حضرت شیخ الحدیث کے اساتذہ کا اجمالی تعارف

مولانا محمد یوسف

(مصنف کی زیر تالیف کتاب ’’شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر: حیات و خدمات‘‘ کا ایک باب۔)


شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر پر منعم حقیقی کایہ خصوصی فضل وانعام تھاکہ ان کو اپنے وقت کی بلند پایہ اور گرا نمایہ علمی شخصیتوں کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کو جن اصحاب فضل وکمال کے دامن فضل سے وابستگی اور سر چشمہ علم وفن سے کسب فیض اور اکتساب علم کا شرف حاصل ہوا، ا ن میں سے اکثر اس زمانہ کے عبقری اور علم وفن کی آبرو تھے۔ ان اصحاب علم وکمال کے بارے میں کچھ لکھنا بلا مبالغہ سورج کا تعارف کرانے کے مترادف ہوگا، مگر چونکہ صاحب سوانح کی سوانح حیات اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ نہ ہو جن کے فیوض تعلیم وتربیت نے صاحب سوانح کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، اس لیے ہم ذیل کی سطور میں آپ کے اساتذہ گرامی کااجمالاً ذکر کر رہے ہیں۔ 

شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ 

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ۱۹شوال المکرم ۱۲۹۶ھ و موضع الہداد پور قصبہ ٹانڈہ ضلع فیض آباد میں حضرت مولانا سید حبیب اللہ صاحب (خلیفہ خاص حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی ) کے ہاں پیدا ہوئے ۔ آپ کا تاریخی نام چراغ محمد اورآپ حسینی سید ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مڈل تک اپنے والد گرامی کے پاس ہی حاصل کی ۔قرآن کریم اور ابتدائی فارسی کی تعلیم والد محترم کے علاوہ والدہ محترمہ سے بھی حاصل کی ۔ مالٹا کی اسارت میں قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ۔جب آپ تیرہ برس کی عمر کو پہنچے تو آپ نے ۱۳۰۹ ھ میں دارالعلوم دیو بند میں داخلہ لیا اور درس نظامی کی مکمل تعلیم اپنے بڑے بھائی مولانا صدیق احمد صاحب اور شفیق استاذ حضرت مولانا محمود حسن صاحب ؒ کی زیر نگرانی دارالعلوم دیو بند میں ہی حاصل کی ۔باوجود اس کے کہ حضرت شیخ الہند ؒ دورہ حدیث کی بڑی کتابیں پڑھاتے تھے، لیکن آپ کو ہونہار پا کر ابتدائی کتابیں بھی خود پڑھائیں۔ آپ نے سترہ فنون پر مشتمل درس نظامی کی ۶۷کتابیں ساڑھے چھ سال میں مکمل فرمائیں۔ آپ نے ۱۳۱۴ ھ میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی جبکہ ابھی چند خارج از درس کتب ،طب ،ادب ، ہیئت میں باقی رہ گئیں تھیں کہ آپ کے والد محترم نے مدینہ منورہ کی طرف عزم ہجرت کیا تو آپ بھی مع والدین و برادران مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئے اور باقی کتابیں مدینہ منورہ کے معمر اور مشہور ادیب حضرت مولانا شیخ آفندی عبدالجلیل برادہ سے پڑھیں ۔جس وقت آپ کے استاذ مکرم حضرت شیخ الہند ؒ آپ کو مدینہ منورہ رخصت کررہے تھے تو یہ نصیحت فرمائی کہ پڑھانا ہرگز نہ چھوڑنا، چاہے ایک دو ہی طالب علم ہوں ۔ہو نہار شاگرد زندگی بھر ،سفر ہو یا حضر، اس نصیحت پر عمل پیرا رہے ۔ ۱۳۱۶ سے ۱۳۳۱ھ تک جب آپ کا زیادہ وقت مدینہ طیبہ میں بسر ہو ا تھا اس دوران آپ کی زبان فیض ترجمان سے قال اللہ و قال الرسول کا دل نشیں نغمہ مسلسل گونجتارہا ۔ عرب کی حدود سے باہر آپ ممالک غیر میں بھی شیخ حرم نبوی مشہور ہوگئے۔۱۹۲۷ سے۱۹۵۷ء دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث و صدر المدرسین کے منصب جلیلہ پر فائز رہے ۔اس کے علاوہ امروہہ ،کلکتہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کے مدرسہ عالیہ اور سلہٹ کے جامعہ اسلامیہ میں بھی علم و عرفان کے موتی بکھیرتے رہے۔ 

سلوک و تصوف میں بھی آپ شیخ کامل تھے ۔۱۳۱۶ ھ میں آپ آستانہ عالیہ رشیدیہ میں قطب الارشاد مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے بیعت ہوئے ۔مکہ مکرمہ میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر ؒ کی بابرکت مجالس میں بھی روحانی تربیت حاصل کرتے رہے ۔ حضرت گنگوہی ؒ نے آپ کو خلافت کی خلعت سے نوازا اور اپنے دست مبارک سے دستار خلافت آپ کے سر پر باندھی۔ حضرت مولانا احمد علی ؒ لاہوری آپ ؒ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ ’’حضرت مدنی ؒ اس زمانہ میں اولیاء اللہ کے امام ہیں‘‘۔

آپ ؒ تدریسی ،روحانی ،ملی اور سیاسی خدمات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپؒ کی مشہور تصانیف درج ذیل ہیں: (۱) نقش حیات، دو جلدیں (۲) مکتوبات شیخ الاسلام ؒ ، چار جلدیں (۳) الشہاب الثاقب (۴) تعلیمی ہند (۵) اسیر مالٹا (۶) متحدہ قومیت اور اسلام (۷) ایمان وعمل (۸) مودودی دستور و عقائد کی حقیقت (۹) سلاسل طیبہ (۱۰) کشف حقیقت (۱۱) خطبات صدارت۔ 

اگر یہ کہاجائے کہ حضرت مولانا انورشاہ صاحب ؒ کے بعد دارالعلوم دیوبند کی علمی و عملی فضاحضرت مدنی ؒ کے ہی دم قدم سے قائم رہی تو مبالغہ نہ ہو گا۔ آپ ؒ نے جس ہمت و استقلال ، ایثار و قربانی اور جرأت و شجاعت سے دین اور ملک و ملت کی خدمت کی ،حضرت شیخ الہند ؒ کے بعد اس کی نظیر آخری دور میں نظر نہیں آتی۔ آپ ؒ نے زندگی بھر تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف ، وعظ و تبلیغ او ر جہاد فی سبیل اللہ کا مبارک سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ آپ ؒ نے ۲۸محرم الحرام ۱۳۷۷ھ بمطابق ۲۵؍اگست ۱۹۵۷ء کو آخری سبق بخاری شریف جلد اول پڑھایا اور ۱۳جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ھ بمطابق ۵دسمبر ۱۹۵۷ء کو علم وعمل ، زہدو تقویٰ اور رشدو ہدایت کا یہ آفتاب عالم تاب غروب ہوگیا۔ 

حضرت مدنی، حضرت شیخ الحدیث کے ممتاز اساتذہ میں سے تھے۔ جب آپ اپنے برادر عزیز شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید صاحب سواتی ؒ کے ہمراہ ۱۹۴۰ ء میں دارلعلوم دیوبند تشریف لے گئے، اس وقت شیخ العرب والعجم مرکز علم دارلعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث وصدرالمدرسین کے منصب جلیلہ پر فائز تھے۔ اس منصب عظیمہ پر متمکن ہونے سے قبل آپ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور مشرقی پاکستان میں علم وفن کی تمام دینی کتب پڑھا چکے تھے ۔ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم نے ۱۳۶۰ھ اور ۱۳۶۱ھ کا اکثر حصہ آپ کی زیر نگرانی دارلعلوم کی روح پر ور فضامیں گزارا ۔ شیخ العرب والعجم سے بخاری شریف اور ترمذی شریف جلد اول پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔حضرت مدنی ؒ صبح کے وقت دو گھنٹے ترمذی شریف (اول) اور ایک گھنٹہ بخاری شریف (اول) پڑھاتے اور رات کے وقت بخاری شریف جلد ثانی پڑھاتے تھے۔ 

دوران سبق شرکا کو کیسا عجیب روحانی ماحول نصیب ہوتا تھا، اس کی ایک جھلک آپ کے ہو نہار شاگرد حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتیؒ کی تحریر میں ملاحظہ فرمائیں : ’’ دوران سبق شرکا کو ایسا عجیب روحانی ماحول نصیب ہوتا تھا کہ ہر شریک درس کی یہ دلی خواہش ہوتی تھی کہ کاش یہ مجلس دراز سے دراز ہوتی جائے ہم کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہمارے قلوب زنجیروں کے ساتھ عالم بالا میں جکڑ ے ہوئے ہیں‘‘۔ دوران سبق حضرت مدنی کا طلبہ کے ساتھ رویہ کیسا ہو تا تھا، اس کی ایک جھلک بھی حضرت صوفی صاحب ؒ کے الفاظ میں ملا حظہ ہو: ’’جو طلبا شریک درس ہوتے ،اپنے سوالات اور شکوک وشبہات لکھ کر حضرت مدنیؒ کی خدمت میں بھیجتے ،آپ ؒ ایک ایک پرچی پڑھ کر انتہائی تحمل ،بردباری اور مشفقانہ انداز میں جواب مرحمت فرماتے کسی کے سوال سے تو کیا بلکہ کسی معترض کی تلخ کلامی یا غلط تحریر پڑھ کر کبھی ناراض نہ ہوتے تھے‘‘۔

حضرت مدنی ؒ نے اپنے قابل فخر تلامذ ہ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم اور حضرت صوفی صاحب ؒ کی علمی لیاقت پر اعتماد فرماتے ہو ئے دارلعلوم دیو بند کی سند کے علاوہ اپنی طرف سے اپنے دونوں مایہ ناز تلامذہ کو خصوصی سند عطا فرمائی جس کا عکس قارئین کتاب کے آئندہ صفحات میں دیکھ سکیں گے ۔ حضرت شیخ، حضرت مدنی ؒ کے ذوق تدریس کایہ واقعہ اکثر طلبا کے سامنے بیان فرماتے تھے : ’’ہمارے استا ذ محترم شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد انگریز کے دور میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ،چنانچہ ایک مرتبہ دوران اسارت مرادآباد جیل میں حضرت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارلعلوم دیوبند ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔حضرت قاری صاحب کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مدنی جیل میں قیدیوں کو تعلیم الاسلام پڑھا رہے ہیں۔ حضرت قاری صاحب نے دل لگی اور ازراہ مزاح کہا، حضرت آپ نے تو خوب ترقی کی ہے کہ بخاری شریف پڑھاتے پڑھاتے تعلیم الاسلام پڑھانی شروع کر دی ہے۔ حضرت مدنیؒ نے جواب دیا، بھائی ! کام جوپڑھانا ہوا، دار العلوم دیوبند میں بخاری وترمذی پڑھنے والے تھے، ان کو بخاری وترمذی پڑھاتا تھا اور یہاں مرادآباد جیل میں تعلیم الاسلام پڑھنے والے ہیں، چنانچہ ان کو تعلیم الاسلام پڑھا تا ہوں۔‘‘

قدرت نے حضرت مدنی کے ذوق درس وتدریس کا ایک وافر حصہ آپ کے قابل فخر تلمیذ حضرت شیخ کو بھی عطافرمایا۔ چنانچہ آپ نے بھی دوران قید ملتان جیل میں درس و تدریس کا سلسلہ برابر جاری رکھا ۔آپ جیل میں قید علما کو شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کی شہرہ آفاق کتاب حجۃاللہ البالغہ کے علاوہ علم الکلام کی مشہور کتاب ’شرح عقائد‘ اور اصول حدیث کی کتاب ’نخبۃ الفکر‘ پڑھاتے رہے جس کی تفصیل قارئین ’’حضرت شیخ کے ذوق تدریس‘‘ کے عنوان سے آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ اگر کسی طالب علم کو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر مدظلہ کی کلاس میں اونگھ یا نیند آجاتی تو آپ حضرت مدنی ؒ کے ان الفاظ کے ساتھ طالب علم کو بیدار کرتے: ’’ہمارے استاد محترم حضرت مدنی ؒ فرمایا کرتے تھے، نیند کی دو قسمیں ہیں۔ ایک نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور ایک نیند شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگر دوران جنگ مسلمان مجاہد کو نیند آجائے تو یہ نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور مجاہد کے لیے سکون و آرام کا قدرتی ذریعہ ہوتی ہے، لیکن اگر دوران سبق طالب علم کو نیند آ جائے تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے جس کا مقصد طالب علم کو غفلت میں ڈالنا ہوتا ہے۔‘‘

حضرت مولانامحمدابراہیم صاحب بلیاویؒ ؒ 

حضرت بلیاویؒ ۱۳۰۴ھ میں مشرقی یوپی کے شہر بلیا کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؒ نے فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم جونپور میں مشہور طبیب مولانا حکیم جمیل الدین نگینوی ؒ سے حاصل کی اور معقولات کی کتابیں مولانافاروق احمد چڑیاکوٹی اور مولاناہدایت اللہ خان تلمیذ خاص مولانافضل حق خیر آبادی سے پڑھیں۔ دینیات کی تعلیم کے لیے مولاناعبدالغفار صاحب کے سامنے زانوے تلمذ کیا جو حضرت مولانارشیداحمد گنگوہی ؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ۱۳۲۵ھ میں مرکز علم دارالعلوم دیوبند میں داخل ہو ئے اور ہدایہ اور جلالین اور مختلف کتب پڑھتے رہے۔ پھر حضرت بلیاوی ؒ کی حیات مبارکہ میں وہ دن بھی آیا جب ۱۳۲۷ھ میں آپ نے دارالعلوم دیوبندسے سند فراغت حاصل کی۔ دینی علوم و فنون کی تحصیل کے بعد آپ زندگی بھر درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ آپ کے درس و تدریس کی مدت ۱۳۲۷ھ سے۱۳۸۷ھ تک ساٹھ سال بنتی ہے۔ آپ نے مختلف مقامات مدرسہ عالیہ (فتح پور ) عمری ضلع مراد آباد، مدرسہ دارالعلوم (اعظم گڑھ)، مدرسہ امدادیہ (بہار)، جامعہ اسلامیہ (ڈابھیل )، کوہاٹ ہزاری ضلع چاٹگام میں طلبہ علوم اسلامیہ کے قلوب کو زندگی بھر دینی علوم سے منور کرتے رہے۔( فجزاہ اللہ احسن الجزاء )بالآخر آپ اپنی مادر علمی دارالعلوم دیو بند میں تشریف لے آئے ۔ ۱۳۷۷ھ میں حضرت مولاناسیدحسین احمد صاحب مدنی ؒ کے بعد آپ دارالعلوم کی سندصدارت پر فائز ہوئے اور تادم واپسی اس پر متمکن رہے۔آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے جو برصغیر کے علاوہ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں اپنے استاذگرامی کے دینی علوم و معارف پھیلارہے ہیں۔

حضرت بلیاویؒ نے حضرت شیخ الہند ؒ مولانامحمود الحسن ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی۔ اس کے علاوہ آپ حضرت شیخ الہند ؒ کے تلمیذ خاص بھی تھے ۔آپ کے اوصاف و کمالات کے متعلق محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوریؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت مولانا بلیاوی ؒ دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز محقق عالم اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کے مخصوص تلامذ ہ میں سے تھے ۔درسیات کی مشکل ترین کتابوں کے اعلیٰ ترین مدرس اور استاذ تھے۔ اپنی حیات طیبہ کا بہت حصہ علوم نقلیہ و عقلیہ کی تدریس و تعلیم میں ہی صرف کیا اور پورے ساٹھ برس تک تدریس علومِ دینیہ کی خدمت انجام دی۔ ذکاوت ،قوت حافظہ اور حسن تعبیر میں خصوصاً معقول و منقول کی مشکلات کے حل کرنے میں یکتاے روز گار تھے اور ہند و پاک کے تقریباًتمام علما کے بلاواسطہ یا با لواسطہ استاذ تھے اور اپنے علمی کمالات اور جامعیت کے اعتبار سے قدماے سلف کی یادگار تھے‘‘۔

بہر حال آپ کی ساری عمر درس و تدریس اور تبلیغ و اصلاح میں گزری ۔ آخری عمر میں جامع تر مذی پر حاشیہ لکھ رہے تھے جس کے پورے ہونے کی نوبت نہ آسکی اور صحت خراب ہوتی چلی گئی۔ آخر کا ر ۲۴ رمضان ۱۳۸۷ھ مطابق ۲۷ دسمبر ۱۹۶۷ بروز چہار شنبہ عالم آخرت کو تشریف لے گئے۔ قبرستان قاسمی دیوبند میں محو آرام ہیں۔ حق تعالیٰ درجات عالیہ نصیب فرمائے۔

حضرت مولاناابراہیم صاحب بلیاوی ؒ حضرات شیخین ( حضرت شیخ الحدیث صاحب و حضرت صوفی ؒ صاحب) کے ممتاز اساتذہ میں ہیں ۔دونوں بھائیوں نے مرکز علم و عرفان ،دارالعلوم دیوبند میں حضرت بلیاویؒ سے مسلم شریف (مکمل ) پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔حضرت شیخ الحدیث صاحب برکاتہم دوران تدریس اپنے اسباق میں اکثر ان کا ذکر خیر کیا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم بلیاوی ؒ کے علاوہ حضرات شیخین نے صحاح ستہ میں شا مل مشہور کتاب ’’ نسائی شریف‘‘ حضرت مولانا عبدالحق صاحب نافع گل سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی جب کہ ابن ماجہ تین ممتاز اصحاب علم حضرت مولانا مفتی ضیاء الدین صاحب مرحوم ، حضرت مولانا عبدالشکور فرنگی محلی اور مولانا ابوالوفاء شاہجہانپوری سے پڑھی۔

شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب امروہی ؒ 

آپ کا آبائی وطن مراد آباد کے مضافات میں مشہور قصبہ امروہہ ہے ۔ آپ یکم محرم الحرام ۱۳۰۱ھ بمطابق ۱۸۸۲ء بروز جمعۃالمبارک صبح صادق کے قریب ہندوستان کے مشہور شہر بدایوں میں پیدا ہوئے جہاں آپ کے والد ماجد بسلسلہ ملازمت رہائش پذیر تھے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد محترم بدایوں سے شاہ جہاں پور آگئے جہاں آپ نے میاں قطب الدین صاحب ؒ سے بیس پارے ناظرہ قرآن حکیم پڑھا۔ بعد میں حضرت قاری شرف الدین صاحب ؒ سے قرآن پاک حفظ کیا۔آپ نے اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی، پھر مولانا مقصود علی خان صاحب ؒ سے بعض کتب فارسیہ اور میزان الصرف سے شرح جامی تک کتابیں پڑھیں ۔پھر شاہجہانپور کے مدرسہ عین العلم میں داخل ہوکر مولانا شبیر احمد مرادآبادی ،مولانا عبدالحق کابلی اور مولانا کفایت اللہ دہلوی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا کفایت اللہ دہلویؒ کے مشورہ سے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ ہدایہ اولین و میر قطبی اور دیگر کتب پڑھ کر دوسرے سال اپنی ہمشیرہ سے ملاقات کے لیے میرٹھ تشریف لے گئے۔مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کے اصرار پر میرٹھ ہی میں چار سال تعلیم حاصل کرتے رہے۔اس کے بعد مرکز علم دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور ہدایہ اخیرین ،بیضاوی ،بخاری ،مسلم ،ابوداؤد ،ترمذی وغیرہ کتابیں حضرت شیخ الحدیث کے پاس پڑھیں۔ فنون کی بعض کتابیں مولانارسول خان ہزاروی ؒ سے جبکہ ادب کی کتابیں حضرت مولاناسید معزالدین صاحب ؒ سے پڑھیں۔ فتویٰ نویسی کا فن حضرت مولاناعزیزالرحمن صاحب عثمانی ؒ سے سیکھا۔

۱۳۲۰ھ میں دارالعلوم دیو بند سے سند فراغت حاصل کی۔ فراغت تعلیم کے آپ کم وبیش (۵۴) سال مسند تدریس پر متمکن رہے۔ آپ مدرسہ نعمانیہ بھاگل پور میں سات سال ،مدرسہ افضل المدارس شاہجہان پور میں تین سال تدریس کرتے رہے ۔۱۳۳۰ھ پچیس روپے مشاہرہ پر دارالعلوم دیوبند میں مدرس مقررہوئے۔ درمیان میں ایک سال کے لئے حیدر آباد گئے، پھر دارالعلوم ہی میں تشریف آوری ہوئی اور تا دم آخر ۱۳۷۴ھ تک دارالعلوم ہی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔آپ کے روحانی تزکیہ و تربیت کے لیے حضرت مولانارشید احمدگنگوہی ؒ کے دست مبارک پر بیعت کی اور اجازت و خلافت حضرت شیخ العرب و العجم مولاناسید حسین مدنی ؒ کی طرف عطا ہوئی۔ ہزاروں تشنگان علم نے آپ سے اپنی پیاس بجھائی۔ آپ کے مشہورتلامذہ یہ ہیں: حضرت مولانا مفتی شفیعؒ ، مولاناحفظ الرحمن سیوہارویؒ ، مولاناقاری محمد طیب قاسمیؒ ، مولانا محمد منظور نعمانی، مولاناسعید احمد اکبر آبادیؒ ، شیخ الحدیث مولاناسرفراز خان صفدر، حضرت مولاناصوفی عبدالحمید سواتیؒ ۔ تدریسی خدمات کے علاوہ آپ نے کئی درسی کتابوں کے حواشی تحریر فرمائے جن میں حاشیہ نورالایضاح (فارسی ) حاشیہ کنز الدقائق، حاشیہ مفیدالطالبین ،حاشیہ دیوان متنبی، حاشیہ دیوان حماسہ ،حاشیہ تلخیص المفتاح شامل ہیں۔

شیخ الادب ؒ ممتاز مدرس عالم دین، علوم و فنون میں یکتاے روزگار اور باخدا شخصیت تھے۔ آپ بے شمار خداداد امتیازی صفات کے ساتھ تشنگان علم و عرفان میں زندگی بھر وراثت نبوی تقسیم فرماتے رہے ۔حضرات شیخین دامت برکاتہم کی یہ خوش نصیبی تھی کہ دونوں قابل فخر بھائیوں کو شیخ الادب کے علم و عرفاں سے خوشہ چینی کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرات شیخین دامت برکاتہم نے آپ ؒ سے ابوداؤد شریف مکمل ،ترمذی شریف جلد ثانی اور شمائل ترمذی پڑھنے کی سعادت حاصل کی، جب کہ حضرت مدنی کی گرفتاری کے بعد بخاری شریف اور ترمذی شریف کا بقیہ حصہ بھی حضرت شیخ الادب ؒ سے پڑھا۔ مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ؒ اپنے عظیم استاذ کی نمایاں صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’آپ کی یہ ایک نمایاں خوبی تھی کہ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے اور سلام کرنے میں کسی دوسرے کو پہل نہیں کرنے دیتے تھے ۔آپ کی یہ صفت بھی نمایاں تھی کہ نہ تو آپ پان کھاتے تھے اور نہ کبھی کھِل کھِلا کے ہنستے تھے۔ وقت کے سخت پابند تھے، جونہی ان کے پیریڈ کی گھنٹی بجتی ،کھٹ سے کلاس میں داخل ہوجاتے، ادھر جب وقت ختم ہونے کی گھنٹی سنتے،جو لفظ منہ میں ہوتا اسے بھی چھوڑ کر جماعت سے باہر چلے جاتے۔ وقت کی قدر وقیمت سے آپ بخوبی آشنا تھے ۔وقت کی اہمیت کے متعلق آپ کا یہ فرمان بامقصد زندگی گزارنے والوں کے لیے باعث تقلید ہے: ’’ جو زمانہ گزر چکا، وہ ختم ہو چکا، اس کو یاد کرنا عبث ہے اور آئندہ زمانہ کی طرف امید کرنابس امید ہی ہے۔ تمھارے اختیار میں تو وہی تھوڑا وقت ہے جو اس وقت تم پر گزر رہا ہے۔‘‘

امام المفسرین حضرت مولاناحسین علی صاحب ؒ واں بھچرانوی 

حضرت مولاناحسین علی بن محمدبن عبداللہ ۱۲۸۳ ؁ھ میں واں بھچراں ضلع میانوالی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیداہوئے ۔آپ نے ابتدائی تعلیم واں بھچراں کے قریب ایک موضع ’’شادیا‘‘ میں حاصل کی۔ ابتدائی صرف ونحو اور فارسی نظم کی کتابیں اپنے والد حافظ میاں محمد ؒ سے پڑھیں۔ اس کے بعد موضع ’’سیلو ہال‘‘ میں دیگر کتب پڑھیں اور فنون کی تمام اونچی کتابیں مولانااحمد حسن کانپوری ؒ سے پڑھیں۔ ۱۳۵۲ھ میں حضرت مولانارشید احمد گنگوہی ؒ کی خدمت میں گنگوہ حاضر ہوکر حدیث پڑھی اور سند حاصل کی۔ ۱۳۵۳ھ میں عارف ربانی حضرت مولانامظہر نانوتوی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر تفسیر پڑھی۔ ۱۳۵۴ھ میں کانپور میں مولانااحمد حسن صاحب ؒ سے منطق ،فلسفہ وغیرہ فنون کی تکمیل کی۔

مولاناحسین علی صاحب ؒ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا وسیع علم عطا فرمایا تھا۔ خصوصاً تفسیر اورعلم حدیث و فقہ ۔علم کلام اورتصوف و سلوک میں بڑی وسیع دستگاہ رکھتے تھے اور بڑی ٹھوس علمیت اور استعداد کے مالک تھے۔ علم اسماء الرجال میں آپ کی نظر بڑی وسیع تھی۔ مختلف احادیث کی تطبیق میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ قرآن کریم کے ترجمہ اور مطالب بیان کرنے میں اور مضامین کے استحضار اور آیات اور سورتوں کا ربط بیان کرنے میں تو اپنی نظیر آپ تھے ۔آپ کاعلاقہ ناخواندگی اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت کے سبب شرک و بدعت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ آپ نے اس بدعت زدہ ماحول میں برس ہابرس کی محنت شاقہ سے توحید کی شمع روشن کی۔ آپ کی توحید باری تعالیٰ بیان کرتے ہوئے ایک بڑی علمی اور مؤثر بات یہ ارشاد فرمایاکرتے تھے: ’’توحیداپنے بیان کے لیے کسی تمہید کی محتاج نہیں‘‘۔ طلبہ دور دور سے استفادہ کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ خود کھیتی باڑی کرتے تھے اور طلبہ کے جملہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ آپ تقریباًساٹھ برس مسند تدریس پررونق افروز رہے اور شمع ہدایت کو فروزاں کیے رکھا۔ آپ روحانی تربیت کے لیے حضرت خواجہ محمد عثمان درمانی ؒ سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے ۔ان کی وفات کے بعد خواجہ سراج الدین ؒ کی طرف رجوع کیا اور ان سے ہی خلافت حاصل کی۔ وقت کے یہ عظیم مصلح ،مایہ ناز مفسر اور ممتاز محدث رجب ۱۳۶۳ھ میں اپنے رب رحیم اور مولائے رؤف سے جا ملے۔ 

حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم شریعت و طریقت دونوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔آپ نے اپنی ذات سے کبھی بھی ان کو جدا نہیں ہونے دیا ۔آپ اپنی علمی مجالس میں اپنے اکابر زاداللہ فیوضہم کے متعلق اکثر فرمایاکرتے تھے کہ ’’ہمارے اکابر رحمہم اللہ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی روحانی سلسلہ سے ضرور وابستہ تھے ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ ایک طرف علوم شرعیہ میں یکتاے روزگار تھے، وہاں وہ راہ سلوک و تصوّف میں مینارہ نور بھی تھے۔ چنانچہ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم نے سلسلہ نقشبندیہ میں پیر طریقت امام المفسرین حضرت مولاناحسین علی صاحب ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ آپ کے شیخؒ نے آپ کی علمی وروحانی ترقی کو دیکھتے ہوئے آپ کو خلافت کی خلعت فاخرہ سے نوازا۔ آپ زندگی بھر اپنے شیخ ؒ کے روحانی فیض کو تقسیم کرتے رہے اور شرک وبدعت اور رسوم و رواج کے اندھیروں میں حق و صداقت کی شمع جلاتے رہے۔ حضرت مولانا حسین علی صاحب ؒ آپ کے روحانی ومربی ہونے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن حکیم میں آپ کے استاد بھی تھے ۔آپ نے قرآن حکیم کے علوم و معارف اسی رجل مومن سے حاصل کیے۔ آپ قرآن حکیم کی تفسیر پڑھاتے ہوئے جابجااپنے شیخ ؒ کے تفسیری نکات پیش فرماتے، خاص طور پر ’’ربط ‘ ‘کے حوالے سے اپنے شیخ کی تصنیف ’بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان‘ کا حوالہ ان الفاظ سے دیاکرتے تھے: ’’ہمارے حضرت مرحوم، حضرت مولاناحسین علی صاحب ؒ اس کاربط یوں بیان فرماتے تھے۔‘‘ حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں کہ میں جب بیعت کے لیے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت نے اپنے دست مبارک سے ’’تحفہ ابراہیمیہ‘‘ کا ایک نسخہ مجھے عطافرمایااور ساتھ ہی فرمایا کہ اس کامطالعہ کرو اور اگر کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لو۔ چنانچہ میں نے ڈیڑھ گھنٹے میں اس کا مطالعہ کیااور بعض مقامات سے کچھ باتیں حضرت سے دریافت کیں، آپ نے ان کا جواب عنایت فرمایا ۔ حضرت مولانا حسین علی صاحب ؒ نے ’’تحفہ ابراہیمیہ‘‘ میں سلوک و تصوف اور حقائق و معارف کے اکثر مسائل نہایت ہی اختصار سے بیان کیے ہیں اور ان مسائل کو اس رسالہ میں درج کیاہے جن پر باطنی تربیت کا مدار ہے ۔ 

بطل حریت حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ 

حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی جون ۱۸۹۶ء کو مو ضع بفہ ضلع مانسہرہ حضر ت مولانا گل صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول ہی میں مکمل کی۔ ۱۹۱۰ ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا اور ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ دینی تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے پہلے مظاہر العلوم سہارنپورمیں داخلہ لیا، اس کے بعد صوبہ سرحد کے مشہور عالم مولانا رسول خان صاحب کی زیر نگرانی ۱۹۱۵ ء میں مرکز حق دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ ان دنوں حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے۔ ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۹ء میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری ؒ ، حضرت مولانا غلام رسول، ؒ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی سے دورہ حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔ حضرت مولانا محمد اسحاق کا نپوری امتحان میں اول اور آپ دوم آئے۔ حضرت قاری محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب جیسے عظیم اصحاب فضل وکمال آپ کے ہم سبق تھے۔ فراغت کے بعد حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحب (مہتمم دارالعلوم دیوبند ) کے ارشاد پر معین مدرس دارالعلوم میں تدریس کی، پھر جمعیۃ علمائے ہند کی تنظم کے لیے مولانا یوسف جونپوری ؒ کے ہمراہ پورے ہندوستان کا دورہ کیا اورحیدرآباد دکن کی ایک ہندو ریاست میں دوسال تک بطورمبلغ اسلام تبلیغی خدمات انجام دیں۔ آپ نے ۱۹۳۱ء میں ہزارہ میں سیاسی کام کا آغازکیا اور انگریز کے خلاف نبردآزما ہوے اور اس کے نتیجہ میں ۱۹۳۲ء کا پورا سال ایبٹ آباد اور بنوں کی جیلوں میں گزارا۔ جیل سے رہائی کے بعد ۱۹۳۳ء میں انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزائیت سے نبردآزما رہے۔ ۱۹۳۴ء میں مجلس احرار اسلام سے وابستہ ہوگے اور مرزائیت کے خلاف تحریک میں زبر دست حصہ لیا۔ پھر ۱۹۴۲ء میں انگریز بھرتی کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں شریک ہو کر پورا سال قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں نمایا ں کردار ادا کیا۔ ۱۹۵۶ء میں جمعیت علماے اسلام کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے ۔ ۱۹۵۸ء میں ایوب خان کے مارشل لا اور ۱۹۶۲ء میں عائلی قوانین کی غیر شرعی دفعات کے خلاف ڈٹ گئے۔ ۱۹۷۱ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۱ء میں عرب ممالک کا دورہ کیا اور ۱۹۷۲ء میں سرکاری حج وفد کے رکن کی حیثیت سے حج وزیارت کی سعادت حاصل کی۔

بہر حال اس پیکر جرات وعزیمت نے ساری زندگی دینی خدمت کرتے ہوے بار ہا قیدوبند، مقدمات، فاقہ کشی اور تکالیف کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ آپ نے زندگی کی جدو جہدکے تقریباً پچاس سال گزارے۔ آخری ایام میں گوشہ نشینی اختیار کر لی اور ۴ فروری ۲۹۸۱ ؁ء کی درمیانی رات ۲۸ ربیع الاول ۱۴۰۱ ؁ھ کو بفہ میں عارضہ دل میں مبتلاہو کر شب کو ساڑھے چار بجے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ زندگی کے آخری لمحات میں ’رب یسر ولاتعسر‘ کے الفاظ باربار دہراتے رہے۔ اس کے بعد کلمہ طیبہ آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جھٹکے سے اپنا منہ قبلہ کی طرف کرتے ہوئے محمد رسول اللہ ذرابلند آواز سے پڑھا اور اسی لمحے آپ کی روح مبارک جسم سے جدا ہوگی ۔ 

حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ حضرات شیخین کے ابتدائی اساتذہ میں سے ہیں۔ دونوں بھائیوں نے درس نظامی کی کتب کی ابتدا حضرت ہزاروی ؒ سے ہی کی۔ ۱۹۲۰ء میں حضرات شیخین کی والدہ محترمہ کے بعد آپ کے پھوپھی زادبھائی سید فتح علی شاہ صاحب ؒ آپ کو اور آپ کے برادر عزیز کو پڑھانے کے لیے اپنے ساتھ اپنے گاؤں ’’لمیّ‘‘ لے آئے۔ شاہ صاحب ؒ فرماتے تھے کہ میرے ماموں محترم نور احمد خان مرحوم ؒ مجھے فرمایاکرتے تھے کہ میرے ان دونوں بیٹوں کودینی تعلیم پڑھائیں اوریہ بات تاکید اًفرماتے تھے کہ ا ن دونوں بچوں کو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورفقہ اسلامی کی تعلیم سے ضرور آراستہ کریں۔ شاہ صاحب چونکہ خودباضابطہ مکمل عالم دین نہ تھے، اس لیے انہوں نے دونوں بھائیوں کو تحصیل علم کے لیے ملک پور (مانسہرہ ) کے ایک دینی مدرسہ میں داخل کروا دیا جس کے مہتمم نگران حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ تھے۔ حضرات شیخین نے ملک پور اور بفہ (مانسہرہ )میں آپ کے زیر سایہ درس نظامی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم نے علم نحو کی ابتدائی کتاب نحومیر اور مسائل دینیہ پرمشتمل مختصر ابتدائی کتاب تعلیم الاسلام حضرت ہزاروی سے ہی پڑھی۔

آپ اپنے استاد محترم کی جرات وشجاعت، حق گوئی وبے باکی اور تواضع وانکساری سے بے حد متاثر تھے۔ اکثر ان کی جرات اور حق گوئی وبے باکی کے واقعات طلبہ کو سناتے تاکہ ان کے اذہان وقلوب میں عظیم شخصیات کی صفات نقش ہوں اور وہ ان کے روشن کردار کو اپنے لیے قابل تقلید سمجھیں۔ حضرت ہزاروی ؒ اپنے دونوں قابل فخر تلامذہ پر بہت شقفت فرمایا کرتے تھے۔ آپ اکثر مدرسہ نصرۃ العلوم تشریف لاتے اور ادارہ کی تعلیمی وتدریسی اصلاحی ترقی کو دیکھ کر انتہا ئی خوشی کا اظہار فرماتے۔ حضرت ہزاروی نے مدرسہ نصرۃ العلوم کے قیام کا ابتدائی زمانہ دیکھا تھا۔ جہاں آج کل مدرسہ کی عظیم عمارت ہے، وہاں اس دور میں ایک بڑا تالاب ہوتا تھا۔ ابتدا میں اس تالاب کے کنارے مٹی وغیرہ ڈال کر مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ مسجد اور مدرسہ کے کمرے کچے ہوتے تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے مرکز حق کو تعلیمی عروج عطا فرمایا تو مسجد اور مدرسہ کی عمارت پختہ تعمیر کی گئی۔ حضرت ہزاروی ؒ نے جب اس ترقی کو دیکھا اور مسجد اور مدرسہ میں وسعت دیکھی اور تعلیمی سرگرمیاں ملاحظہ کیں تو ایک موقع پر اپنی تقریر میں خوشی کا اظہار کرتے فرمایا: ’’ مولوی کوتو بس پاؤں رکھنے کی جگہ چاہیے، آگے سب کچھ بن جاتا ہے۔ ‘‘ 

(باقی)

شخصیات

(اپریل ۲۰۰۹ء)

تلاش

Flag Counter