سے غربا کی امداد کرنی چاہیے۔ حالانکہ یہ حکمت مقصود نہیں۔ مقصد توتعمیل حکم ہے۔ اگر یہ حکمت مقصود ہوتی تواس کی کیا وجہ کہ غربا کوزندہ جانور دینے سے واجب ادا نہیں ہوتا... اس کے کیا معنی کہ جانورذبح کر کے غربا کو گوشت دیا جائے تو واجب ادا ہوا.... اس سے صاف معلوم ہوا کہ امداد غربا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصود اور ہے، مگر آپ نے دیکھ لیا کہ اس قسم کے اسرار بیان کرنے کا نتیجہ کہاں تک پہنچتا ہے کہ ہر شخص مخترع حکمتوں پر احکام کامدار سمجھنے لگا۔‘‘ (ایضاً ص ۲۸۳)
حضرت تھانوی ایک خطرناک غلطی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس غلطی میں غربا کی امداد کو اصل مقصد قرار دے کر قربانی کے اصل حکم کو بدلنے کی تجویز تھی۔ بالکل یہی غلطی صدیق مغل صاحب کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مخترع حکمت( سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اصل مقصد ہے) کو مدار بنا کر اسلامی معیشت کے احکامات (ساخت) تیار کرنا چاہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریشن اور کمپنی کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں(پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام سے نکلے ہوئے اداروں پر ایک کل (totality) کی نظر سے فتویٰ لگائیں۔) اپنی مخترع حکمتوں پر احکام کامدار سمجھنے کے معاملے پر شاہ اسماعیل شہید ؒ نے کیا خوب بات ارشاد فرمائی ہے جس کو سید سلیمان ندوی ؒ نے نقل کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ اسی کے لیے پیداکرنا اور حکم دینا، اور عقل وغیرہ کسی مخلوق کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی حکم کو ثابت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے وجوب یا استحباب کے ساتھ جس کا حکم دیا، وہ درحقیقت حسن (اچھا) ہے، عام اس سے کہ وہ لذاتہ حسن ہے یا اپنے کسی وصف یا اپنے کسی متعلق کی بنا پر۔ اسی طرح جس سے منع فرمایا، وہ قبیح ہے۔ تو افعال کاحسن وقبح کے ساتھ اتصاف، امر ونہی سے پہلے ہی عالم حقیقت میں ہو چکا تھا۔ اسی کی رعایت کر کے اللہ تعالیٰ نے امرونہی فرمایا۔ عقل ان کے حسن وقبح کو معلوم کر لیتی ہے تو اس موقع پر اس حسن وقبح کو عقلی کہتے ہیں، لیکن شرع کے ورود سے پہلے کوئی حکم نہ تھا تو یہ مذکورہ حسن وقبح بند وں کے حق میں صرف شرع الٰہی پرمبنی ہیں۔‘‘ سید سلیمان ندوی ؒ تحریر کرتے ہیں: ’’فن کے بڑے بڑے مسئلوں میں ایک ایک دو دو فقروں میں طے فرما دیا ہے..... جو کچھ اللہ تعالیٰ نے امرو نہی فرمایا ہے، وہ تمام تر حکمت اور بندوں کی مصلحت پرمبنی ہے۔ عقل کبھی اس حکمت ومصلحت کو پا لیتی ہے تو اس کوعقلی بھی کہہ سکتے ہیں، ورنہ عقلی کہنے کایہ منشا نہیں کہ عقل اس قانون کی واضع اور آمر ہے۔‘‘ (سیرۃ النبی ج۷، ص ۱۹۹)
صدیق مغل صاحب جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کا انہدام چاہتے ہیں، اسی طرح وہ جمہوریت کا بھی مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ا پنی وہی فکر استعمال کرتے ہیں، چنانچہ تحریر کرتے ہیں: ’’ یعنی وہ لبرل سرمایہ داری کو دائرۂ شریعت کا پابند بنانے کی بات کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے سیاسی مسلم مفکرین جمہوریت کو دائرۂ شریعت کا پابند بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘‘ (شمارہ اگست، ص ۲۴) پھر لکھتے ہیں:’’ حیرت کی بات ہے کہ کئی مسلم مفکرین اس فکری انتشار کا شکار ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریت کے تو خلاف ہیں لیکن اسلامی معاشیات کے سحر میں گرفتار ہیں حالانکہ دونوں کے پیچھے دائرۂ شریعت کی پابندی کا فلسفہ ہی کار فرماہے۔‘‘ (شمارہ اکتوبر، ص ۳۳) مزید بیان کرتے ہیں: ’’ فی الحقیقت اسلامی معاشیات اور اسلامی جمہوریت نے مل کر وہ سرا ب پیدا کیا ہے جس کے بعد اسلامی تحریکات کی توجہ انقلابی جہدوجہد کے بجائے محض پر امن اور حقوق کی سیاست پر منتج ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۳۳)
جمہوریت سے کیا مراد ہے اور اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے جسے چھیڑنے سے مضمون طویل ہو سکتا ہے، البتہ جاری گفتگو کی مناسبت سے ایک مختصر سی بات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ۱۹۷۳ء کا دستور بنا اور نافذ ہوا۔ اس دستور کے بارے میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور دستور کی تدوین میں شریک مولانا مفتی محمود کاکہنا تھا کہ ’’ ۱۹۷۳ء کادستور ۸۰ فیصد اسلامی آئین ہے، اگرمیں وزیراعظم بنتا ہوں تویہ ۱۰۰ فی صد اسلامی آئین بن جاتاہے۔‘‘ (اس جانب اشارہ ہے کہ آئین کے نفاذکا انحصار نافذ کرنے والوں پر بھی ہوتا ہے) (مولانا عبدالغفور حیدری کا انٹرویو، روزنامہ اسلام، ۲۶؍اکتوبر ۲۰۰۸ء) اور جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی، جو بعد میں تمام دینی جماعتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں، نے ڈسٹرکٹ بار بہاولپور سے خطاب کے دوران کہا تھا: ’’ پاکستان کا آئین مفصل، جامع اور اسلامی ہے۔ اس آئین سے دوسرے ممالک بھی رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ، ۲۲ ؍اپریل ۱۹۹۶ء) اور مفتی اعظم محمدرفیع عثمانی کا کہناہے: ’’ جہاں تک مجھے معلوم ہے، اس وقت جن مسلم ممالک میں دستور مدون شکل میں موجود ہے، ان کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین دینی اعتبارسے سب سے زیادہ امید افزا اور خوشگوار امتیاز رکھتا ہے۔‘‘ اسی طرح جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما میاں طفیل محمد صاحب بھی اسے اسلامی آئین کہہ چکے ہیں، اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی صاحب کہتے ہیں: ’’پاکستان کا آئین قرار دار مقاصد کواپنی بنیاد قرار دیتاہے، قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب تسلیم کرتا ہے، قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روکتا ہے، اور قرآن وسنت کے احکام وقوانین کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے۔ جب تک یہ دستوری پوزیشن موجود ہے، پاکستان بہرحال ایک اسلامی ریاست ہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۸)
غو ر طلب امریہ ہے کہ اگر سیکولر ریاست برطانیہ، جہاں مذہب کوریاستی امور سے مکمل طور پر بے دخل کرکے پارلیمنٹ کی حاکمیت کے بنیادی اصول ونظریہ کو تسلیم کیا گیا ہے، سے نکلنے والے جمہوری اداروں (صدیق مغل صاحب کے الفاظ میں ساخت) کو اسلامی بنایا جا سکتا ہے تو کیا سرمایہ دارانہ نظام سے نکلنے والے اداروں (ساخت) کواسلامی بنانا ممکن نہیں ہے؟ اس وقت بھی تمام دینی جماعتیں اور ان میں شامل تمام علما اسی آئین (بعض جزوی ترامیم کے ساتھ) کونافذ رکھنا چاہتے ہیں، بلکہ اس میں جواہم اسلا می شقیں ہیں، ان میں سے کسی بھی شق کے ختم کر دینے کی کوشش پر فکر مند ہو جاتے ہیں۔ (آئین کے نفاذ سے اس کے نتائج وثمرات کیوں مرتب نہیں ہو سکے، یہ ایک علیحدہ مستقل بحث ہے۔) گویا تمام دینی اکابر کا اس پر اتفاق ہے کہ ملک کا آئین اور اس میں موجود جمہوریت اسلامی ہے، لیکن صدیق مغل صاحب کا فکر ونظریہ کیا ہے؟ اس کے مطابق ہم جمہوری نظام سے نکلے ہوئے ادارو ں پر ایک کل کی نظر سے فتویٰ لگائیں، گویا وزیراعظم، کابینہ، پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ و کابینہ، غرض ان سب اداروں کو غیر اسلامی ہونے کی وجہ سے (سرمایہ دارانہ نظام کی طرح جمہوریت کاخاتمہ مقصد اور اس سے نکلنے والے ادارے غیر اسلامی) ختم کر دیے جائیں۔ ایسی منفرد رائے پر مزید کچھ کہنے کی گنجایش محسو س نہیں ہوتی۔