لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے افسوس ناک سانحہ کے پس منظر میں پشاور میں ایک اجلاس کے دوران ’’تحریک طالبان وطالبات اسلام‘‘ کے نام سے ایک فورم کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے جس کا سربراہ حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ دامت برکاتہم کو منتخب کیا گیا ہے اور ان کی امارت میں صوبائی امرا اور دیگر ذمہ داروں کا تعین کر کے اسی رخ پر تحریک کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن سے قبل موجود تھا۔ ’’تحریک طالبان وطالبات اسلام‘‘ کا مقصد اسی تحریک کو آگے بڑھانا بیان کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر رابطوں کا سلسلہ بھی تازہ معلومات کے مطابق شروع ہو گیا ہے۔
ہم ان صفحات میں مسلسل یہ عرض کرتے چلے آ رہے ہیں کہ جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام اور انسداد منکرات کے لیے جدوجہد کرنے، مطالبات کرنے، رائے عامہ کو منظم کرنے، عوامی دباؤ کو بڑھانے اور پرامن جدوجہد کا ہر ممکن راستہ اختیار کرنے کا تعلق ہے تو ایسا کرنا نہ صرف ہمارا حق ہے بلکہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے، لیکن ان مقاصد کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینا، حکومت کے ساتھ تصادم کی صورت اختیار کرنا، ہتھیار اٹھانا اور کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرنا جسے فقہاے کرام نے ’’خروج‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، ہمارے نزدیک درست نہیں ہے اور ہم اس کی تائید کے لیے تیار نہیں ہیں، البتہ ہمارے جو بزرگ اسے درست سمجھتے ہیں، اس کے شرعی اور جائز ہونے پر مطمئن ہیں اور اسے اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ حق ہم تسلیم کرتے ہیں مگر اس درخواست کے ساتھ کہ اس تحریک کا مورچہ ’’دینی مدارس‘‘ سے الگ رکھا جائے اور کسی دینی مدرسہ کو اس تحریک کا مورچہ نہ بنایا جائے۔ ہماری ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں مدرسہ کبھی کسی مسلح تحریک کا مورچہ نہیں رہا۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز نے بھی اس دور میں جب وہ برصغیر کی آزادی کے لیے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح تحریک کا تانا بانا بن رہے تھے جسے تاریخ میں تحریک ریشمی رومال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس تحریک کا مورچہ دار العلوم دیوبند کو نہیں بنایا تھا بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کر کے اپنا نظام الگ تشکیل دیا تھا تاکہ دار العلوم دیوبند اور اس سے متعلقہ دینی اداروں کا تعلیمی کردار کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے اور ان کے لیے خواہ مخواہ مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی نہ ہوں۔
ہمارے نزدیک دینی مدارس کا تعلیمی کردار، ان کا آزادانہ وجود اور دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے ان کی جدوجہد اور عام مسلمان کا دین کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کے لیے ان کی مساعی دیگر تمام امور سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی تحریک کے لیے ا س کو خطرے میں ڈالنا اور کسی بھی حوالے سے دینی مدارس کے لیے مشکلات پید اکرنا نہ شریعت وحکمت کے لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی ہمارے اکابر واسلاف بالخصوص شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور ان کے رفقاے کار کی روایات اور مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