احیائے ثقافت اسلامی کی تحریک

حافظ صفوان محمد چوہان

دعوت و تبلیغ کا کام اپنے معروف معنوں میں حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے شروع ہوتا ہے۔ جتنی انسانی آبادی اُن کی حیات تک موجود رہی وہ اُس سب کے باپ اور مربی تو تھے ہی، اُن کے نبی اور رسول بھی تھے۔ اپنی اولاد کو خالقِ کائنات کا تعارف کرانا، اُس کی مرضیات پر چلنے یعنی اطاعت و عبادت پر آمادہ کرنا، زخارفِ دنیا میں الجھ کر راہ گم کردینے کے بجائے آخرت کو مطمحِ نظر بنائے رکھنے پر لانا، وغیرہ، سب امور اُن کے فرائضِ منصبی تھے۔ اِن فرائض کو ایک باپ اور ایک نبی کی حیثیت سے ادا کرتے کرتے وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔ 

اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے جن مردوں کو نبوت اور رسالت جیسے عالی منصب کے لیے انتخاب کیا اُن کی زندگیوں میں یہ دونوں خصوصیات کچھ ایسی واضح اور تواَم نظر آتی ہیں کہ گویا اُن کی فطرتِ ثانی ہوں، یعنی باپ والی شفقت کے ساتھ امت کے مرد و زن کو اِطاعتِ خالق پر آمادہ کرنا۔ جتنے بھی نبی دنیا میں تشریف لائے وہ اللہ کی حدود کو پھلانگنے والے مجرموں اور اللہ کی اطاعت کے نشے میں مدہوش بندوں، دونوں طرح کے آدمیوں کے لیے یکساں محبت اور شفقت کا پرتو ہوتے تھے۔ 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے آخری نبی بناکر دنیا میں بھیجا اور اُن کی بعثت کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند کردیا۔ دنیا میں آنے والے پہلے نبی سے لے کر آخری نبی تک سب انبیاء ایک ہی مقصد لے کر آئے، یعنی مخلوق کو خالق سے جوڑنا۔ اِس مقصد کے پورا کرنے کے لیے نبی مخلوق میں سے کسی سے بھی سے کسی نفع کا طالب یا متمنی نہیں ہوتا بلکہ اپنی جان پر جھیل کر یہ کام کرتا ہے۔ ہر نبی نے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنا اجر سوائے اللہ کے اور کسی نہیں چاہتا۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا علیٰ رَبِ العٰلَمین سب نبیوں کی اجتماعی آواز ہے جسے قرآنِ پاک نے محفوظ کیا ہے۔ یہ تبلیغِ دین کے کام کی اصالت کا معیار ہے۔ جس طرح کوئی باپ اپنی اولاد کے لیے نفع رسانی کی کوئی بھی کوشش کسی مالی یا دنیاوی منفعت کی حرص یا امید میں نہیں کرتا بلکہ خالصتًا باپ ہونے کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اور شفقتِ پدری کی وجہ سے کرتا ہے اُسی طرح نبی بھی ہر ہر امتی کو جنت کے دروازے پر لاکھڑا کرنے کے کام کی مشقت اپنی ذمہ داری اور امت کے لیے بے کراں، بے تعصب اور بے میل شفقت کی وجہ سے اُٹھاتا ہے۔ بندوں کا بندوں میں نبی سے زیادہ بے غرض پرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ 

یہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اِسی شفقت اور محبت کا نتیجہ تھا اور اپنوں پرائیوں ہر ایک کو دنیاوآخرت کی بھلائیوں اور کامرانیوں کا حقدار بنانے پر مصر اور تُلا ہونا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی ساتھی (رضوان اللہ علیہم اجمعین) آپ پر دل و جان سے فدا تھے اور ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘‘ کے خیرمقدمی الفاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور تخاطب کرتے تھے۔ اِس شفقت اور محبت کا امت میں ظہور یوں ہوا کہ صحابہؓ اپنی جان کو اپنے مسلمان بھائی کے مقابلے میں ہلکا جانتے تھے۔ دنیا کا فائدہ درپیش ہوتا تو خود کو پیچھے کرلیتے اور دین کے لیے مشقت کا کام سامنے آتا تو خود کو آگے کرتے۔ کہیں نام آوری یا ناموری کا موقع بنتا تو منھ پر کپڑا ڈال لیتے اور کہیں جان دینے کا موقع بنتا تو آگے آگے ہوتے۔ زندگی کی آخری سانس تک اور قبر کے گڑھے میں اُترتے تک اپنے بھائیوں پر ایثار کرتے۔ اُن میں کا دکاندار اپنے گاہک کو خود دوسرے دکاندار کی دکان پر بھیج دیتا تھا کہ اُس کی بھی بِکری ہوجائے۔ یوں ایک ایسا ماحول وجود میں آگیا تھا جس میں ہر ایک کا جان و مال محفوظ تھا۔ ہر ایک کا کاروبار ترقی بھی پارہا تھا۔ حتٰی کہ زکوٰۃ کا مستحق کوئی نہ ملتا تھا۔ اور یہ دنیاوی آسائش و ترقی صرف آنکھ بند ہونے تک کے زمانے کے لیے نہیں تھی بلکہ اُخروی درجات کی ترقی کا ضمیمہ بھی تھی۔ یہ سب اِس لیے ہوا کہ ایمان سازی سے مملو افراد سازی کی ایک مسلسل محنت کی وجہ سے اِن لوگوں میں ایمان جیسی بے مثال قوت، اعمال جیسا کارگر ہتھیار اور حیا جیسا یکدانہ جوہر وجود میں آچکا تھا۔ 

محبت اور شفقت کے یہ مظاہر مسلمانوں میں صرف اپنے دینی بھائیوں کے لیے مخصوص نہیں رہے تھے بلکہ تمام مخلوق اِن سے منتفع ہورہی تھی اور غیرمسلموں سے معاملت حتٰی کہ جانوروں سے سلوک تک میں یہ اثرات نفوذ کیے ہوئے تھے۔ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سالہا سالی مشقت مدینۂ منورہ اور تمام فرماں روے اسلام کے اندر اِس ماحول اور اِس ثقافت کو وجود میں لانے کا سبب بنی تھی جس میں تحفیظِ مراتب یعنی بڑے چھوٹے کا لحاظ ملاحظہ، حقوقِ انسانی کی پاسداری اور تمام مخلوق سے اللہ کے حکم کے مطابق اور موافق سلوک کرنا ہی فخرومباہات کا باعث تھا نہ کہ دنیا کی چیزوں اور عہدوں کا کسی کی ذات میں جمع ہوجانا یا کرلیا جانا۔ 

لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب برکات ضمنًا حاصل ہوئی تھیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، ملازمتوں، ترقیاتی منصوبوں اور بڑے منصوبوں (Mega Projects) کا اعلان کسی نبی نے نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی اِس بات کا اعلان نہیں کیا کہ مجھے لوگوں کی معاشی صورتِ حال بہتر کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے یا میری بعثت کا مقصد امن و امان کی صورتِ حال کی بہترائی ہے۔ یہ سب خوبیاں جن کے حاصل کرنے کے لیے آج پوری دنیا میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور جن کے حصول کے لیے سب سے زیادہ خرچ کیا جارہا ہے، اللہ کا انعام ہیں۔ انعام صرف اُسے ملتا ہے جس سے انعام دینے والا راضی ہو۔ قرنِ اوّل کے مسلمانوں کو یہ انعامات اِس لیے ملے کہ وہ دین اور اشاعتِ دین کو اپنی زندگیوں میں پہلے نمبر پر رکھے ہوئے تھے اور بقیہ سب ضروریات کو ثانوی درجہ دیتے تھے۔ آج مسلمان نے اپنی زندگی کی ترجیحات بدل دی ہیں اور ثانوی درجہ والی چیزیں پہلے درجے پر لے آیا ہے۔ یوں اللہ ناراض ہوگیا ہے، اور وہ سب انعامات ملنا بند ہوگئے ہیں جو پہلے ملا کرتے تھے۔ دنیا میں امن و آشتی، راحت، شجاعت، غیرت، ایمان، حیا اور اِس قبیل کی ساری برکات کا اُترنا بند ہوگیا ہے۔ غیرمسلموں کو تو امن وآشتی جیسی چیزیں ملی ہی مسلمانوں کی وجہ سے تھیں۔ جب خود اُن پر ہی یہ انعامات بند ہوگئے ہیں تو اُن کے طفیلیوں کو یہ کیسے ملیں؟ 

