دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق

ڈاکٹر محمود احمد غازی

دینی مدارس میں درجات تخصص کا قیام اور اسلامی علوم وفنون کی اعلیٰ تعلیم وتحقیق کا بندوبست وقت کی ایک ایسی اہم اور فوری ضرورت ہے جس کی اہمیت اور فوری نوعیت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بہت سے مدارس میں درس نظامی کے بعد تخصص اورتکمیل کے شعبے گزشتہ چند عشروں کے دوران کثرت سے قائم ہوئے ہیں۔ تخصص اور تکمیل کے یہ شعبے عموماًتفسیر، فقہ، فتویٰ اور تجوید وقراء ت کے میدانوں سے متعلق ہیں۔ بلاشبہ یہ شعبے مفید کام کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی سے اسلامی تخصصات کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی شعبہ سے تخصص کے وہ مقاصد اب تک کما حقہ پورے نہیں ہو سکے جس کی آج ملک وملت کو شدید ضرورت ہے۔ 

تخصص کے شعبہ کا مقصد درج ذیل قسم کے اصحاب کی تیاری ہونا چاہیے :

۱۔ نمایاں اسلامی علوم (تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اسلامی معاشیات) کے اعلیٰ مضامین کی تدریس کے لیے ایسے اساتذہ کی تیاری جو ان مضامین کی اعلیٰ سطح پر کماحقہ تعلیم دے سکیں اور دینی مدارس کے طلبہ کو آنے والے چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر سکیں۔

۲۔ ایسے علماے کرام کی تیار ی جو ملکی جامعات اور عصری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ سطح پر اسلامی علوم کی تدریس کی ذمہ داریاں کامیابی سے انجام دے سکیں اور وطن عزیز میں نفاذ اسلام کے عمل کی موثر رہنمائی کر سکیں۔ 

۳۔ ایسے اہل علم اور اصحا ب تخصص کی تیاری جو اسلامی علوم کے بارے میں پیدا کی جانے والی بدگمانیوں اور اسلامی عقائد واحکام کے بارے میں کیے جانے والے اعتراضات کا مدلل اور تسلی بخش جواب دے سکیں۔

۴۔ ایسے اہل علم کی تیاری جو اپنی عمیق دینی مہارت کی بنیاد پر مغربی علوم وفنون کا ناقدانہ جائزہ لے سکیں اور مغربی افکار وتصورات کا اسلامی شریعت کی روشنی میں تنقیدی مطالعہ کر کے ا ن کے رطب ویابس کو الگ الگ کر سکیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دینی مدارس کے نظام اور نصاب میں ان میں سے کسی بھی ضرورت کی تکمیل کا کوئی بندوبست نہیں۔ تفسیر میں تخصص کے شعبے متعدد مدارس میں قائم ہیں، لیکن وہ چند ماہ میں پورا قرآ ن حکیم کسی ایک استاد یا مفسر کے طرز تفسیر کے مطا بق سرسری طور پر پڑھا دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان تفسیری پروگراموں کے فارغ التحصیل اصحاب زیادہ سے زیادہ اپنے شیخ کے طرز پر عوامی یا مناظرانہ انداز کا درس قرآن دینے کے قابل تو ہو سکتے ہیں لیکن ان پروگراموں کے نتیجے میں وہ علوم قرآن، ذخائر تفسیر، تفسیر کے مہتم بالشان مسائل، مناہج مفسرین، دور جدید میں قرآن پاک پرکیے جانے والے اعتراضات اور شبہات، تاریخ تدوین قرآن اور ان جیسے امہات مسائل سے اکثر ناواقف ہی رہتے ہیں۔

امرواقعہ یہ ہے کہ آج قرآن پر از سرنو اعتراضات اور شبہات کی لہریں زوروشور کے ساتھ مشرق ومغرب میں پھیل رہی ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح کے بارے میں طرح طرح کے شبہا ت عقلی وعلمی انداز میں مشرق ومغر ب میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ مسلمانو ں کی طرف سے ان روز افزوں اعتراضات اور شبہات کا مدلل اور سنجیدہ جواب دینے کے لیے جس طرح کے متخصص اہل علم درکار ہیں، وہ ناپید ہیں یہاں تک کہ خود مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہ نئے گمراہ کن اسالیب جگہ پا رہے ہیں اور مسلمان طلبہ کے ذہنوں کو پراگندہ اور پریشان کر رہے ہیں۔

یہی حال حدیث اور فقہ کے تخصص کا ہے۔ علم حدیث کے وسیع ذخائر، علوم حدیث کے لامتناہی دفاتر اور معارف حدیث کے عمیق مباحث عموماً تخصص حدیث کے شعبوں میں بار نہیں پاتے۔ حدیث میں تخصص اور دو دو سال میں دورۂ حدیث کرنے والے طلبہ علوم حدیث کے امہات مسائل بلکہ اہم کتابوں کے ناموں تک سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تخصص حدیث دراصل احادیث احکام کے مسلکی مطالعے سے عبارت بن کر رہ گیا ہے۔ مختلف مسالک کے اہل علم نے اپنے اپنے مسلک کی تائید کے نقطہ نظر سے منتخب احادیث کے مطالعے کوتخصص کا نام دے دیا ہے۔ اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ طلبہ کو اپنے اپنے فقہی اور کلامی موقف کے بارے میں چند گنی چنی احادیث اور روایات کے بارے میں تو واقفیت خوب ہو جاتی ہے، لیکن علوم حدیث کے اعلیٰ مباحث، ہدایت نبوی کے حقائق ومعارف اور محدثین اسلام کی غیر معمولی کاوشیں طلبہ کی پہنچ سے باہر رہتی ہیں۔ یہی بلکہ اس سے بھی گیا گزرا حال فقہ کے تخصص کا ہے۔

اس صورت حال میں ا ب تک کیے جانے والے تجربہ پر ازسرنو غور کر کے تخصصات کے ایسے نئے نصاب اور نظام کی تیاری کی فوری ضرورت ہے جہاں دینی مدارس کے فارغ التحصیل اصحاب سے ذی استعداد نوجوان اہل علم کو منتخب کرکے متعلقہ اسلامی علوم وفنون میں ٹھوس تربیت دی جائے۔ لیکن تخصص کاکوئی بھی نظام یانصاب اس وقت تک موثر اورنتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتاجب تک تعلیم کے ا بتدائی مراحل پر بھی بھرپور اور تفصیلی نظر ثانی نہ کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخصص کے لیے جس صلاحیت اور سطح کے رجال کار اورطلبہ درکارہوں گے ،جب تک وہ بنیادی اسلامی علوم میں گہری استعداد اور علوم آلیہ سے اچھی طرح واقفیت نہ رکھتے ہوں، ان کے لیے تخصص کی سطح پر اعلیٰ تعلیم کاحصول ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے تخصص پر گفتگو کرنے سے پہلے چند ضروری اشارات قبل از تخصص مراحل کے بارے میں بھی پیش کرنا ضرور ی ہے۔

اس وقت امر واقعہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی بہت بڑی تعداد مساجد کی امامت اورخطابت کے فرائض سرانجام دی رہی ہے۔ بلاشبہ مساجد کی امامت اورخطابت مسلم معاشرہ میں ایک انتہائی اوربنیادی کردار اداکرتی ہے۔ معاشرہ کی دینی تشکیل اوررائے عامہ کی اسلامی تربیت میں ائمہ اورخطبا کے کام کواساسی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی باک نہیں کہ درس نظامی کاموجودہ نظام اورنصاب پاکستان کے لیے مطلوبہ صلاحیت اورصفات کے ائمہ اورخطبا تیارنہیں کرتا۔ امامت وخطابت کے لیے بہت سی ضروری صلاحیتوں کی تیاری بندوبست درس نظا می میں موجود نہیں۔ اسی طرح مستقبل کاامام بہت سی ایسی چیزیں پڑھنے پر خود کو مجبور پاتاہے جواس کے لیے امامت اورخطابت میں کسی بھی حیثیت سے کارآمد نہیں۔ منطق اورقدیم یونانی فلسفہ کے اعلیٰ مسائل سے پاکستان میں کسی بھی امام کوکوئی واسطہ نہیں پڑتا۔ اس لیے مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ مدارس کے ثانوی اوراعلیٰ ثانوی سطح کے تین بلکہ چارسالوں کانصاب اس طرح تیار کیا جائے کہ اس کے فارغ التحصیل حضرات اچھے امام، اچھے خطیب یاا بتدائی مدرس اورسرکاری سکولوں کے اچھے مدرس بن سکیں۔ اس سطح پر درس نظامی کی عام کتابوں کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشیات ،اسلامی کے سیاسی افکار ،سیرۃ النبی،صدر اسلام کی تاریخ، تاریخ پاکستان، برصغیر میں اسلامی تحریکات کی تاریخ جیسے موضوعات کے علاوہ تجوید وقراء ت کے مضامین کو لازمی طورپر شامل کیاجائے۔ اس سطح پر اردو وعربی کی ایک آسان تفسیر اورحدیث کی دویا تین کتب ضرور شامل ہوں۔ ابتدائی سالوں میں جب طلبہ کی عربی کی استعداد زیادہ نہ ہو تو اردو میں دستیاب احادیث کے مجموعوں میں سے کوئی ایک مجموعہ منتخب کیا جا سکتاہے۔ میر ی ناچیز رائے میں سال اول ودوم میں معارف الحدیث اور سال سوم اور چہارم میں ترجمان السنۃ شامل کی جا سکتی ہیں۔ مزیدبرآں فقہ اوراصول فقہ کی متداول درسی کتب کے ساتھ ساتھ ایک یادوکتابیں اردو اور آسان عربی میں شامل ہونی چاہییں۔ علماے ندوہ نے اور مولانا محمد انوربدخشانی نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔

جوطلبہ نصا ب کایہ مرحلہ مکمل کرلیں، ان کو مناسب سند دے کر ادارہ سے فارغ التحصیل کردیا جائے۔ میری ذاتی رائے میں طلبہ کاتقریباًپچاس فی صد حصہ اس مرحلہ پر فارغ ہو کرچلاجائے۔ اگلے مرحلے کے لیے صرف ذی استعداد طلبہ قبول کیے جائیں جن کا اصل مقصد امامت، خطابت، ابتدائی اداروں کی تدریس یا سرکاری اسکولوں کی ملازمت نہیں بلکہ ذرا اعلیٰ سطح کی تدریس ہو۔ یہ مرحلہ بھی تین سے چار سال تک مشتمل ہو سکتاہے۔ مناسب یہ ہوگا کہ یہ اس مرحلہ میں تخصص کے پہلے قدم کے طورپر طلبہ کو دو یا زائد گروپوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ کچھ طلبہ جو فقہ اورعلوم فقہ میں تخصص کرناچاہیں، ان کے نصاب کی تفصیلات میں فقہی کتابوں اور مضامین اور فقہی موضوعات میں مہارت اور تخصص پر زیادہ زور دیا جائے۔ جو طلبہ مثلاً علوم قرآن وتفسیر اور علوم حدیث میں تخصص کرنا چاہیں، ا ن کے تجویز کردہ نصاب میں فقہی کتب کی تعداد کونسبتاًکم کرکے حدیث وتفسیر کی کتب شامل کی جائیں۔ لیکن درس نظامی کی موجودہ کتب چند ایک کے اضافے کے ساتھ دونوں گروپوں کے لیے رہنی چاہییں۔ اس سطح پر طلبہ کو اسلامی معاشیات، اسلامی بنکاری، اسلامی بیمہ کاری کے ساتھ ساتھ مغربی افکار اور نظریات کے بارے میں بھی ایک دو کتب لا زمی طور پر پڑھائی جائیں۔ مناسب یہ ہوگاکہ اس مرحلے میں جو طلبہ داخل کیے جائیں، وہ انگریزی زبان سے کسی حد تک واقفیت رکھتے ہوں۔ مغربی افکار سے واقفیت کا بندوبست باقاعدہ نصابی کتب کے ذریعے بھی ہو سکتاہے اور ماہرین کے توسیعی خطبات کے ذریعے بھی۔

مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ اس مرحلے کوبھی دو ذیلی مرحلوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلاذیلی مرحلہ جودوسال پر مشتمل ہو تو وہ تمام طلبہ کے لیے مشترک ہو اور کوشش یہ کی جائے کہ ان دوسالوں کے دوران موقوف علیہ تک کی بنیادی اور اساسی کتب اور مضامین ختم ہو جائیں۔ دوسرا ذیلی مرحلہ حدیث اور تفسیر کے طلبہ کے لیے الگ اورفقہ اوراصول فقہ کے طلبہ کے لیے الگ ہو۔ کچھ مضامین میں دونوں طلبہ شریک ہوں ۔ مثال کے طورپر جامع ترمذی کے درس میں دونوں گروپوں کے طلبہ شریک ہوں۔ اسی طرح آیات احکام یافقہی تفسیر کے متعلق مضامین بھی دونوں گروپوں کے لیے لازمی ہوں ۔ ان دونوں کے علاوہ چند اورمضامین بھی مشترک ہوسکتے ہیں ۔ 

امید کی جانی چاہیے کہ ہدایہ کے چاروں حصے ابتدائی دوسالوں تک مکمل ہوجائیں گے ۔ اب اگلے دوسالوں کے نصابات میں جو طلبہ آگے چل کر فقہ میں تخصص کرناچاہتے ہیں، ان کے لیے کل مضامین کا آدھا حصہ فقہی مضامین پر مشتمل ہو اور باقی مضامین مشترک ہوں۔ اسی طرح جوطلبہ آگے چل کرحدیث اورتفسیر میں تخصص کرناچاہتے ہیں، ان کے لیے کل مضامین کا کم از کم پچاس فیصد حدیث اور تفسیر پر مشتمل ہونا چاہیے۔ ان دوسالوں میں فقہ اور اصول فقہ میں آگے چل کر تخصص کرنے والے طلبہ کے لیے نصا ب کاخاکہ اس طرح کا ہو سکتا ہے:

سال اول کی پہلی شش ماہی

۱۔عقود رسم المفتی 

۲۔ بدائع الصنائع کے منتخب ابواب، مثلاً کتا ب الزکوۃ ، کتاب النکاح ، کتاب الطلاق۔

۳۔ البحرالرائق کے منتخب ابواب

۴۔ بدایۃ المجتہد (حصہ اول )

۵۔ مجلۃ الاحکام العدلیہ (باب اول)

۶۔مشترک مضامین 

۷۔مشترک مضامین

۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب

سال اول کی دوسری شش ماہی 

۱۔رد المحتار کے منتخب ا بواب 

۲۔اصول السرخسی

۳۔بدایہ المجتہد،حصہ اول 

۴۔المغنی لابن قدامہ (منتخب ابواب)

۵۔المہذب فی اصول الفقہ المقارن ۔جلد اول 

۶۔مشترک مضامین

۷۔مشتر ک مضامین

۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب

سال دوم کی دوسری شش ماہی 

۱۔نیل الاوطار، منتخب ابواب

۲۔شرح معانی الآثار

۳۔احکام القرآن للجصاص

۴۔المہذب فی اصول الفقہ المقارن، جلد دوم 

۵۔المستصفی للغزالی (از آغاز تانہایت قطب ثانی )

۶۔مشترک مضامین 

۷ ۔مشترک مضامین

۸۔درس نظامی کی بقیہ کتب

ان دو مرحلوں کی کامیا ب تکمیل کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد فارغ التحصیل ہو جائے گی۔ وہ متداول در س نظامی کی تمام اہم کتابیں اور بنیادی مضامین پڑھ چکی ہوگی۔ ان کے علاوہ اوربھی متعدد مضامین سے ضروری واقفیت حاصل کر چکی ہوگی۔ اب صرف وہ ذی استعداد طلبہ رہ جائیں گے جو اس مرحلہ پر بھی بہت ممتاز اور نمایا ں رہے ہوں۔ ان کو تخصص کی سطح کی تعلیم کے لیے منتخب کیا جائے۔ گویا اگر ادارے میں ابتدائی مرحلے میں ایک سو طلبہ داخل ہوئے ہوں تو ان میں سے پہلے مرحلے میں یعنی ثانوی تعلیم کے چار سال کی تکمیل پر کم از کم پچاس طلبہ کو فارغ کردیاجائے ۔ بقیہ پچاس طلبہ میں سے کم ازکم نصف یعنی پچیس اگلے مرحلے یعنی مزیدچارسال کی تکمیل پر فارغ کردیے جائیں اور تخصص کے مرحلے پر صرف ایک چوتھائی طلبہ کو قبول کیا جائے۔ یہ بات کہ ہرطالب عالم کوآخرتک ہر چیز پڑھائی جائے، نہ مناسب ہے اورنہ قابل عمل۔نہ ہر طالب علم کی یہ استعداد ہے اورنہ اس کی ضرورت ہے کہ اس کو آخری سطح تک ادارے سے وابستہ رکھنے پر اصرار کیا جائے۔

یوں تو تخصص کی ضرورت مختلف میدانوں میں ہے لیکن خاص طورپر درج ذیل شعبوں میں تخصص کی ضرورت آج انتہائی شدید ہے:

۱۔تفسیر اورعلوم قرآن

۲۔حدیث اورعلوم حدیث

۳۔فقہ اوراصول فقہ 

۴۔افتا اورقضا

۵۔عقیدہ اور کلام 

۶۔اسلامی معیشت وتجارت 

۷۔تقابل ادیان 

۸۔فکر جدید اور مطالعہ مغرب

۹۔اسلام اور اسلامی تہذیب عصرجدید میں 

۱۰۔عربی زبان وادب

تخصص کاپروگرام کسی صورت میں بھی تین سال سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ان تین سالوں میں ابتدائی دوسال باقاعدہ نصابات اور مقررہ کتب کی تدریس کے لیے وقف ہوں، اور تیسرا سا ل تحقیقی مقالہ اور اپنے موضوع سے متعلق چند مضامین کی، جن کی تعداد دو یا تین سے زیادہ نہ ہو، تدریس پر مشتمل ہونا چاہیے۔

تخصص کی سطح پر متعلقہ میدان میں مغربی مفکرین نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے طلبہ کوگہری واقفیت ہونی چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ تخصص تک پہنچنے والے تمام طلبہ انگریزی کتب اور تحریروں سے بسہولت استفادہ کرنے کے اہل ہوں گے۔

تخصص کی سطح پرمضامین، موضوعات اورکتب کا تعین کرنے کے لیے تین معیارات کو پیش نظر رکھنا چاہیے:

۱۔ متعلقہ میدان تخصص کے بارے میں اکابر اسلام کی نمایاں خدمات اور ان کے اساسی کام سے طلبہ براہ راست واقف ہو جائیں۔

۲۔ متعلقہ میدان تخصص میں جو جو توسیعات اور ترقیاں ہوئی ہیں، ان سے طلبہ براہ راست مانوس ہو جائیں۔

۳۔ متعلقہ میدان تخصص کی موجود ہ صورت حال پورے طورپر طلبہ کو گرفت میں ہو،یعنی بیسویں صدی میں اس موضوع پر مسلمان اہل علم کا نمایاں کام کیا ہے، مغربی مستشرقین نے اس بار ے میں کیا کہا ہے اور مستشرقین کے اثرات کے تحت دنیاے اسلام میں جو رجحانات پیدا ہوئے ہیں، ان سے کس طرح عہد ہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔

مثال کے طورپر فقہ اور اصول فقہ میں تخصص کے لیے ضروری ہوگا کہ ا بتدائی دوسالوں میں جو نصاب پڑھایا جائے، وہ متقدمین کی کتابوں سے لے کر متاخرین تک ہردور کی نمائندہ کاوشوں پر مشتمل ہو۔ اس سطح پر فقہ اسلامی کاتقا بلی مطالعہ ناگزیر ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیاے اسلام میں مختلف فقہی مسالک کا ایک دوسرے سے ارتباط اور احتکاک ہو رہا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں تقریباً ہر فقہی مسلک سے وا بستہ مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کاایک دوسرے سے روزانہ کوئی نہ کوئی فقہی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ان حالات میں فقہ کے متخصصین کواپنے فقہی مسلک کے علادہ دوسرے مسالک سے کسی قدر واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے ا بن رشد کی بدایہ المجتہد کے علاوہ دوسرے فقہی مسالک کی بعض منتخب کتب کے ابواب طلبہ کو پڑھانے چاہییں۔ اسی طرح اصول فقہ کا تقابلی مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔ ایک معاصر سعودی عالم نے ’’المہذب فی اصول الفقہ المقارن‘‘ کے نام سے تقابلی اصول فقہ پر ایک جامع کتاب پانچ جلدوں میں تیار کی ہے۔ وہ اس مرحلے پر بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

فقہ میں تخصص کے طلبہ کے لیے انگریزی اصول فقہ، ضابطہ فوجداری ودیوانی، تعزیرات پاکستان اور پاکستان کے آئین اور دو ایک منتخب قوانین کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ان قوانین کے مطالعے کامقصد طلبہ کووکیل یاانگریزی قانون کاماہر بنانا نہیں بلکہ اس طرز فکر سے واقف کرانا ہے جس کی بنیاد پر انگریزی قوانین مرتب ہوئے ہیں۔ اگر تخصص فی الفقہ کامقصد اور ہدف ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے عمل میں حصہ لینا اور اس مقصد کو آگے بڑھا ناہے تو ملک کے قانون، عدالتی نظام اور دستوری نظام سے واقفیت ضروری ہے۔

تخصص کی سطح پر امیدکی جانی چاہیے کہ طلبہ اعلیٰ استعداد کے حامل ہوں گے اور ان کو کوئی کتاب سبقاً سبقاً اول سے لے کر آخر تک پڑھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سطح پر استاذ کا کام رہنمائی کرنا اور طلبہ کا کام از خود مطالعہ ہونا چاہیے۔ تعلیم کے دوسالوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ یہ چاروں حصے پانچ پانچ مہینوں پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ پانچ مہینوں کی اس مدت میں ایک طالب علم پانچ سے سات موضوعات تک بآسانی مطالعہ کر سکتا ہے۔ اس مرحلے پر پوری پوری کتابیں سبقاً سبقاً پڑھانے کے بجائے امہات الکتب کے منتخب ابواب پڑھائے جائیں۔ ایک مضمون کااستاذ ہفتے میں تین یا چار مرتبہ طلبہ کو درس یا رہنمائی کے لیے دستیاب ہو اور بقیہ اوقات میں طلبہ ازخود مطالعہ کریں اور مطالعہ کے نتائج کو تحریری طور پر مرتب کریں۔ یہ اسلوب انگریزی اور ملکی قانون کے مطالعہ میں بہت آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے۔

یہاں مختلف موضوعات اور میدا نوں میں تخصص کی مکمل اسکیم کی نشان دہی قبل از وقت ہوگی۔ اگر ان گزارشات سے فی الجملہ اتفاق ہو تو آغاز سے انتہا تک ایک مکمل نقشہ تجویز کرنا ہوگا۔ بنیاد اور ڈھانچہ کی تعمیر سے قبل اونچی منزلوں کی تعمیر کاکام اور اس کی تجاویز غیر مناسب ہیں۔ ان صفحات میں تخصص کے لیے دس میدان تجویز کیے گئے ہیں۔ کسی ایک ادارہ کے لیے ان سب میں بیک وقت تخصص کا پروگرام شروع کرنا نہ قا بل عمل ہے اور نہ مناسب۔ بہتر یہی ہوگا کہ پہلے قدم کے طورپر بڑے بڑے دینی ادارے ایک ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دو میدانوں میں تخصص کا پروگرام شروع کریں اور آہستہ آہستہ دوسرے شعبوں کی طرف قدم بڑھائیں۔

وفاق المدارس کی طرف سے ایک مستقل نظامت اعلیٰ برائے تخصصات شرعیہ قائم کی جانی چاہیے جو تخصص کا نصاب اور نظام وضع کرے۔ وفاق کی اجازت اور منظوری کے بغیر کسی ادارہ کو تخصص کا شعبہ قائم کرنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے۔ جہاں ایسے شعبے قائم ہوں، ان کی نگرانی مذکورہ نظامت اعلیٰ کرے اور معیار کی پابندی کویقینی بنائے۔

ان صفحات میں اگرچہ گفتگو تخصص کے بارے میں کی گئی ہے، لیکن دواہم باتوں کی نشاندہی کی اجازت چاہتا ہوں۔ ان دونوں باتوں کا تخصص کے پروگراموں کی کامیابی سے بھی اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ تعلق ضرور ہے۔ میری مراد عربی اور فارسی زبان کی تدریس سے ہے۔ 

عربی زبان کی تدریس 

مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ بیشتر دینی مدارس میں عربی زبان کی تدریس کا موجودہ نظام، نصاب اور انداز انتہائی ناقص، غیر تسلی بخش اور ناقابل قبول ہے۔ عربی فارسی سے نابلد طلبہ فارسی کے ذریعے عربی صرف ونحو کے ضروری قواعد حفظ کرتے ہیں، پھر عربی کی ازکار رفتہ اور فضول کتابوں کے ذریعے عربی صرف ونحو میں ’’مہارت‘‘ حاصل کرتے ہیں اور اس نامکمل اور انتہائی ناقص علم کے چند صفحات کو رٹ کر عربی زبان واد ب کے ماہرین بن جاتے ہیں۔ میں اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر عرض کرتاہوں کہ مدارس میں عربی ادب کی ان کتا بوں کی سالہاسال تدریس کرنے والے اساتذہ میں سے بیشتر ان کتا بوں کے درسی اجزا کے علاوہ عربی زبان واد ب کے پورے ذخیرہ سے ناواقف رہتے ہیں۔

عر بی ز بان، جودنیا کی سب سے زیادہ دقیق اورسائنٹفک ز بان ہے، عربی ذخیرۂ الفاظ جو دنیا کی ز بانوں کا سب سے وسیع ذخیرہ الفاظ ہے، عربی صرف ونحو جس کا مقابلہ شاید ہی کسی زبان کی صرف ونحو کرسکے، دینی مدارس کے علما کی بڑی تعداد کے لیے ایک بند دروازہ ہی رہتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربی ز بان کی تدریس میں ندوۃالعلما کاتجربہ بہت کامیا ب اورشاندار رہا ہے۔اس تجربہ نے گزشتہ نصف صدی سے زائد کے عرصے میں اپنی افادیت اورخوبی کو اچھی طرح ثابت کردیا ہے ۔ لہٰذاعربی ز بان کی تدریس کے پورے نصاب ونظام پرندوہ کے تجر بہ کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ندوہ کی مرتب کردہ ابتدائی کتا بیں وسطانی مدار س میں پڑھائی جانی چاہییں۔ مزید برآں عربی نثر کی عمدہ کتا بوں کے منتخب حصے نصا ب میں شامل ہونے چاہییں۔ عربی شعر میں بھی متعدد مجموعے ایسے دستیاب ہیں جو حماسہ اور سبعہ معلقہ سے پہلے پڑھا دیے جائیں توزبان کااچھا ذوق پیدا ہو سکتا ہے۔ 

عربی نثر میں سیرت ا بن ہشام، البدایہ والنہایہ اور مقدمہ ا بن خلدون کے منتخبات پر مشتمل ایک ترتیب دے دی جائے اور نفحۃ العرب کے بعد پڑھائی جائے تو عربی نثر کی اچھی بنیاد بن سکتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں مقامات حریری کی تدریس محض وقت کا ضیاع ہے۔ زیادہ سے زیادہ دوتین مقامے نمونے کے طورپر پڑھا دینا کافی ہے۔

فارسی زبان کااہتمام 

برصغیر میں ایک طویل عرصہ تک دینی علوم وفنون کی تدریس فارسی ز بان میں ہوتی رہی ہے۔ فارسی ہی جنوبی ایشیا اور افغانستان کی علمی اور ثقافتی زبان رہی ہے۔ ہندو پاکستان کے دینی مدارس میں ابتدائی تعلیم بھی فارسی ہی میں ہوتی تھی۔ اگرچہ فارسی کو ذریعہ تعلیم بنانا اور دینی وعربی علوم کے لیے فارسی زبان کو استعمال کرناا ردو کے رواج پا جانے کے بعد غیر موزوں اور غیر مفید تھا، لیکن فی نفسہ فارسی زبان وادب کی ضروری تعلیم میں بہت افادیت تھی۔ طلبہ برصغیر کے دینی ورثہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ برصغیر کے دینی اکابر کی تحریروں تک ان کو رسائی حاصل ہوجاتی تھی۔ لیکن گزشتہ تیس چالیس سال سے فارسی کومکمل طورپر ختم کردینے کے رجحان سے بہت نقصان ہو ا ہے۔ آج بہت سے علما کے لیے مجد د الف ثانی اورشاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے اکابر کی کتابیں ناقابل فہم ہوگئی ہیں۔ فارسی زبان کے ذریعے اخلاق، تہذیب اور روحانیت کا جو عنصر نصاب تعلیم کی بنیادوں میں شامل ہو جاتا تھا، اس سے طلبہ قریب قریب محروم ہو گئے ہیں۔

ان حالات میں فارسی ز بان کی (بطورایک مضمون کے) تدریس کا احیا کرناضروری ہے ۔ اگرابتدائی دینی مدارس میں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اردو، فارسی، حساب اور معاشرتی علو م کے مضا مین شا مل کر دیے جائیں تو پانچ سال کی مدت میں طالب علم قرآن مجید کا حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اردو اور فارسی کی ضروری استعداد کا حامل ہو سکتا ہے بلکہ ضروری حسا ب اور ابتدائی ریاضی سے بھی واقف ہو سکتا ہے۔

وسطانی مدارس میں فارسی کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی جانی چاہیے۔ اگرطالب علم ابتدائی مدارس میں آمدنامہ، گلزار د بستان، کریما، پندنامہ، گلستان اور بوستان پڑھ چکا ہو (جو ایک گھنٹہ روزانہ کے حسا ب سے چار سال میں بہت آسان ہے) تو وسطانی مدارس میں مثنوی مولانا روم کے منتخبات، بہار ستان جامی، کشف المحجوب، امام غزالی کی کیمیائے سعادت کے منتخب ابواب پڑھانا مشکل نہ ہوگا۔ پھر ثانویہ عامہ اور عالیہ میں حضرت مجدد الف ثانی کے بعض منتخب مکتوبات اور مولانا اسماعیل شہید کی منصب امامت کو شامل کرنا آسان ہوگا۔ حضرت مجدد کے بعض طویل مکتو بات عقائد اورتصوف کے بنیادی اورمہتم بالشان مسائل کے بارے میں انتہائی عالمانہ اور وقیع مباحث پر مشتمل ہیں اوراچھی خاصی کتاب کی ضخامت کے برابر ہیں۔ ایسے چند مکتوبات کو نصا بی کتاب کے طور پر پڑھایا جا سکتا ہے۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter