مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم محمد عمار صاحب 

السلام علیکم 

اپنے تنقیدی مضمون ’’مقام عبرت‘‘ پر آپ کا لکھا ہوا جوابی جائزہ پڑھا۔ ساتھ ہی جائزہ کی وصولی کی رسید بھی حاضر ہے۔ اس جائزہ سے متعلق صرف چند باتیں پیش خدمت ہیں۔ 

۱۔ پہلے تو ہمیں آپ سے یہ شکایت تھی کہ آپ اجماع کے ثبوت کو مشکوک بناتے ہیں۔ اب تو آپ نے امام شافعی ؒ اور امام رازی وغیرہ رحمہا اللہ کے حوالوں سے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ علمی وفقہی تعبیرات کے دائرے میں اجماع کا تصور محض ایک علمی افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ‘‘ (ص ۱۳)

حالانکہ امام شافعیؒ وامام احمد ؒ ہوں یا امام رازیؒ ہوں، سب ہی اس کو فقہی احکام کے اصول اربعہ میں سے شمار کرتے ہیں اور اسے حجت مانتے ہیں۔ امام شافعی ؒ لکھتے ہیں: 

’’قال فقال قد حکمت بالکتاب والسنۃ فکیف حکمت بالاجماع ثم حکمت بالقیاس فاقمتھما مقام کتاب او سنۃ فقلت انی وان حکمت بھما کما احکم بالکتاب والسنۃ فاصل ما احکم بہ منھا مفترق‘‘ (کتاب الام ص ۱۳۷، ج ۱) 
(ترجمہ) قائل نے کہا کہ آپ نے کتاب الہٰی اور سنت سے حکم لگایا ہے تو آپ نے اجماع اور پھر قیاس سے کیسے حکم لگایا اور دونوں کو کتاب اور سنت کے قائم مقام کرلیا۔ میں نے جواب دیا کہ اگرچہ میں نے اجماع اور قیاس سے حکم لگایا ہے جیسا کہ میں کتاب و سنت سے حکم لگاتا ہوں۔۔۔
’’قال الشافعی والعلم من وجھین اتباع واستنباط۔ والاتباع کتاب فان لم یکن فسنۃ فان لم تکن فقول عامۃ فی سلفنا لا نعلم لہ مخالفا فان لم یکن فقیاس‘‘ (کتاب الام ص ۳۲۲۳ ج ۲) 
(ترجمہ) امام شافعیؒ نے کہا کہ علم کے دو طریقے ہیں، اتباع اور استنباط۔اتباع ہے کتاب الٰہی کے حکم کا اتباع۔ اگر کتاب میں حکم نہ ہو تو سنت کا اتباع اور اگر اس میں حکم نہ ہو تو عام اسلاف کا قول جس کا مزاحم ہمیں معلوم نہ ہو۔ اور اگر اس میں بھی نہ ہو تو پھر قیاس ہے۔ 

مختلف حضرات کے نزدیک اجماع کی ہیئت ترکیبی کیا ہے، اس سے تو ہم نے بحث ہی نہیں کی۔ ہمارے سامنے تو اتنی بات ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اجماع بہرحال ایک حجت ہے اور علمی مسلمہ ہے۔اسی کو آپ نے ابن تیمیہ ؒ سے اپنی تنقید میں یوں نقل کیا ہے:

’’والذین کانوا یذکرون الاجماع کالشافعی وابی ثور وغیرھما یفسرون مرادھم بانا لا نعلم نزاعا ویقولون ھذا ھو الاجماع الذین ندعیہ ‘‘ (ص ۹)
(ترجمہ ) اور جو حضرات اجماع کا ذکر کرتے ہیں جیسے شافعیؒ اور ابو ثور ؒ وغیرہ تو وہ اس کی یوں تفسیر کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں اختلاف کا علم نہیں ہے اوروہ کہتے ہیں کہ یہی اجماع ہے جس کے ہم مدعی ہیں۔ 

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہماری گفتگو فقہی موضوع سے متعلق تھی اور ہے، اور فقہی دائرے میں اہل سنت کے نزدیک اجماع اصول اربعہ میں سے ہے۔ 

۲۔ اب آپ ان مثالوں کودیکھیے جن کو آپ نے اپنے حق میں ذکر کیا ہے:

i۔’’تفسیر کبیر‘‘، ’’اصول سرخسی‘‘ اور ’’الفوز الکبیر‘‘ سے جو حوالے آپ نے دیے ہیں، وہ تفسیر وتاویل سے متعلق ہیں، کسی حکم شرعی کے اثبات سے متعلق نہیں ہیں۔

ii ۔مولانا انور کشمیری ؒ رجم کے حد ہونے کا انکار نہیں کرتے اور ’’فیض الباری‘‘ میں اس کے حد ہونے کا اعتراف کرتے ہیں البتہ رجم کا ذکر قرآن میں کیوں نہیں ہے، اس کی حکمت سے وہ بحث کرتے ہیں۔ غرض ان کے کلام سے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے حد ہونے پر اجماع پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ دیکھیے وہ فرماتے ہیں :

