آئین اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد اور دینی حلقوں کی ذمہ داری

مولانا مفتی محمد زاہد

(۱۲ نومبر ۲۰۰۷ کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے فضلاء کے ایک اجتماع سے خطاب۔)


سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ہمارا ملک بلکہ پورا عالم اسلام اور پوری دنیا بڑے عجیب وغریب حالات سے گزر رہی ہے۔ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور تبدیلیاں بھی فیصلہ کن، خاص طور پر عالم اسلام میں اور عالم اسلام کے چنداہم ملکوں میں جن میں شاید سرفہرست ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے۔ ہم امت مسلمہ کاایک حصہ ہونے کے ساتھ پاکستان کے شہری بھی ہیں اوریہ ملک ہماراگھر ہے۔ جوحضرات دین کے کام سے وابستہ ہیں، وہ ہماری برداری ہے اوراللہ کے فضل وکرم سے ہم ان کا بھی ایک حصہ ہیں، اس لیے ہم کبھی بھی اپنے آپ کو امت، پاکستان اور دینی حلقوں کے مسائل سے الگ نہیں رکھ سکتے اور بے فکر بھی نہیں رہ سکتے۔ جو کام کسی بھی میدان میں ہو رہا ہے، چاہے وہ ملکی سطح پر ہو، عالم اسلام کی سطح پر ہو یادینی حلقوں کی سطح پر، ہم اپنے آپ کو اس سے لاتعلق نہیں رکھ سکتے۔ ایک حدیث میں آتاہے کہ: من لم یھتم بامر المسلمین فلیس منھم۔ حضوراقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں فکرمند نہیں ہوتا،بے فکری اور بے حسی کا شکار رہتا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا) وہ مسلمانوں میں شمار کیے جانے کے قابل نہیں۔ ہماری بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہماری نظر میں ہو کہ کیا ہو رہا ہے اور ان حالات میں ہمارے کرنے کا کیا کام ہے، خاص طورپر اس حیثیت سے کہ اللہ جل جلالہ نے ہمیں اپنے دین کے کسی نہ کسی کام سے وابستہ کیا ہوا ہے، اور کسی نہ کسی حد تک ہماری بات سنی اور مانی جاتی اور اس کا اثر ہوتا ہے، کسی کا زیادہ اور کسی کا کم۔ اس لیے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں حالات کا علم ہوا ور حالات پر ہماری مکمل نظرہو کہ کیا ہو رہا ہے اورہمارے کرنے کا کیا کام ہے۔ کام کرنے کے کئی میدا ن ہوتے ہیں، کئی پہلو اور کئی رخ ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک ہی انداز کے کام میں لگے ہوں،لیکن بہرحال ملت اور امت اور خاص طورپر اپنے ملک کے حالات کے بارے میں فکرمندی اور دائرے کے اندر رہتے ہوئے، اپنے کام کی نوعیت برقرار رکھتے ہوئے، حالات کی بہتری کے لیے جوکچھ ہو سکتا ہے، وہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، پوری امت کے لیے بالعموم اور دین کا کام کرنے والوں کے لیے بالخصوص فیصلہ کن لگ رہے ہیں۔ حالات یا آگے جائیں گے یا اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، ریورس گیئر لگ سکتاہے۔ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے اور کس طرح کرنا چاہیے، یہ ایک ایسی بحث ہے کہ اس میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں اور یہ آرا کا تنوع ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو۔ بعض اوقات متضاد پالیسیاں ہوتی ہیں اور متضاد آرا ہوتی ہیں، ہرکوئی اپنے اپنے طریقے پر چل رہا ہوتا ہے ،لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ اس میں خیر پیدا فرما دیتے ہیں۔ آپ اپنی گھڑی کو کھول کردیکھیں، اس میں کئی کچھ گراریاں دائیں سے بائیں اور کچھ بائیں سے دائیں چل رہی ہوں گی، لیکن بحیثیت مجموعی ساری گراریاں مل کر جو نتیجہ د ے رہی ہوتی ہیں، وہ ایک ہوتا ہے اور وہ ہے وقت بتانا۔ تویہ آرا کاتنوع، طریقہ کار کا تنوع ہمیشہ فائدہ مند رہاہے اور اسی کو کہا گیا ہے کہ اس امت کا اور علما کا اختلاف رحمت ہے۔ مغربی دنیا خاص طورپر اس پر بڑا فخرکرتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر تنوع آرا کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں diversity ہے، pluralism ہے، لیکن وہ یہاں تک صدیوں کے دھکے کھانے کے بعد پہنچے ہیں اور ہمیں یہ بات ابتدا ہی سے سمجھا دی گئی تھی کہ سب کے سب ایک ہی کھینچی ہوئی لکیر پر چل رہے ہوں، یہ کوئی ضروری نہیں،بلکہ بہت سی جگہوں پرتنوع اور تعدد آرا کی گنجایش رکھی گئی ہے کہ پالیسیوں اور طرز عمل میں آرا کااختلاف اور تنوع اگرایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ہو تو بظاہر بالکل مختلف رخ بھی نظر آرہے ہوں، تب بھی بحیثیت مجموعی امت کو،معاشرے کو، دین کو اور دین کے کام کو فائدہ ہی پہنچتا ہے۔

میں صرف ایک چھوٹی سی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت یوں لگ رہاہے کہ جیسے ہمارا ملک خاص طورپر ایک خاص حوالے سے فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ دو راستوں میں سے ایک اختیار کرنا پڑے گا۔ یہ ملک یاصحیح راستے پر چڑھے گا یا غلط راستے پر، لیکن جس راستے پرایک دفعہ چڑھ گیا، اس سے ہٹانا انتہائی مشکل ہوگا۔ یہ وقت فیصلہ کن ہے اور جس طرف کو گاڑی چل پڑی، بظاہر اسی طرف چلتی رہے گی۔ ا س میں ہمارا وزن کس جانب ہونا چاہیے؟ دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تویہ ہے کہ اس ملک کے اندر عوام کی آواز کوتسلیم کیاجائے۔ ہمارا دستور وآئین یہ کہتاہے کہ اس ملک کے اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بعد اس ملک کی قسمت کے مالک باہر سے یا اندر سے مسلط کیے ہوئے چند افراد نہیں بلکہ اس ملک کے عوام ہیں۔ یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہاں کے شہری سب کے سب انسان ہیں اور انسان ہونے کے ناطے ان کے کچھ حقوق ہیں جنہیں شہر ی حقوق کہا جاتا ہے۔ شہری حقوق اور شخصی آزادیوں کی ضمانت عملاً نظر آئے۔ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ نامی کسی چڑیا کے کہنے پر یاکسی بھی بہانے سے ان پر جبر کرنے اور قدغنیں لگانے کا اختیار کسی کونہ ہو۔ آپ یہ کہہ سکتے ہو یانہیں، آپ یہ لکھ سکتے ہو یا نہیں۔بہت واضح اور معقول وجہ کے بغیر کسی کو بات کہنے سے روکا نہ جاسکے۔ تم نے یہ کیوں لکھا ہے؟ تم نے یہ کیوں کہا ہے؟ فلاں جگہ پر تم جمع کیوں ہوئے تھے؟ فلاں پارٹی کے ساتھ تمہاری وابستگی کیوں ہے؟ اس طرح کی پابندیاں لگانے کے بجائے ان معاملات میں آزادی ہو۔

یہ باتیں ہمیں تھوڑی سی اجنبی لگتی ہیں۔ اجنبی اس لیے لگتی ہیں کہ پچھلی چند صدیوں سے ان باتوں کی مغرب نے رٹ لگائی ہے اور اپنے ہاں انہوں نے اپنے عوام کوایک بڑی حدتک یہ حقوق اور آزادیاں دے رکھی ہیں۔ جس طرح کی ایمرجنسیاں اور قوانین یہاں چلتے ہیں اور جس طرح کی پا بندیاں یہاں لگتی ہیں، کسی مغربی ملک برطانیہ، امریکا اور یورپ کے کسی ملک میںیہ آسان کام نہیں۔ ا گر وہاں اس طرح کی کوئی چھوٹی سی بھی بات ہو، ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ چند سال پہلے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر لاکھوں لوگوں کے مظاہرے ہوئے ،لاکھوں لوگ باہر نکلے۔ انہوں نے اپنے ہاں ان چیزوں کو منوا لیا ہے ۔ توچونکہ انہوں نے اپنے ہاں منوایا ہے، اپنے ہاں روبعمل لائے ہیں، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شایدیہ چیزیں ان کی ہیں، یہ باتیں اسلام سے کوئی تعلق اورواسطہ نہیں رکھتیں۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ آپ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کایہ ارشاد سناہوگا کہ ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام سمجھنا شروع کر دیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے توان کو آزاد جنا تھا‘‘۔ جو انسان پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزادی ساتھ لے کر آتاہے۔ فطری طورپر وہ آزاد ہوتا ہے۔ آپ کسی کو کسی معاملے میں جکڑنا چاہتے ہیں تو جکڑنے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ کسی کو آزاد رہنے کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاًمیں کوئی کام کر رہا ہوں، آپ مجھے روکنا چاہتے ہیں تو آپ وجہ بتائیں کہ آپ کیوں روکنا چاہتے ہیں۔ میں اس چیز کا پابند نہیں ہوں کہ آپ چونکہ اس ملک کے حاکم ہیں، آپ ڈی سی ہیں، آپ تھانیدار ہیں، اس لیے پہلے میں آپ کو قائل کروں گا کہ میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں۔ نہیں، میر ی مرضی۔ میں آزاد ہوں، یہ میرا حق ہے۔ آپ اگر روکنا چاہتے ہیں تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ مجھے بتائیں اور سمجھائیں کہ آپ مجھے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟ پیدایشی آزادی کایہی مطلب ہے کہ کسی کوکسی چیز سے روکنے کے لیے وجہ درکار ہے، کرنے کے لیے نہیں۔ 

مغر ب نے اپنے ہاں شہری آزادیوں کو نافذ کیا ہے اوریہ بات یاد رکھیں کہ مغرب نے صدیوں کی جدوجہد سے جویہ مقام حاصل کیاہے اوریہاں تک پہنچاہے، یہ ہمارے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف گوروں کے لیے ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کہ یہ ان کی صدیوں کی جدوجہد ہے جو انہوں نے اپنے لیے کی ہے۔ ہم جدوجہد کریں گے تواپنے لیے کریں گے۔ انہوں نے ایک چیز حاصل کی ہے تو وہ اپنے لیے حاصل کی ہے۔ ہم یہ چاہیں کہ مغرب چونکہ ان شہری آزادیوں کو تسلیم کرتاہے، وہاں امریکا اور برطانیہ میں پائی جاتی ہیں تواسی معیار کی یہ آزادیاں امریکا، برطانیہ وغیرہ اسلامی ملکوں میں ہمیں دلوا دیں گے، اس کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اپنے گھر خود بنانے پڑتے ہیں۔ اگرآپ کے ہمسایے نے اچھا گھر بنا لیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کا گھر بھی خو ب صورت بنا دے گا۔ یہ چیز ہمیں خود اپنی محنت سے حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے لیے آزاد اورمضبوط ریاستی ادارے ناگزیر ہوتے ہیں، چاہے وہ پارلیمنٹ اور مقننہ ہو، انتظامیہ ہو یا عدلیہ ہو، خاص طورپر عدلیہ آزاد ہو۔ 

آپ کومعلوم ہوگا کہ الیکشن کے دنوں میں انڈیا کے اندر الیکشن کمیشن کی اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وزیراعظم تک اس سے تھرتھر کانپ رہاہوتا ہے۔ اندرا گاندھی نے اپنے ایک الیکشن میں اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال کرلیا تھا تووہاں کی عدالتوں نے الیکشن کالعدم قرار دے دیا تھا۔ عدالتوں کی آزادی ناگزیر ہوتی ہے۔ امریکی انتظامیہ نے کیوبا، گوانتا ناموبے کے قیدیوں کے بارے میں یہ چاہا کہ ان پر صرف فوجی قانون لاگو ہو، امریکا کا عام قانون ان پر لاگو نہ ہو۔ اس پر بہت زور لگایا لیکن امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسے نہیں چلنے دیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عام لوگوں کو جتنا اعتماد برطانیہ، امریکاکی عدالتوں پر ہے، اتنا اعتماد پاکستان بلکہ کسی بھی اسلامی ملک کی عدالتوں پر نہیں ہے، کیونکہ آزاد اداروں کا تصور، شہری حقوق اور شخصی آزادیوں کا تسلیم کیا جانا،اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں فکری عیاشی سمجھی جاتی ہیں۔ عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک فکری عیاشی ہے، اس کا ہماری روٹی سے کوئی تعلق ہے نہ پہناوے سے اور نہ ہماری بنیادی ضرورتوں سے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔یہ چیزیں کسی بھی معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جب تک یہ چیزیں حاصل نہ ہوں، اس وقت تک قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ بے شک سڑکیں اچھی بن جائیں، جال بچھ جائیں، سڑکوں پرپل بن جائیں، یہ صرف ظاہری ترقی ہے۔ اصل ترقی انسانی،سیاسی اور سماجی ترقی ہے جس میں مضبوط اداروں کے زیرسایہ شہری حقوق اور شخصی آزادیاں تسلیم شدہ ہوں۔

اس وقت ملک میں جوکچھ ہو رہا ہے، وہ ایک انتہاہے۔ مختلف اداروں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد ہو رہی ہیں، ٹی وی چینلو ں اور اخبارات وجرائد پر پابندیاں اور جکڑنیں ہیں اور یہ سب کچھ روشن خیالی کا نام جپنے والوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اگرچہ ہماری معلومات کے مطا بق الحمد للہ ابھی تک بعض اخبارات اور ٹی وی والوں نے حکومت کے آگے ہتھیا رنہیں ڈالے، حکومت جس طرح کا قانون نافذکرنا چاہتی ہے، اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہوئے، بند پڑے ہوئے ہیں۔ اوربھی کئی طبقے اللہ کے فضل سے اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ حکومتی جبر نہیں مانیں گے۔ اب دو راستے ہیں۔ یا تو ملک کو دستور پسند اور مہذب معاشرہ دیکھنے کے خواہشمند بھرپور طریقے سے اپنی بات تسلیم کروائیں گے اور موجودہ حالات کا ایسا نتیجہ نکلے گا کہ آئندہ آنے والوں کو یقین ہوجائے کہ یہاں کے لوگ ا ب اتنے باشعورہوچکے ہیں کہ یہاں کسی کی مطلق العنانی نہیں چل سکتی، لوگوں کے حقوق چھینے نہیں جا سکتے، لوگوں پر بے جاریاستی دباؤ اور جبر نہیں چل سکتا، فرد واحد کی خواہش پر اداروں کوتہس نہس نہیں کیاجاسکتا۔ اس سے ملک ایک خاص راستے پر چڑھے گا۔ ایک دفعہ یہ بات سمجھ میں آگئی توپھر ا ن شاء اللہ یہ ملک صحیح رخ پر چلتا رہے گا۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ قوم بحیثیت مجموعی تسلیم کرلے کہ ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا) موجودہ صورت حال سے ہماراکوئی تعلق نہیں، یہ اخبارات والوں کامسئلہ ہے، یہ ٹی وی چینل والوں کا مسئلہ ہے، یہ ججوں کا مسئلہ ہے، یہ وکیلوں کا مسئلہ ہے، یہ دینی حلقوں اور مولویوں کا مسئلہ ہے۔ ہرکوئی اپنے حصے کی مار الگ الگ کھاتارہے۔ اس سے ملک ایک خاص راستے پر چڑھے گا۔آنے والی حکومتوں کو پتہ ہوگا کہ جیسے پہلے ساٹھ سال سے ہوتاآرہا ہے، جب دیکھاکہ عدلیہ ہماری تا بعداری سے نکل رہی ہے توکسی نہ کسی طریقے سے اپنے مرضی پر لے آئیں۔ جب دیکھاکہ لوگوں تک بات پہنچانے کے جتنے ذرائع ہیں، جتنا میڈیا ہے، وہ ایک خاص حدسے نکل رہا ہے، ہماری منشا کے مطا بق نہیں چل رہا تو ان کو پکڑ کر جکڑ دیں اور کہیں کہ لوگوں نے مان لیا اور ’’سانوں کی‘‘ کا رویہ اختیار کر کے ہماری خاموشی نے تصدیق کر دی۔ لہٰذا یہ صرف چندلوگوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے ملک ایک دوسری قسم کی ڈگر پر چلے گا اور یاد رکھیں کہ گاڑی کارخ جس طرف کوبھی مڑا، اس کے اچھے یا برے اثرات ہم یعنی دین کا کام کرنے والوں پر بھی لازماً پڑیں گے۔ اگر ملک کی یہ گاڑی شخصی آزادیوں کے راستے پر چل نکلی، شہری حقو ق، دستورپسندی اور آئین کی پاس داری کے راستے پر چل نکلی تواس کے اثرات وثمرات سے دینی حلقے بھی مستفید ہوسکیں گے۔ اس کافائدہ جہاں لادین طاقتوں کو ہوگا، وہیں ہمیں بھی ان آزادیوں اور شہری حقوق سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔

اگر خدانخواستہ گاڑی کارخ دوسری طرف ہوگیا اور آپ نے کسی کایہ اختیار تسلیم کرلیا کہ وہ اپنی مرضی سے جس کا چاہے، گلا دبا دے توجس نے آج ان کا دبایاہے، کل آ پ کا بھی دبا سکتا ہے۔ آج اگر اس کا گلہ د بانے کی طاقت حاصل کرتاہے توکل آپ کا بھی د بادے گا،بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہارا اس سے زیادہ دبائے۔ آج کئی لوگوں کے لیے بات کہنا اور لکھنا مشکل ہے اور دوسرے شہری حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں توکل کوہمارے لیے دین کے کام میں بھی مشکلات آسکتی ہیں۔ آپ دوسرے اسلامی ملکوں کاحال دیکھ لیں۔ سعودی عرب اور ترکی کا حال دیکھ لیں، وہاں کی حکومتوں کے نقطہ نظر سے ہٹ کر آپ دین کی کوئی بات بھی کر سکتے ہیں؟ تبلیغی جماعت کا کام آزادی سے کرسکتے ہیں؟ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ تبلیغ والے حضرات کہنے لگے کہ آج کل ہمیں ترکوں پر زیادہ محنت کرنے کا کہا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ جماعتیں ترکی میں جا رہی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس مقصدکے لیے جماعتیں زیادہ تر جرمنی میں جا رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ محنت ترکوں پر اور جماعتیں جرمنی میں جا رہی ہیں؟ کہنے لگے اس لیے کہ ترکی میں وہ حقوق نہیں، وہ آزادیاں نہیں ہیں جو جرمنی میں ہیں۔ ترک چونکہ جرمنی میں کثر ت سے ہیں ملازمت اور کسب معاش وغیر ہ کے سلسلے میں، اس لیے جرمنی میں جا کر ترکوں پرمحنت کرتے ہیں اور ترکی میں یہ کام نہیں ہوسکتا۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شایدہماری نفسیات میں کہیں سے یہ بات آگئی ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آکر لوگوں کو جکڑے، ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ہم ان جکڑے ہوئے لوگوں میں دین کا جام انڈیلیں، لیکن یاد رکھیں یہ ہم میں سے کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے، خود اسلام فطری طورپر اتنا بودا اور بے کشش نہیں ہے کہ اسے اس طرح کی کسی بیساکھی کی ضرورت ہو۔ آپ پچھلے کچھ عرصہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ جن جن ملکوں میں شہری حقوق اور شخصی آزادیاں جتنی زیادہ تسلیم کی گئی ہیں، جتنا زیادہ کھلا ماحول ملا ہے، وہاں اسلام اتنا زیادہ پھیلاہے اور جو ملک اشتراکی نظام کے زیر اثر رہے ہیں، اشتراکیت میں چونکہ ان حقوق کو سلب اور چھینا جاتا ہے، جیسے روس ہے، چائنا ہے، وہاں اسلام اتنا نہیں پھیلا جتنا امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ میں پھیلا ہے۔ آج مسلمان ملکوں کے اندر عورتیں حجاب چھوڑ ر ہی ہیں، لیکن مغرب میں مسلمان ہو کر حجا ب اوڑھ رہی ہیں۔ کھلے ماحول میں جب بھی اسلام کی بات چلے گی تووہ لوگوں کے دل ودماغ میں خود جگہ بنائے گی۔

بات یہ کررہاتھاکہ اس وقت ہماری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہونی چاہییں؟ میں کسی خاص طبقے کی بات نہیں کر رہا۔ ہم اگر عملی طورپر کچھ نہیں کرسکتے توکم ازکم ذہنی اورفکری طورپر ہماری ہمدردیاں کس کے ساتھ ہونی چاہییں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اس وقت چند ججوں اور وکیلوں کا نہیں، نہ اخبارات والوں اور ٹی وی والوں کا ہے، بلکہ مسئلہ اصول اور رخ کا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں کون سا راستہ سوٹ کرے گا۔ اس وقت ہم اپنا وزن صحیح جانب ڈالیں کیونکہ یہ فیصلہ کن موڑہے۔اپنے آپ کو بالکل لاتعلق نہ رکھیں، ا ب یہ کہنے کا موقع نہیں رہاکہ ’’سانوں کی‘‘۔ اگر آزادیوں اورحقو ق کوتسلیم کرلیا گیا تواس سے ہم بھی مستفید ہوں گے۔قانونی ڈھانچے اور قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے آپ کوئی مدرسہ بنائیں یاکوئی مسجد بنائیں توآپ کوکوئی نہیں روک سکے گا۔ برطانیہ اورامریکا میں اوریورپ کے دیگر ملکوں میں وہاں کے قانون کے مطابق اگر مسجد بنانا چاہتے ہیں تو وہاں کی حکومت کی مجال نہیں کہ وہ آپ کوروک دے، محض اس وجہ سے کہ ہمیں پسند نہیں۔ آپ مند ربنا نا چاہیں توآپ کاحق ہے، آپ بنائیں۔ آپ گرجاگھر بنانا چاہیں، آپ کاحق ہے، بنائیں۔ توحقوق کو تسلیم کیے جانے کا جو راستہ ہے، شہری حقوق اور شہری آزادیوں کا جو راستہ ہے، اس سے جتنا زیادہ فائدہ دوسروں کوہوگا، اس سے کہیں زیادہ فائدہ ہم اٹھا سکیں گے۔یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ایک خاص قانونی دائرے کے اندر رکھنا پڑے گا، لیکن اس حد کے اندر رہتے ہوئے توکم ازکم روک ٹوک نہیں ہوگی۔ ہم اپنا کام آزادی سے کرسکیں گے، دین کی بات بڑھا سکیں گے، پھیلا سکیں گے، لوگوں تک پہنچا سکیں گے، اور یہ ہماری طاقت نہیں بلکہ دین کی اپنی طاقت ہے۔ دین اپنے آپ کو خود منواتاہے۔ توجہاں تک ہماری بات چلتی ہے، جہاں تک ہمارے قلم کی دسترس ہے، ورنہ کم از کم ہمدریوں کی حدتک ہمیں صحیح جانب وزن ڈالنا چاہیے، خاص طورپر ہم میں سے جولوگ سیاسی میدانوں میں ہیں۔ ہمیں اپنی سیاسی قیادت پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر امیرالمومنین کو برسرعام غلطی پرٹوکا جاسکتاہے تودینی سیاسی قیادت اگر غلط راستے پر چل رہی ہے تواس کو بھی بتایا جا سکتاہے کہ جناب!آپ یہ ٹھیک نہیں کر رہے۔ خاص طورپر جولوگ سیاسی میدان میں ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیادت کوبتائیں کہ ہمیں پتہ ہے کہ اندر سے کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا کیا جا رہا ہے۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ ہمیں پتہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کوبتائیں کہ ہم محض آپ کی ز بان کی چکناہٹ اور خوب صورت دلیلوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔اب وقت آگیاہے کہ آپ کے بیانات اورطرز عمل اورپالیسیوں میں یکسانیت نمایاں نظر آئے۔

اس ملک کے ساتھ اس وقت چند قائدین اتنا سنگین مذاق کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہماری چالبازیوں اور مذاق سے لوگ بے وقو ف بن جائیں گے۔ اس کا نقصان جس طرح ملک کو پہنچے گا، ویسے ان کو بھی پہنچے گا۔ اس وقت کی صورت حال سے دل اتنا دکھا ہواہے کہ کوئی قیادت نظر نہیں آرہی ہے۔ نچلی سطح پرپہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے، لیکن اوپر کی سطح پرکوئی قیادت ہی نہیں۔ پھرایک بات یہ بھی ہے کہ ملک کاجوبہت متمول طبقہ ہے تواسے اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور نچلا طبقہ مہنگائی کی چکی میں ایسا پسا ہواہے کہ اسے اپنی دال روٹی سے فرصت نہیں۔ لے دے کے مذل کلاس خصوصاً اپر مذل کلاس رہ جاتی ہے۔ اس وقت بیداری کی لہربھی سب سے زیادہ اس میں ہے اور علما کے ساتھ رابطہ اورتفاعل اس کا سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے بھی اس طبقے پر خاصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مطلق العنانی کے خلاف مزاحمت کی علامت مولوی ہوتا تھا۔ لوگوں کی نظر یں مولا نا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ پر ہوتی تھیں، مفتی محمود ؒ پر ہوتی تھیں، لیکن آج لوگ سوچنے پر مجبورہیں۔ آج لوگوں کی نظریں اعتزاز احسن پر ہیں، جاوہد ہاشمی پرہیں، منیراے ملک، افتخار چوہدری پر ہیں۔ آپ لوگوں سے خود جاکر پوچھ لیں، خود سرو ے کرلیں۔ اور نہیں تو کم از کم اپنے مقتدیوں کا ہی سروے کرلیں، ہم لوگ کسی زمانے میں ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہوتے تھے، ۔ اب اس جگہ پر پہنچ گئے،یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے۔ ہم عام تقریریں نہیں کر سکتے، عوام کو بھڑکانہیں سکتے توکم از کم اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سوچ توسکتے ہیں اوراپنی دینی لیڈر شپ کو جتا سکتے ہیں۔ اگر ان کویہ پتہ چل جائے کہ نیچے والوں نے صرف ہمارے حق میں نعرے نہیں لگانے بلکہ ہماری پالیسیوں کو چیک بھی کرناہے توانہیں بھی اپنی پالیسیوں پر غور اور نظرثانی کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔ اس معاملے میں اگرہم نے سستی کی توخدانخواستہ ہم پر کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ ہم چیخیں لیکن کوئی سننے والا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔

(ضبط وتلخیص:مولانا مفتی محمد اصغر۔ بشکریہ مجلہ ’’الحقانیہ‘‘ ساہیوال، سرگودھا، جنوری ۲۰۰۸)

حالات و واقعات

(فروری ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter