مسجد اقصیٰ کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات

محمد عمار خان ناصر

مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں ’الشریعہ‘ اور ’اشراق‘ کے صفحات پر جو بحث چلتی رہی ہے، برادرم حافظ محمد زبیر صاحب نے کم وبیش تین سال کے وقفے کے بعد اس کو دوبارہ چھیڑا ہے اور بحث وتنقید کے بعض نئے پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسجد اقصیٰ سے بنی اسرائیل کے حق تولیت کی نفی اور امت مسلمہ کے حق تولیت کے اثبات کے حوالے سے مختلف اطراف سے جو شرعی، قانونی یا تاریخی استدلالات سامنے آئے تھے، ہم نے ’الشریعہ‘ کے اپریل/مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں ان کا مفصل تنقیدی جائزہ لیا تھا، تاہم فاضل ناقد کی رائے میں کسی بھی ناقد نے ہماری ’’اصولی غلطی‘‘ کی نشان دہی نہیں کی۔ ان کی رائے میں اس بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آیا مسجد اقصیٰ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیا گیا تھا یا نہیں۔ فاضل ناقد نے اس نکتے کو ہمارے استدلال کا بنیادی ستون قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے مخالف نقطہ نظر کے استدلالات کا ’’رد تو بہت اچھا کر دیا ہے‘‘ لیکن خود اپنے موقف کے حق میں مثبت طور پر ایک بھی دلیل پیش نہیں کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایسے دلائل وشواہد جمع کیے ہیں جن سے ان کے خیال میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کیے جانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کو یہ حیثیت انھوں نے ازخود اپنے اجتہاد سے دے دی تھی۔

ہمیں افسوس ہے کہ فاضل ناقد سرے سے ہمارے موقف اور استدلال ہی کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہم نے اپنی تحریر میں مسجد اقصیٰ کے بنی اسرائیل کی عبادت گاہ اور قربان گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا قبلہ ہونے کا بھی ذکر کیا ہے اور اسی بات کے درست ہونے پر اطمینان رکھتے ہیں، تاہم واقعہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی تولیت کا حق دار بنی اسرائیل کوقرار دینے میں اس کا ’قبلہ‘ ہونا محض ایک اضافی بات کی حیثیت رکھتا ہے، اس پر ہمارے موقف کی بنیاد یا اس کے حق میں ہمارے استدلال کا انحصار ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات اگر فرضاً درست تسلیم کر لی جائے کہ یہ مسجد ان کا ’قبلہ‘ نہیں تھی تو بھی ہمارے موقف یا استدلال میں سرمو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس مسجد کو بنی اسرائیل کی عبادت گاہ، قربانی اور دیگر عباداتی رسوم کی ادائیگی کے لیے مقدس مقام اور روحانی مرجع ومرکز مقرر کیے جانے سے، جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں، فاضل ناقد کو بھی اختلاف نہیں، اور اسی پر ہمارے استدلال کی بنیاد ہے۔ فاضل ناقد ہمارے استدلال کا بنیادی مقدمہ اپنے ذہن سے طے کر کے اس کی دلیل ہماری تحریروں میں ڈھونڈھتے رہے اور ان کے بقول اس کے لیے انھیں ان تحریروں کو ’’کئی دفعہ بغور‘‘ پڑھنے اور صرف پڑھنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔ اگر وہ تھوڑی سی معروضیت سے کام لینا گوارا کرتے تو انھیں ہمارا مقدمہ استدلال بحث کے آغاز ہی میں بالکل واضح اور غیر مبہم الفاظ میں لکھا ہوا مل جاتا۔ ہم نے لکھا ہے:

’’قرآن وسنت کی رو سے کسی مذہب کے ماننے والوں کو ان کی کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت کے حق تولیت سے محروم کرنا ایک ایسا نازک معاملہ ہے جو شارع کی جانب سے ایک واضح نص کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر اس معاملے میں محض عقلی استدلال کی بنیاد پر کوئی اقدام کیا ہی نہیں جا سکتا۔‘‘ (الشریعہ، ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳، ص ۴۱)

اس اقتباس میں ’’کسی عبادت گاہ، بالخصوص قبلہ اور مرکز عبادت‘‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ حق تولیت کے حوالے سے ہمارے موقف کی بنیاد کسی مخصوص مقام کے کسی خاص مذہبی گروہ کی ’’عبادت گاہ‘‘ ہونے پر ہے، جبکہ اس کا ’قبلہ‘ ہونا اضافی طور پر اس کو ایک خصوصی حیثیت دے دیتا ہے۔ اب جہاں تک کسی ’عبادت گاہ‘ کے حق تولیت کا تعلق ہے تو فاضل ناقد نے اس ضمن میں بحث کو سرمو آگے نہیں بڑھایا بلکہ ان کی سوئی بھی سابقہ ناقدین کی طرح ایک ہی نکتے پر اٹکی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

’’حضرت ابراہیم کی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان اور بنی اسرائیل کے تمام انبیا کے اصل ورثا اور جانشین مسلمان ہیں نہ کہ یہود و نصاریٰ۔ اگر حضرت سلیمان نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی بھی تھی تو اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اب یہ مسجد کافروں کی عبادت گاہ بن گئی ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں موجود بنی اسرائیل مسلمان تھے لہٰذا اس بنیاد پر اس مسجد کے وارث بھی تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور کینہ رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ ؐپر ایمان نہ لانے کی وجہ سے آج کل کے یہودیوں کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ ان کے کفر پر امت کااجماع ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، اس پرایک کافر قوم کا حق کیسے جتایا جا سکتا ہے ؟‘‘

واقعہ یہ ہے کہ اس پورے استدلال پر ہم اپنی تحریر میں تفصیلی تنقید کر کے اپنی بساط کی حد تک اس کی خامی کو مختلف پہلووں سے واضح کر چکے ہیں۔ یہ تنقید ’الشریعہ‘ کے اپریل؍مئی ۲۰۰۴ کے شمارے کے تیس صفحات (ص ۶ تا ۳۵) پر پھیلی ہوئی ہے۔ فاضل ناقد نے اپنے مضمون میں ازراہ عنایت یہ تسلیم فرمایا ہے کہ ہم نے ’’علما کے مؤقف کا رد بہت اچھا کر دیا ہے‘‘۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ اگر ان کے پیش کردہ اس استدلال کا بھی ہم ’’بہت اچھا رد‘‘ کر چکے ہیں تو انھوں نے اسے دوبارہ کیوں پیش فرما دیا؟ اور اگر ہم اس استدلال کا ’’بہت اچھا رد‘‘ نہیں کر سکے تو پھر انھوں نے ہمارے اٹھائے ہوئے تنقیدی نکات سے تعرض کیوں نہیں کیا اور تنقید کے نقص یا کمزوری کو واضح کرنے کے بجائے محض استدلال کو دہرا دینے پر اکتفا کیوں کی ہے؟ 

اس تناظر میں ہم مسجد اقصیٰ کے زمانہ تعمیر اور اس کے قبلہ مقرر کیے جانے یا نہ کیے جانے کے حوالے سے فاضل ناقد کی اٹھائی ہوئی بحثوں سے اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہوئے سردست ان سے کوئی تعرض نہیں کر رہے۔ فاضل ناقد اگر اصل نکتہ اختلاف کے تصفیے کے بعد، ان ضمنی نکات پر بحث کو آگے بڑھانا چاہیں گے تو ہم ان کے حوالے سے بھی اپنی گزارشات تفصیل کے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کر دیں گے۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ ’’تاریخی وتحقیقی جائزے‘‘ میں فہم واستنباط اور تحقیق وتنقید کے جو نادر نمونے پیش کیے گئے ہیں، ان کو داد سے بالکل محروم رکھنا یقیناًناانصافی ہوگی۔ چنانچہ چند معروضات محض اس احساس کے تحت پیش کی جا رہی ہیں کہ فاضل ناقد ہمارے گریز کو خدا نخواستہ اپنی محنت اور کاوش کی ناقدری پر محمول نہ کر لیں۔

(۱) صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی تاسیس کے مابین زمانی فاصلے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ، مسجد حرام کے چالیس سال بعد بنائی گئی تھی۔ 

فاضل ناقد نے اس روایت کو مسجد اقصیٰ کا زمانہ تعمیر متعین کرنے میں بنیادی ماخذ قرار دیا ہے اور اس ضمن میں تین آرا نقل کی ہیں: 

۱۔ اگر مسجد حرام کا بانی حضرت ابراہیم کو تسلیم کر لیا جائے تو مسجد اقصیٰ کے بانی بھی حضرت ابراہیم قرار پائیں گے۔ 

۲۔ اگر مسجد حرام کا پہلا معمار حضرت آدم کو مانا جائے تو مسجد اقصیٰ کے موسس بھی وہی قرار پائیں گے۔ فاضل ناقد نے قرائن وشواہد کی روشنی میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔

۳۔ مسجد حرام کے بانی تو حضرت ابراہیم ہیں، جبکہ مسجد اقصیٰ کی تاسیس حضرت یعقوب نے کی۔

ہم نے اپنی تحریر میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ روایت سے پیدا ہونے والے ایک تاریخی اشکال کے تناظر میں اس تیسری رائے کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:

’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ تاریخ کے مسلمات کی رو سے مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی اور ان کے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مابین‘ جو مسجد حرام کے معمار تھے‘ کئی صدیوں کا فاصلہ ہے جبکہ روایت میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان صرف چالیس کا فاصلہ بتایا گیا ہے۔ علمائے حدیث کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرما دی تھی اور مذکورہ روایت میں اسی کا ذکر ہے ‘جبکہ حضرت سلیمان نے صدیوں بعد اسی جگہ پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کیا۔اس لحاظ سے ان کی حیثیت ہیکل کے اولین بانی اور مؤسس کی نہیں ‘بلکہ تجدید کنندہ کی ہے۔‘‘

اب فاضل ناقد نے مذکورہ تین آرا میں سے پہلی دونوں رایوں کو تو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ قرار دیا ہے، لیکن آخری رائے کی درستی کا امکان تک تسلیم کرنے سے اس قدر نفور کا اظہار کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ’علماے حدیث‘ میں سے کسی ایک کو بھی اس کا قائل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ اس کی بے وقعتی واضح کرنے کے لیے اس کو اختیار کرنے والے دو جید صاحبان علم، ابن قیم اور ابن کثیر رحمہما اللہ کو بھی ’علماے حدیث‘ کی صف سے نکال باہر کیا ہے۔ اس دوسری بات کے حق میں انھوں نے جو استدلال فرمایا ہے، اس سے تو اہل علم کسی تبصرے کی آمیزش کے بغیر براہ راست زیادہ لطف اندوز ہو سکتے ہیں، البتہ پہلی بات کے بارے میں ہم، محض اپنی کند ذہنی کی وجہ سے، فاضل ناقد سے یہ استفسار کرنا چاہیں گے کہ ازراہ کرم اس بنیادی فرق کی وضاحت فرما دیجیے جو پہلی توجیہ کو تو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ بنا دیتا ہے، جبکہ تیسری توجیہ کو سرے سے قابل التفات ہی نہیں رہنے دیتا۔ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد حرام کا بانی حضرت ابراہیم کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے چالیس سال بعد بننے والی مسجد اقصیٰ کے موسس کے طور پر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام، تینوں کے نام امکان کے درجے میں بالکل یکساں قرار پاتے ہیں اور جب تک کوئی یقینی قرینہ ان میں سے کسی ایک کو متعین کرنے کے حق میں نہ پایا جائے، قیاس اور تخمین کی حد تک تینوں میں سے کسی بھی صورت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت ابراہیم کے اس مسجد کا بانی ہونے کے حق میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ وہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دونوں کے جد امجد تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں مقدس مقامات عبادت کی تاسیس خود ہی فرما دی ہوگی۔ دوسری طرف حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب کے بانی ہونے کے حق میں یہ قرینہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ مسجد اقصیٰ چونکہ خاص طور پر بنی اسرائیل ہی کی ایک قومی عبادت گاہ تھی، اس لیے اس کی تاسیس بھی آل ابراہیم کی اسی شاخ کے کسی بزرگ یعنی حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب نے فرمائی ہوگی۔ ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ نے مذکورہ امکانات میں سے دوسرے امکان کو ترجیح دی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جیسے پہلے قیاس کے حق میں کوئی نص موجود نہیں، اسی طرح ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ بھی اپنے پاس کوئی قطعی دلیل نہیں رکھتے۔ فاضل ناقد سے ہمارا سوال یہ ہے کہ مسجد حرا م کا بانی حضرت ابراہیم کو قرار دینے کی رائے کو ’’دلائل کی روشنی میں قوی‘‘ تسلیم کرنے کے بعد مسجد اقصیٰ کے بانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے یکساں درجے کے مختلف احتمالات میں سے ایک احتمال کی نفی کے لیے اتنے پاپڑ بیلنے کی ضرورت انھیں آخر کیوں پیش آگئی؟ کیا اس نکتے کا زیر بحث مسئلے یعنی مسجد اقصیٰ کی تولیت سے کوئی خاص تعلق ہے؟ حضرت ابراہیم کے بجائے حضرت یعقوب کو مسجد اقصیٰ کا بانی تسلیم کر لینے سے صورت حال میں آخر کون سا جوہری فرق پیدا ہو جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محض خامہ فرسائی اور تنقید برائے تنقید کا شوق فاضل ناقد کو اس لاطائل بحث میں الجھا دینے کا سبب بن گیا ہے؟

