کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ (۴)

حافظ محمد زبیر

امام ابن قیمؒ کا موقف

امام صاحب سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے قائل نہیں ہیں اور سنت کو ہر صورت میں قرآن کا بیان ہی ثابت کرتے ہیں۔ امام ابن قیمؒ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ متقدمین علمائے سلف تخصیص ‘تقیید وغیرہ کے لیے بھی نسخ کا لفظ استعمال کر لیتے تھے اور اس معنی میں قرآن کا نسخ ‘سنت کے ذریعے سب علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن جمہور متأخرین علمائتخصیص ‘تقیید‘استثناء وغیرہ کے لیے نسخ کا لفظ بطور اصطلاح استعمال نہیں کرتے ۔امام صاحب ؒ لکھتے ہیں ۔

’’اگر نسخ کا معنی عام لیا جائے جسے سلف نسخ کہتے ہیں وہ یہ کہ کسی تخصیص ‘ تقیید ‘شرط یا مانع سے قرآن کے کسی حکم کا ظاہری مفہوم باقی نہ رہے تو اس کو اکثر سلف نسخ کہہ دیتے ہیں بلکہ وہ تو استثناء کو بھی نسخ کہہ دیتے ہیں ...اور اس معنی میں قرآن کے سنت کے ذریعے نسخ کا انکار کسی بھی عالم نے نہیں کیا ہے ۔‘‘ (اعلام الموقعین: باب المراد بالنسخ فی السنۃ الزائدۃ علی القرآن)

امام ابن قیمؒ نے سنت کے اضافے کی تمام اقسام کو قرآن کابیان ہی قرار دیا ہے۔یہاں تک امام صاحبؒ کے نزدیک سنت کے وہ احکامات کہ جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے ‘وہ بھی قرآن ہی کا بیان ہیں ۔امام ابن قیمؒ اپنے مخالفین کا اعتراض نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اگر یہ کہا جائے کہ وہ سنن جو کہ قرآن پر اضافہ ہیں وہ بعض صورتوں میں تو قرآن کا بیان ہوتی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک ایسے حکم کی موجد ہوتی ہیں کہ جو قرآن میں موجود نہیں ہے اور بعض اوقات وہ قرآن کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی ہوتی ہیں اور پہلی دو قسموں میں تو ہمارا کوئی نزاع نہیں ہے کیونکہ وہ بالاتفاق حجت ہیں لیکن ہمارا نزاع تیسری قسم میں ہے ۔ ‘‘ ( اعلام الموقعین: باب أنواع السنن الزائدۃ علی القرآن)

امام صاحبؒ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اضافے کی ان تینوں قسموں میں کوئی ایک بھی بیان سے باہر نہیں ہیں بلکہ سلف صالحین کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب بھی وہ کوئی حدیث سنتے تھے تو اس کی اصل قرآن میں پا لیتے تھے(امام شافعیؒ وغیرہ کی طرف اشارہ ہے) اور کسی نے بھی ایک حدیث کے بارے میں بھی یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ یہ حدیث قرآن پر اضافہ ہے لہذا ہم اسے نہ تو قبول کریں کریں گے ا ور نہ ہی سنیں گیاور نہ ہی اس پر عمل کریں گے اور اللہ کے رسولﷺ کا مرتبہ ان کے نزدیک بہت بلند تھا اور آپؐ کی سنت ان کے ہاں اس (قسم کے فلسفوں)سے اعلی مقام کی حامل تھی۔ ‘‘ (اعلام الموقعین:باب أنواع السنن الزائدۃ علی القرآن)

امام ابن قیمؒ کے نزدیک وہ روایت جو کہ قرآن پر اضافہ معلوم ہوتی ہیں وہ درحقیقت قرآن ہی کا بیان ہیں۔امام صاحبؒ کے نزدیک یہ روایات قرآن کے سنت کے ذریعے بیان کی درج ذیل دس اقسام سے باہر نہیں ہیں ۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں :

’’اللہ کے نبیﷺ کے بیان کی کئی اقسام ہیں ۔ان میں سے ایک خود وحی کا آپؐ کی زبان سے بیان اور ظہور ہے جبکہ وہ اس بیان سے پہلے پوشیدہ تھی۔بیان کی دوسری قسم آپؐ کا وحی کے معانی بیان کرنا اور قرآن کے ان الفاظ کی تفسیر کرنا ہے کہ جن کی تفسیر کی ضرورت ہو(یعنی جن الفاظ قرآنی کی تفسیر اگر اللہ کے رسولﷺ نہ بتائیں تو لوگ گمراہ ہو جائیں گے)جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کے قول ’اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی قسم کے ظلم کونہیں ملایا‘میں ’ظلم‘ کی تفسیر ’شرک‘ سے کی ہے ...بیان کی تیسری قسم آپؐ کا فعل ہے جیسا کہ آپؐ نے اس شخص کے لیے نمازوں کے اوقات اپنے فعل سے بیان کیے کہ جس نے آپؐ سے سوال کیا تھا۔بیا ن کی چوتھی قسم وہ احکامات ہیں کہ جن کے بارے میں آپؐ سے جب سوال ہوا تو اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی جیساکہ آپؐ سے قذف کے بارے میں سوال ہوا تو قرآن میں لعان وغیرہ کی آیات نازل ہوئیں۔بیان کی پانچویں قسم وہ وحی ہے جو آپ ؐ سے کسی سوال کے بعد نازل ہوئی اور یہ وحی قرآن کے علاوہ نازل ہوئی جیسا کہ آپؐ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا کہ جس نے اپنے جبے کو حالت احرام میں ایک خوشبولگائی ہوئی تھی توآپؐ کی طرف وحی نازل ہوئی کہ آپ ؐ اس شخص کو کہیں کہ وہ اپنا جبہ اتار کر اس خوشبو کے نشان کو دھو ڈالے۔چھٹی قسم ایسے احکامات کا سنت میں بیان ہے کہ جن میں آپؐ نے بغیر کسی سائل کے سوال کے ابتدائی طور پر کسی حکم کو اپنی سنت کے ذریعے جاری فرمایا جیسا کہ آپؐ نے گدھوں کی حرمت‘ متعہ کی حرمت ‘مدینہ میں شکار کی حرمت اور عورت کو اس کی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ نکاح میں لانے وغیرہ کی حرمت بیان کی(یعنی امام ابن قیمؒ کے نزدیک پھوپھی کو خالہ کے ساتھ جمع کرنا معنی جدیدیا ایک نئی نوعیت میں ابتدائی طور پر ایک نیا حکم جاری کرنا ہے نہ کہ قرآنی الفاظ پر اضافہ ہے)۔ساتویں قسم خود آپؐ کا اپنے کسی فعل سے کسی کام کے جواز کو بیان کرنا ہے اور آپؐ اس فعل میں اپنی پیروی کرنے سے کسی امتی کو بھی نہ روکیں۔آٹھویں قسم آپؐ کا کسی کوکوئی کام کرتے دیکھنا اور اس پر خاموش رہنا ہے یا آپؐ امت کو کسی بات کی تعلیم دی ہو اور امت اس پر عمل کرے۔نویں قسم کسی شیء کو حرام قرار دینے سے آپؐ کا سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مباح ہے اگرچہ آپؐ نے اس کی اباحت کو الفاظ میں بیان نہ بھی کیا ہو۔دسویں قسم یہ ہے کہ قرآن کا کسی چیز کے واجب ‘حرام یا مباح ہونے کا حکم جاری فرمانا لیکن اس حکم کی شرائط ‘موانع ‘قیود ‘ مخصوص اوقات ‘احوال اور اوصاف ہوں جن کے بیان کو اللہ تعالی اپنے نبیﷺ پر چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’اور تمہارے لیے اس کے علاوہ جو بھی عورتیں ہیں حلال کی گئی ہیں ‘۔اس آیت مبارکہ میں باقی تمام عورتوں کی حلت شرائطِ نکاح ‘موانعِ نکاح کے نہ ہونے‘اس کے وقت کے آنے اور محل کی اہلیت پر موقوف ہے ۔پس حدیث جب بیان کی ان قسموں میں سے کسی قسم کو بیان کرے تو وہ قرآن پر اضافہ نہیں ہے کہ اس کی ناسخ ہو اگرچہ بیان کی ان اقسام سے آیت کا ظاہری اطلاق اٹھ جاتا ہے۔پس اسی قسم کا حکم ہر اس روایت کا بھی ہے کہ جس کو قرآن پر زائد کہا گیا ہے۔‘‘ (اعلام الموقعین: باب بیان السنۃ علی أنواع)

ان میں سے کون سی قسم ایسی ہے جو کہ غامدی صاحب کی عربی معلی کے مطابق بیان کی قسم شمار نہیں ہو سکتی ‘اگر یہ سب بیان ہی کی اقسام ہیں تو امام ابن قیم ؒ نے سینکڑوں روایات کو جو کہ بظاہرقرآن پراضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی معلوم ہوتی ہیں‘انہیں ان اقسام میں میں داخل کر کے انہیں قرآن کا بیان ثابت کیا ہے ۔مثلا امام ابن قیم ؒ ’تغریب عام‘ کی سزا کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’پس ’تغریب عام‘ کی سزااللہ تعالی کے قول ’یا اللہ تعالی ان کے لیے کوئی رستہ نکال دے گا‘ کا بیان ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ ’تغریب‘ اس آیت میں مذکور رستے کاہی بیان ہے تو آپ ؐ کی اس وضاحت کے بعد یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ آپؐ کی یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے اوراگر ہم اس روایت کو قبول کر لیں گے تو ہم قرآن کے حکم کو باطل کر دیں گے۔ ‘‘ (اعلام الموقعین: باب بیان السنۃ علی أنواع)

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ کیا اللہ کے رسولﷺ کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ قرآن کے کسی حکم پر اضافہ کریں ؟تو امام ابن قیم ؒ کا اگرچہ موقف تو یہی ہے کہ سنت کا قرآن پر اضافہ ‘ اضافہ نہیں ہے بلکہ اس کا بیان ہے اور امام صاحب اس کو بیان ثابت بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لیکن امام صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یہ اضافہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس کو ماننا واجب ہے اور اللہ کے رسولﷺ کے پاس اس اضافے کا اختیار تھا اور اللہ کے رسولﷺ کو اس کااختیار اللہ تعالی نے دیاتھا۔امام صاحب اپنی کتاب ’اعلام الموقعین ‘ میں اس کے درج ذیل دلائل بیان کرتے ہیں :

۱) اللہ تعالی نے قرآن میں جہاں بھی اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہ مطلقاً اطاعت کا حکم ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں کہیں بھی یہ بیان نہیں فرمایا کہ اگر میرا رسول کوئی ایسی بات کہے جو تم کو قرآن پر اضافہ معلوم ہو تو تم اس کو رد کر دینا۔

۲) جس طرح آپؐ ایسی چیز میں کوئی شرعی حکم مقرر کر سکتے ہیں کہ جس میں قرآن خاموش ہے اور اس کو سب مانتے ہیں ‘اسی طرح آپؐ اللہ کے بتلانے سے قرآن پر اضافہ بھی کر سکتے ہیں اور قرآن نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اس اضافے کو قبول کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا‘۔ 

۳) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی ذمہ داری یہ لگائی ہے کہ وہ قرآن کی تبیین فرمائیں ‘اب آپؐ کی سنت سے جو احکامات معلوم ہوئے وہ سب قرآن کا ہی بیان ہوں گے‘ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ ؐ کی بعض روایات قرآن کی تبیین میں شامل نہیں ہیں وہ گویا کہ آپ ؐ پر الزام لگا رہاہے کہ آپؐ نے قرآن کے بیان میں ایک ایسا کام کیا کہ جس کے منصب پرآپؐ مقرر نہیں کیے گئے تھے ۔ 

۴) سنت کا قرآن پر اضافہ نہ تو اس کے کسی حکم میں تغیر یا تبدیلی پید ا کرتا ہے اور نہ ہی یہ نسخِ ِ قرآن ہے بلکہ درحقیقت یہ اضافہ برات أصلیہ کو ختم کر دیتا ہے جیسا کہ سنت میں موجود’تغریب عام‘ کی سزانے قرآن کے سو کوڑوں کے حکمِ ِ قرآنی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ حکمِ استصحاب کو اٹھا دیا ہے ۔

۵) اضافے اور زیادتی کی وجہ سے یہ سمجھنا کہ قرآن کا کوئی حکم تبدیل ہو گیاہے یہ لغتاً‘عقلاً‘شرعاًاور عرفاً درست نہیں ہے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میری تھیلی میں موجود رقم میں اضافہ ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جو رقم پہلے تھی وہ جاتی رہی ہے ۔

۶) زیادتی اور اضافے سے مزید علیہ(جس پر زیدتی کی گئی ہے)کی تاکید اور بیان مزید بڑھ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’رب زدنی علما‘ اور ’واذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایمانا‘۔

۷) ناسخ و منسوخ میں جمع نہیں ہو سکتی لیکن زیادتی اور مزید علیہ کو جمع کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان دونوں میں نہ توتعارض ہوتا ہے اور نہ ہی تناقض‘دونوں مسقل ہیں۔ دونوں الگ الگ حکم ہیں۔دونوں پر عمل ممکن ہے ۔پھر دونوں میں سے ایک کولغو و باطل قرار دینا کون سا انصاف ہے۔ 

۸) سنت کی زیادتی و اضافہ ایک معنی جدید ہے نہ کہ قرآنی حکم میں تغیر و تبدل‘اور معنی جدید میں اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع سب کے نزدیک فرض ہے۔

امام ابن حزم ؒ کا موقف

امام ابن حزمؒ سنت کو قرآن کا بیان ہی سمجھتے ہیں لیکن امام صاحب جس طرح قرآن کے عام کی سنت کے ذریعے تخصیص کو قرآن کابیان کہتے ہیں اسی طرح قرآن کے سنت کے ذریعے نسخ کو بھی قرآن کے بیان میں شمار کرتے ہوئے اس کے جواز کے قائل ہیں۔امام صاحبؒ لکھتے ہیں:

’’ہم یہ کہتے ہیں کہ تخصیص اور استثناء ‘بیان ہی کی دو قسمیں ہیں کیونکہ مجمل کا بیان بعض اوقات اس کی کیفیت یا کمیت کی تفسیر سے ہو تا ہے اور اس بیان میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے قرآن کے الفاظ اپنے لغوی معنی سے نکل جائیں ۔جیساکہ قرآن کا حکم ہے ’اور تم زکوۃ ادا کرو‘۔تو اللہ کے رسولﷺ نے اس زکوۃ کی ماہیت کو واضح کیا ہے کہ جس کی ادائیگی کاقرآن میں حکم دیا گیا ہے اور آپؐ کے اس بیان سے قرآن کالفظ’الزکوۃ‘ اپنے لغوی معنی سے نہیں نکلا‘اسی طرح آپ ؐ نے نکاح اور حج وغیرہ کی بھی ان کی صفات کے ذکر سے تفسیر کی ہے اور بعض اوقات یہ بیان استثناء کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے خشک کھجور کو تر کھجور کے ساتھ بیچنے سے منع فرمایا ہے(یعنی آپؐ کا یہ فرمان’ أحل اللہ البیع و حرم الربو‘ اور ’ ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘کا بیان تھا) لیکن بعد میں آپؐ نے بیع العرایا میں‘اگر وہ پانچ وسق( تقریباً۷۵۰کلو گرام ) سے کم ہو ‘تواس کی رخصت دے دی ۔ بعض اوقات یہ استثنا الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے جیسا کہ ’الا‘ اور ’خلا‘ اور ’حاشا‘ اور ’ما لم‘ وغیرہ ہیں اور بعض اوقات یہ استثنا ایک حکم کی شکل میں ہوتا جو کہ أمر یا خبر کے صیغے میں ہوتا ہے اور یہ استثنا ایک عمومی حکم سے ہوتا ہے اور اسی کو تخصیص کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مشرک عورتوں سے نکاح کرنے سے یکبارگی منع فرمایا اور پھر اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے ذریعے شادی کی اجازت دے دی تو یہ اس آیت کے عمومی حکم کی تخصیص ہے۔جہاں تک نسخ کا معاملہ ہے تو نسخ کامعنی حکم کو کلی طور پر یا اس کے ایک جز کو اٹھا لینا ہے اور بیان کی جن قسموں کاہم نے ذکر کیا ہے یعنی تفسیر ‘استثنا اور تخصیص وغیرہ تو بعض اوقات یہ بیان قرآن کے لیے خود قرآن سے ہوتا ہے اور بعض اوقات حدیث سے اور بعض اوقات اجماع سے ہوتا ہے (اجماع کو بیان اس لیے کہا ہے کہ وہ مظہرِ شریعت ہو تا ہے نہ کہ مثبتِ شریعت) ۔اور بعض اوقات یہ بیان حدیث کے لیے قرآن سے ہوتا ہے اور حدیث سے ہوتا ہے اور اجماع سے ہوتا ہے اور ہمارے قول کے مطابق حدیث سے مراد آپؐ کا حکم ‘فعل ‘ تقریر اور اشارہ سب شامل ہیں اور یہ سب احادیث قرآن کا بیان ہیں اور قرآن ان کا بیان ہے ۔ ‘‘ (الاحکام:باب الثامن فی البیان و معناہ)

ایک اور جگہ امام ابن حزم ؒ لکھتے ہیں :

’’علماء کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ سنت قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی اور نہ قرآن سنت کو منسوخ کر سکتا ہے اور ایک دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ یہ سب جائز ہے یعنی قرآن‘ قرآن سے بھی منسوخ ہوتا ہے اور سنت سے بھی اور اسی طرح سنت قرآن سے بھی منسوخ ہوتی ہے اور سنت سے بھی۔ابو محمد(ابن حزمؒ ) کا کہنا یہ ہے:ہمارا قول بھی یہی(یعنی دوسرا) ہے اور یہی قول صحیح بھی ہے اور ہمارے نزدیک سنت متواتر ہو یا اخبار آحاد ہو ‘سب برابر ہیں ان میں سے ہر ایک دوسرے کو منسوخ کرتا ہے ۔‘‘ (الاحکام:الباب العشرون الکلام فی النسخ‘ فصل فی نسخ القرآن بالسنۃ و السنۃ بالقرآن)

امام ابن حزم ؒ اپنے اس موقف کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اور ہمارے اس موقف کی دلیل وہی ہے جو کہ ہم نے اس کتاب کے اس باب میں واضح کی ہے جو کہ اخبار آحاد سے متعلق ہے اور وہ (یعنی اس دلیل کا خلاصہ)یہ ہے کہ جب آپ ؐ سے ایک چیز ہمیں ملے اس کی اطاعت ایسے ہی واجب ہے جیسے کہ اس کی اطاعت واجب ہے جو کہ ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔اور ان دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے* اور یہ دونوں اللہ ہی کی اطاعتیں ہیں جیسا کہ اللہ کا تعالی کا فرمان ہے ’اور آپؐ اپنی خواہش نفس سے بات نہیں کرتے ‘آپؐ جو بھی بات کرتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جوکہ اپؐ کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔جب آپؐ کا کلام اللہ کی طرف سے وحی ہے اور قرآن بھی وحی ہے تو دونوں کا ایک دوسرے کو منسوخ کرنا جائز ہے کیونکہ یہ دونوں کلام وحی ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں ۔‘‘ (الاحکام:الباب العشرون الکلام فی النسخ‘ فصل فی نسخ القرآن بالسنۃ و السنۃ بالقرآن )

*بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو آپؐ سے ہمیں ملا ہے وہ تو ایسی سند کے ساتھ ہے کہ جس میں ظن ہے اور جو ہمیں قرآن سے ملا ہے وہ ایسی سند کے ساتھ ہے کہ جس سے علم یقین حاصل ہوتا ہے‘اس لیے دونوں کی اطاعت برابر نہیں ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ جس صحابیؓکی روایت ہے اس کے لیے تو آپؐ کا حکم اور قرآن دونوں واسطے اور سند کے اعتبار سے برابر ہیں تو کیا صحابیؓ کے لیے تو حکم یہ ہو کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث کو لے لے کیونکہ اس کے لیے سند کے ظنی ہونے کا مسئلہ نہیں ہے اور ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم اس کو پہلے ظنی قرار دیں پھر اس کا قرآن کی کسی آیت سے ٹکراؤ پیدا کریں اورپھر اس روایت کو رد کر دیں تو کیا نتائج کے اعتبار سے صحابہؓ اور ان کے مابعد کی شریعت مختلف نہیں ہو جائے گی؟کیونکہ جس روایت کو ہم صرف ظنی الثبوت ہونے کی وجہ سے رد کر رہے ہوں گے، صحابہؓ اس کو قطعی الثبوت ہونے کی وجہ سے قبول کر رہے ہوں گے۔

امام ابن حزمؒ نے ایسی بہت سی احادیث بھی نقل کی ہیں جو کہ اس بات کی دلیل بنتی ہیں کہ قرآن کا نسخ سنت سے جائز ہے اور یہ واقع بھی ہواہے۔اسی طرح امام صاحب کا کہنا ہے کہ تخصیص بعض اعیان کے لیے حکم کے اثبات کا نام ہے اور نسخ بعض ازمان کے لیے حکم کے اثبات کا نام ہے لہذ ادونوں میں کوئی بڑا اختلاف نہیں ہیعلاوہ ازیں جس طرح تخصیص میں بعضِ حکم مرفوع ہو جاتا ہے اسی طرح نسخ میں کل حکم مرفوع ہو جاتا ہے جب سنت سے بعض حکم کا رفع ثابت ہے تو سنت سے کل حکم کا رفع کیوں جائزنہیں ؟ اس کے بعد امام ابن حزمؒ اپنے اس موقف کے خلاف دیے جانے والے دلائل کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا ردبھی کرتے ہیں ۔ امام ابن حزمؒ کی اس عبارت کا خلاصہ ہم اپنے الفاظ میں ذکر کر رہے ہیں :

۱) بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا موقف قرآن کی آیت ’قل ما یکون لی أن أبدلہ من تلقاء نفسی ان أتبع الا ما یوحی الی‘ کے خلاف ہے ۔ہمارا جواب ان کو یہ ہے اس آیت میں ’من تلقاء نفسی‘کے الفاظ ہیں اور ہمارا عقیدہ تویہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اللہ کے حکم ’ان أتبع الا ما یوحی الی‘ کے تحت ہی اس کی کتاب کے کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ’ اللہ کے رسولﷺ اپنی طرف سے بغیر وحی کے قرآن کی کسی آیت میں تبدیلی کا اختیار رکھتے تھے‘ تو ہم ایسے شخص کو کافر سمجھتے ہیں ۔

۲) ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہماراموقف قرآن کی آیت ’ماننسخ من آیۃ أو ننسھا نأت بخیر منھا أو مثلھا‘ کے خلاف ہے کیونکہ سنت نہ تو قرآن کے مثل ہے اور نہ اس سے بہتر ہے ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کی ایک آیت جب دوسری آیت کو منسوخ کرتی ہے تو کیا قرآن کا بعض اس کے بعض سے بہتر ٹھہرا‘ایسا معاملہ نہیں ہے اور اس آیت کامفہوم یہ ہے ’نأت بخیر منھا لکم أو مثلھا لکم‘ ۔یعنی تمہارے لیے اس سے بہتر یا تمہارے لیے اس کے جیسا حکم لے کر آتے ہیں۔

۳) ابن حزمؒ لکھتے ہیں کہ بعض علماء ہمارے اس موقف کے خلاف ’و أنزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم‘ سے دلیل پکڑتے ہیں ۔ہمارا کہنایہ ہے کہ یہ آیت بھی دلیل نہیں بنتی کیونکہ نسخ ‘بیان ہی کی ایک قسم ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نسخ ‘ایک حکم کے ارتفاع اور دوسرے حکم کے اثبات کا بیان ہے ۔دوسری بات یہ کہ جوبعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’مُبَیّن‘ کبھی ’ناسخ‘ نہیں ہوتا ‘تویہ ایسا دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور بغیر دلیل کے دعوی قابل قبول نہیں ۔

۴) بعض لوگ ’و اذ ابدلنا آیۃ مکان آیۃ‘ سے استدلال پکڑتے ہیں کہ سنت سے قرآن کا نسخ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اس مسئلے میں قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ ہم کسی آیت کو دوسری آیت ہی سے تبدیل کرتے ہیں ‘بلکہ یہ تو ایک مثبت خبر ہے کہ اللہ تعالی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت لے آتے ہیں اور ہم اس کے پہلے ہی قائل ہیں۔اس کے علاوہ بھی بعض ایسی آیات کا ابن حزمؒ نے جواب دیا جو کہ عموماً ان کے اس موقف کے خلاف پیش کی جا سکتی تھیں‘جنہیں طوالت کے خوف سے ہم نقل نہیں کر رہے۔

امام شافعی ؒ ‘امام شاطبیؒ ‘امام ابن تیمیہ‘ؒ امام ابن حزم ؒ اور امام ابن قیمؒ وغیرہ کا اصل امتیاز یہی تو ہے کہ وہ کس طرح بظاہر قرآن کی ناسخ یا اس پر اضافہ یااس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کرتے ہیں ‘خود غامدی صاحب کی صورت حال یہ ہے کہ انہیں صرف چھ روایات ہی ایسی نظر آئیں جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی تھیں کیونکہ باقی روایات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور ان چھ روایات کی قرآنی آیات سے تطبیق کے لیے انہوں جس انداز سے اپنی ذہانت کو استعما ل کیاہے اس پر کچھ تبصرہ آئندہ صفحات میں آ رہا ہے ‘ لیکن ہمیں افسوس تواس بات کا ہے کہ سلف صالحین میں سے بہت سے ایسے جلیل القدر أئمہ جو اسی اصولی موقف کے قائل ہیں جو کہ غامدی صاحب کا ہے کہ قرآن صرف سنت کا بیان ہے اور اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے انہوں نے صرف چھ نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی روایات کو قرآن کا بیان ثابت کیاہے ‘ جو بظاہر قرآن کے کسی حکم کی ناسخ یا اس پر اضافہ یا اس کو تبدیل کرنیوالی معلوم ہوتی ہیں لیکن غامدی صاحب ان میں سے بعض اصحاب کے حل سے استفادہ کرنے کے باوجود ان کاذکرتک نہیں کرتے۔غامدی صاحب ہی کے موقف کو أئمہ سلف نے اس قدر منطقی‘عقلی اور شرعی دلائل سے اچھی طرح ثابت کر دیا ہے جو شاید اکیلے غامدی صاحب کے بس میں نہ تھا لیکن غامدی صاحب اگر ان حضرات کا نام لے کر اس موقف کو بیان کریں تو ان کو وہ سب روایات ماننی پڑتی کہ جن کا وہ اپنے استاذ امام کی تقلید میں انکار کرنا چاہتے ہیں ‘مثلا امام شوکانیؒ نے لکھا ہے کہ قرآن کی آیت ’الزانیۃ و الزانی‘ شادی شدہ اور غیر شادی دونوں کو شامل ہے اس لیے اللہ کے رسولﷺ نے غیرشادی شدہ کے لیے ’سو کوڑے اور تغریب عام‘ اور شادی شدہ کے لیے ’سوکوڑے اور رجم ‘ کی سزا مقرر کی ہے اور حدیث میں ہے کہ آپ ؐ کی طرف سے یہ سزا قرآن کی آیت ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے اور ہم یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ بعض علما کا کہنا ہے کہ رجم کی سزا ’أو یقتلوا‘اور تغریب عام کی سزا ’أو ینفوا من الأرض‘ کا بیان ہے ۔جب حدیث میں موجود ہر سزا قرآن کے مطابق ہے اور اس کا بیان ہے تو غامدی صاحب أئمہ سلف کی اس تعبیر دین کو ماننے سے کیوں انکاری ہیں؟

غامدی صاحب کا اپنے اصول سے انحراف

غامدی صاحب قرآن کو قطعی الدلالۃ مانتے ہیں اور حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص وتحدید یا تغیرو ترمیم کے اس لیے قائل نہیں ہیں کہ اس سے قرآن کی قطعیت اور اس کی ’میزان‘ یا’ فرقان ‘ہونے کی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ قرآن کا ’میزان‘ یا ’فرقان‘ ہونا ‘ یہ کیا ہے ؟یہ غامدی صاحب کا قرآن کے بارے میں ایک فلسفہ ہے کہ جس کے رد میں ماہنامہ محدث اکتوبر۲۰۰۷ میں ایک مضمون شائع ہو چکا ہے۔

أمر واقعہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے بہت سی جگہ پر اپنے اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سی ایسی روایات کو قبول کیا کہ جن کے قبول کرنے سے قرآن کے الفاظ کی اپنے معانی پرنہ تو قطعیت باقی رہتی ہے اور نہ ہی قرآن کوغامدی صاحب کے بقول ’میزان‘ یا’ فرقان ‘قرار دیاجا سکتا ہے۔ ذیل میں ہم غامدی صاحب کی اپنے ہی اصول کی خلاف ورزی کی کچھ مثالیں بیان کر رہے ہیں :

۱) جناب غامدی صاحب نے موزوں پر مسح کی روایات کو قبول کیا ہے اور وہ موزوں پر مسح کے قائل ہیں ‘حالانکہ موزوں پر مسح کومان لیا جائے تو قرآن کے الفاظ ’فاغسلوا‘ کی اپنے معنی پر قطعیت باقی نہیں رہتی‘کیونکہ ’غسل‘ کا معنی عربی معلی ہو یا عربی مبین‘حقیقت ہو یا مجاز‘کسی صورت بھی ’مسح کرنا ‘نہیں ہوتا۔قرآن پاؤں کے دھونے کا حکم دیتا ہے جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں مسح کرنا بھی جائز ہے۔غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’رسول ﷺ نے تیمم کے اسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا‘‘۔(قانون عبادات )

غامدی صاحب کے نزدیک موزوں پر مسح قرآن کی آیت ’فتییمموا صعیدا طیبا‘ کا بیان ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرغامدی صاحب کی اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے موزوں پر مسح کا حکم آیتِ تیمم پر قیاس کرتے ہوئے بیان کیا ہے توپھر بھی قرآن کی آیت ’فاغسلوا‘ کی قطعیت توباقی نہ رہی ۔غامدی صاحب نے ’مسح علی الخفین‘ کو قرآن کا بیان تو ثابت کر دیا لیکن سوال تو یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ’فاغسلوا‘ کی قطعیت اور قرآن کا ’میزان‘ یا ’فرقان‘ ہوناکہاں با قی رہا۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ بھی تومحض ایک احتمال ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے آیت تیمم سے’ مسح علی الخفین‘کا حکم نکالا ہو گا اور اس احتمال یا دعوی کی غامدی صاحب کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر ہر اس روایت کے بارے میں غامدی صاحب یہ احتمال قائم کیوں نہیں کر لیتے جو کہ انہیں قرآن کے کسی حکم کی مخصص یا محدد نظر آتی ہے ‘ کہ وہ قرآن ہی کسی نہ کسی آیت کا بیان ہو گا ‘اور میرا علم اتنا نہیں ہے لہذ امجھے کسی روایت کو اس لیے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مجھے قرآن کے کسی حکم میں تغیر یا تبدیلی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔تیسری بات یہ کہ أئمہ سلف امام شافعیؒ ‘امام شاطبیؒ اور امام ابن قیمؒ نے ہر ایسی روایت کو قرآن کی کسی نہ کسی کا آیت کی تشریح یا تفسیرثابت کیا ہے جو کہ بظاہر قرآن پر اضافہ یا اس کے کسی حکم کو تبدیل کرنے والی معلوم ہوتی ہے لہذا غامدی صاحب کو ان تمام روایات کو ماننا چاہیے۔ چوتھی بات یہ کہ جب اللہ کے رسولﷺ خود بیان فرمائیں کہ ’تغریب عام‘اور ’رجم‘ قرآن پر اضافہ نہیں ہے بلکہ ’أو یجعل اللہ لھن سبیلا‘ کا بیان ہے۔ اس کو غامدی صاحب اس لیے رد کر دیں کہ وہ قرآن کے حکم ’الزانیۃ و الزانی‘ کے خلاف ہے تو ’مسح علی الخفین‘کو جو غامدی صاحب نے ’فتیمموا صعیدا طیبا‘ کا بیان قرار دیا ہے توکیا وہ قرآن کی آیت ’فاغسلوا ‘کے خلاف نہیں ہے؟ ۔ پانچویں بات یہ کہ سلف نے ایسی روایات کو عام طور پر جس طرح سے قرآنی آیات کابیان ثابت کیا ہے وہ انتہائی معقول ‘منطقی اور قابل فہم بھی ہے لیکن غامدی صاحب جب قرآن پر اضافہ اور اس کے مفہوم کو تبدیل کرنے والی بعض ایسی روایات کو مان لیتے ہیں اور ان کو قرآنی آیات کا بیان ثابت کرنا شروع کرتے ہیں توان کا یہ بیان کسی اور کو سمجھ آناتو دور کی بات ہے خود غامدی صاحب بھی اس پر مطمئن ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ مثلا امام شافعی ؒ کا کہنا یہ ہے کہ پاؤں دھونے کا فرض ہر شخص پر عائد ہوتا ہے چاہے کسی نے موزے پہنے ہوں یا نہ پہنے ہوں کیونکہ سنت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ موزوں پر مسح وہی شخص کر سکتا ہے کہ جس نے پاؤں دھوئے ہوں ‘یعنی جس نے کامل وضو کر کے اور پاؤں دھو کر موزے پہنے ہوں‘اب اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے دوبارہ پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے قرآن کی آیت ’فاغسلوا‘ پر ہر صورت میں عمل ہو گاچاہے موزے پہننے ہوں یا نہ پہننے ہوں۔

۲) قرآن مجید نے چوری کی سزا قطعِ ید بیان کی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

السارق و السارقۃ فاقطعوا أیدیھما (المائدۃ:۳۸)
چوری کرنے والا مرد اورچوری کرنے والی عورت‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔

اس آیت مبارکہ میں ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ کے الفاظ مطلقاًاستعمال ہوئے ہیں اور عام ہیں لہذاعربی زبان و اسلوب کے مطابق ہر چوری کرنے والے مرد اور عورت پر اس صیغے کا اطلاق ہوتا ہے لیکن غامدی صاحب قرآن کے ان الفاظ کے معانی کی تحدید و تخصیص کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدر و قیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیا ں توڑ لیتا ہے یا بغیر حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتاہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یابھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک‘ یہ سب نا شایستہ افعال ہیں اور ان پر تادیب و تنبیہ ہونی چاہیے ‘لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم ان آیات میں بیان ہوا ہے ‘‘۔ (میزان:ص۳۰۶)

غامدی صاحب نے بہت سے ایسے افراد کو کہ جن پر عربی لغت کے مطابق لفظ ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘کا اطلاق ہوتا ہے ان کو اس لفظ سے نکال دیا ۔أمر واقعہ یہ ہے کہ جن افراد کو غامدی صاحب نے ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ سے نکالا ہے وہ عربی لغت و زبان کے مطابق اس لفظ میں داخل ہیں ۔مثلا غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اگرکوئی شخص معمولی چیز چرا لے تو یہ ایسی چوری نہیں ہو گی کہ جس پر الفاظ قرآنی ’السارق‘ اور’السارقۃ‘ کاا طلاق ہو۔ہم غامدی صاحب سے کہتے ہیں کہ آپ نے معمولی چیز کی چوری کرنے والے کو ’السارق‘ کے الفاظ سے نکالا ہے یہ قرآن کے الفاظ کی قطعیت کے خلاف ہے‘کیونکہ قرآن کی قطعیت کا تقاضا تو اسی وقت پورا ہو گا جبکہ ’السارق‘ کو اس کے لغوی معنی پر برقرار رکھا جائے۔اہل عرب نے ان تما م افراد کے لیے ’السارق‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ جن کو غامدی صاحب ’السارق‘ کے لفظ کی تحدید کرتے ہوئے اس کے معنی سے نکال رہے ہیں مثلا دیوان حماسہ (باب الحماسۃ‘قال جمیل بن عبد اللہ بن معمر العذری ‘۸۷‘المکتبۃ السلفیۃ) میں ہے :

أبوک حباب سارق الضیف بردہ
و جدی یا حجاج فارس شمرا

علامہ زمخشری ؒ ‘اپنی کتاب (أساس البلاغۃ:ص۲۹۶‘دار صادر‘ بیروت) میں أبو مقدام کا شعر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

سرقت مال أبی یوما فأدبنی
و جل مال أبی یا قومنا سرق

غامدی صاحب کے نزدیک حدیث بھی عربی معلی کے مأخذ و مصادر میں سے ہے اور حدیث میں بھی یہ لفظ ایک حقیر چیز کی چوری کے لیے استعمال ہوا ہے ۔آپ ؐ کافرمان ہے :

لعن اللہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہ ویسرق الحبل فتقطع یدہ (صحیح بخاری‘ کتاب الحدود‘باب لعن السارق اذا لم یسم)
’’اللہ تعالی اس چور پر لعنت کرے کہ جو انڈا چوری کرتا ہے اور اس وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے اور رسی چوری کرتا ہے پس اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ ‘‘

اگر تو غامدی صاحب یہ کہیں کہ ہم نے ایک حدیث ’لا قطع فی ثمر معلق و لا فی حریسۃ جبل ...‘ کی وجہ سے بعض افراد کو ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘کے مفہوم سے نکالا ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ اس کے علاوہ مسائل میں اس طرح کی تمام احادیث سے پھر آپ قرآن کے الفاظ کے معنی کی تحدید و تخصیص کیوں نہیں کرتے؟ دوسری بات یہ کہ ایک معضل اور مرسل روایت کو آپ نے قرآن کا بیان بنا دیا جو کہ آپ کے عربی معلی کے خلاف بھی ہے کیونکہ عربی معلی تو یہ کہتی ہے کہ یہ سب ’سرقہ‘ ہے اور اس کے فاعل ’سارق‘ ہیں۔تیسری بات یہ کہ ایک صحیح روایت کہ جس میں انڈے اور رسی کی چوری کو بھی ایسی چوری قرار دیا گیا کہ جس پر چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ‘کو آپ نے قرآن کا بیان کیوں نہ مان لیا کہ جس کو قرآن کا بیان ماننے سے ’السارق‘ کے ان بعض فراد کو آپ کونکالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ جن کو آپ نے اپنی عقل و خواہش سے نکال لیا ہے۔ اگر تو غامدی صاحب اپنی عربی معلی سے یہ ثابت کر دیں کہ جن افراد کو انہوں نے ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ یا ’سرقۃ‘سے نکالا ہے ان پر اہل عرب اپنی لغت میں ’سرقۃ‘یا ’السارق‘ یا’السارقۃ‘ کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے تھے تو ہم مان لیں گے کہ انہوں نے اپنے اصول کی اتباع کی ہے۔لیکن ہمارے خیال میں غامدی صاحب کے لیے ا یسا ثابت کرنا ناممکن ہے کیونکہ ہم نے عربی ادب سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عرب شعراء ہر قسم کی چوری پر لفظ ’سرقۃ‘ کا اطلاق کرتے تھے اور اس فعل کے مرتکب کو’سارق‘ کہتے تھے۔لہذا جب عربی معلی کے مآخذ و مصادر سے قرآن کے الفاظ’السارق‘ اور ’السارقۃ‘ کا معنی ثابت ہو گیا تو اس معنی کی تحدید و تخصیص غامدی صاحب کی محض رائے سے کیسے جائز ہوگئی؟ جبکہ غامدی صاحب اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تو اس اختیار کے قائل نہیں ہیں۔ 

۳) غامدی صاحب حیض والی عورت کے لیے نماز نہ پڑھنے کے قائل ہیں جو کہ قرآنی حکم ’وأقیموا الصلاۃ‘ کا نسخ اور اس میں تغیر ہے ۔کیونکہ قرآن کا حکم نماز پڑھنے کا ہے۔ہم مانتے ہیں کہ آیت مبارکہ ’وأقیموا الصلاۃ‘ مجمل حکم ہے لیکن کیا اجمال کے بیان کا معنی یہ ہوتا ہے کہ أمر سے مراد نہی لی جائے۔ ’وأقیموا الصلاۃ‘ کا معنی نماز قائم کرنا ہے اس سے مراد ’نماز نہ قائم کرنا‘ بیان کی کون سے قسم ہے؟ دوسر ی بات یہ کہ حائضہ عورت کے بارے میں قرآن خاموش نہیں ہے بلکہ قرآن نے حائضہ کے بارے میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ أیام حیض میں شوہر سے علیحدہ رہے۔جب قرآن نے حائضہ کوصرف ایک چیز یعنی شوہرسے علیحدگی کا حکم دیا تو اس کا نماز اور روزے سے علیحدہ رہنا کیا قرآنی حکم پر اضافہ نہیں ہے؟۔اسی طرح ’فاعتزلوا النساء‘ میں ’اعتزال‘ کا حکم عمومی ہے جو کھانے ‘ پینے ‘ ملنے ‘جلنے‘ اٹھنے ‘ بیٹھنے اور مباشرت وغیرہ جیسے سب افعال سے علیحدگی کو شامل ہے لیکن ’اعتزال‘ سے غامدی صاحب کا صرف مباشرت مراد لینا کیاقرآن کے عمومی مفہوم کی تخصیص و تحدید نہیں ہے؟


قرآن / علوم القرآن

(فروری ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter