مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رونامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور میں ۲۴ جنوری ۲۰۰۸ کو بی بی سی کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سرحدکی نگران حکومت نے ۱۹۹۴ میں نافذ کیے جانے والے شرعی نظام عدل ریگولیشن میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے جن کے مطا بق مالا کنڈ ڈویژن کی قاضی عدالتوں کے فیصلوں کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ صوبہ سرحد کے نگران وزیر قانون میاں محمد اجمل نے بی بی سی کوبتایا ہے کہ شرعی نظام عدل ریگولیشن میں یہ ترامیم مالاکنڈ کے عوام کے مطالبہ پرکی جا رہی ہیں اور اس ترمیمی مسودہ کامقصد اس بات کو ممکن بنانا ہے کہ کسی بھی قاضی کورٹ کے فیصلے کوہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی بجائے فیڈرل شرعی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے اور ایسے مقدمات کے فیصلے جلد از جلد ہوسکیں۔

شرعی نظام عدل ریگولیشن ۱۹۹۴ء کے دوران مولانا صوفی محمد کی قیادت میں تنظیم نفاذ شریعت محمدی کی طرف سے چلائی جانے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سرحد جناب آفتا ب احمد شیر پاؤ کی حکومت نے نافذ کیا تھا جس کے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر قاضی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ قاضی عدالتیں شریعت محمدیہ کے مطا بق مقدمات کے فیصلے کریں گے۔ اس پر مولانا صوفی محمد اوران کے رفقا کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ ان قاضی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھا گیا ہے جو شرعی قوانین کی بجائے انگریزی قوانین کے مطا بق فیصلے کرتی ہیں اور اس طرح ان شرعی عدالتوں کو عملی طور پر غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس خطہ میں مولانا فضل اللہ کی طرف سے شروع کی جانے والی حالیہ تحریک میں بھی مکمل نفاذشریعت کا مطالبہ سامنے آیاہے، اس لیے یوں محسوس ہوتاہے کہ اس د باؤ کے پیش نظر نگران صوبائی حکومت نے یہ ترامیم لانے کافیصلہ کیاہے تاکہ عوام کویہ باور کرایاجاسکے کہ مالاکنڈ ڈویژن کی قاضی کورٹس کے خلاف اپیلوں کی سماعت کاحق ہائی کورٹ کی بجائے وفاقی شرعی عدالت کومنتقل کرکے اس اعتراض کو ختم کر دیا گیا ہے کہ یہ قاضی عدالتیں عملی طورپر غیر موثر ہیں اور اس کے بعد اب مالاکنڈ ڈویژن میں شریعت کا نفاذ عملاً ہو گیا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ بھی بیوروکریسی کی ان چالوں میں سے ایک ہے جو وہ وقتاً فوقتاً پاکستان کے عوام کواسلامی نظام کے نفاذ، شرعی قوانین کی عملداری اور قرآن وسنت کی ترویج وتنفیذ کے حوالے سے یقین دلانے کے لیے کرتی رہتی ہے، لیکن گزشتہ ساٹھ برس کے دوران اس قسم کی بیسیوں چالوں کے باوجود ابھی تک صورت حال جوں کی توں ہے اورملک میں شرعی قوانین کی عملداری کی کوئی شکل عمل درآمدکے دائرے کی طرف بڑھتی ہوئی نظرنہیں آتی، بلکہ اس حوالہ سے سوات (مالاکنڈ ڈویژن)، قلات، خیرپور، بہاول پور اور چترال کی ریاستیں زیادہ بد قسمت رہیں کہ ان نیم خود مختار ریاستوں میں انگریزوں کے دورمیں بھی ایک حد تک شرعی قوانین کا نفاذ قاضی عدالتوں کے ذریعہ موجود تھا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ ان ریاستوں کے الحاق کے بعد ختم ہو گیا اور مالاکنڈ ڈویژن یعنی سوات کے عوام اپنی موجودہ جدوجہد کے ذریعہ اسی ختم کی جانے والی صورت حال کو دوبارہ بحال کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہمیں مولانا صوفی محمد اور مولانا فضل اللہ کی تحریکوں کے طریق کار سے اتفاق نہیں ہے اور ہم اس ملک میں نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں لیکن ہمیں ان کے اس موقف سے اتفاق ہے کہ باقی پاکستان میں اسلامی قوانین کانفاذ جب بھی عمل میں آئے، مگر ان کی سا بقہ ریاست سوات کی حدود میں جہاں پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق سے پہلے تک شرعی قوانین اور قاضی عدالتیں موجود تھیں، کم از کم وہاں تو حسب سا بق شرعی عدالتوں کی عمل داری قائم کر دی جائے۔ چنانچہ ۱۹۹۴ء میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نام سے مالاکنڈ ڈویژن میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر قاضی عدالتوں کاقیام عمل میں لایا گیاجن کے با رے میں ہم نے اس وقت بھی مینگورہ کے ایک مطالعاتی دورہ کے بعد یہ عرض کردیاتھا کہ کہ اس ریگولیشن سے اس کے سوا عملاً کوئی فرق نہیں پڑا کہ مروجہ قوانین کے تحت کا م کرنے والی عدالتوں کو قاضی عدالتوں کانام دے دیا گیا ہے اور اب چودہ سال بعد ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیار ہائیکورٹ سے وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کرنے کی مجوزہ کارروائی سے بھی کوئی عملی تبدیلی نہیں ہوگی، اس لیے کہ ان ترامیم کے اعلان کے ساتھ ہی نگران صوبائی وزیر قانون میاں محمد اجمل نے بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے مطا بق یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ’’مالا کنڈ ڈویژن میں ریگولر قانون ہی نافذ ہوگا، تاہم جج صاحبان کوئی بھی فیصلہ سنانے میں قرآن وسنت کے احکامات کو زیادہ اہمیت دیں گے۔ جج صاحبان معاون قاضیوں اور شرعی وکلا کی راہنمائی میں فیصلے سنائیں گے مگروہ ان کی تجاویز کو ماننے کے پابندنہیں ہوں گے۔‘‘

اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یا حلقہ اس غلط فہمی کاشکار رہتا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں قاضی کورٹس کے نام سے قائم یہ عدالتیں شرعی عدالتیں ہیں اور ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق وفاقی شرعی عدالت کو منتقل کرنے سے ان کی شرعی حیثیت مزید پختہ ہو جائے گی تو اس بھولپن پر ہم اس کے لیے دعاے خیر بلکہ دعاے صحت کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں؟ 

حالات و واقعات

(فروری ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter