آج کل وطنِ عزیز تہہ درتہہ بحرانوں کے جس سنگین دور سے گذررہا ہے، اس کی کوئی مثال ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملک کا ہر حساس باشندہ اس صورتِ حال پر بے چین ہے، اور اُسے ان حالات میں روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی۔ ایسے پُر آشوب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کے وجود و بقا کی خاطر ہر شخص اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچے، اور ملک کے تمام طبقات، تنظیمیں اور جماعتیں اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالیں اور ملک کو مل جل کر اس گرداب سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ملک کے گوناگوں مسائل میں جس چیز نے کئی گناہ اضافہ کردیا ہے، وہ بڑھتی ہوئی بد امنی، سڑکوں پر غارت گری اور بالخصوص بم دھماکوں اور خود کُش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے نتیجے میں تقریباً ہر ہفتے کہیں نہ کہیں درجنوں افراد کی ہلاکت سینکڑوں خاندانوں کو اُجاڑ چکی ہے اور یہ سلسلہ کسی حد پر رکتا نظر نہیں آرہا۔
یہ بات تقریباً ہرمسلمان کو معلوم ہے کہ اسلام میں خود کُشی حرام ہے، اور قرآنِ حکیم اور احادیثِ شریفہ کے احکام وارشادات اس بارے میں بالکل واضح ہیں، لیکن جب کسی دشمن سے جائز اور برحق جنگ ہورہی ہو، اُس وقت دشمن کو مؤثر زک پہنچانے کے لیے کیا کوئی خود کُش حملہ کیا جاسکتاہے؟ شرعی اور فقہی طور پر اس بارے میں دو رائے ہوسکتی ہیں۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر ایک جائز اور برحق جنگ کے دوران حقیقی ضرورت پیش آجائے اور ہدف بے گناہ لوگ نہ ہوں تو خود کُش حملہ جائز ہے، یہ اُسی طرح کاخود کُش حملہ ہوگا جیسے ۱۹۶۵ ء میں ہندوستان کے حملے کے وقت ’’چونڈہ‘‘ کے محاذ پر پاکستانی فوج کے جوانوں کی یہ داستانیں مشہور ہیں کہ وہ جسموں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں سے ٹکراگئے تھے۔ او راُ س کے نتیجے میں ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی تھی ۔ چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے او رملک وملت کو دشمن سے بچانے کے لیے ایک جائز او ربرحق جنگ کے دوران کوئی شخص ایسا اقدام کرے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کے حسنِ نیت کی بنا پر اس کی قربانی کو قبول فرمالیں ۔ لیکن یہ ساری بات اُ س وقت ہے جب کھلے ہوئے دشمن سے کوئی جائز اور برحق جنگ ہورہی ہو، اس بحث کا اُس صورت سے کوئی تعلق نہیں ہے جہاں خود کُش حملے کا نشانہ ایسے کلمہ گو مسلمانوں کو یا ایسے غیر مسلموں کو بنایا جائے جن کے جان ومال کو اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان ، خواہ عملی اعتبار سے کتنا گناہ گار ہو، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس حرمت کا حامل ہے، اورقرآن وحدیث کے ارشادات نے ایسے شخص کے قتل کرنے کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی جان و مال کو کعبے سے بھی زیادہ حرمت کا حامل قرار دیا ہے۔ بلکہ وہ خودکُش حملہ جس کانشانہ مسلمان یا مسلمان ریاست کے پُر امن شہری ہوں، دوہراگُناہ ہے، ایک تووہ دوسرے کے خلاف قتلِ عمد کا گناہ ہے، اور اس کے نتیجے میں جتنے انسان ناحق قتل ہوں، وہ اتنے ہی زیادہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔ اوردوسرے اس صورت میں خود کُشی کے حرام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے خود کُشی کا گناہ اس کے علاوہ ہے۔
اس لحاظ سے ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں جو خود کش حملے ہورہے ہیں او رجن کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان اور پُر امن شہری ناحق ہلاک ہوچکے ہیں، وہ دینی اعتبار سے انتہائی سنگین گناہ ہیں اور ’’ فساد فی الأرض‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خود کُش حملے کون کررہا ہے؟ او رکیوں کررہا ہے؟ ان اقدامات کی پوری مذمت کے ساتھ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ جو لوگ بھی اس قسم کے حملے کرتے ہیں، وہ یہ جان کر کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا نشانہ بنے یا نہ بنے، سب سے پہلے وہ خود موت کے منہ میں جائیں گے۔ عام حالات میں زندگی ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے، اور کوئی بھی شخص انتہائی غیر معمولی حالا ت کے بغیر خود اپنے آپ کو موت کے گھاٹ نہیں اتار سکتا۔ لہٰذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد یکایک کس وجہ سے اس غیر معمولی اقدام پر آمادہ ہوگئی ہے کہ نہ اُسے اپنی جان کی پروا ہے، نہ اپنے یتیم ہونے والے بچوں، بیوہ ہونے والی بیوی اور غم زدہ خاندان کا کوئی خیال ہے، اور نہ اس بات سے کوئی بحث ہے کہ اُ س کے مرنے کے بعد دنیا اُسے کیا کہے گی؟
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خود کُش حملوں کی یہ بہتات ہمارے ملک میں پچھلے چند سالوں ہی سے پیدا ہوئی ہے، اس سے پہلے اس کا کوئی وجود ہمارے ملک میں نہیں تھا۔ یقیناًاس کے کچھ اسباب ہیں جنہیں دور کیے بغیر محض ایسے لوگوں پر غصّے سے دانت پیس کر تشدد کی فضا کو اور ہوا دینے سے یہ صورتِ حال ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر واقعی ہم اس صورت حال کو ختم کرکے ملک میں امن امان بحال کرنے میں مخلص ہیں تو ہمیں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنی ہوگی، اور جو غلط پالیسیاں اس کا سبب بنی ہیں، انہیں تبدیل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔
یہ خود کُش حملے جن میں ایک انسان اپنے ساتھ کبھی دو چار، کبھی آٹھ دس، کبھی پچیس تیس اور کبھی اس سے بھی زیادہ افراد کو ہلاکت کے غار میں دھکیل دیتا ہے، در حقیقت ایک شدید جھنجھلاہٹ اور چڑچڑاھٹ ہے جو ہر طرف سے مایوس ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یوں تو ہماری بیشتر حکوتیں امریکہ کے زیرِ اثر رہی ہیں، لیکن ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ ء کے بعد ہماری حکومت نے امریکہ کا بالکل تابع مہمل بن کر جس طرح اپنے آپ کو امریکہ کی بھینٹ چڑھایا ، اورامریکی مفادات کی جنگ کو اپنے ملک میں لاکرجس بے دردی سے قومی مفادات کا خون کیا، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ ہماری افواج کو امریکہ کی رضامندی کی خاطر خود اپنے ہم وطنوں کے خلاف آپریشن میں استعمال کیا گیا۔امریکہ او ربھارت کے مقابلے میں بزدلی دکھائی گئی، اور تمام تر بہادری کامظاہرہ وانا، وزیرستان، سوات، بلوچستان اور لال مسجد کے نہتوں پر کیا گیا، او رخواتین کے حقوق کاڈھنڈورا پیٹنے والوں نے جامعہ حفصہ کی سینکڑوں خواتین کو بھی خون میں نہلا کر واشنگٹن کی شاباش حاصل کی۔
دوسری طرف ’’روشن خیالی ‘‘اور ’’ اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں ملک کو بے دینی کی طرف لے جانے کی کوششیں پورے اہتمام کے ساتھ جاری ہوئیں،نظامِ تعلیم کو اپنے قومی مقاصد اور مصالح کے بجائے غیروں کے لیے خوش نما بنانے کی خاطر نصاب میں تبدیلیاں کی گئیں، حدود کے قوانین میں عورتوں کے حقوق کے نام پر سراسر بے جواز ترمیمات کی گئیں جن کا نہ صرف یہ کہ عورتوں کے حقوق سے تعلق نہ تھا، بلکہ وہ ان کے لئے مزید بے انصافی پر مشتمل تھیں۔ عریانی وفحاشی کو فروغ دیا گیا، اور فحاشی کے اڈوں کی عملاً سرپرستی کی گئی، روز افزوں گرانی اور بے روز گاری نے غریبوں کے لیے جینا دوبھر کردیا، ملک بھر میں قتل وغارت گری او رلوٹ مار کا طوفان برپاہے،جس کی بنا پر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی جان او رمال کے بارے میں ہروقت خطرات کا شکار نہ ہو، اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے میراتھن ریس، بسنت اوررقص وسرود کو فروغ دینے میں مصروف رہی۔ عدالتوں سے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مرادف بن گیا، پھر عدلیہ کو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پامال کیا گیا، اور دفتروں میں رشوت ستانی کے نتیجے میں عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا کر بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرانے سے قاصر ہوگئے۔
ان تمام حالات کے باوجود حکومت نے اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کو یہ تأثر دیا کہ اُ س کے دربار میں عوام کے حقوق اور مطالبات کی کوئی شنوائی نہیں ہے، او راس ملک میں پُر امن اور آئینی راستے سے کوئی معقول مطالبہ منوانے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہاں لاقانونیت کا راج ہے، دھونس، دھاندلی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کرنے والے دندناتے پھر تے ہیں اورقانون پر چلنے والوں کو قدم قدم پر مصائب کاسامنا ہے۔ یہاں پُر امن طریقے پر اسلام کے نفاذ کا مطالبہ ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے، او راس کے حق میں قرآن وسنت اور عقل و دانش کی کوئی دلیل نہ صرف کارگر نہیں، بلکہ مقتدر حلقے اُسے توجّہ سے سننے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
بہ ظاہر یہ وہ مجموعی حالات ہیں جنہوں نے کچھ جذباتی اور مایوس افراد کے دل میں وہ جھنجلاہٹ پیدا کی جو خود کُش حملوں کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے،یہ لوگ ہر طرح کے پُر امن راستوں سے مایوس ہوکر تشدّد کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ ان میں ایسے نوجوان بھی ہوں گے جن کے گھر حکومت یا امریکہ کے آپریشنوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے، اور جنہوں نے ان فوجی کارروائیوں میں اپنے پیاروں کو تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہوئے دیکھا، اور اب ان کے پاس انتقام کی آگ کے سوا کچھ نہیں بچا، جو وہ خود اپنی جان دیکر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک دشمن طاقتیں جو پاکستان کو (خاکم بدہن) افراتفری کی نذر کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاھتی ہیں، یا اس افراتفری سے فائدہ اٹھاکر اس پر حملہ آور ہونا چاھتی ہیں، وہ بھی اس آتش گیر فضا سے فائدہ اٹھا کر ایک طرف خود بھی دھماکے کرارہی ہیں، تاکہ ہر دھماکہ انہی انتہا پسندوں کی طرف منسوب کیا جاسکے، دوسرے انہوں نے ایسے جذباتی افراد کو در پردہ ابھارا ہے کہ وہ اپنایہ مشن جاری رکھیں۔ انہیں یہ کہہ کرگمراہ کیاگیا ہے کہ موجودہ حالات کی ذمہ داری جس طرح حکومت پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح وہ شہر ی بھی اس کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں جنہوں نے ایسی حکومت کی اطاعت قبول کر رکھی ہے، لہٰذا ان سب پر حملہ کرکے انہیں ختم کرنا جائز ہے۔
یہ جذباتی ذہنیت اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے سامنے کوئی زبانی کلامی دلیل فائدہ مند نہیں ہوتی۔ اور اس ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے جتنا زیادہ تشدّد اختیار کیا جائے گا، اُس کی اشتعال پذیری میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ لہذا پاکستان کی سول آبادی پر ہونے والے فوجی آپریشن اس صورتِ حال کا حل نہیں ہیں۔ اس ذہنیت کے مقابلے کے لئے جوش سے زیادہ ہوش اور ہتھیار سے زیادہ ناخنِ تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے نزدیک سب سے اہم او ربنیادی بات یہ ہے کہ یہ لوگ جنہیں ’’ شدّت پسند‘‘ یا ’’ انتہا پسند‘‘ کہا جارہا ہے، حکومت ان کو امریکی آنکھ سے دیکھنے کے بجائے پاکستانی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرے۔ یہ لوگ، خواہ آزاد قبائل میں ہوں، یا سوات اور مالاکنڈ میں، یابلوچستان میں، دراصل ہمارے ہی بھائی ہیں، ہمارے ہم وطن او رہمارے ہم مذہب ہیں۔ یہ پاکستان کے دشمن نہیں، بلکہ ان میں بہت بڑی تعداد اُ ن کی ہے جو قبائلی علاقوں میں ہمیشہ پاکستان کی سرحدوں کے محافظ رہے ہیں، لیکن حالات نے انہیں حکومت کا دشمن، اور انتہا پسند جذباتیت نے انہیں ہر اُس شخص کا دشمن بنادیا ہے جو حکومت دشمنی میں ان کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اگر حکومت اپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتی ہو تو اُن اسباب کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی بنیاد پر ان کی انتہاء پسندی کوہوا ملی ہے، اورجن کی وجہ سے وہ سازشوں کا شکار ہورہے ہیں۔
مرے طائر نفس کو نہیں گلستاں سے رنجش
ملے گھر میں آب ودانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
اگر اس طرز فکر کی سچائی ایک مرتبہ دل میں بیٹھ جائے تو کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے ہم موجودہ بحران سے نجات حاصل کرسکتے ہیں:
(۱) ’’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر ہم نے جس طرح آنکھ بند کرکے امریکہ کی حکمت عملی اختیار کی ہے،اُس کے بارے میں اس حقیقت کا دل سے اعتراف کیا جائے کہ وہ قطعی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
(۲) شمالی علاقہ جات او ربلوچستان میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کرکے وہاں کی شورش کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے،اور شورش کے رہنماؤں سے اس پر کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، اور ان کے جائز مطالبات کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔
(۳) اس حقیقت کا ادراک کیا جائے کہ اصل میں طالبان دہشت گرد نہیں ہیں، اور نہ ان میں سب لوگ انتہاء پسند جذباتی ہیں، اُن میں ایسے عناصر موجود ہیں جن سے معقولیت کے ساتھ بات چیت ہوسکتی ہے۔
(۴) شمالی علاقہ جات اور آزاد قبائل کے معتدل علماء اور خوانین خونریزی کے حق میں نہیں ہیں، لیکن اُ ن کی بات مشتعل عناصر میں اس لئے مؤثر نہیں ہورہی کہ حکومت کی طرف سے مسلسل خلافِ اسلام پالیسیاں جاری رہی ہیں، اور اُن کی موجودگی میں ان معتدل علماء اور خوانین کی طرف سے عدمِ تشدد کی اپیلیں بے اثر ہیں، کیونکہ تشدد رکوانے کے لئے اُن کے ہاتھ میں کوئی ایسی مثبت بات نہیں ہے جو وہ ان مشتعل عناصر کے سامنے پیش کرکے سرخ رُو ہوسکیں۔ اگر حکومت لوگوں کے دلوں میں یہ اعتماد پیدا کرسکے کہ اب وہ اپنی پالیسیاں مرتب کرتے وقت واشنگٹن کی چشم وابرو کا اشارہ دیکھنے کے بجائے ملک وملت کے مفاد پر نظر رکھے گی، اپنے ہم وطنوں کے خلاف فوجی کاروائیاں بند کریگی اور اپنی خلافِ اسلام پالیسیوں کو ختم کردے گی، اور اس غرض کے لیے عملی اقدامات کرکے بھی دکھائے جائیں اور انہیں مؤثر طور پر جاری رکھا جائے تو یہ معتدل عناصر جذباتی عناصر کی ایک بڑی تعداد کو شورش سے باز رکھ سکتے ہیں۔
(۵) اس حقیقی کوشش کے باوجود اگرکچھ لوگ شورش پرآمادہ رہیں تو اوّلاً اُ ن کی آواز اتنی مؤثر نہیں رہے گی، اور دوسرے معتدل حلقوں کی طرف سے اُن کے خلاف کھل کر اعلانِ براء ت ممکن ہوگا، اور عام تائید کے فقدان کے بعد یہ شورش خود بخود دب جائے گی۔
(۶) بلوچستان کے لوگوں کے کچھ حقیقی مسائل او رمطالبات ہیں جو بڑی حد تک انصاف پر مبنی ہیں، ان مطالبات کو ملک دشمنی سے تعبیر کرکے ان کے خلاف فوجی آپریشن کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے، وہاں کے رہنماؤں سے ایک مرتبہ پھر سنجیدہ اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے وہاں کی شورش پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
(۷) پچھلے چند روز میں صدر مملکت کی طرف سے امریکہ کے بارے میں پہلی بار کچھ ایسے جرأت مندانہ بیانات آئے ہیں جو قومی غیرت کے عین مطابق ہیں، او ران سے عوام کے دلوں کو کچھ حوصلہ ملا ہے۔ ان بیانات کو صرف لفظی بیانات کی حد تک محدود رکھنے کے بجائے ان کو آئندہ اپنی عملی پالیسی کی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔
ابھی وقت ہے کہ ان خطوط پر نیک نیتی سے کام شروع کرکے ملک وملت کو اس گرداب سے نکالا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے بھی نہایت ضروری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نازک حالات میں حکومت، سیاست دان اور فکری رہنما اپنی ذات سے بلند ہو کر ملک وملت کی سا لمیت کے لیے بنیادی نکات پر متفق ہوں، اور اس مقصد کے لیے یک جان ہوکر کام کریں۔ اس اتفاقِ رائے کو حاصل کرنے کے لئے صدر مملکت کو پہل کرنی ہوگی، ان پر یہ فریضہ سب سے زیادہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر تمام طبقۂ خیال کے لوگوں کو جمع کریں، اور اگر اختلافات کو ختم کرنے کے لئے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جوہری تبدیلیاں کرنی پڑیں ، انتخابات کو قابلِ اطمینان بنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے، خواہ وہ صدر صاحب کی پہلے اعلان شدہ پالیسی کے خلاف ہوں، تو ملک وملت کی سا لمیت اور ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر ا ن کو گوارا کریں۔ سیاسی رہنماؤں سے بھی ہماری درخواست ہے کہ وہ اس موقع پر ملک کو بچانے کے لئے سیاسی عداوتوں کو فراموش کرکے کم سے کم نکات پر متفق ہوں جو ملک کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔
موجودہ تہہ در تہہ بحرانوں کے حل کے لیے ہماری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ عدلیہ کو فعّال کیا جائے، عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے تاکہ لوگ سڑکوں پر انصاف کے حصول کی کوشش کے بجائے عدلیہ میں فریادرسی کرکے حقیقی انصاف حاصل کرسکیں۔ ہماری یہ بھی رائے ہے کہ جملہ ماورائے آئین اقدمات کو منسوخ کیا جائے، ان مقاصد کے حصول کے لیے اگر صدر پرویز مشرف کو ملک وملّت کی خاطر مستعفی ہونا پڑے تو اس سے گریز نہ کریں، یہ ایک باوقار طریقہ ہوگا، جس کا اس منصب کے شایانِ شان راستہ یہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق صدارت کا منصب سنیٹ کے چیئر مین کے حوالے کریں، اور وہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر معینہ تاریخ کو شفاف انتخابات کراکر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیں۔
ہمارا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے ،اور نہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے، اس لیے یہ تجویز کسی مخاصمت یا کسی ذاتی یا گروہی سیاسی مقصد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ملک وملت اور خود صدر پرویز مشرف صاحب کی خیر خواہی پر مبنی ہے، انہوں نے آئین سے ماورا جن اقدامات کے ذریعے صدارت کا عہدہ حاصل کیا ہے، وہ کبھی ملک میں دیر پا استحکام پیدا نہیں کرسکتے،ان کی وجہ سے انہیں جلد یا بدیر یہ عہدہ چھوڑنا ہوگا، لیکن اُس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی، اس کے برعکس اگر وہ رضا کارانہ طور پر ملک و ملت کی خاطر یہ اقدام کریں تو ایک طرف اُن کا وقار بلند کرنے کا ذریعہ بنے گا، دوسری طرف ملک موجودہ سیاسی بحران سے نکل کر پٹری پر آجائے گا، او رامید یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں میں بھی فوری بہتری آئے گی۔
(۱) حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم ۔مہتمم جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی۔
(۲) حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔ صدر جامعہ دارالعلوم کراچی ۔
(۳) حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم۔مہتمم جامعۃ العلوم الاسلامیہ
علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
(۴) حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم۔نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۵) حضرت مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم۔ مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان۔
(۶) حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب دامت برکاتہم۔ شیخ الحدیث جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک۔
(۷) حضرت مولانا محمد سلفی صاحب دامت برکاتہم۔ نائب مہتمم جامعہ ستاریہ
(۸) حضرت مولانا انوار الحق صاحب۔ نائب مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک۔
(۹) حضرت مولانا محمود اشرف صاحب دامت برکاتہم۔ نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۰) حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب۔ نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۱) حضرت مولانا مفتی سید عبدالقدوس ترمذی صاحب۔ مہتمم جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا۔
(۱۲) حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب دامت برکاتہم۔ جامعہ دارالعلوم کراچی۔
(۱۳) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۴) حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی صاحب دامت برکاتہم۔نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور
(۱۵) حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب ۔ ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۶) حضرت مولانا قاری ارشد عبید صاحب۔ ناظم اعلی جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۷) حضرت مولانا محمد اکرم کاشمیری صاحب۔رجسٹرار جامعہ اشرفیہ لاہور۔
(۱۸) حضرت مولانا غلام الرحمن صاحب۔ چیئر مین نفاذ شریعت کونسل صوبہ سرحد۔
(۱۹) حضرت مولانا محمد صدیق دامت برکاتہم۔ شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان۔
(۲۰) حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم۔ مفتی جامعہ خیر المدارس ملتان۔