فضلائے مدارس کے علمی و روحانی معیار کا مسئلہ

مولانا عبد الحق خان بشیر

(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام تربیتی ورکشاپ سے خطاب۔)


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد!

صدر گرامی قدر ، معزز علماے کرام!

اساتذہ کی تربیت کے سلسلے میںیہ نشست منعقد کی گئی ہے۔ اگرچہ میں تدریس کی لائن کا آدمی نہیں ہوں، لیکن چونکہ مدارس کے اندر وقت گزارا ہے، اس لیے چند باتیں عرض کروں گا۔

ایک مسئلہ ہے نصاب میں تبدیلی کا تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، حضرت شیخ الہندؒ اور امام انقلا ب مولانا عبید اللہ سند ھی ؒ کے دور سے نصاب میں تبد یلی کی ضرورت بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور اپنے طور پر کوششیں بھی ہوئی ہے کہ اس نصا ب میں کچھ ایسی ترامیم کی جائیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہو ں۔ حضرت حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے بارے میںآتاہے کہ بحری سفر کے دوران ایک جرمن سے ان کی گفتگو ہوئی۔ وہ انگلش جانتا تھا، عربی نہیں جانتا تھا۔ حضرت نانوتویؒ عربی جانتے تھے، انگلش نہیں جانتے تھے۔ درمیان میں ترجمان مقرر کرنا پڑا تو اس وقت حضرت نانوتویؒ نے ارادہ ظاہر کیا کہ واپسی پر میں سب سے پہلے انگلش سیکھوں گا۔ گویا حضرت نانوتو ی ؒ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وقت کے تقاضوں کے مطا بق علما کے لیے انگلش کا جاننا بھی ضروری ہے۔ حضرت امام انقلاب مولانا عبید اللہ سند ھی ؒ نے تو اس کی طرف خصوصی توجہ دی۔ حضرت سندھی ؒ کا موقف یہ تھا کہ ہمارے نصاب کے اندر امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتابو ں کو خاص اہمیت دی جانی چاہیے، کیونکہ ان کتابوں کے اندر وقت کے تقاضوں کے مطابق وہ تمام چیزیں موجود ہیں جن کی آگے علما کو ضرورت پیش آسکتی ہے۔ 

ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ نصاب کا ہے۔ اس کے بعد بڑا مسئلہ نظام کا ہے، لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع ’’دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی تربیت اور اس کے تقاضے ’’ہے کہ اساتذہ جو ہمارے دینی مدارس میں پڑھانے کے لیے مقرر ہیں، کیا وہ اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اپنا حق ادا کر رہے ہوتے تو آج قحط الر جال کا دور نہ ہوتا۔ ہمیں ایک مدرس کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں بیسیوں مدارس سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔ باوجود اس کے کہ ہر سال ہزاروں علما فارغ التحصیل ہوتے ہیں، پھر بھی ان میں سے تدریس کے منصب پر بیٹھنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور ہمیں ان کی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ اور اب تو حالت یہ ہے کہ اوپر میز پر استاد نے کتاب کھولی ہوتی ہے اور نیچے دراز میں شرح کھولی ہوتی ہے۔ کبھی کتاب کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی شرح کی طرف دیکھتا ہے اور سبق پڑھاتا ہے۔ ایسے استاد سے کوئی شاگرد اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا اظہار کرے گا تو اسے ڈانٹ نہیں پڑے گی تو اور کیا ہوگا؟ اس کیفیت میں نہ وہ شاگرد اپنے استاد سے استفادہ کر سکتا ہے اور نہ استاد ہی اپنا فیض اسے منتقل کر سکتا ہے ۔

کسی بھی استاد کے لیے سب سے بنیادی اورضروری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ طلبا کی نفسیات کو سمجھتا ہو۔ جو استاد طلبا کی نفسیات سے واقف نہ ہو، وہ صحیح طور پر تعلیم نہیں دے سکتا۔ استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ میری کلاس کا فلاں طالب علم کتنی استعداد کا مالک ہے، اس میں کس قدر صلاحیتیں ہیں، اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔ میں نے محدث کبیر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کاشمیری ؒ کے بارے میں پڑھا ہے کہ حضرت کبھی اپنے طلبہ کا امتحان نہیں لیتے تھے۔ ان کو اپنی کلاس کے ایک ایک طالب علم کی ذہنی استعداد کا پتہ ہوتا تھا، حالانکہ ان کی کلاس میں سینکڑوں طلبہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن جب امتحان کا وقت آتا ، علامہ کاشمیری ؒ رجسٹر دیکھتے اور امتحان لیے بغیر وہیں بیٹھ کرنمبر لگا دیتے تھے، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ اس طالب علم کی استعداد کیا ہے اور اس کی نفسیات کیا ہے۔

چونکہ دینی تعلیم کا تمام تر انحصار روحانیت پرہے، اس لیے دینی تعلیم کا حق وہی مدرس صحیح طور پر ادا کر سکتا ہے جس میں روحانیت، خشیت اور اخلاص پورے طور پر موجود ہے۔ اور اگر کوئی مدرس روحانیت سے خالی ہے تو چاہے وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، وہ دینی تعلیم کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس سے مجھے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ حضرت سے کسی نے پوچھا کہ جب آپ بیان کرتے ہیں تو عجیب وغریب نکات بیان کرتے ہیں۔ آپ نے کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟ تو حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ میں نے تین کتابیں پڑھی ہیں، انہی کتابوں کا فیض میرے اندر موجود ہے۔ ان میں سے پہلی کتاب کا نام ہے حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ، دوسری کا نام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، اور تیسری کتاب کانام مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ ان چلتی پھرتی کتابوں کے فیض یافتہ تھے اور اگر تعلیم کا تعلق پریکٹیکل کے ساتھ ہے تو استا د کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ طلبا اپنے استاد کے صرف الفاظ پر نہیں بلکہ طرزعمل پر بھی نگاہ رکھتے ہیں۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ آج ہم اپنے دینی مدارس میں اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے نظام تعلیم کی کوتاہیاں ہمیں مسلسل زوال کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس خانقاہی نظام سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے خانقاہی مدارس سے ہی روحانیت ملتی تھی، ہمارا تزکیہ ہوتا تھا، ہم میں خلوص اور للہیت پیدا ہوتی تھی، لیکن خانقاہی مدارس کے ختم ہونے کے بعد اب اگرچہ ممکن ہے کہ ہمیں اچھا بخاری شریف پڑھانے والا مل جائے، اچھا مسلم شریف پڑھانے والا مل جائے، اچھاجامی وکافیہ پڑھانے والا مل جائے، لیکن ایسا مدرس جو طلبا کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہو، ایسے مدرس ہمارے ہاں بہت کم ہیں، اس لیے کہ ہمارے مدارس میں روحانی تربیت باقی نہیں رہی۔ تو نصاب کی وجہ سے علمی طور پر زوال تو آ ہی رہا تھا، اب خانقاہی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے روحانی زوال بھی آرہا ہے۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter