- انسانی حقوق کے عالمی دن ۱۰؍ دسمبر کے موقع پر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک خصوصی فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانازاہد الراشدی نے کی اور اس سے ممتاز ماہرتعلیم پروفیسر غلام رسول عدیم، مولانا مشتاق احمد چنیوٹی اور اکادمی کے ناظم پروفیسر محمد اکرم ورک نے خطاب کیا۔
مولانا زاہد الراشدی نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا نقطہ آغاز بارہویں صدی عیسوی کا میگنا کارٹا بتایا جاتا ہے جو بلاشبہ مغربی دنیا کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اسلام نے اس سے چھ سو برس پہلے معاشرہ میں انسانی حقوق کا علم بلند کیا تھا اور نہ صرف یہ کہ عوام کو خلیفہ کے انتخاب کا حق دیا بلکہ آزادی رائے، حکومت کے احتساب اور بیت المال سے مستحق لوگوں کی کفالت کا حق بھی سوسائٹی کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آج بھی مغربی دنیا سے کہیں زیادہ فطری انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور انسانی سوسائٹی کو فلاح اور کامیا بی کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے خطا ب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی طرز پر انسانی حقوق کے اسلامی چارٹر کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اسلامی سر براہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کو موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
پروفیسر غلام رسول عدیم نے خطا ب کرتے ہوئے کہاکہ مغرب نے انسانی حقوق کے زیر سایہ فلسطین، عراق، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں عوام کے بنیادی حقو ق کو جس طرح پامال کیا ،ہے اس نے انسانی حقوق کے حوالے سے مغر ب کے دوہرے معیار کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کاڈھنڈوراپیٹنے والوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کس طرح وہ انسانی معاشرہ میں اپنے مفادات کی خاطر مظلوم قوموں اور ملکوں کے عوام کے حقوق کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ - ۱۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی میں علماے کرام، طلبہ اور دیگر اہل دانش کی ایک بھرپور نشست منعقد کی گئی جس میں بھارت کے ممتاز عالم دین اور ندوۃ العلما لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا سید سلمان الحسینی الندوی نے خطاب کیا۔ نشست کی صدارت الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور اس سے مولانا قاری سیف اللہ اختر، مولانا حافظ محمد یوسف اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا۔
مولانا سید سلمان الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے جسے پورے کا پورا قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اس طرح حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے کہ جس حکم کو چاہا قبول کر لیا اور جسے نہ چاہا نظر انداز کر دیا۔ قرآن کریم نے ایسے طرز عمل کی مذمت کی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے یہ طرز عمل اختیار کیا تو ان پر ذلت ورسوائی مسلط کر دی گئی جبکہ آج ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مکمل دین کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے اور ہر خانے میں کام کرنے والے مسلمان اپنے اپنے دائرے پر قناعت کیے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے آج امت مسلمہ دنیا میں عزت ووقار اور وحدت سے محروم ہو چکی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے سب کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔ جس جرم پر بنی اسرائیل کو ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا پڑا، ہمارے لیے اس جرم کی سزا اس سے مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ علماے کرام کا کام صرف لوگوں کو عبادات سکھانا اور نماز روزے کے مسائل بتانا نہیں ہے بلکہ زندگی کے دوسرے معاملات میں ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں شریعت کے مطابق مسائل سے آگاہ کرنا بھی علماے کرام کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ دینی تعلیم کو صرف مساجد ومدارس تک محدود رکھنا دین کے تصورکو محدود کر دینے کے مترادف ہے جبکہ دین کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے اور قرآن وسنت میں عقائد وعبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق ومعاملات، تجارت، معیشت، سیاست، عدالت اور دیگر معاملات کے لیے بھی واضح راہ نمائی موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ علماے کرام کو دینی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے اور سوسائٹی کی جو بھاری اکثریت دینی مدارس میں نہیں آتی، انھیں دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کرنے کا پروگرام بھی تشکیل دینا چاہیے۔
مولانا قاری سیف اللہ اختر نے اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شعبہ میں دین کا کام کرنے والوں کو دوسرے دینی شعبوں کے کام کا احترام کرناچاہیے اور باہمی تعاون واشتراک کے ساتھ دینی جدوجہد میں اجتماعیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نشست کے شرکا میں مولانا مفتی محمد اویس، مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا محمد ظفر فیاض، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، قاری حماد الزہراوی، چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ، حافظ محمد یحییٰ میر، حافظ محمد عمار خان ناصر، پروفیسر محمد اکرم ورک اور دیگر سرکردہ علماے کرام اور اہل دانش شامل تھے۔
مولانا زاہد الراشدی نے اکادمی کی طرف سے معزز مہمان سید سلمان الحسینی اور ان کے رفقا کی تشریف آوری پر ان کا خیرمقدم کیا اور ان کی دینی وعلمی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ بعد ازاں مولانا سید سلمان الحسینی اور ان کے رفقا نے واپڈا ٹاؤن میں الشریعہ اکادمی کی مجلس مشاورت کے رکن حاجی محمد معظم میر کی طرف سے دیے گئے عشائیہ میں شرکت کی۔
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام فکری نشستیں
ادارہ
(جنوری ۲۰۰۸ء)
جنوری ۲۰۰۸ء
جلد ۱۹ ۔ شمارہ ۱
محترمہ بے نظیر بھٹو کا الم ناک قتل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق
ڈاکٹر محمود احمد غازی
اسلام کا تصور علم اور دینی مدارس کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فضلائے مدارس کے علمی و روحانی معیار کا مسئلہ
مولانا عبد الحق خان بشیر
معلم کا منصب اور اس کے فنی و اخلاقی تقاضے
مولانا عبد الرؤف فاروقی
تعلیم و تعلم میں اخلاص نیت کی اہمیت
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
احیائے ثقافت اسلامی کی تحریک
حافظ صفوان محمد چوہان
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۳)
حافظ محمد زبیر
عام انتخابات اور متحدہ مجلس عمل کا مستقبل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وکلا تحریک کے قائدین کی خدمت میں چند معروضات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
لاہور میں ایک چرچ کا افسوس ناک انہدام / کراچی کے چند اداروں میں حاضری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیب
ادارہ