بحیثیتِ امت مسلمان آج اپنا مقصد بھول چکے ہیں۔ افسوس پر افسوس اِس بات کا ہے کہ امت یہ بھولنا بھی بھول چکی ہے۔ یوں منزل کھوبیٹھنے کے احساس سے تہی ایک انبوہِ مردوزن ہے جو بے مقصد سرگرداں ہے۔ ہر چمکتی چیز اور ہر نئی آواز کی طرف دیوانہ وار لپک جانا اِن پر ختم ہے۔ ایک طرف سے دھتکار پڑتی ہے تو یہ دوسری طرف رخ کرلیتے ہیں۔ وہاں سے بھی جوتا پڑتا ہے تو کسی تیسری اور پھر چوتھی طرف منھ کرلیتے ہیں۔ اور پھر بے مزا نہ ہونے کے مصداق پہلی ہی طرف کو مڑ آتے ہیں کہ شاید ہماری کوئی ضرورت اب پھر پیدا ہوگئی ہو۔ جس امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبلے کی طرف منھ کرکے نماز پڑھتا چھوڑکر گئے تھے، آج دنیا میں ہر سَمت اپنا قبلہ رکھتی ہے: کہیں منھ کرکے نیت باندھ کر مال مانگتی ہے، کہیں اسبابِ حفاظت اور صحت کے حصول کے لیے سجدہ ریز ہے، کہیں نظامِ تعلیم کی عطا کے لیے منزل انداز ہے، اور کہیں محض تعلقات اُستوار رکھنے کے لیے ناک سے لکیریں کھینچ رہی ہے۔ لامقصدیت امت کا سب بڑا سانحہ ہے۔ امت کی ایسی مت ماری گئی ہے کہ یہ اپنے صیاد کو اپنا ہمدرد سمجھے ہوئے ہے۔ وہ اِسے مرغیوں کی طرح پالتا ہے، اور یہ یہ سمجھتی ہے کہ اُسے چوگا اپنے ذاتی فائدے کے لیے دیا جارہا ہے۔ ملکوں ملکوں کشکول بجاتے پھرنے اور دنیا زادگی کی نحوست نے مسلمان سے اُس کا جوہر اور پہچان چھین لی ہے۔ ؂

مایا کے جادو نے گیان کے لکھشن بندھن توڑے
جوگی جی سے مالا چھوٹی، سادھو سے لنگوٹ

جوں جوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے بُعد ہوتا گیا، اعمالِ دعوتِ دین کو مقصد کے درجے میں رکھ کر کرنے میں تدریجًا کمی ہوتی گئی ۔ دین کا فکر رکھنے والے اسلاف اِس انحطاط کو دور کرنے کی سعی فرماتے رہے۔ ماضیِ قریب یعنی تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں بھی کئی لوگوں اور جماعتوں نے امت کو مقصد پر لانے کی کوششیں کی ہیں۔ مدارِس، مساجد، اشاعتِ کتب اور دورِحاضر کے تمام آلاتِ نشرواشاعت کو استعمال کرتے ہوئے دین کے پھیلانے کی فکر کرنا، راہ بھٹکی ہوئی امت کا غم کھانا اور اصلاحِ احوال کی فکر کرنا اللہ نے کئیوں کو نصیب کیا۔ کچھ راستہ چلنے کے بعد یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اِبطال اور انکار یا مناظرہ کی بجائے، یا اپنے ظن و تخمین یا اپنی خواہشات کو کسی من پسند یا مطلوب سانچے میں ڈھال کر اُس کا نام اشاعتِ دین رکھ دینے کی بجائے، دین کو خالص شکل میں پیش کرنا اور اُس پر لوگوں کو چلنے پر آمادہ کرنا ہی اصل ہے کیونکہ دین صرف دین ہی کی محنت سے آئے گا؛ اور یہ کہ کسی بات کا صرف پہنچادینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو اُس پر لے آنا زیادہ نفع مند ہوتا ہے۔ اِن غمخوار مصلحینِ کرام پر یہ بھی کھلا کہ لوگوں کو ایک طرزِزندگی سے دوسرے طرزِزندگی پر لے آنے میں اُن کے ماحول کا بدلنا، خواہ عارضی طور پر سہی، بنیادی شرط ہوتا ہے۔ آج جب کہ مصروفیت سب سے بڑا عذاب ہے اور وقت کسی کے پاس نہیں، اللہ نے امت پر رحم کیا اور حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ پر دین کے زندہ کرنے کی محنت اور امت کو مقصد پر لانے کا کام ایسے انداز میں کرنے کا ڈھنگ کھولا جو اپنی بُنت، ڈھب اور شباہت میں اصلِ اوّل سے قریب ترین بھی ہو اور امت کا بلاتخصیص ہر طبقہ انتہائی قلیل وقت میں دین کی مبادیات کا ضروری علم ، تجربے کے ساتھ حاصل کرسکے۔ ماحول میں چونکہ دینداری بہت کم ہے اِس لیے ایک آدمی محنت و ریاضت سے خواہ دین کے کیسے ہی بلند مقامات کو پاچکا ہو، کے لیے کچھ وقت کے بعد اپنے سب مشاغل کو ملتوی کرکے خالص دین کے ماحول میں کچھ وقت گزارنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سلامتیِ قلب اور تطہیرِ فکرونظر کا یہ مقصد جس کی ضرورت سے کوئی مسلمان بے نیاز نہیں رہ سکتا، پہلے خانقاہوں سے بتمام و کمال حاصل ہوجاتا تھا لیکن آج کی مصروف زندگی کی وجہ سے کاروبارِ حیات کو تج کر دنیا سے یکسو ہوجانا اور ایک بڑی مدت تک کسی اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کرکے دین والی زندگی کو سیکھنا امت کے بڑے طبقے کے لیے اب ممکن نہیں رہا۔ جب دین کی طلب اور اعمال کا ذوق و شوق ہی باقی نہ رہا ہو، اللہ کی جناب میں حضوری کا احساس ہی مرگیا یا کم سے کم مضمحل ہوگیا ہو، اور سنن و مستحبات تو الگ رہے فرائض بھی بوجھ محسوس ہونے لگے ہوں تو خانقاہوں میں کون جائے؟ یہی وجہ ہوئی کہ ازاں جملہ تبلیغی جماعت کے عرف سے موسوم اِس چلتی پھرتی خانقاہ کو جس میں دین کے مبادیات ہی کا نہیں بلکہ جس میں ہر امتی اپنے دنیاوی شغل کو دینی ترتیب پر چلانے کا ڈھنگ بھی بہت ہی کم وقت اور انتہائی کم خرچ میں ہاتھ کے ہاتھ سیکھ لیتا ہے، اللہ پاک نے قبولِ عام عطا فرمایا۔ 

امت کے لیے درد اور کڑھن کی جو کیفیت اللہ پاک نے مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ کو ودیعت کی تھی، اُس میں وہ اپنے سب معاصرین میں ممتاز تھے۔ امت کے مذہبی جذبات ومیلانات، صلاحیتوں اور مالی وسائل کو جس طرح بے جگہ اور عارضی (اور بیشتر دنیاوی) مقاصد کے حصول کے لیے جھونکا اور جھونکوایا جارہا تھا، اللہ نے حضرت مولاناؒ پر اِسے پوری بصیرت کے ساتھ روشن کردیا تھا۔ کہیں ابنائے زمانہ کی چیرہ دستیوں اور کہیں دین فروش یا سادہ خیال اصحابِ کلاہ و دستار کے ہاتھوں لُٹنے پُٹنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار اور اِس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی بربادی کے اِس ادراک نے اُن کو وہ بے آرامی نصیب فرمادی تھی جو دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذی ہوش اور راہ دان مقتداؤں کا جوہرِ اصلی رہی ہے151 دین کے مٹنے کے غم کی شدت سے ہونے والی وہ بے آرامی جو نیندیں اُڑادیا کرتی ہے۔ 

مولانا محمد الیاس رحمۃاللہ علیہ کا کام کثیرالمقاصد ہے۔ دراصل اُس اسلامی ثقافت کا اِحیا اُن کا مقصدِ وحید ہے جس نے قرونِ اوّل کے اُن لوگوں کو جو ایک وقت میں انسانیت کے نام پر دھبہ تھے، ستاروں کو نشانِ راہ دکھانے والا بنادیا۔ یوں امت سازی یعنی امت کو صحیح الفاظ اور مفہوم میں امت بنانے کا کام دعوت و تبلیغ کا مقصد ہے۔ اِس میں کلام نہیں کہ مساجد و مدارس وغیرہ شعائراللہ ہیں۔ لیکن ذرا سا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ہی بذاتِ خود اللہ کا سب بڑا شعیرہ ہے۔ اِسی لیے تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کعبہ کی حرمت سے ایک عام مسلمان کی جان قیمتی ہے۔ دین کی طلب سے خالی، اللہ سے غافل اور روٹھے ہوئے مسلمان کو اللہ کے سامنے جھکادینا اور اللہ سے دوستی کرلینے پر آمادہ کرنا، مسلمان کا سب سے بڑا اِکرام ہے۔ اِسی طرح ایک کافر جو اپنی کم قسمتی سے یا اسلام کی حقیقی، عملی تصویر سامنے نہ ہونے کے باعث ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بننے کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہا ہے، کے جی میں تلاشِ حق کے شعلے کو روشن کرنا اور پھر اِس شعلے کو ہوا دینا، منت و زاری سے اور سمجھابجھاکر اسلام کی نعمت سے بہرہ مند کردینا151 اولادِ آدمؑ میں کے ہر غیرمسلم انسان کا بنیادی انسانی حق (human right) ہے۔ قیامت کے دن حقوق کی اَدائی کے بارے میں سوال ہوگا۔ دعوت و تبلیغ کی محنت سے امت کے اندر یہ احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہر مسلمان بحیثیتِ فردِ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا سفارت کار ہے اور دنیا بھر کے انسانوں کے حقوق کی اَدائی کے سلسلے میں فعّال کردار ادا کرنے پر مامور اور اِس ضمن میں اپنی ذاتی اعانت اور دین کے اجتماعی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنے کی بابت اللہ کو جوابدہ ہے۔ 

حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کام میں کسی گروہ، مسلک یا فرقے کے لیے نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ، نِری اُس کی مسلمانی کی وجہ سے، راستہ کھلا رکھا۔ یوں مختلف خانوں میں بٹے ہوئے اور ذات برادری، علاقوں، زبان اور پیشوں کے کھونٹوں سے بندھے اور کولھوؤں میں پِلتے مسلمانوں کو صرف اور محض مسلمان ہونے کی وجہ سے ایک جگہ پر اِکٹھا ہونا نصیب ہوا۔ اِس اِکٹھا ہونے سے مسلمانیت سرسبز ہوئی اور جگہ جگہ دین پر بہار آنا نظر آنے لگا ہے۔ اسلام کی ثقافت جس کے رنگ پھیکے پڑگئے تھے اور جو بساحالات دوسری ثقافتوں میں رل مل کر اپنی ایکیت اور وضاحت کھوبیٹھی تھی، ایک بار پھر پنپنے لگی ہے۔ دنیا بھر میں گھروں کے اندر اسلامی معاشرت اور محلوں میں اسلامی کلچر زندہ ہوا ہے۔ دعوت و تبلیغ میں لگنے والے لوگوں کے چارٹر میں پوری دنیا میں دین کو زندہ کرنا (صرف پھیلانا نہیں) پہلے نمبر پر ہے۔ پہلے دور میں یہ کام ہر مسلمان کیا کرتا تھا۔ آج اِس آواز کے لگانے والے یہ واحد لوگ ہیں جو اللہ کی توفیق سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو جگا رہے، اُنھیں اُن کا کام و مقصد یاد دلارہے اور مقصد پر واپس کھینچ لانے کے لیے اللہ کی زمین میں بے تابانہ پھر رہے ہیں۔ 

اللہ کا شکر ہے کہ تبلیغ کی اِس محنت کی برکت سے دینی جماعتوں میں ایک دوسرے کی ضرورت اور خوبیوں کے اعتراف، ساتھ مل کر چلنے اور برداشت کا کلچر پیدا ہوا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا ایک مسلک پر جمع ہونا ممکن نہیں، البتہ دین سب کا مشترک ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جو ایک وقت میں ازالۂ منکَر کا نقیب ہوتا تھا اور جو ہماری کم قسمتی کی وجہ سے کہیں اشاعتِ مسلک کا نمائندہ اور کہیں محض اظہارِ منکَر بن کر رہ گیا تھا، بحمداللہ اپنے قدیم، روایتی معنوں میں زندہ ہوا اور دینی جماعتیں151 اشاعتِ مسلک اور وقتی ضرورتوں اور ضرورتِ حادثہ کی پیداکردہ خودبافتہ ترتیبوں پر چلنے کے ساتھ ساتھ151 دین کی اجتماعی فکر پر جمع ہونے لگیں۔ اجتماعیت اور نقل و حرکت وہ بنیاد تھی جس پر اِس امت کا ’’امت پنا‘‘ اُستوار تھا۔ آج یہ بنیاد کمزور پڑگئی ہے۔ جماعتوں کا یہ پھرنا پھرانا بحمداللہ اِسی بنیاد کو بھررہا اور مضبوط کررہا ہے۔ ؂

مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے

رائے ونڈ کا اجتماع بھی اِسی سلسلے ہوتا ہے کہ امت اپنے کام کو پہچانے، اپنی حیثیت پہچانے اور اپنے کام پر واپس آجائے۔ سروں کا گننا، سیاست گردی، دنیا طلبی، کرسیوں اور کرسی داروں کی ہواخواہی، وغیرہ، کا یہاں گزر نہیں۔ اجتماعِ حجِ بیت اللہ کے بعد یہ واحد فورم ہے جہاں ہر مشرب، طبقے، زبان اور ملک کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور اپنی آتشِ مسلمانی کو ہوا دیتے ہیں۔ اللہ پاک مجھے، آپ کو اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو اِس عالی کام میں لگنے کی توفیق دے۔ یہ کام سراسر عمل ہے، باتیں نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ اِس نقل و حرکت اور اجتماعیت کی حفاظت فرمائے، قربانی اور صفات میں مزید آگے بڑھنے والا بنائے اور تمام عالم میں دین کی سرسبزی اور شادابی کو سر کی آنکھوں سے دیکھنا نصیب فرمائے۔ آمین۔ 

اسلامی تحریکات اور حکمت عملی

(جنوری ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter