بھارت کے مذہبی اسکالر جناب وحید الدین خان کا نام ہم نے سنا ہوا ہے، لیکن ان کی فکر سے استفادہ کرنے کا ہمیں کبھی موقع نہیں ملا۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے ماہنامہ تذکیر لاہور کا شمارہ ۱، جلد ۲۰، جنوری ۲۰۰۷ عنایت کیا۔ اس شمارے میں ’’ ایک علمی برائی ۔۔ دعویٰ بلا دلیل‘‘ کے زیرِ عنوان مراسلت کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس مراسلت کے مطالعے سے ہمیں حیرت ہوئی کہ کوئی مذہبی اسکالر علمی برائی کے رد میں علمی بڑائی کا خود پسندانہ اظہار اس حد تک بھی کر سکتا ہے۔ وحید الدین صاحب کا متشددانہ اصرار ہے کہ ’دارالدعوۃ ‘ کی اصطلاح صرف ان کے’ مجتہدانہ ذہن‘ کی پیداوار ہے۔ نہ تو ان سے قبل اور نہ ہی ان کے بعد یہ اصطلاح کسی بھی ذی شعور کے ذہن میں آزادانہ طور پر آسکتی ہے۔ اب دنیا بھر میں جو شخص بھی یہ اصطلاح استعمال کرتا ہے، وہ درحقیقت وحیدالدین صاحب کا خوشہ چین ہوتا ہے۔ یہ مراسلت ۲۰۰۶ کی ہے۔ جناب وحید الدین کے علمی تفاخر وخود پسندی کے رد کی خاطر اور ریکارڈ کی درستی کے لیے ہم گزارش کریں گے کہ ’دارالدعوۃ‘ کی یہی اصطلاح ہم نے اپنی ایک تحریر مطبوعہ اپریل ۲۰۰۴ میں استعمال کی تھی، لیکن ہم یہ دعویٰ ہر گز نہیں کرتے کہ اس کے بعد جن لوگوں نے یہ اصطلاح اپنی تحریروں میں برتی ہے، انھوں نے اسے لازماً ہماری تحریر سے چرایا ہے۔ البتہ ہم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری تحریر میں اس اصطلاح کا در آنا عالمگیریت کی اٹھان اور موضوع کے خاص سیاق کے سبب سے تھا، اس لیے اس کا جناب وحیدالدین کی ’’فکر‘‘ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر محمد اکرم ورک کا ایم فل کا مقالہ ’’صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ جب کتابی صورت میں آ رہا تھا تو انھوں اس پرکچھ لکھنے کا حکم صادر کیا۔ ہم نے ’’عہدِ زر میں عہدِ زریں کی دعوت‘‘ کے عنوان سے چند سطریں قلم بند کیں جو اسی کتاب کے صفحہ ۱۳ تا ۱۹ میں شائع ہو ئیں۔ اس تحریر میں ایک مقام پر ’دارالدعوۃ ‘ کی اصطلاح، خیالات کی رو کے ساتھ خودبخود سامنے آئی۔ ملاحظہ کیجیے :
’’ سرد جنگ کے خاتمے اور نائن الیون کے واقعہ کے بعددنیا میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک طرف اگر امریکہ یک قطبی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے تو دوسری طرف قومی ریاست جرمِ ضعیفی کی سزاوار ٹھہر کر مرگِ مفاجات کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اندریں صورت عالمی سطح پر نئی فکری صف بندی راہ پا رہی ہے ۔ تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ گھڑ کر تہذیبِ اسلامی پر دہشت گردوں کی تہذیب کا لیبل چسپاں کر کے ’ مارکیٹ اکانومی ‘ کے دیوتا کو گلوبل کردار سونپا جا رہا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نام پر پوری دنیا کو ایسی فکر کے زیرِ نگیں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا اخلاقیات، زندگی کی اعلیٰ قدروں اور انسانیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یوں سمجھیے کہ ایک عہدِ زر، بد ترین عہدِ زر کو جنم دینے والا ہے۔ اب یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ نوعِ انسانی نے فیصلہ کرنا ہے کہ زندگی کے کسی اعلیٰ آدرش سے اپنی وابستگی ظاہر کرے یا پھر غلامی کے نئے ایڈیشن کو چپ چاپ قبول کر لے۔
مذکورہ بالا صورتِ حال یہ واضح کرنے کو کافی ہے کہ ریاست کا روایتی تصور آخری دموں پر ہے، عالمگیریت قدم بڑھا رہی ہے، لہٰذا موجودہ دور میں دارالحرب اور دارالاسلام کی روایتی بحثیں بھی اہمیت کھو چکی ہیں:مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیںنئے حوادث ہمیں خبر دے رہے ہیں کہ اب پوری دنیا کو ’وحدت ‘ کی صورت میں دیکھنا ہوگا، اس لیے نہ تو اسے دارالحرب قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی دارالاسلام۔ بہتر یہی ہے کہ ہم دنیا کو ’دار الدعوۃ‘ قرار دیں کہ ہمارا دین عالمگیر ہے، ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہے اور ہمارا رب، رب العالمین ہے۔ اس تناظر میں پروفیسر محمد اکرم ورک کی کتاب ’’ صحابہ کرامؓ کا اسلوبِ دعوت و تبلیغ‘‘ بہت بر وقت سامنے آئی ہے۔‘‘
میں اپنی تسبیحِ روز وشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ!
حقیقت یہ ہے کہ شاعری کی طرح نثر میں بھی ’ توارد ‘ واقع ہو سکتا ہے۔ اس لیے صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ انسان تفاخر کے بجائے تواضع اپنائے اور کسی بھی دوسرے انسان کے ذہنی امکانات کا انکار کرنے سے پرہیز کرے۔