(۲) فاضل ناقد نے یہ اعتراض بھی اٹھایا ہے کہ ہم نے ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ کی مذکورہ رائے کی کی تعبیر اس درجہ غلط کی ہے کہ وہ اس کے لیے ’’تحریف‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس ’تحریف‘ کی تفصیل کرتے ہوئے فاضل ناقد نے بتایا ہے کہ ابن قیمؒ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ کا بانی قرار دیتے ہوئے ’اسسہ‘ (انھوں نے اس کی بنیاد رکھی) کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اور ابن کثیرؒ نے اس بات کو ’جعلہ مسجدا‘ (انھوں نے اس کو مسجد قرار دیا) کے الفاظ سے بیان کیا ہے، جبکہ ہم نے اس مفہوم کی تعبیر ’’مسجد اقصیٰ کے مقام کی تعیین کرنے‘‘ سے کر دی ہے۔ فاضل ناقد نے قارئین کی ذہانت کو اپنی ذہانت پر قیاس کرتے ہوئے ’’کسی مسجد کی بنیاد رکھنے‘‘ یا ’’کسی جگہ کو مسجد قرار دینے‘‘ اور ’’مسجد کے مقام کی تعیین کرنے‘‘ کے مابین پائے جانے والے زمین وآسمان کے فرق پر روشنی ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بہرحال فاضل ناقد کی ’دقیقہ رسی‘ کو تسلیم کرنے سے کوئی چارہ نہ پاتے ہوئے ہم صرف اتنا اضافہ کرنا چاہیں گے کہ علماے سلف کی رائے میں اس ’’تحریف‘‘ کا ارتکاب علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے بھی کیا ہے، جنھیں علماے حدیث کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے فاضل ناقد کے نزدیک غالباً ان کا ’حنفی‘ ہونا ہی کافی ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:

والجواب علی ما اختارہ ابن القیم ان تعیین مکان المسجد الاقصی کان من ید اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام فانہ کان غرز وتدا ہناک کما فی التوراۃ۔ (فیض الباری، ۴/۳۷۲)
’’ابن قیم کی اختیار کردہ توجیہ کی رو سے اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ کی تعیین اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں کر دی گئی تھی، چنانچہ تورات کے مطابق انھوں نے اس جگہ پر ایک میخ گاڑ دی تھی۔‘‘

فاضل ناقد نے مزید فرمایا ہے کہ حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ’وضع‘ کا معنی ازروے لغت ’تعین کرنا‘ نہیں ہو سکتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ فاضل ناقد ’تعین کرنے‘ کا مفہوم کیا سمجھتے ہیں، البتہ ہم نے ’تعیین کرنے‘ کے الفاظ اس جگہ کو مسجد کے طور پر مقرر کر دینے کے مفہوم میں استعمال کیے ہیں اور اس کے لیے ’وضع‘ کا لفظ عربی زبان میں بالکل موزوں ہے۔ امام اللغہ زمخشری ’ان اول بیت وضع للناس‘ (آل عمران، ۹۶ ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ومعنی وضع اللہ بیتا للناس انہ جعلہ متعبدا لہم (الکشاف، ص ۱۸۳)
’’وضع اللہ بیتا للناس  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ قرار دیا۔‘‘

زیر بحث توجیہ کی رو سے حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ’وضع‘ کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ حضرت اسحاق یا حضرت یعقوب علیہما السلام نے اس مقام کو عبادت گاہ کے طور پر متعین کر دیا تھا۔ مسجد اقصیٰ کا بانی حضرت یعقوب علیہ السلام کو قرار دینے پر ابن قیمؒ اور ابن کثیر ؒ تو فاضل ناقد کے ہاتھوں ’علماے حدیث‘ میں شامل ہونے کے شرف سے محروم ہو ہی چکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ زمخشری علماے لغت کے زمرے میں شامل رہتے ہیں یا نہیں۔

(۳) ابن قیمؒ اور ابن کثیرؒ کی رائے کی جو تعبیر ہم نے اپنے الفاظ میں کی ہے، فاضل ناقد نے اسے ’’تحریف‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنی گرمئ گفتار کا باقاعدہ جواز بھی پیش فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں ان کے سخت لہجے پر ناگواری محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ہم نے بھی مسجد اقصیٰ کی تولیت کے بارے میں اپنے ایک اجتہادی موقف کے مقابلے میں ’’علما کے کم و بیش اجماع کو کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ سے تعبیر ‘‘ کیا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ہماری تحریر میں سے جو اقتباس نقل کیا ہے، اس کا پورا پس منظر ہم یہاں واضح کیے دیتے ہیں۔

یہ پیرا گراف جس بحث کے سیاق وسباق میں آیا ہے، وہ ’الشریعہ کے ستمبر/ اکتوبر ۲۰۰۳ کے شمارے کے ص ۶۷ پر ’’عالم عرب کا موقف چند علمی واخلاقی سوالات‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے آغاز میں ہم نے لکھا ہے:

’’مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے مذکورہ دونوں نقطہ ہائے نظر کی کمزوری ہم واضح کر چکے ہیں، تاہم اختلاف کے باوجود یہ ماننا چاہیے کہ ان کی غلطی اصلاً علمی ہے اور غلط فہمی کے اسباب بھی بڑی حد تک قابل فہم ہیں۔ لیکن بے حد افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس باب میں امت مسلمہ کے رویے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کی مشکل ہی سے کوئی علمی یا اخلاقی توجیہ کی جا سکتی ہے۔‘‘

اس ناقابل توجیہ رویے کی تفصیل کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے:

’’اس وقت امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے مذہبی وسیاسی رہنماؤں، صحافیوں اور ماہرین تاریخ کی اکثریت سرے سے ہیکل سلیمانی کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتی۔ اس کے نزدیک ہیکل کا وجود محض ایک افسانہ ہے جو یہود نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے گھڑ لیا ہے۔‘‘

اس موقف کے ترجمان رہنماؤں کے بیانات نقل کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے لکھا ہے:

’’قرآن وسنت کی تصریحات، مسلمہ تاریخی حقائق، یہود ونصاریٰ کی مذہبی روایات، مسلمانوں کے تاریخی لٹریچر اور مسلم محققین کی تصریحات کی روشنی میں نہ اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجایش ہے کہ مسجد اقصیٰ دراصل ہیکل سلیمانی ہی ہے، نہ اس دلیل میں کوئی وزن ہے کہ اثریاتی تحقیق کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار دریافت نہیں ہو سکے اور نہ ہی اس حسن ظن کے لیے کوئی قرینہ ہے کہ مذکورہ موقف کے وکلا شاید حقائق سے بے خبر ہیں یا کوئی غلط فہمی انھیں لاحق ہو گئی ہے۔ خود فلسطین کے مسلم رہنما اسرائیل کے وجود میں آنے اور بیت المقدس پر صہیونی قبضے سے قبل تک ان تاریخی حقائق کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور انھیں جھٹلانے کی جسارت انھوں نے کبھی نہیں کی۔‘‘ (ص ۶۹)

یہ وہ بحث ہے جس کا اختتام ہم نے درج ذیل سوال پر کیا ہے:

’’یہ نکتہ اب اہل علم کے لیے ایک کھلے سوال کی حیثیت رکھتا ہے کہ عالم عرب کا یہ کم و بیش اجماعی موقف‘ جس کو متعدد اکابر علماے دین و مفتیان شرع متین کی تائید و نصرت حاصل ہے اور جس کو مسلم اور عرب میڈیاتسلسل کے ساتھ دہرا رہا ہے ‘کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟‘‘ (ص ۷۰)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ جہاں تک مسجد اقصیٰ پر بنی اسرائیل کے حق تولیت کے منسوخ ہو جانے کی رائے کا تعلق ہے، ہم نے اس رائے سے اختلاف کے باوجود اسے ایک ’’علمی غلطی‘‘ کہا ہے اور اس کے پیدا ہونے کے اسباب کو بھی قابل فہم قرار دیا ہے۔ البتہ عالم عرب کے موجودہ سیاسی ومذہبی راہ نماؤں نے پوری ’روشن ضمیری‘ کے ساتھ ہیکل سلیمانی کی تاریخی حیثیت یا اس کے محل وقوع کے بارے میں مذہبی وتاریخی مسلمات کا انکار کرنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے، اس کی سنگینی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ موقف ’’کتمان حق اور تکذیب آیات اللہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں‘‘۔ اب اسے چاہے فاضل ناقد کی ذہانت کا کمال سمجھ لیا جائے یا ان کی دیانت داری کا کہ انھوں نے ہمارے اس تبصرے کو مذکورہ پوری بحث اور بالخصوص اس کے پہلے پیرا گراف سے کاٹ کر اہل علم کے اس موقف کے ساتھ نتھی کر دیا ہے جسے ہم خود ایک ’’علمی غلطی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ علماے سلف کی آرا میں ہمارے قلم سے صادر ہونے والی جس ’تحریف‘ کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، اس پر وہ یقیناًداد کے مستحق ہیں، لیکن خود اپنے اس ’معصومانہ تسامح‘ کے بارے میں وہ کیا ارشاد فرمائیں گے؟

(۴) فاضل ناقد نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صخرۂ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر لینا محض یہود کی اپنی ’اختراع ‘ ہے جسے اللہ تعالیٰ یا اس کے نبیوں کی طرف سے سند تصدیق حاصل نہیں۔ اس دعوے کی تائید میں انھوں نے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کی عبارات پیش کی ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں بھی موضوعیت ان پر اتنی غالب ہے کہ انھوں نے دونوں بزرگوں کی عبارات پر پوری طرح غور کیے اور ان کے مدعا اور منشا کو ٹھیک طرح سے سمجھے بغیر انھیں اس دعوے کا مدعی ظاہر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ ان عبارات میں مسجد اقصیٰ کے بنی اسرائیل کا شرعی لحاظ سے مستند قبلہ ہونے کی نفی نہیں کر رہے، بلکہ ’کعبہ‘ کے تقابل میں، جسے اللہ تعالیٰ کے براہ راست حکم کے تحت روز اول سے قبلہ مقرر کر دیا گیا تھا، مسجد اقصیٰ کے ’قبلہ‘ قرار پانے کے تاریخی عمل اور اس کے مختلف مراحل کو بیان کر رہے ہیں۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دراصل براہ راست صخرہ کو قبلہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ بنی اسرائیل کے لیے قبلہ کی حیثیت خیمہ اجتماع کو حاصل تھی جس میں مقدس اشیا اور تبرکات پر مشتمل تابوت کو رکھا جاتا تھا۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد اس تابوت کو صخرۂ بیت المقدس کے مقام پر رکھ دیا گیا اور بنی اسرائیل اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ بعد میں تاریخی حوادث کے نتیجے میں تابوت ضائع ہو گیا تو اس جگہ یعنی صخرہ کو، جس پر تابوت رکھا گیا تھا، قبلے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کی بات بس اتنی ہے اور اس سے مسجد اقصیٰ کے مستند شرعی قبلہ نہ ہونے کا جو نتیجہ فاضل ناقد نے اخذ کیا ہے، وہ دونوں بزرگوں کے کلام سے صریح تجاوز پر مبنی اور سراسر موضوعیت کا شاخسانہ ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ بنی اسرائیل میں انبیا کا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد رکے بغیر مسلسل جاری رہا ہے، اس لیے خیمہ اجتماع کو ان کا قبلہ مقرر کرنے، پھر مسجد اقصیٰ میں صخرہ کی جگہ پر اس کو رکھنے اور تابوت کے ضائع ہو جانے کے بعد صخرہ کو قبلے کی حیثیت دینے کا یہ سارا عمل انبیا کی رہنمائی میں اور ان کی تائید ہی سے مکمل ہوا۔ اس لحاظ سے اس عمل کو پورا شرعی استناد حاصل ہے اور ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ میں سے کوئی بزرگ بھی اس کی نفی نہیں فرما رہے۔ چنانچہ دیکھیے، ابن تیمیہؒ نے کعبہ کو حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے کے انبیا کا قبلہ تو قرار دیا ہے، لیکن ان کے بعد کے انبیا کے لیے کعبہ ہی کے ’قبلہ‘ ہونے کی، جیسا کہ فاضل ناقد کا اصرار ہے، نہ کوئی تصریح کی ہے اور نہ اشارہ۔ جبکہ ابن قیمؒ نے تو اس بات کی باقاعدہ تصریح کی ہے کہ بنی اسرائیل اور انبیاے بنی اسرائیل کے ’قبلہ‘ کی حیثیت مسجد اقصیٰ ہی کو حاصل رہی ہے۔ ’ہدایۃ الحیاریٰ‘ میں لکھتے ہیں:

وما صلی المسیح الی الشرق قط وما صلی الی ان توفاہ اللہ الا الی بیت المقدس وہی قبلۃ داود والانبیاء قبلہ وقبلۃ بنی اسرائیل (ص ۱۶۷)
’’مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے کبھی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز نہیں پڑھی۔ وہ اپنے قبض کیے جانے تک بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے جو حضرت داؤد کا اور حضرت مسیح سے پہلے آنے والے انبیا اور بنی اسرائیل کا قبلہ تھا۔‘‘

(۵) فاضل ناقد نے بنی اسرائیل کے لیے مسجد حرام ہی کے قبلہ مقرر کیے جانے کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ سورۂ بقرہ، آیت ۱۳۲ کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو ’ملت ابراہیم‘ یعنی دین اسلام کی پیروی کی وصیت فرمائی تھی۔ گویا فاضل ناقد کے نزدیک دین اسلام یا ملت ابراہیم کی پیروی میں اس قبلے کی پیروی بھی لازمی طور پر شامل ہے جس کا حکم ان کے خیال میں حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے تمام انبیا کو دیا گیا تھا۔

