ہانگ کانگ کی مساجد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی دعوت پر ’’تذکرہ خیر الوریٰ‘‘ کے عنوان سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے منعقد ہونے والے متعدد اجتماعات میں شرکت کے لیے ۵؍ مارچ سے ۹؍ مارچ تک ہانگ کانگ میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ شجاع آباد ضلع ملتان میں ہمارے ایک بزرگ دوست مولانا رشید احمد تھے جن کا قائم کردہ مدرسہ جامعہ فاروقیہ ایک عرصہ سے تعلیمی ودینی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ ان کے فرزند مولانا مفتی محمد ارشد یہاں کی ایک بڑی مسجد ’’کولون جامع مسجد‘‘ کے امام وخطیب ہیں جبکہ شورکوٹ سے تعلق رکھنے والے مولانا قاری محمد طیب ’’ختم نبوت موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک مرکز میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہاں کے دوست کہتے ہیں کہ ان دونوں حضرات کی آمد سے ہانگ کانگ میں دینی سرگرمیوں کو ایک نئی جہت ملی ہے، مساجد میں دینی پروگراموں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، قرآن کریم کی تعلیم کے مکاتب قائم ہوئے ہیں اور لوگوں میں نماز روزہ، تعلیم قرآن کریم اور دینی پروگراموں کا شوق بڑھ رہا ہے جبکہ بورڈ آف ٹرسٹیز، پاکستان ایسوسی ایشن اور ختم نبوت موومنٹ کے مختلف فورموں پر کیپٹن شہزادہ سلیم، حاجی شبیر احمد، جہانزیب خان اور ان جیسے دیگر باذوق احباب ان دینی اور تعلیمی سرگرمیوں میں معاونت اور سرپرستی کر رہے ہیں۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کی دعوت پر ایران سے خوش الحان قراء اور نعت خوانوں کا ایک گروپ بھی ان دونوں ہانگ کانگ آیا ہوا تھا۔
۷؍ مارچ کو پاکستان ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام پاکستان کلب میں سیر ت کانفرنس تھی جس میں راقم الحروف نے موجودہ عالمی تناظر اور تہذیبی کشمکش کے ماحول میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں کا ذکر کیا۔ ہانگ کانگ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قونصل جنرل محترم جناب ڈاکٹر بلال احمد صاحب نے، جن کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کے والد محترم دیال سنگھ کالج کے پرنسپل رہے ہیں، اس کانفرنس کی صدارت کی اور جناب صالح مہدی کی قیادت میں ایرانی مہمانوں کے گروپ نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے فلسطینی شہر ’’غزہ‘‘ کا عربی میں مرثیہ بھی پڑھا۔ پاکستان ایسوسی ایشن کے چیئرمین کیپٹن شہزادہ سلیم اور کولون جامع مسجد کے امام مولانا مفتی محمد ارشد نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا جبکہ صدر محفل ڈاکٹر بلال احمد نے سیرت طیبہ کے حوالے سے فکر انگیز گفتگو کی۔
۸؍ مارچ اتوار کو اجتماعات کے اس سلسلے کا مرکزی پروگرام کولون کی جامع مسجد میں ہوا جو صبح گیارہ بجے سے شام چار بجے تک جاری رہا۔ ’’تذکرۂ خیر الوریٰ کانفرنس‘‘ کے عنوان سے اس اجتماع کی صدارت ہانگ کانگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل جناب عبد اللہ نیکونام نے کی اور ایرانی مہمانوں کے گروپ نے تلاوت قرآن کریم، حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کے جذبات کو گرمایا۔ گزشتہ دنوں ہانگ کانگ میں قرآن کریم کی تعلیم کے مدارس (جن کی تعداد چالیس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے) کے طلبہ میں حسن قراء ت کا مقابلہ ہوا تھا۔ اس میں اول آنے والے ایک بچے نے خوب صورت انداز میں قرآن کریم کی تلاوت کی اور ننھے ایرانی حافظ محمد علی اسلامی نے شرکاے محفل کی فرمایش پر چار مختلف مقامات سے قرآن کریم کی آیات سنائیں۔ راقم الحروف نے اس محفل میں اپنی تفصیلی گفتگو میں اس نکتہ پر بطور خاص زور دیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اصل تعلق یہ ہے کہ وہ ہمارے آئیڈیل ہیں اور ہم ان کے پیروکار ہیں۔ جس طرح ہر پیروکار کو اپنے آئیڈیل کی ہر بات اور ہر ادا پسند ہوتی ہے اور وہ اس کی پیروی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، اسی طرح ہمیں بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا سے محبت اور اس کی پیروی کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہانگ کانگ کے مختلف مقامات کی سیر کے ساتھ ساتھ متعدد دوستوں سے اس خطہ اور یہاں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جن کی تفصیلات انھی صفحات میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ البتہ سردست اس کے ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہانگ کانگ کم و بیش ایک سو سال تک برطانیہ کا حصہ اور اس کی نو آبادی رہا ہے۔ اس کے ایک حصے پر برطانوی فوجوں نے قبضہ کر رکھا تھا اور ایک حصہ برطانیہ نے چین سے ۹۹ سال کی لیز پر لے لیا تھا جو ۱۹۹۷ء کو ختم ہوئی اور چین کے مطالبے پر برطانیہ کو لیز والے حصے کے ساتھ مقبوضہ علاقہ بھی چین کو واپس کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ کی برطانیہ سے چین کوواپسی کے اس مرحلے پر یہ سوال کھڑا ہو گیا تھا کہ ہانگ کانگ کی آبادی، جس نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک برطانیہ کے تحت اس کے مخصوص ماحول میں زندگی گزاری تھی، وہ چین کے تحت اس سے بالکل مختلف ماحول میں کیسے رہ سکے گی؟
اس سوال نے کم وبیش ایک عشرے تک ہانگ کانگ کی آبادی میں ہلچل مچائے رکھی اور اس پر چین اور برطانیہ کی حکومتوں میں مسلسل مذاکرات ہوتے رہے اور بالآخر اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ہانگ کانگ چین کا حصہ تو بنے گا لیکن اس کا نظام چین سے مختلف ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہانگ کانگ چین کا صوبہ ہے، پرچم، دفاع اور خارجہ پالیسی چین کی ہے لیکن کرنسی، نظام، ویزا اور طرز زندگی اس سے الگ ہے جسے ’’ون کنٹری ٹو سسٹم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ معلوم کر کے میرے ذہن میں یہ خیال ابھرا ہے کہ اگر ہانگ کانگ کو چین کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے مخصوص کلچر اور معاشرت کے حوالے سے الگ نظام کا حق دیا جا سکتا ہے تو پاکستان میں سوات اور اس جیسے دیگر علاقوں کو ’’ون کنٹری ٹو سسٹم‘‘ کی یہ سہولت فراہم کرنے میں آخر کیا حرج ہے؟