’’ فاعلم ان نظم القرآن اذا کان یفہم ان تلک الآیۃ نزلت فی قضیۃ کذا ثم لم تکن تلک القضیۃ مذکورۃ فیھا فالذی تحکم بہ شریعۃ الانصاف ان یکون ھذا الحدیث الذی فیہ تلک القصۃ فی حکم القرآن۔ لان القرآن بنی نظمہ الیہ واشار من عبارتہ الیہ فلابد من اعتبارہ وحینئذ لا حاجۃ الی تصریحہ بالرجم اذ کفی عنہ الحدیث فاغنی عن ذکرہ‘‘ (فیض الباری، ص ۲۳۰، ج ۵)
(ترجمہ ) جان لو کہ جب یہ معلوم ہو کہ قرآن کی فلاں آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی پھر وہ معاملہ قرآن میں مذکور نہ ہوتو شریعت انصاف یہ حکم لگاتی ہے کہ وہ حدیث جس میں وہ معاملہ مذکور ہے، قرآن کے حکم میں ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ اس پر مبنی ہیں اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں لہٰذا اس معاملہ کا اعتبار کرنا ضروری ہے اور اس وقت رجم کی تصریح کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ حدیث میں اس کا ذکر کافی ہے۔ 
’’قولہ (عن علیؓ حین رجم المرأۃ یوم الجمعۃ وقال رجمتھا بسنۃ رسول اللہ ﷺ) لم یخرج المصنف الروایۃ بتمامھا واخرجھا الحافظ فی الفتح وفیھا انی جلدتھا بالقرآن ورجمتھا بالسنۃ وحملھا الناس علی النسخ۔ قلت والذی تبین لی ان اصل الحد فیہ ما ذکرہ القرآن وھو الجلد اما الرجم فحد ثانوی وانما لم یأخذہ القرآن فی النظم اخمالا لذکرہ لیندرئ عن الناس ما اندرأ فکان الجلد حدا مقصود ا لا ینفک عنہ بحال، واما الرجم وان کان حدا لکن المقصود درؤہ متی ما امکن۔ فلو اخذہ فی النظم لحصل تنویہ امرہ وتشھیر ذکرہ والمقصود اخمالہ کیف ولو کان فی القرآن لکان وحیا یتلی مدی الدھر فلم یحصل المقصود ۔۔۔ فالأولی ان یکون الرجم باقیا فی العمل وخاملا فی القرآن ۔۔۔ ثم فی حدیث علیؓ ان رجمہ ایاھا کان بالسنۃ وقال الفقہاء انہ بالآیۃ المنسوخۃ التلاوۃ الباقیۃ الحکم۔ قلت وتلک الآیۃ وان نسخت فی حق التلاوۃ الا ان ھذا الرکوع کلہ فی قصۃ الرجم‘‘ (فیض الباری، ص ۳۵۴، ۳۵۳، ج ۶)
ترجمہ: (حضرت علیؓ نے جمعہ کے روز ایک عورت کو رجم کیا اور فرمایا کہ میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رجم کیا )امام بخاری ؒ نے یہ روایت پوری ذکر نہیں کی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس کو پورا ذکر کیا کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں نے اس کو قرآن کے مطابق کوڑے لگائے اور سنت کے مطابق رجم کیا۔ دیگر حضرات نے اس کو نسخ پر محمو ل کیا ہے [یعنی یہ کہ شادی شدہ زانی کی سو کوڑوں کی سزا رجم سے منسوخ ہوگئی تھی ] میں کہتا ہوں کہ زنا میں اصل سزاسو کوڑے ہے جو قرآن نے ذکر کی ہے۔ رہی رجم تو وہ [کوڑوں کے بعد ثابت شدہ] ثانوی حد ہے اور قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا تا کہ اس کا ذکر مشہور نہ اور جہاں تک ہو سکے، وہ مندری ہو۔ لہٰذا کوڑوں کی سزا مقصودی حد ہے جو ہر حال میں لا گو ہوتی ہے [ یعنی غیر شدہ شدہ کو تو لگتی ہی ہے، شادی شدہ کو بھی لگتی ہے جس میں سنت سے رجم کا بھی ثبوت ہے]۔ رہی رجم تو اگرچہ وہ بھی حد ہے لیکن مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، اس کو ٹالا جائے۔ اگر اس کا ذکر قرآن میں کیا جاتاتو اس کی اہمیت بڑھ جاتی اور شہرت ہو جاتی جبکہ اس میں مقصود عدم تشہیر ہے۔ قرآن میں مذکور ہونے سے قیامت تک اس کی تلاوت ہوتی اور اصل مقصود حاصل نہ ہوتا ۔۔۔ تو اولیٰ ہے کہ وہ عمل میں تو باقی رہے لیکن قرآن میں مذکور نہ ہو۔ پھر حضرت علیؓکی حدیث میں ہے کہ انہوں نے سنت کے مطابق عورت کو رجم کیا ۔فقہاکہتے ہیں کہ رجم کی سزا اس آیت سے ہے جس کا حکم باقی ہے اور تلاوت منسوخ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگرچہ وہ آیت تلاوت میں منسوخ ہے، لیکن یہ رکوع پورا کا پورا رجم کے قصہ ہی میں ہے [لہٰذا رجم کا قصہ قرآن ہی کے حکم میں ہے ]۔

iii۔ مولانا تھانوی ؒ کا فتویٰ ان کی اس بنیاد پر ہے کہ اجماع سے جو عورت کی سربراہی ناجائز ہے، وہ اس وقت ہے جب اسے مطلق العنان بادشاہت حاصل ہو اور بات بھی یہ ہے کہ موجو دہ دور سے پہلے بادشاہت ہی ہوتی تھی، اس لیے اس کے مطابق حکم لگایا گیا تھااور اجماع اس پر ہو اتھا۔ مولانارحمہ اللہ نے از سر نو غور وفکر کر کے اجماع و اتفاق سے اختلاف نہیں کیا۔ 

۳۔ اپنے جائز ے کے آخری حصہ میں آپ نے لکھا ہے : 

۱: ’’مولانا محترم نے اپنی تنقید ’’الشریعہ ‘‘ میں اشاعت کے لیے ہمیں بھجوائی‘‘۔

حقیقت حال یہ ہے کہ ہم نے اپنی تنقید آپ کے (اور آپ کے چند عزیزوں کے) مطالعہ کے لیے بھجوائی تھی، البتہ ہم نے آپ کو لکھا تھا کہ ’’الشریعہ ‘‘میں چھاپنا آپ کی صوابدید پر ہے۔ 

ii۔’’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علمی اور جمہوری اصولوں کے دائرے میں سوالات واشکالات کا سامنا کرنے اور اختلافی آرا کے لیے اظہار وابلاغ کا حق تسلیم کرنے کے بجائے جبر اور دباؤکے ذریعے سے انہیں روکنے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں‘‘

اختلاف راے سے ہمیں انکار نہیں، لیکن جب اس کی آڑ میں اہل سنت کے علمی مسلمات کو پامال کیا جا رہا ہو تو یہ معروف نہیں منکر ہے اور نہی عن المنکر کا حکم قرآن وسنت دونوں میں ہے۔ نہی عن المنکر کی ایک صورت قوت بازو سے روکنا بھی ہے۔ تو اگر ہم نے گمراہی کی راہ پر چلنے سے روکنے کی کوشش کی تو شرعاً ناجائز نہیں کیا۔ باقی کوشش کامیاب ہو یا نہ ہو، یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے۔ ہدایت پر لگانا تو اللہ کا کام ہے۔

iii۔ آپ مشورہ دیتے ہیں کہ ’’شکوہ، شکایت، بے چینی اور اضطراب میں مبتلانہ ہوں‘‘ ۔

اس کا جواب یہ کہ کافروں کے ایمان نہ لانے پر بے چینی اور اضطراب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہوتا تھا۔ قرآن اس پر گواہ ہے ۔ باقی ہم تواتنے درد سے خالی ہیں۔ ہم تو خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں اور تنبیہ کرتے ہیں۔ باقی اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں، کوئی فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ 

ہم اس کے قائل نہیں کہ بے فائدہ بحثوں میں الجھیں، اس لیے اگرچہ آپ کے جائزہ کے تمام ہی نکات کمزور ہیں، لیکن ہم نے صرف چند ہی کی نشاندہی کی ہے۔ اگر آپ کو ہم سے اختلاف ہے اور ہماری کوئی بات بھی آپ کو درست نظر نہیں آتی تو ہم آپ کو مزید زحمت نہ دیں گے۔ ہم بحمداللہ جو طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، علیٰ وجہ البصیرت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آپ کے مشوروں کی حاجت نہیں رکھتے۔ فقط 

[مولانا مفتی] عبدالواحد غفرلہ 

۱۲؍مارچ ۲۰۰۹ء 

(۲)

مکرم ومحترم جناب مولانا مفتی عبد الواحد صاحب زید مجدہم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

آپ کا گرامی نامہ ملا۔ میں نے آپ کے ارشادات کا بغورمطالعہ کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ آپ نے اپنے خط کے آخر میں ہمارے مابین جاری بحثوں کو ’’بے فائدہ‘‘ قرار دیا ہے، لیکن آپ کے اس خط سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بحث اتنی بھی بے فائدہ نہیں رہی، اس لیے کہ میرے ناقص فہم کے مطابق بعض اہم نکات کے حوالے سے ہمارے مابین اتفاق راے پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس خط کے ذریعے سے میں انھی نکات کی تنقیح کرنا چاہتا ہوں، البتہ بحث کو مزید آگے بڑھانے یا نہ بڑھانے کے سلسلے میں آپ اپنی صواب دید کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ 

۱۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اہل سنت فقہی دائرے میں کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ اجماع وقیاس کو بھی اپنے اصول میں شمار کرتے ہیں، جبکہ میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں۔ یہ میرے موقف کی درست ترجمانی نہیں۔ فقہ واستنباط کا دائرہ دین وشریعت کی اساسات کی تعیین سے نہیں بلکہ اس کے اجزا کی تفہیم اور تعبیر وتشریح سے متعلق ہے اور اس ضمن میں ہمارا سارا علمی ذخیرہ اصلاً اہل علم ہی کی علمی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ اس دائرے میں تو کسی ایک صاحب علم کی راے کی بھی بڑی اہمیت ہے، چہ جائیکہ فقہا کے ایک بہت بڑے گروہ کے اتفاق کے علمی وزن کی بالکلیہ نفی کر دی جائے۔ میرا اختلاف ’اجماع‘ کو، جو عملاً کسی مسئلے میں بعض فقہا کی راے نقل ہونے اور دوسرے اہل علم سے کوئی اختلاف منقول نہ ہونے سے عبارت ہے، ایک فقہی اصول کے طورپر تسلیم کرنے اور اسے وزن دینے سے نہیں، بلکہ اس کو کتاب وسنت کے نصوص کے درجے میں ایک ایسی قطعی حجت قرار دینے سے ہے جس سے کسی حال میں اختلاف نہ کیا جا سکتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں، میں اصولیین کے اس گروہ کی راے کو زیادہ درست سمجھتا ہوں جو ’اجماع سکوتی‘ کو حجت قطعیہ نہیں بلکہ حجت ظنیہ قرار دیتا ہے، چنانچہ آمدی نے لکھا ہے: ’فالاجماع السکوتی ظنی والاحتجاج بہ ظاہر لا قطعی‘ (الاحکام ۱/۲۵۴) ’غایتہ انہ خالف الاجماع السکوتی ونحن نقول بجواز ذلک‘ (الاحکام ۱/۲۶۰) ظاہر ہے کہ ظنی درجے کی یہ حجت یہ درجہ ہرگز نہیں رکھتی کہ اس کی بنیاد پر قرآن وسنت سے براہ راست استنباط کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے اور اگرکوئی صاحب علم نصوص کی روشنی میں کوئی مختلف راے پیش کرے تو اسے اس پر گردن زدنی قرار دے دیا جائے۔ میں نے اسی تناظر میں امام ابن تیمیہ کے اس ارشاد کا حوالہ دیا ہے کہ اگر کوئی صاحب علم کتاب وسنت سے استدلال کی بنیاد پر کوئی راے پیش کرے تو اس کے جواب میں ’اجماع‘ کا حوالہ دے کر اسے خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔

۲۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’تفسیر کبیر، اصول سرخسی اور الفوز الکبیر سے جو حوالے آپ نے دیے ہیں، وہ تفسیر وتاویل سے متعلق ہیں، کسی حکم شرعی کے اثبات سے متعلق نہیں ہیں۔‘‘

گویا آپ نصوص کی تفسیر وتاویل کے ضمن میں سلف سے منقول آرا سے مختلف راے قائم کرنے کی گنجایش کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ موقف بدیہی طور پر آپ کے سابقہ موقف سے مختلف ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے ’’مقام عبرت‘‘ میں سورۂ نساء کی آیات ۱۵، ۱۶ کی تفسیر کے ضمن میں میری راے پر، جو کسی حکم شرعی کے استنباط سے نہیں بلکہ دونوں آیتوں میں بیان ہونے والی الگ الگ سزا کی توجیہ سے متعلق تھی، تنقید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ 

’’اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ محمد عمار صاحب کے نزدیک امت کے اب تک مفسرین کو قرآن کی اس آیت کا مطلب نہیں سوجھا اور وہ ایک عظیم غلطی میں مبتلا رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نتیجہ امت کے حق میں انتہائی خوفناک ہے، کہ وہ ایک اہم مسئلہ میں گمراہی کا شکار رہی اور ایسے ہی قرآن پاک کے حق میں بھی کہ وہ ایسا چیستان ہے کہ صرف جاوید احمد غامدی اور محمد عمار جیسے صاحب اسلوب لوگ ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں، نہ صحابہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی تابعین۔‘‘

بہرحال اب اگر آپ سرخسی، رازی اور شاہ ولی اللہ کی آرا کی بنیاد پر نصوص کی نئی تاویل وتفسیر کی گنجایش کو تسلیم کرتے ہیں تو میں اسے آپ کی حق پسندی پر محمول کرتا ہوں، البتہ آپ نے نئی راے کے جواز کو نصوص کی تاویل وتفسیر تک محدود رکھا ہے جبکہ حکم شرعی کے ضمن میں اسے قبول نہیں کیا۔ میرا اشکال یہ ہے کہ حکم شرعی تو بذات خود نصوص کی تاویل وتفسیر کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس سے ہٹ کر احکام شرعیہ کو اخذ کرنے کا کوئی اور طریقہ کم سے کم میرے علم میں نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ نص کی تاویل اگر ایک طریقے سے کی جائے گی تو حکم شرعی اور ہوگا، اور دوسرے طریقے سے کی جائے گی تو حکم شرعی بھی بدل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ نے ’انما الصدقات للفقراء‘ کی جو نئی تفسیر کی ہے، اس سے مصارف زکوٰۃ کے آٹھ اقسام میں محصور ہونے کا حکم شرعی بھی تبدیل ہوا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ جب آپ نصوص کی تاویل وتفسیر کے ضمن میں نئی راے کی گنجایش تسلیم کرتے ہیں تو کسی حکم شرعی کی تعبیر میں، جو خود تاویل وتفسیر کے اسی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے، اس گنجایش کے انکار کی کیا وجہ ہے؟ 

۳۔ جمہوری طرز حکومت میں عورت کے منصب حاکمیت پر فائز ہونے کے جواز سے متعلق مولانا اشرف علی تھانویؒ کی راے کا دفاع کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ 

’’مولانا تھانوی رحمہ اللہ کا فتویٰ ان کی اس بنیاد پر ہے کہ اجماع سے جو عورت کی سربراہی ناجائز ہے، وہ اس وقت ہے جب اسے مطلق العنان بادشاہت حاصل ہو۔ اور بات بھی یہ ہے کہ موجودہ دور سے پہلے بادشاہت ہی ہوتی تھی، اس لیے اس کے مطابق حکم لگایا گیا تھا اور اجماع اس پر ہوا تھا۔ مولانا رحمہ اللہ نے ازسرنو غور وفکر کرکے اجماع واتفاق سے اختلاف نہیں کیا۔‘‘

جہاں تک مولانا تھانوی کے ازسرنو غور کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ہے تو آپ کی بات اس صورت میں درست ہو سکتی تھی جب فقہا نے عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے یہ تخصیص بیان کی ہو کہ یہ حکم کسی مخصوص نظام حکومت سے متعلق ہے۔ فقہا اسے ایک مطلق ممانعت کے طورپر بیان کرتے ہیں، اس لیے مولانا تھانوی کا جمہوری طرز حکومت میں عورت کے لیے اس کی گنجایش پیدا کرنا اس کے سوا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ متعلقہ حدیث پر ازسرنو غور کر کے اس کے محل کومتعین کریں اور اس کی روشنی میں یہ طے کریں کہ آیا جمہوری نظام حکومت میں عورت کا حکمرانی کے منصب پر فائز ہونا اس ممانعت کے تحت آتا ہے یا نہیں۔ 

بہرحال اس ضمنی اشکال سے قطع نظر، آپ کے مذکورہ ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے میری اس گزارش سے بھی اصولی طور پر اتفاق فرما لیا ہے کہ کسی بھی دور میں علما وفقہا کا اجماع واتفاق اصلاً اس عملی صورت حال کے تناظر میں ہوتا ہے جو ان کے سامنے ہوتی ہے اور وہ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے نصوص کی کوئی مطلق اور ابدی نوعیت کی نہیں، بلکہ ایک عملی اور اطلاقی تعبیر پیش کرتے ہیں، اور یہ کہ اگر بعد کے زمانوں میں عملی صورت حال میں تغیر پیدا ہونے یا کوئی نیا امکان سامنے آنے پر کوئی نئی راے قائم کی جائے تو اسے سابقہ ’اجماع‘کی مخالفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میں آپ کی بات کا مفہوم درست سمجھا ہوں تو میری ناقص راے میں ہمارے مابین زیر بحث نکتے کے حوالے سے کوئی اصولی اختلاف باقی نہیں رہ جاتا، اس لیے کہ میں نے ’’حدود وتعزیرات‘‘ میں جتنے بھی مسائل، مثلاً دیت کی مقدار، ارتداد کی سزا اور اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی قانونی حیثیت وغیرہ سے متعلق سابقہ فقہی اجماع سے مختلف راے قائم کی یا ایسی کسی راے کو قابل غور قرار دیا ہے، وہ اسی تناظر میں ہے کہ فقہا کی آرا اپنے دور کے معروضی حالات کے تناظر میں درست تھیں، لیکن اب حالات کی سیاسی، قانونی اور تمدنی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے، اس لیے ان امور میں متعلقہ نصوص پر ازسر نو غور کر کے اجتہادی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ ان میں سے ہر راے سے اسی طرح علمی اختلاف کر سکتے ہیں جیسے آپ یقیناًمولانا تھانوی کی مذکورہ راے سے کرتے ہوں گے، لیکن اگر مولانا تھانوی کی راے ’اجماع‘ کے خلاف نہیں تو میری گزارشات پر بھی ’’اہل سنت کے علمی مسلمات کو پامال کرنے‘‘ کا الزام رکھ کر ’نہی عن المنکر‘ کا فریضہ انجام دینے کا کوئی علمی، شرعی اور اخلاقی جواز نہیں۔

میں آپ سے پھر امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نیک دعاؤں میں مجھے یاد فرماتے رہیں گے۔

محمدعمارخان ناصر

۱۸؍ مارچ ۲۰۰۹

(۳)

محترم جناب مدیر الشریعہ 

السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔

ماہنامہ ’الشریعہ‘ مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارہ میں ’چہرے کا پردہ:واجب یا غیر واجب؟ ‘ کے نام سے ایک کتاب پر کسی ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ شائع ہوا۔ ان ڈاکٹر صاحب نے بدیانتی اور صریحا کذب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کتاب کے مصنفین میں میر انام بھی ڈال دیاحالانکہ اس شائع شدہ کتاب کے سرور ق پر صرف پروفیسر خورشید صاحب کا ہی نام ہے۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ صرف پروفیسر خورشید صاحب کی ہی کتاب ہے۔میرا اس کتاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہاں ایسا ضرور ہے کہ میرے کچھ سابقہ مضامین میری اجازت اور مرضی کے بغیر اس کتاب میں شامل کیے گئے جبکہ میرے ان مضامین کی میری اجازت کے بغیر اشاعت ایک غیر قانونی ‘غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت تھی ۔جب میں نے اس بارے میں ’دار التذکیر‘ کے مالک احسن تہامی صاحب سے رابطہ کیا کہ میرے کچھ مضامین آپ کے ادارے کی شائع شدہ کتاب میں میری اجازت کے بغیر کس طرح شائع ہو گئے تو انہوں نے کہا : ان سے غلطی ہو گئی ہے اور انہوں نے اس معاملے میں اصل اعتماد پروفیسر خورشید صاحب پر کیا تھا۔دوسرے دن میری پروفسیر صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی کہا: کہ مجھے کسی ایسے قانون کا علم نہ تھا ‘ میں تو آپ کے ان مضامین کو پبلک پرا پرٹی سمجھتا تھا لہذا آپ مجھے عدالت کسے جس کٹہرے میں کھڑا کر نا چاہیں میں کھڑا ہونے کو تیار ہوں۔جواباً میں نے انہیں عرض کیا:میں نے اپنے ان مضامین کو تصحیح و تہذیب‘ حک و اضافہ‘تنقیح و تخریج ‘ اسلوب بیان کی کئی ایک بنیادی تبدیلیوں سے گزارنے کے بعد ایک کتابی شکل دے دی ہے اور وہ قرآن اکیڈمی کے مکتبہ میں زیر طبع ہے اور ہر مصنف ایسا کرتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے۔اس پر پروفیسر صاحب نے حیرانی کا اظہار فرمایا اور مجھے کہنے لگے آئندہ اس کتاب کی اشاعت نہیں ہو گی اور اب بھی جو اشاعت ہو گئی ہے تواس کتاب کو کس نے پڑھنا ہے؟ لہذا آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔’دار التذکیر‘ یا پروفیسر صاحب کے اس معذرت خواہانہ رویے کے بعد میرے خیال میں اس مسئلے میں کوئی قانون چار جوئی کرنا اعلی اخلاق کے منافی تھا‘ اگرچہ ان حضرات کی اس غلطی کا خمیازہ مجھے اس صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے کہ جیسے پنساریوں کوبھی میڈیکل سائنس کی کسی کتاب پر تبصرے کا موقع ہاتھ آ گیاہو۔

پاکستان میں ان ڈاکٹروں کا علمی معیار کیا ہے‘ جو گاہے بگاہے تحقیقات اسلامیہ پر تبصرے فرماتے رہتے ہیں‘ اس پر لکھنے کے لیے ہمارے پاس بہت کچھ ہے لیکن شاید یہ مختصر خط اس کامتحمل نہ ہو۔ پھر بھی ازراہ تفنن ایک دو واقعات کا تذکرہ کیے دیتا ہوں۔پنجاب کی ایک معروف یونیورسٹی کی بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیزکی میٹنگ جاری تھی۔تمام ڈیپارٹمنٹس کے چیئر مین اورفیکلٹی ڈین بیٹھے تھے۔ علوم اسلامیہ و عربیہ کے ایک طالب علم نے اپنے پی ایچ ڈی کے خطہ البحث (synopsis) بعنوان ’الاسرائیلیات فی الخازن‘ کا تعارف (presentation)کمیٹی کے سامنے کروانا تھا۔’خازن ‘ قرون وسطی کی ایک عربی تفسیر کا نام ہے جس میں اسرائیلی روایات کافی درج ہیں۔ان اسرائیلی روایات کی چھان پھٹک اس مقالے کا موضوع تھا۔ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر، جن کا مقام و مرتبہ اگر لوگوں کی نظر میں دیکھنا ہو تو شاید انسان کے سر کی ٹوپی گر جائے‘اس مقالے کے تعارف (presentation) سے پہلے ہی synopsis پر ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہیں اور زور سے سامنے کی میز پر پھینکتے ہوئے کہتے ہیں: اسرائیل پر کام ہو رہا ہے اور اسرائیل کا نقشہ تک موجود نہیں ہے۔

اسی طرح راقم الحروف نے جب ایک معروف یونیورسٹی میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ بعنوان ’الاجتھاد الجماعی فی العصر الحدیث: دراسۃ وتحلیلا‘ کے بارے میں اس یونیورسٹی کے بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیز کی میٹنگ میں presentation دی تواس وقت کے علوم اسلامیہ کے ڈین کی طرف سے اس موضوع کے عنوان پر یہ اعتراض اس میٹنگ میں سامنے آیا کہ اجتہاد تو ہوتا ہی اجتماعی ہے، انفرادی اجتہاد کس نے کیا ہے۔جب راقم الحروف نے ڈین صاحب کو اس حوالے سے مطمئن کرنے کے لیے امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد وغیرہ کی مثالیں دیں کہ وہ توانفرادی اجتہاد ہی کرتے تھے توا نہوں نے بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا: کہ جواجتہاد انفرادی طور پر ہوتا ہے، اسے قیاس کہتے ہیں اور جو اجتماعی طور پر ہوتا ہے اسے اجتہاد کہتے ہیں، لہذا آپ اپنے مقالے کے عنوان سے اجتماعی کا لفظ حذف کر دیں۔ اور ساتھ ہی وائس چانسلر صاحب نے ڈین صاحب کے اعتراض کو valid قرار دیتے ہوئے ان کی ہدایات کے موافق راقم الحروف کو اپنےsynopsis میں تبدیلیاں کرنے کا حکم جاری فرما دیا۔ دین کا حقیقی و پختہ علم کم از کم پاکستان کی سرکاری تعلیمی اداروں کی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔یہ سرکاری ادارے دینی تعلیم کے پنساری تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں دینی ڈاکٹر نہیں الاما شاء اللہ۔ لہذا اگرایک پنساری میڈیکل سائنس کی کسی کتاب پر تبصرہ کرنے بیٹھ جائے تو ایک ڈاکٹر کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟ کیا وہ اس کا جواب دینے بیٹھ جائے؟

بہر حال میں نے آج سے تقریباً چار‘ پانچ ماہ پہلے ’دار التذکیر‘ کے مالک احسن تہامی صاحب کو درج ذیل خط لکھا:

’’محتر م جناب محمدأحسن تہامی صاحب
السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
میں آپ کومطلع کرناچاہتا ہوں کہ’ دار التذکیر‘ نے حال ہی میں ’’چہرے کا پردہ :واجب یا غیر واجب‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کتاب کو پروفیسر خورشید صاحب نے مرتب کیا ہے اور یہ کتاب پروفیسر صاحب کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ’ اشراق‘ اگست ۲۰۰۵ء ‘ جون ‘ اگست ‘ سمتبراور اکتوبر ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئے ہیں۔پروفیسر صاحب نے اپنی اس کتاب میں چہرے کے پردے کے حوالے سے ماہنامہ ’حکمت قرآن‘ اگست ۲۰۰۵ء ‘ جنوری ‘ فروری ‘ مارچ ‘ اپریل‘ مئی ‘ جون اور اکتوبر ۲۰۰۶ء میں شائع ہونے والے میرے کچھ مضامین بھی شامل کر دیے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مضامین پروفیسر صاحب کے ساتھ ایک علمی مکاملے کی صورت میں ’اشراق‘ اور ’حکمت قرآن‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔پروفیسر صاحب اور نہ ہی’ دار التذکیر‘ کے مالکان نے مجھ سے میرے ان مضامین کی اشاعت کی اجازت نہ زبانی طلب کی تھی اور نہ ہی تحریری طور پر۔ ’دار التذکیر‘ کا میری اجازت کے بغیر میرے نام سے میرے سابقہ مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنا اخلاقاً اور شرعاً ایک نامناسب طرز عمل تو ہے ہی ‘ قانوناً بھی ایک جرم ہے ۔’ دار التذکیر‘ کو چاہیے کہ مستقبل میں وہ اس کتاب کی مزیداشاعت بالکل بھی نہ کرے اور جو اشاعت ہو چکی ہے اس کی فروخت بھی فی الفور بند کردے ورنہ مصنف ’دارالتذکیر‘ کے مالکان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ 
ضمناً میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ’ دار التذکیر‘ کی اس کتاب کی اشاعت سے تقریبا ایک سال پہلے ہی میں حکمت قرآن میں شائع ہونے والے اپنے مضامین کو ایک کتاب کی صورت دے چکا تھا جو کہ مکتبہ انجمن خدام القرآن ‘ لاہور کے تحت طبع ہونی تھی۔میں نے ’حکمت قرآن‘ میں اپنے چھپنے والے مضامین کو کتابی شکل دینے کے لیے بہت حد تک تنقیح و تہذیب اور حک و اضافہ کیاہے۔مثلا
۱۔اس میں بھی بہت سے اضافے کیے گئے ہیں خاص طور پر علامہ البانی ؒ کی کتاب ’جلباب المرأۃ المسلمۃ‘ میں بیان کرہ احادیث و آثار کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے۔
۲۔پروفیسر صاحب کے ’اشراق‘ میں چھپنے والے چھ مضامین میں شامل تمام دلائل کا جواب بھی ان کا نام لیے بغیر اس کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے ۔
۳۔ پروفیسر صاحب کی بعض جزوی تنقیدوں سے اتفاق کرتے ہوئے بعض آرا میں رجوع کیا گیا ہے۔ (یہی سلف صالحین کی بھی روایت ہے۔خلفائے راشدین ‘ تابعین اور أئمہ سلف سے یہ بات کثرت سے ثابت ہے کہ بعض اوقات اپنے موقف‘ دلیل یا طریق استدلا ل کی غلطی واضح ہونے پر فورا رجو ع فرما لیتے تھے۔یہی ایک عالم دین کی شان ہو نی چاہیے۔ جس شان سے وہ اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے، اسی عظمت سے وہ غلطی کا احساس ہونے پر اس سے رجو ع بھی کر لے، لیکن آج کل کے پست معاشرے اورگھٹیا ذہنیت نے اس عظیم اخلاقی قدر کو بھی ایک معاشرتی برائی بنا دیا ہے) 
۴۔ بعض دلائل‘ الفاظ اور پیرا گرافس کو نکال دیا گیا ہے۔
اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ پروفیسر صاحب اور’ دار التذکیر‘ کے مالکان میرے نام سے میری اجازت کے بغیر ایک ایسا موقف پیش کر رہے ہیں جو کہ اب میرا نہیں ہے ۔جس کو بھی ’چہرے کے پردے‘ کے حوالے سے میرا موقف جاننا ہو وہ میری کتاب ’چہرے کا پردہ:واجب‘ مستحب یا بدعت‘ کی اشاعت کا انتظار کرے۔‘‘

حافظ محمد زبیر 

ریسرچ ایسوسی ایٹ‘ قرآن اکیڈمی لاہور

(۴)

محترم ومکرم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔

ماہنامہ وفاق کے گزشتہ شمارے میں معروف مجلہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فاضل مبصر نے ضمنی طور پر مولانا زاہد الراشدی، ان کے صاحبزادے مولانا عمار خان ناصر اور اس طرز پر کام کرنے والے اپنے حلقے کے دیگر حضرات کے منہج واسلوب پر تنقیدی نگاہ ڈال کر موقر راے کا اظہار کیا ہے۔ فاضل تبصرہ نگار نے ان حضرات کے منہج واسلوب کو اکابر کے طرز ومزاج سے متصادم قرار دیتے ہوئے وفاق اور جامعہ نصرۃ العلوم کے ذمہ دار حضرات سے درخواست کی کہ وہ انھیں اس انحراف سے باز رکھیں۔ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی اس خاص بحث کی حد تک تو صفائی اور وضاحت کی ذمہ داری مولانا زاہد الراشدی اور ان کے صاحبزادے پر عائد ہوتی ہے، لیکن کچھ دیگر مباحث وسوالات جو اس تبصرے کے نتیجے میں پیدا ہوئے، ان پر مطالعہ وتحقیق، غور وفکر اور پھر اس غور وفکر کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے الجھاؤ، تشتت، انتشار ذہنی کا خاتمہ، مبہم وناقص تصورات کی تنقیح وصفائی ہر اس شخص اور ادارے کی ذمہ داری ہے جو ان اکابر کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔

ہمارے ایک بڑے حلقے میں یہ خیال وراے قائم ہو رہی ہے کہ ناگزیر تقاضوں کی بنا پر جائز وضروری حد تک حدود وقیود کی رعایت کرتے ہوئے روایتی اور مروجہ طریقوں سے ہٹ کر علمی، دینی اور تحقیقی کام کرنے کو اکابر کے طرز ومزاج سے انحراف، قرآن وسنت پر اعتمادکا فقدان،مغرب سے مرعوب ومتاثر اور مغربی طرز تحقیق واستدلال پر ایمان لانا سمجھا جاتا ہے۔ اکابر کے طرز ومزاج سے انحراف کی اصطلاح خصوصیت کے ساتھ اپنے مقام ومحل سے ہٹ کر استعمال کی جا رہی ہے۔ یہ وہ جذباتی نعرہ وسلوگن ہے جو ایک مخصوص حلقہ ہمیشہ ان موقعوں پر لگاتا ہے جب جدید نظام فکر وفلسفہ سے واقفیت اور اس کی اہمیت، جدید علوم اور ان کی شاخوں کا اجمالی تعارف، فرق وادیان کی بحث کے حوالے سے جدید رجحانات کے علم اور عصری ذہن ومزاج کو سمجھ کر تیاری جیسے موضوعات پر بات کی جاتی ہے۔ جو شخص مکمل یقین کے ساتھ تشکیک وارتیاب سے آزاد ہو کر خالص دینی حوالے سے عصر حاضر کے ان اہم ترین موضوعات پر سنجیدہ اورمربوط مطالعہ کی تحریک دلا کر اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً اکابر کے طرز ومزاج کا حوالہ، قرآن وسنت پر عدم اعتماد اور مغرب سے مرعوب ومتاثر ہونے کا مصنوعی خوف ووہم پیدا کر دیا جاتا ہے اور سادگی، توکل واعتماد، دنیا اور اس کے نظام ہاے حیات سے بے خبری کی مثالیں سیرت وتاریخ سے تلاش کی جاتی ہیں۔ 

ان حالات میں ضروری قرار پاتا ہے کہ ایسی تمام چیزوں کی تنقیح کی جائے۔ (۱) مغرب سے مرعوب ومتاثر ہونا کیا ہے؟ (۲) قرآن وسنت پر اعتماد کیا ہے؟ اور ایسے بہت سے دیگر مباحث کی تنقیح۔ فی الوقت چونکہ زیر بحث موضوع اکابر کا طرز ومزاج اور اس سے انحراف ہے تو اسی حوالے سے چند الجھنیں سامنے لانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ان پر معزز فضلا کو دعوت دی جائے کہ وہ اظہار خیال کرتے ہوئے اس بحث کو طے کریں۔ میرا یہ خیال ہے کہ اکابر کے طرز ومزاج کے حوالے سے ہم جیسے اکثر طلبہ کے تصورات مبہم وناقص ہیں۔ صاف اور واضح طورپر بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ اکابر کے طرز سے مراد کیا ہے اور اس کی تفاصیل وجزئیات کیا ہیں۔ کبھی وہ ایک چیز کو اکابر کا مزاج کہتے اور سمجھتے ہیں اور کبھی اس کے بالکل برعکس اور متضاد چیز کو اکابر کا طرز ومزاج کہنے لگتے ہیں۔ اس ابہام اور الجھاؤ کی وجہ سے اکابر کی وسعت وجامعیت، دقت نظر وفکر کے تشخص کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس اہم ترین بحث کی تنقیح کے لیے چند سوالات پیش کر رہا ہوں:

۱۔ اکابر سے مراد کون لوگ ہیں؟ شیخ الہند، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا مناظر احسن گیلانی، سید سلمان ندوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی، قاری محمد طیب ان اکابر کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں؟

۲۔ اکابر کے مزاج ومنہج سے کیا مراد ہے؟ ان کے طبعی وفطری خصائل، ذہنی ساخت وبناوٹ، قلبی حالات وکیفیات، خدمت اسلام کے لیے طرز واسلوب، سیاسی، تعلیمی وتدریسی وخانقاہی طریقے یا ان کے علاوہ کون سی چیزیں اکابر کامزاج ومنہج ہیں؟

۳۔ اکابر کے طرز ومزاج میں کوئی فرق یا اختلاف موجود ہے یا نہیں؟ اگر موجود ہے تو کوئی کسی ایک کے طرز کو اختیار کرے تو وہ انحراف کے زمرے میں آئے گا؟

۴۔ اکابر کے منہج واسلوب کی تشریح وتوضیح موجودہ زمانہ میں کون لوگ کریں گے؟ اور اس تشریح وتوضیح کے لیے مطلوبہ معیار وصلاحیت کیا ہے؟

۴۔ اکابر کے طرز ومزاج پر کاربند رہنے کی حدود کیا ہیں؟

نوٹ: یہ استفساری مکتوب اپنے حلقے کے تمام جرائد ورسائل اور ممتاز علمی وفکری شخصیات کو ارسال کیا جا رہا ہے۔

سید علی محی الدین (فاضل وفاق المدارس)

جامعہ اسلامیہ رحمانیہ۔ ماڈل ٹاؤن، ہمک سہالہ روڈ۔ اسلام آباد


(۵)

محترم مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا ترجمان ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ ماہ جنوری ۲۰۰۹ء کا شمارہ میرے زیر نظر ہے جس میں آنجناب کاوالا نامہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے مدیر محترم کے نام ’’مکاتیب‘‘ کے عنوان تلے شائع ہوا ہے جس میں آپ نے پاکستان میں اور بیرون ملک ہونے والے مختلف اقدامات پر تبصرہ فرمایا ہے۔ چلتے چلتے آپ نے پاکستان میں تحفظ ناموس صحابہ کافریضہ سرانجام دینے والی تنظیم ’’سپاہ صحابہ‘‘ پر دہشت گردی اور مار دھاڑ کاالزام لگاتے ہوئے اسے حسرت ناک انجام سے دوچار قرار دیا ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ نے جس فکر اورمقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی داغ بیل ڈالی تھی، الحمدللہ سپاہ صحابہ اسی آن بان کے ساتھ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے میدان میں موجود ہے۔ قربانی دیے بغیر اعلیٰ مقاصد کا حصول ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوا کرتا ہے۔ سپاہ صحابہ کی قیادت اور کارکنان نے صحابہ کرامؓ کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ان قربانیوں پر جماعت کواللہ تعالیٰ کی نصرت اور رحمت کی امید ہے۔ شہادت تو وہ سعادت ہے جو ہر ایک کوحاصل نہیں ہوا کرتی، اگر چہ ہر مسلمان کو تمنا ضرورہوتی ہے۔ جنہیں نصیب ہوگئی، ان کے لیے عظمت اور پوری جماعت کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ ملک میں شیعہ سنی فسادات کے خاتمہ اور قیام امن کے لیے سپاہ صحابہ کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان سے بہت سے زیادہ دور بیٹھ کر اور دشمن کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر آپ نے تنقید کے نشتر چلائے ہیں۔ ایک عالم دین کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بغیر تحقیق کے کسی کے متعلق کوئی رائے قائم کرے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے پیغام کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو سپاہ صحابہ وقتی تحریک سے باقاعدہ تنظیم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور تنظیم سازی کے اس عمل کونہ سمجھ کر آپ اسے حسرت ناک انجام سے دوچار سمجھ بیٹھے ہیں۔ سپاہ صحابہؓ کھلے راستوں پر چلتی ہوئی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہ اپنی منزل مقصود پر پہنچے گی اوردشمنان صحابہ کوحسرت ناک انجام سے دو چار کرتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچائے گی۔

اگر ہو سکے تو اس دینی جماعت کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ’وتعاونوا علی البر والتقوی‘ کے حکم ربانی کے تحت ہمیں اپنے نیک مشوروں اور مفید تجاویز سے نوازتے رہیں۔ اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔ 

(مولانا) علی شیر حیدری عفی عنہ 

سرپرست اعلیٰ سپاہ صحابہ پاکستان

(۶)

محترم جناب عمار خان ناصر صاحب!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امیدہے کہ ایمان و صحت کی بہترین حالت میں ہوں گے اورفکری بنیادوں پر علما اور دینی طبقے کی راہنمائی کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہمہ تن مصروف ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی میں برکت ڈالے اور شعور کی سطح میں (پہلے سے موجود) پختگی کو پختہ تر کرے اورآپ کی (پہلے سے وجود)وسعت قلبی کو مزیدبڑھائے ۔دعا ہے کہ وہ آپ کا سینہ کھول دے‘ آپ کا کام آپ کے لیے آسان کردے ‘ آپ کی زبان کی گرہ کھول دے (ابلاغ کی مزید قوت دے) تاکہ لوگ آپ کی بات کو (مزید بہترانداز میں) سمجھ سکیں۔

’الشریعہ‘ ایک علمی رسالہ ہے جس پر بظاہر دیوبندی مکتبہ فکرکی چھاپ غالب نظر آتی ہے لیکن دلچسپ اورپریشان کن بات یہ ہے کہ بعض دیوبندی دوست بھی رسالے کی ’’لبرل‘‘ پالیسی کی وجہ سے اسے پسند نہیں کرتے۔ظاہر ہے کہ ہر گروہ خود کو حق پر سمجھ کر ہی اس پر کاربند ہوتا ہے، لیکن ایک بات دینی طبقات کواچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی دعوت یا عمل کے مختلف دائرے ہوتے ہیں۔ان میں سے پہلا دائرہ تو وہ ہے جس کے ساتھ وہ تعلق یا اتفاق رکھتے ہیں۔ وہ فطرتاً اسی دائرے میں خوش رہتے ہیں اور اپنے ’’ایمان‘‘ کو محفوظ خیال کرتے ہیں۔ دوسرا دائرہ ان افراد کا ہے جن کے نظریات یا فکر سے وہ اتفاق نہیں رکھتے لیکن کسی نہ کسی درجے میں یا زاویے سے وہ گروہ دین کی خدمت ہی کر رہا ہوتا ہے اور اس میں خیر کا پہلو موجود ہوتا ہے۔اُس کی فکر یا عمل کاکوئی حصہ بقول شخصے ’’گمراہ کن ‘‘ یا نقصان دہ ہو سکتا ہے لیکن دعوت کے کام میں ان کے خیراور مثبت پہلو کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ گروہی تعصب یاکوتاہ نظری و دلی کے پیش نظر اس سے خواہ مخواہ کی مناقشت اختیار کر لی جاتی ہے۔ تیسرا دائرہ ان لوگوں کا ہے جو غیرجانبدار یالاعلم ہیں جبکہ چوتھا دائرہ مخالفین دعوت کاہوتا ہے۔ان چاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں مختلف لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے لیکن عموماً ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات یہ ہے کہ علمی گفتگو کرتے اور دلائل دیتے ہوئے زور الفاظ اور جذبات کی بجائے دلیل کے اندر ڈالنا چاہیے اور ذاتی غصہ اول تو ہونا ہی نہ چاہیے لیکن بشری کمزوری کی وجہ سے آ بھی جائے تو اسے تحریر میں نہ جھلکنا چاہیے۔ اگر اس بات کا خیال نہ رکھا جائے تواپنے کیس کو بہتر طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔اس کی ایک مثال مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں ’’جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پرایک نظر!‘‘ کے عنوان سے عبدالمالک طاہرکے مضمون میں دیکھنے کو ملتی ہے جس میں موصوف حافظ محمدزبیرکے ایک مضمون کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں۔واضح رہے کہ بندہ ان دونوں افراد کو نہیں جانتا اور نہ موخرالذکر گفتگو کا مقصد کسی فریق کے موقف کو سچا یا جھوٹا ثابت کرنا ہے ۔مقصد صرف چند تکنیکی پہلوؤں کی نشاندہی ہے تاکہ بحث کو زیادہ صحت مندانہ انداز سے آگے بڑھایا جا سکے۔ 

مضمون نگار عبدالمالک طاہر لکھتے ہیں :

’’یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ حافظ صاحب نے جہادی طبقے کے متعلق جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے ‘ وہ کسی طرح بھی فکرودانش کے حلقے میں قابلِ تحسین نہیں ہے۔‘‘(ماہنامہ الشریعہ‘مارچ ۲۰۰۹، صفحہ ۴۳)

آگے چل کر لکھتے ہیں’’...لیکن ذرا غور کریں سی این این اور بی بی سی وغیرہ (کفریہ نشریاتی اداروں)کی رپورٹنگ کو اطلاعات کہنافاضل مضمون نگار کی جہای طبقے پر ذاتی قسم کی مناقشت کی طرف اشارہ ہے جس کے اظہار کے لیے الشریعہ جیسے عظیم فکری پلیٹ فارم کاا ستعمال کرنا اخلاقی حوالے سے اچھا نہیں ہے ۔ (صفحہ ۴۳‘۴۴)‘‘

دوسرے لفظوں میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ فکرودانش کے حلقے ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ’’اپنے لب ولہجے ‘‘کا خیال رکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے وہ خود بھی اس حلقے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مذکورہ نصیحت کو متعدد جگہوں پر فراموش کرتے نظر آتے ہیں ۔وہ بی بی سی وغیرہ کو’’ کفریہ نشریاتی ادارے‘‘ کہنا چاہیں تو شوق سے کہیں لیکن ان کی رپورٹنگ اطلاعات کے ضمرے میں توبہرحال آتی ہے‘ خواہ کچھ معاملے میں وہ یک طرفہ ہی کیوں نہ ہو۔ (اس حوالے سے ہمارے دینی رسائل کی حالت ان سے کچھ زیادہ بہتر نہیں)۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مضمون نگار پر ’’جہادی طبقے‘‘ سے ’’ذاتی مناقشت‘‘ یعنی لڑائی جھگڑے کا بھی الزام عائد کیا ہے جونہ صرف غیرضروری ہے بلکہ اگلی کچھ بحث میں خود ان کے اپنے خلاف بھی پڑتا ہے ۔آپ کہتے ہیں: 

’’...غور کیجئے !یہ الفاظ جہاں مضمون نگار کی جہادی احباب کے ساتھ دیرینہ عداوت ظاہر کرتے ہیں‘ وہیں جناب کے جنگ و جہاد کے میدان سے عملاً بہت دور ہونے پر بھی شاہد ہیں‘‘ (صفحہ ۴۴)اور ’’...بند کمرے میں بیٹھ کرقلم کی تلوار چلا رہے ہیں‘ یا پھر کسی جہادی کمانڈر سے ذاتی نوعیت کے اختلافات کا شاخسانہ ہے‘‘ (صفحہ۴۵)

انہوں نے خود ’’جہاد‘‘کے میدان میں ’’کشتوں کے جوپشتے‘‘( یاپشتوں کے کشتے) لگائے ‘ ان کا تو علم نہیں لیکن ایک بات انہوں ایسی کہی ہے جو ان کے شایان شان ہرگز نہیں:’’فاضل مضمون نگاراس بات کو ثابت کرنے کے لیے دماغ و قلم سمیت جسم کے دیگر حصوں کا بھی زور لگا رہے ہیں کہ روس کو شکست....(صفحہ ۴۴)‘‘ 

جسم کے دیگر حصوں کا زور لگانے والی بات ایسی ہی ہے جوبقول عبدالمالک صاحب نہ تو ’’کسی طرح بھی فکرودانش کے حلقے میں قابلِ تحسین ‘‘ ہے اور نہ اس کے لیے ’’الشریعہ جیسے عظیم فکری پلیٹ فارم کا استعمال کرنا اخلاقی حوالے سے اچھا ہے‘‘... اور مدیر محترم! آپ نے بھی ان الفاظ سے ’’غض بصر‘‘ کر کے خودعبدالمالک طاہر صاحب کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ایسے الفاظ کوفوراً قلم زد کر دینا چاہیے تھا۔

محمد زاہد ایوبی

اسسٹنٹ ایڈیٹر، شفانیوز‘ اسلام آباد 

(۷)

محترم المقام جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

الشریعہ کا تازہ شمارہ نظر سے گزرا۔ ٹی وی چینل کے بارے میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب کا مکتوب پڑھ کر بے حد اذیت ہوئی۔ جس انداز سے انھوں نے مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب کو نشانہ بنایا ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ کیا اتنے بڑے عالم جو خیر سے ایک عالمی ادارے کے چیئرمین بھی ہیں، اپنی طبع کے خلاف ایک بات کو سننے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے؟ کیا ہمارا علمی واخلاقی بحران اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہمارے لیڈران علمی ابحاث میں ایک دوسرے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے لگیں؟ کیا ہم میں دوسرے کے دلائل اور ان کا موقف سننے کا بھی حوصلہ نہیں رہا؟ مولانا سعید احمد جلال پوری نے ٹی وی کو حرام سمجھا اور اس کی حرمت پر دلائل پیش کیے۔ اگر مولانا منصوری صاحب کو اس سے اختلاف تھا تو دلائل کی زبان میں ان کا رد لکھتے، مگر جس انداز میں انھوں نے مولانا جلال پوری پر زنانہ انداز میں غصہ نکالا ہے، یہ ہرگز ان کی شان کے مناسب نہ تھا۔ ہم جیسے دیہاتی تو ہر وقت ’’قوت برداشت پیدا کرو‘‘، ’’دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کرو‘‘ وغیرہ نصائح کی زد میں رہتے ہیں اور شدت پسندی اور بنیاد پرستی میں خوب بدنام ہیں، مگر مولانا منصوری جیسے روشن خیال اور جدت پسند عالم کا ایک علمی مضمون پڑھ کر آپے سے باہر ہو جانا انتہائی تعجب خیز امر ہے۔ مولانا کو اپنی اس نازیبا تنقید پر مولانا جلال پوری سے معافی مانگنی چاہیے۔

قاری محمد رمضان ۔ خان پور

مکاتیب

(اپریل ۲۰۰۹ء)

تلاش

Flag Counter