شور برپا ہے کہ مسلمان دنیا میں پست ہو رہے ہیں اور غیر مسلم خصوصاً مغربی قومیں بلند اور ترقی یافتہ ہو رہی ہیں ۔ گویا کہ دنیا میں کامیابی ، عزت اور کمالیت کا معیار دنیا اور متاع دنیا ہی کو سمجھا جا رہا ہے ۔ ظاہر بین نگاہیں ، دنیا اور متاع دنیا کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں ، حالانکہ کسی چیز کا اچھا یا برا ہونا اس کے انجام کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یعنی جو چیز اپنے انجام اور نتیجہ کے اعتبار سے مہلک اور باعثِ فساد ہو ، ایسی چیز کو محبوب اور پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ اس کے حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار ہوتا ہے اور نہ ایسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے ۔ عقل مند ، نیک اور انجام پر نظر رکھنے والے انسان ایسی چیزوں کو قدر اور وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ ایسے رفیع النظر عقل مند اشخاص دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے رہے ہیں ۔
قرآن مجید میں تدبر اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجودیکہ دنیا اور متاع دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے لیکن اس کی نعمتوں سے حد سے زیادہ لذت حاصل کرنے اور اس میں ضرورت سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کو انجام کے اعتبار سے ناپسند قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو خاص طور سے اس میں انہماک سے منع کیا ہے ۔ دنیا میں ترقی کرنا اور اس کی متاع سے لذت حاصل کرنا غیر مسلموں کا شیوہ اور ان کا مقصدِ اصلی ہے ۔ حدیث میں آیا ہے: الدنیا سجن للمومن و جنۃ للکافر، یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے ۔ قرآن میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ :
وَلَوْلَا أَن یَکُونَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً لَجَعَلْنَا لِمَن یَکْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لِبُیُوتِہِمْ سُقُفاً مِّن فَضَّۃٍ وَمَعَارِجَ عَلَیْْہَا یَظْہَرُونَ وَلِبُیُوتِہِمْ أَبْوَاباً وَسُرُراً عَلَیْْہَا یَتَّکِؤُونَ وَزُخْرُفاً وَإِن کُلُّ ذَلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃُ عِندَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ (الزخرف ۴۳: ۳۳ تا ۳۵)
’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہو جائیں گے ( کافر) تو جو اللہ کے منکر ہیں ان کے گھروں کی چھت اور ان پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی کردیتے اور ان کے گھروں کے دروازے اور وہ تخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور سونے کے بھی اور یہ کہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور دارِ آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ہے ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس دنیوی مال و دولت کی کوئی قدر نہیں ، نہ اس کا دیا جانا کچھ قرب و وجاہت عنداللہ کی دلیل ہے ۔ یہ تو ایسی بے قدر اور حقیر چیز ہے کہ اگر ایک خاص مصلحت مانع نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافروں کے مکانوں کی چھتیں ، زینے، دروازے ، چوکھٹ ، قفل اور تخت چوکیاں سب چاندی اور سونے کی بنا دیتا مگر اس صورت میں لوگ یہ دیکھ کر کہ کافروں ہی کو ایسا سامان ملتا ہے عموماً کفر کا راستہ اختیار کر لیتے ( الا ماشاء اللہ ) اور یہ چیز مصلحتِ خداوندی کے خلاف ہوتی ، اس لیے ایسا نہیں کیا گیا ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدر مچھر کے بازو کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر کو اللہ نے پیدا کیا ہے ، کہیں تو اس کو آرام دے ، آخرت میں تو دائمی عذاب ہے ، کہیں تو آرام ( کامل ) ملتا ، مگر ایسا ہو تو سب ہی کفر کا راستہ پکڑ لیں ۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاع دنیا سے غیر مسلموں کو بہت کچھ دیا گیا ہے لیکن مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں کیا کچھ دیا گیا ہے؟ اس اہم سوال کا جواب قرآن حکیم کی مندرجہ ذیل نظم سے حاصل ہو رہا ہے:
وَلَقَدْ آتَیْْنَاکَ سَبْعاً مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ لاَ تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَقُلْ إِنِّیْ أَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ (الحجر ۱۵: ۸۷ تا ۸۹)
’’ اور ہم نے دی ہیں تجھ کو سات آیتیں وظیفہ اور قرآن بڑے درجہ کا ، تو اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھ ، جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو استعمال کرنے کے لیے دے رکھی ہیں اور ان پر غم نہ کر اور جھکا اپنے بازو ایمان والوں کے واسطے اور کہہ کہ میں وہی ہوں ڈرانے والا کھول کر ‘‘
یہ سورت مکی ہے اور حالات یہ تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی سب کے سب دنیوی حالات کے اعتبار سے خستہ حالی میں مبتلا تھے اور کافر ومشرک دولت مند ، دنیا کی عیش و عشرت میں سرشار تھے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمان مکے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے ، ہر طرف سے مطعون تھے ، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیتوں سے بھی کوئی بچا ہوا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارانِ قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح خوش حالیوں میں مگن تھے ۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو؟ تم کو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں اور دولتیں ہیچ ہیں۔ رشک کے لائق تمہاری یہ دولت ہے جو دنیا کی ہر دولت سے فائق تر اور مسلمانوں کے لیے ہر شعبہ زندگی کے لیے سازو سامان اور بے پناہ قوت و طاقت ہے ۔ دنیا کی کوئی بھی دولت و ثروت اور حکومت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی ۔ لہٰذا تم صبر و استقلال سے ان موجودہ حالات کو نبھاؤ ۔ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھو جو ہم نے مختلف قسم کے غیر مسلموں کو دے رکھی ہیں ۔ تم کو اللہ تعالیٰ نے وہ دولت سبعاََ من المثانی و القرآن العظیم عنایت کی ہے جس کے آگے تمام دولتیں گرد و غبار ہیں ۔ اس تمہاری دولت میں اللہ تعالیٰ کے پختہ وعدے اور اٹل فیصلے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو غیر مسلموں پر غالب کرے گا اور اس کی مدد و نصرت مسلمانوں کو پہنچتی رہے گی ۔ سورۃ حج میں ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ آمَنُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ (الحج ۲۲: ۳۸ تا ۴۰)
’’ اللہ دشمنوں کو ہٹا دے گا ایمان والوں سے اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی دغاباز ناشکرا ، حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں ان سے لڑنے کا ، اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ، وہ لوگ جن کو نکالا گیا ان کے گھروں سے اور دعوی کچھ نہیں سوائے اس کے وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے ‘‘
حضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ نے ان آیات کی جو تشریح فرمائی ہے ، قابل دید ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’یعنی اپنی قلت اور بے سروسامانی سے نہ گھبرائیں۔ اللہ تعالیٰ مٹھی بھر فاقہ مستوں کو دنیا کی فوجوں اور سلطنتوں پر غالب کر سکتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک شہنشاہانہ طرزمیں مسلمانوں کی نصرت امداد کا وعدہ تھا، جیسے دنیا میں بادشاہ اور بڑے لوگ وعدہ کے موقع پر اپنی شان وقار اور استغنا دکھلانے کے لیے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہاں تمھارا فلاں کام ہم کر سکتے ہیں۔ شاید یہ عنوان اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ مخاطب سمجھ لے کہ ہم ایسا کرنے میں کسی سے مجبور نہیں ہیں۔ جو کچھ کریں گے، اپنی قدرت واختیار سے کریں گے۔‘‘