فاضل ناقد نے یہ استدلال پیش کرتے ہوئے کس قدر گہرے غور وفکر سے کام لیا ہے، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کے لیے ہمیں ان کے اس مضمون کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں انھوں نے جناب جاوید احمد غامدی کے ’تصور سنت‘ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ غامدی صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دین اسلام کے مآخذ میں ’سنت‘ سے مراد دین ابراہیمی میں مقرر کیے جانے والے اعمال ورسوم کی وہ روایت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید واصلاح اور بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے امت مسلمہ میں جاری فرمایا۔ ان کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاً حضرت ابراہیم ہی کے دین وملت اور اس کے احکام ورسوم کی پابندی کا حکم دیا گیا تھا اور اس کے لیے انھوں نے سورہ نحل کی آیت ۱۲۳ : ’ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا‘ سے استدلال کیا ہے۔ (اصول ومبادی، ص ۱۰) فاضل ناقد نے اس استدلال پر تنقید کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ملت ابراہیم‘ کی پیروی سے شرائع واحکام کی پیروی مراد نہیں ہو سکتی، کیونکہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۰ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ملت ابراہیم کی اتباع نہیں کرتے، وہ بے وقوف ہیں۔ فاضل ناقد لکھتے ہیں:

’’ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم الا من سفہ نفسہ‘ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم ملت ابراہیم کی اتباع سے جزئیات میں ان کی اتباع مراد لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ جن انبیا نے جزئیات میں حضرت ابراہیم کی اتباع نہیں کی، معاذ اللہ وہ بے وقوف ہیں۔ حضرت ابراہیم کی ملت کی اتباع سے مراد یہاں بھی ان کے اس رویے کی پیروی ہے جو انھوں نے اللہ کی اطاعت کے معاملے میں پیش کیا، یعنی اللہ کے لیے انتہائی درجے میں فرمانبرداری اختیار کرنا۔‘‘ (الشریعہ، ستمبر ۲۰۰۶، ص ۱۸)

فاضل ناقد کی اس تنقید سے اتفاق ضروری نہیں، لیکن ان کی اس رائے کو سامنے رکھتے ہوئے مسجد حرام کو بنی اسرائیل کا قبلہ مقرر کرنے کے حق میں سورۂ بقرہ کی آیت ۱۳۲ سے ان کے استدلال کا جائزہ لیجیے تو یہ دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے کہ اس آیت میں حضرت یعقوب کی طرف سے اپنی اولاد کو جس چیز پر کاربند رہنے کی وصیت کا ذکر ہے، وہ اس سے پچھلی آیت میں مذکور وہی ’ملۃ ابراہیم‘ ہے جس کے مفہوم کو فاضل ناقد مذکورہ اقتباس میں صرف توحید اور اطاعت اور فرماں برداری کے رویے تک محدود قرار دے چکے ہیں، لیکن جب خود انھیں مسجد حرام کو بنی اسرائیل کا قبلہ قرار دینے کے حق میں استدلال کی ضرورت پیش آئی ہے تو اسی ’ملۃ ابراہیم‘ کا سکڑا ہوا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور نماز اور حج کے لیے قبلہ ومرکز مقرر کرنے جیسے شرعی احکام بھی اس کے اندر شامل ہو گئے ہیں۔ کیا فاضل ناقد اپنی ان ’محققانہ اداؤں‘ پر غور کرنا پسند کریں گے؟ 

فاضل ناقد کے ’’تاریخی وتحقیقی جائزے‘‘ میں نادر نکات اور اچھوتے استنباطات کا استقصا یہاں مقصود نہیں، ورنہ ان کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ابھی داد طلب ہے۔ ہم اس امید پر گفتگو کو یہاں ختم کر رہے ہیں کہ آں محترم محض ہماری ضمنی طور پر پیش کردہ گزارشات کو موضوع سخن نہیں بنائیں گے بلکہ اصل نکتہ اختلاف یعنی مسجد اقصیٰ کی تولیت کی شرعی حیثیت کے حوالے سے بھی علما کے استدلال پر ہماری تنقید کو، جو ان کی نظر عنایت کی منتظر ہے، اپنی فاضلانہ توجہ سے نوازیں گے۔ 

اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ 

آراء و افکار

(مارچ ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter