ویسے تو عنوان زدہ کلمات بذات خود ایک مزاح ہیں، لیکن کبھی قارئین کسی حقیقت تک رسائی کے لیے ایسے مزاح کی زحمت برداشت کرلیا کرتے ہیں۔ البتہ جب حضرت مدنی جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کے افکار سے من مرضی کے مفہوم ومعنی اخذ کیے جانے لگیں تو اس وقت اس قسم کے مزاح کو تحریر میں لانے کے لیے قارئین کرام سے بصد احترام معذرت ہے ۔
بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت مدنی کا ہندوستان میں بسنے والوں کے لیے ایک قومی نظریہ تھا۔ آپ ہند میں دو قومی نظریہ کے علمبردار یا قائل نہ تھے، اور آپ کا فرمان یہ تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، وہ ایک ہی قوم کے افراد ہیں۔ اس نقطۂ نظر کی وجہ سے بہت سے لوگوں کوحضرت مدنی کے ایمان وعمل کے بارے میں دریدہ دہنی کا موقع ملا۔ یہ الگ بحث ہے کہ حضرت مدنی کا نقطہ نظر درست تھا یانہیں، لیکن پاکستان بننے کے بعدجب پہلا قومی شناختی کارڈ یا پہلا پاسپورٹ بنایا گیا توحضرت مدنی کے مخالفین کایہ عمل اپنے ہی منہ پر طمانچہ تھا، کیونکہ جو لوگ اب تک یہ دعویٰ کرتے چلے آ رہے تھے کہ قومیں مذہب سے بنتی ہیں، وہی اب پاکستان میں آکر لوگوں سے مخاطب تھے کہ ہم سب ایک قوم ہیں اور یہاں کوئی ہندویا سکھ یا عیسائی نہیں ہے۔ اس طرح اپنے افکار کی تغلیط خود اپنے ہی ہاتھوں کر دی گئی۔ اس کے باوجود آج تک ہم اس مخمصے میں بحیثیت قوم پھنسے ہوئے ہیں کہ قوم مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے یا وطن کی بنیاد پر؟ اور ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا مضمون ’’مطالعہ پاکستان‘‘ تضادبیانیوں کی وجہ سے ہمارے ذہنوں کو بھی متضاد افکار کا ملغوبہ بنا رہا ہے جس کا نمونہ کسی بھی یونیورسٹی یا کالج کے طلبا بلکہ اساتذہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سب اسی فکری تضاد کا شکار ہیں۔ اسی فکری تضاد کی ایک زندہ مثال ماہنامہ ’الشریعہ ‘کے لکھنے والوں میں بعض اہل علم ودانش، مفکرین اور گرامی قدرپروفیسر حضرات ہیں۔
معاملہ یوں ہے کہ مولانا عبد الباری ندوی نے، جن کا حضرت مدنی سے اصلاح باطن کا تعلق تھا، اپنے ساتھ پیش آنے والے کچھ حالات بیان کیے اور ان کے پیش نظر کچھ سوالات حضرت کی خدمت میں ارسال کیے جو اصلاح احوال کے لیے تھے۔ بقول مولانا عبد الباری ندوی حالات یوں تھے کہ: ’’اثنائے سفر میں ایک واقعہ پیش آیا کہ بھوپال اسٹیشن پرکچھ کھانا لینے کے خیال سے ڈبہ سے باہر آیا، سامنے ہی ایک خوانچہ دکھائی دیا جس میں تین بڑی بڑی المونیم کی پتیلیاں بند رکھی تھیں۔ بیچنے والاسامنے نہ تھا۔ قرینہ سے مسلمان سمجھا اور ایک پتیلی کے صرف ڈھکن کو ہاتھ لگادیا۔ اتنے میں وہ آگیا تو ہندو تھا۔ کہا کہ اب تو سب خراب ہوگیا، اور سب کے دام آپ کو دینا پڑیں گے ...... اور جو کچھ اس نے مانگا، دے دیا اور پوریاں وغیرہ جو کچھ تھیں، وہ اسی جگہ مسلمانوں کو تقسیم کردیں ۔‘‘
اس واقعہ کے بعد جو خیالات مولانا ندوی کے ذہن میں پیدا ہوئے، وہ یوں ہیں کہ آئندہ میں بھی ہر قسم کی اشیا کی خریدو فرخت صرف مسلمانوں سے ہی کیا کروں، اور غیر مسلموں سے، چاہے وہ ہندوہوں یا انگریز، مستقل بنیادوں پر قطع تعلق کر لینا چاہیے۔ اس پس منظر میں کچھ سوالات ذہن میں پیدا ہوئے جو اپنے شیخ ومربی کی خدمت میں یہ کہہ کر ارسال کردیے کہ’’جیساارشاد ہوگا، اسی کے مطابق ان شاء اللہ عمل کروں گا، لہٰذا نفس واقعہ اور حال عرض کردینے کے بعد جو خطرات و سوالات دل میں پیدا ہورہے ہیں، عرض کرتا ہوں‘‘۔ ان سوالات کا خلاصہ ذیل میں عرض کیا جاتا ہے ۔
۱۔ مشرکین کا نجس ہونا تو نص سے ثابت ہے، اس مفہوم کو صرف معنوی نجاست کہنے کی بجائے اس کو ظاہری نجاست بھی سمجھنا چاہئے، اور ہر قسم کے مشرکین سے، خواہ ہندو ہوںیا انگریز، ان سے ہر لحاظ سے اور ہر قسم کی قطع تعلقی کر لی جائے ۔
۲۔ کافروں کے ساتھ ترک موالات کے ساتھ ساتھ ترک معاملات بھی کیا جانا چاہیے ۔
۳۔ یہ قطع تعلقی بجائے چند ایام کے یا چند معامالات کے، ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے۔
پہلا سوال چونکہ خالص فقہی نوعیت کا ہے، لہٰذاحضرت مدنی نے اس کا جواب بھی خالص فقہی انداز میں نے عنایت فرمایا۔
دوسرے سوال میں چونکہ مولانا ندوی اسٹیشن پر پیش آمدہ واقعہ سے دل برداشتہ تھے، اس لیے انتقام کی اجازت پر مشتمل تھا، لہٰذا ایک مصلح کو اس کا جواب جیسا دینا چاہئے تھا، وہ جواب آپ نے بطریق احسن دیا۔
تیسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا سوال اس زمانے میں چلنے والی تحریک ’ترک موالات‘ کی مناسبت سے تھا جس کا جواب ایک زیرک اور مدبر، دانشمندوحکیم سے جیسی امید کی جاسکتی تھی، اسی طرح دیا گیا۔
اس سوال میں تمام کفار، خواہ وہ ہندو ہوں یا انگریز، سب کے ساتھ ترک موالات کا مطالبہ کیا گیا تھا،جبکہ تحریک ترک موالات میں صرف انگریزوں کے ساتھ قطع تعلقی کی جارہی تھی، جس کے جواب میں حضرت مدنی نے فرمایا:
۱۔ ’’احکام سیاسیہ ایک حالت نہیں رکھتے۔ کبھی زہر علانیہ دینے کا موقعہ ہوگا، اور کبھی شکر کا شربت پیش کرنا ہوگا۔‘‘
۲۔ بجائے جذبات میں کوئی ایسا شدید فیصلہ کرنے کے جس سے وقتی مصالح اور دائمی فوائد سے محرومی ہوجائے، ’’ضروریات اسلامیہ اور وقتیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے الانفع فالانفع پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ ‘‘
اور اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں بلکہ مذہبی ہے، البتہ وہ اکبرالاعداء اور اقوی الاعداء اور اضرّ الاعداء ہیں، ان کی اسلامیت سے ناامیدی ہے ۔‘‘ جبکہ ہندوؤں کے بارے میں ایسی ناامیدی ہرگز نہیں ہے، کیوں کہ اکثر ہندوستان میں آباد اقوام میں سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، اگرچہ چند معروضی حالات کی وجہ سے اس میں رکاوٹ آگئی ہے۔ لہٰذا فرمایا’’مانحن فیہ ایسا نہیں ‘‘بلکہ مکتوب کے ابتدائی حصے میں حضرت مدنی نے تفصیل کے ساتھ ان معروضی حالات کا تجزیہ کیا ہے جن کی وجہ سے ہندو ؤں کے نزدیک مسلمان ہونا اتنا نفرت کا باعث بن گیا۔ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’تاریخ بتلاتی ہے کہ ہند میں ابتداء اً جب مسلمان آئے، عام طور سے اہل ہند بدھ مذہب رکھتے تھے اور ترک چھوت چھات تو درکنار، بیاہ شادی تک بخوشی کرتے تھے ..... اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاط نے نہایت قوی تاثیر کی۔ خاندان کے خاندان مسلمان ہوگئے۔ مغربی پنجاب خصوصاً سندھ میں مسلمانوں کی زیادتی کا بڑا راز یہی ہے۔ ‘‘
اور انگریزوں کے بارے میں چونکہ سائل کو یہ شبہ تھا کہ شاید ایک وقت آئے گا جب ہم ان سے ترک موالات کے مسئلہ میں نظر ثانی کرلیں گے اور ان کے ساتھ تمام معاملات میں تعلقات قائم کر لیے جائیں گے، تو اس کی وضاحت میں حضرت مدنی نے فرمایا:
’’اگر وہ [انگریز] اسلامی دنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دست بردار ہوجائیں تو ترک موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہوگی، البتہ تابقاء کفر مصالحت کی بنا پرنہ موالات تامہ ہوگی اور نہ معادات‘‘ ۔
۴۔ مسئلہ چھوت چھات جس کی وجہ سے مولاناندوی کو ذاتی طور پر ایک تلخ تجربہ ہوچکا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے حضرت مدنی کویہ مکتوب لکھا اورجو کچھ مکتوب میں مندرج ہوا،وہ اس مکالمہ کا باعث بنا تھا جس کے جواب میں حضرت مدنی نے فرمایاکہ :
’’اگرچہ انگریز وہ معاملہ چھوت چھات کا نہیں کرتے، مگر اسلام کے بدترین اوراعلیٰ ترین دشمن ہیں ، بخلاف ہنود کے۔ یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی اگرچہ کافر ہو، پڑوسی پر حق رکھتا ہے، کما وردفی الحدیث، ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے، یا آبا کے ساتھ یا جدّات کے ذریعے سے۔ ان کے ساتھ ہندوستان میں ہم کو مجبوراً رہنا اور درگزر کرنا ہے، بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو، ہندوستان میں گزرکرنا عادت مستحیل ہے ، اس لیے ضروریات زندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی، انگریز سے ہم کو نہ یہ تعلقات ہیں، نہ مجبوریت ‘‘۔
اس بیان سے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مصلح یا ایک فقیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل اس انداز میں پیش کرے جس سے مسائل حل ہوں، اور لوگوں کا زندگی گزارنے کا عمل درست سمت میں احسن طریقہ سے چلتا رہے، اور حضرت مدنی نے اپنے اس جواب میں اس کا پوری طرح اظہار فرمایا۔
تحریر میں حضرت مدنی نے تاریخی مثالیں دیتے ہوئے اس سے پہلے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’عوام ہند کی ذہنیت ہمیشہ سے تارکین دنیا کی پرستش کرنے والی واقع ہوئی ہے، خصوصاً ہندو ذہنیت جس قدر سادھواور فقیر کی پرستش کرتی ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ یہ ذہنیت بہت جلد شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔ چونکہ اسلامی قوت کا قوت سے ان کو مقابلہ کرنے میں باوجود مساعئ عظیمہ کا میابی نہیں ہوئی، اس لیے اسی طریقے پر ان کی جدجہد محصور ہوگئی، اسی کو انہوں نے آلۂ کار مدافعت بالقویٰ کا بھی بنانا چاہا‘‘۔
اور ہندؤں میں تہذیبی تبدیلی کے جوحالات سامنے آئے، اس کی نشان دہی اور اس کا حل بتاتے ہوئے حضرت مدنی نے فرمایا:
’’پادشاہان اسلام نے اولاً اس طرف توجہ ہی نہیں کی، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے ،مگر شاہان مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا، خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہااور اگر اس جیسے چند بادشاہ اور بھی ہوجاتے یا اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال مدفون ہوجاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیاتھا۔‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مدنی کا یہ قول تفرد نہیں اور نہ ہی اس بات میں حضرت مدنی اکیلے اور تنہا ہیں ،بلکہ اگر ’الشریعہ‘ کی مجلس ادارت کے رکن رکین تاریخ کی کتب پر نظر ڈالتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اکبر کو بدنام کرنے والے صرف ’’دوقومی نظریہ ‘‘کے علمبردار تھے، نہ کہ ہندوستانی قومیت کے علمبردار، اوراس مسئلے پرتاریخ میں بہت سے افراد ایسے مل جائیں گے جو اکبر کی پالیسیوں کو اس کے سیاسی منظر نامہ میں دیکھ کر درست قرار دیتے رہے ہیں، اور ہندوستان میں سیکولرازم کا اولین علمبردار جلال الدین اکبر کوقراردیتے رہے ہیں جو مسلمانوں میں پہلے حکمران ہیں جوتمام ادیان کو ساتھ لے کر ہندوستان پر حکمرانی کرنے کے قائل تھے۔ آج اس بات کوصدیاں بیت جانے کے بعد اور مسلمانوں کا بٹوارہ کیے جانے اور تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام کے بعد بعض روشن خیال اور مغرب کے پروردہ مفکرین سیکولرازم کی طرف متوجہ ہونا اپنے لیے سعادت دارین سمجھتے ہیں، اور حضرت مدنی کے مکتوبات میں سے کچھ کلمات کو توڑ مروڑ کراپنی مصنوعی روشن خیالی کے چہرے پر سجانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ اس مملکت کا حصول اس سوچ سے یکسرمختلف تھا۔ ا ور حقیقت حال تو یہ ہے کہ نہ اکبر کی تجدد پسندی پر کوئی اجماع ہے اور نہ حضرت مدنی نے کسی اجماع کی مخالفت کی۔ یہ صرف کور باطنی کی وجہ سے یا نگاہ حقیقت بین سے محرومی کی وجہ سے اور اجماع کے مفہوم سے نا آشنائی کی وجہ سے یا اس بات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے کہ تاریخ میں اجماع نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے، یا نظریۂ قومیت سے ناآشنائی کی وجہ سے، یا ہندوستان کی قدیم تاریخ کی وجہ سے، یا روشن خیالی وتجدد پسندی کے شوق میں بے بہرہ ہوجانے کی وجہ سے ہے کہ ’رکن رکین ‘کو حضرت مدنی کا اجماع کے خلاف ہونا اور اکبر کی پالیسیوں کا خلاف اجماع ہونا نظر آرہا ہے۔
جہاں تک اکبر کی مذہبی پالیسیوں کا تعلق تھا، اس پر حضرت مدنی نے واضح الفاظ میں لکھا کہ مسئلہ چھوت چھات پر اکبر جیسا زیرک ودانا حکمران کیوں قابو نہ پاسکا، کیونکہ ’’ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں بھی کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بد ظنی ہوئی‘‘ اس لیے کہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا جتنا اس کو بنا دیا گیا۔ اس کو دین الہٰی کہا گیا اور اس کے بارے میں مسلمانوں میں بداعتقادی کی وجہ سے یا مغلوں سے ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے یا سیاسی حالات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خوب بدنام کیا گیا، اور اسی پس منظر میں حضرت مدنی فرماتے ہیں: ’’اگرچہ بدظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے‘‘۔ یہ تو اپنوں کا حال تھا کہ مسلمان حکمرانوں کی پالیسیوں کو دیکھ کر درست رائے قائم کرنے کی بجائے الٹا اس کو مورد طعن وتشنیع بنایا جانے لگا، اور دوسری طرف ہندوؤں میں جو مسئلہ چھوت چھات کا تھا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش اکبر نے کی، ’’ادھر برہمنوں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انگریزوں کی منافرت بین الاقوام کی پالیسیوں، سیواجی کی تاریخی نفرت انگیزی، سکھوں کی مسلم دشمنی کی تاریخ، وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے ہندوؤں میں چھوت چھات کا مسئلہ اور زیادہ بڑھا اور ہند میں آباد اقوام میں نفرت بڑھتی چلی گئی ۔
اگر ’معزز رکن رکین‘ مولانا نجم الدین اصلاحی کا حاشیہ دیکھ لیتے تو شایدروشن خیالی کے من میں چھپے ہوئے تجدد پسندی کے بھوت کو وہ اس طرح رام نہ کرتے جیسے انہوں نے کیا ہے، مگر محترم کو تو گلوبل بننے کی فکر دامن گیر ہے ،اور اس شوق کوبھی پورا کرنابہت تھا کہ بازار سے گلوب کو لے کراپنے سامنے رکھتے اورایک نظر میں کئی ممالک کو دیکھتے رہتے اور یوں گلوبل بن جاتے۔ ا ورہاں جس گلوبل دنیا کے محترم دعوے دار ہیں، وہ کم ازکم اس تیسری دنیا میں تو بیسیوں برس دورتک کہیں نظر نہیں پڑتی ۔
البتہ یہ گلوبل ازم کا نعرہ صرف ہم جیسے ناہنجار لوگوں کا مقدر ہے، جہاں تعلیم کی بجائے جہالت ،روزگار کی بجائے فقر وفاقہ، صحت کی بجائے آئے دن نئی نئی بیماریاں، محبتوں کی بجائے نفرتوں کے انبار، ترقی کی بجائے تنزلی، سچ کی بجائے جھوٹ، قانون کی بجائے لا قانونیت، انصاف کی بجائے ظلم، روشنی کی بجائے اندھیرے، سائنس کی بجائے پتھر کا دور، جمہوریت کی بجائے فرد واحد کا مختار کل ہونا مقدر بن چکا ہے اور جہاں ہمارارونابھی U.N.O. کے بڑے بڑے بے روح ہالوں میں صدابصحرا ہونے کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کشمیر وفلسطین، اندلس وفلپائن، بوسنیا وفرانس، عراق و افغانستان کے حالات کو ایک نظر ہی دیکھ کر اندازہ کریں کہ جس سوچ کے وہ حامل ہیں، کیا وہ حقیقت کی دنیا یا زمینی حقائق سے بھی موافقت رکھتے ہیں یا گلوبلائزیشن کی سوچ سوائے ایک سہانے خواب کے کوئی معنی بھی رکھتی ہے؟ یہ نعرہ دنیا کی حاکم قوتوں نے ہم غریب لوگوں کو انتشار میں مبتلا رکھنے کے لیے تراشا ہے ۔
اسی لیے تو اکبر کی پالیسیوں کا معاشرتی اثر ہمیں نظر نہیں آتا، البتہ اس سے دور اور بہت ہی دور ’’اکبر کی پالیسیوں کو تجدد پسندی کا نام دینے والے اس کے’ ’اجماعی مخالفین‘‘تفہیم سے دوری کے باعث یہ اہم نقطہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ریاستوں اور حکومتوں کے اقدامات کے اثرات دیرپا اور مطلق نہیں ہوتے بلکہ معاشرتی عناصر زیادہ گہرے اور زیادہ دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے اندر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، اورحکومتوں کے بدلنے کے ساتھ حکومتوں (یا مقتدرہ شخصیات) سے منسلک اقدامات بھی ترک کردیے جاتے ہیں اور اس پر کوئی خاطر خواہ رد عمل بھی سامنے نہیں آتا‘‘ لیکن گلوبلائزیشن کے علمبردار محترم اپنے اس کلام میں بھول گئے کہ جہاں معاشرت پنپتی ہے، وہاں معاشرتی اکائی افراد ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کی آبیاری کرتے ہیں، اور اسی میں چھوٹے چھوٹے گروہ اور جماعتیں اور محفلیں ہوتی ہیں جو معاشرت کی ایک اکائی کا درجہ رکھتی ہیں، جبکہ محترم نے اپنے مضمون کے آخر میں نہ جانے تبلیغی جماعت پر اپنے دانت کیوں تیز کیے ہیں۔ ہزار اختلاف کے باوجود جو شخص بھی معاشرتی اقدارپر نظررکھتاہے، وہ جانتاہے کہ یہ جماعت معاشرتی طورپر کیاکام سرانجام دے رہی ہے، اور ان کے اس عمل کے نتیجے میں معاشرے میں کیا کیا تبدیلیاں اور اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اگر موصوف کی اس پہلو پر نظر ہوتی تو ان کے خون کا دوران تبلیغی جماعت کے نام پر اتنا تیز نہ ہوتا ۔ اور آخری بات یہ ہے کہ حضرت مدنی کی تجددپسندی میں تبلیغی جماعت نے کیا رکاوٹ پیدا کردی ہے جو اس عنوان کے تحت اس کو ذکر کرنا پڑا؟ اگر موصوف اس پر کوئی خامہ فرسائی فرمائیں تو ’الشریعہ‘ کا باقاعدہ قاری ہونے کے ناتے سے مشکور ہوں گا۔