(’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۷ء کے شمارے میں ہم نے گزارش کی تھی کہ اکبر بادشاہ اور اس کے بعد ہمارے ہاں دین کی تشکیل نو (Reconstruction) کی جتنی تحریکیں بھی اٹھی ہیں، ان پر مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے اثرات ہیں جس کے تحت اس نے مسیحیت کے قدیم تعبیر ی وتشریحی نظام کو مسترد کرکے پروٹسٹنٹ مکتب فکر کی بنیاد رکھی تھی اور جو آگے چل کرمذہب سے انحراف اور انسانی سوسائٹی سے مذہب کی لاتعلقی کی شکل اختیار کرگئی۔ ہمارے بہت سے مسلم دانشوروں نے مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے پس منظر اور نتائج کی طرف نظر ڈالے بغیر اس کے نقش قدم پر چلنے کو ضروری خیال کرلیا اور اب جب کہ مغرب اس کے تلخ نتائج کی تاب نہ لاتے ہوئے واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے، ہمارے یہ دانش ور اب بھی اسی کی پیروی میں اسلام کی تعبیر وتشریح کے روایتی فریم ورک کو توڑدینے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کا روایتی فریم ورک اس قدر مضبوط ومستحکم ہے کہ اس چٹان کے ساتھ سر ٹکرانے والوں کو ابھی تک اپنے زخموں کو سہلانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے، مگر مارٹن لوتھر بننے کا شوق ہمارے بعض دانش وروں کے حوصلہ کو پیہم مہمیز کرتا چلا آرہا ہے۔ خدا بخش اورینٹل لائبریری (انڈیا) کی شائع کردہ کتاب ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘ کی جلد اول میں اس حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ کا ایک مکتوب گرامی ابھی چند روز قبل نظر سے گزرا ہے جس سے ہماری مذکورہ بالا گزارشات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ خط ماہنامہ ’ندیم‘ کے ستمبر ۱۹۳۹ء کے شمارے سے نقل کیاگیاہے اور ’ندیم‘ کے مدیر کے ادارتی نوٹ سمیت یہ مکتوب قارئین کی خدمت میں اس ماہ کے ’کلمہ حق‘ کے طورپر پیش کیا جا رہا ہے۔ راشدی)
کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟
’’یورپ کی ’نشاۃ ثانیہ‘ یعنی اس کی ترقی کا موجودہ دور پوپوں کے استیصال اورعیسوی مذہب کی تجدید واصلاح کے بعد شروع ہواہے۔ اسی بنا پر نوجوان مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیاہے جو مسلمانوں کی ترقی کے لیے بھی اسی راستہ کو اختیار کرنا چاہتاہے، اور خیال پیدا ہوتا جاتاہے کہ علما کے استیصال اوراسلام کی تجدید کی ضرورت ہے۔ ’’علماے سو‘‘ کے فتنوں کو ہر زمانہ میں روکا گیا اور اس دور میں بھی ان کے مضر اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کی ضرورت ہے، لیکن ’’تجدید اسلام‘‘ کے مسئلہ پر غور کرنے کے لیے اسلام اور عیسائیت کے فرق پر پہلے غور کرنا چاہیے۔ اسلام نے اپنی بنیاد ہمیشہ کے لیے استوار رکھی ہے۔ا س کے ساتھ اس میں ایسی لچک بھی رکھی گئی ہے کہ اس کی بنیاد کو ہلائے بغیر ہم اس سے اپنے زمانہ کی ضرورتیں پوری کر سکیں۔
ذیل کے مکتوب میں اسی موضوع پر خیالات ظاہر کیے گئے ہیں جو ہمارے نوجوان دوستوں کے پڑھنے کے لائق ہیں۔ حضرت الاستاذ نے یہ مکتوب ہندوستان کے ایک شہرۂ آفاق نامور مسلمان اہل علم کے خط کے جواب میں لکھا تھا۔میں نے اس کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی۔ آج پرانے مسودوں میں اس پر نظر پڑی۔ اب وہ نوجوان دوستوں کے استفادہ کے لیے ان کی خدمت میں پیش ہے‘‘۔ ’’ر‘‘
مخدوم محترم دام لطفہ
السلام علیکم! والا نامہ نے سرفرازی بخشی۔ میں دو ماہ سے خانگی پریشانیوں میں مبتلا ہوں، اس لیے جواب میں قدرے تاخیر ہوئی ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی، جمعیۃ العلماء کا مستقل صدر نہیں، بلکہ اس کے اجلاس کلکتہ کا چند روزہ صدر تھا جس کا زمانہ، اجلاس کے اختتام کے ساتھ ختم ہوگیا۔
بہرحال آپ نے ایک مفید تحریک مستقبل کی طرف توجہ دلائی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے میرا خطبہ صدارت جو ان دنوں اخبارات میں چھپ رہاہے، ملاحظہ فرمایاہے یا نہیں۔ میں نے اس فقہی انقلاب اور اس کے لیے علما کی تیاری پر بہت کچھ لکھا ہے۔ خطبہ کی ایک کاپی بھیجتا ہوں، کم از کم ابتدائی حصے ملاحظہ فرمالیجیے۔
تاریخ فقہ اسلامی پر معلوم نہیں، آپ نے کس کی کتاب دیکھی ہے؟ ’تاریخ التشریع الاسلامی‘ جو محمد الخضری کی تصنیف ہے، وہ تو اس قدر مختصر نہیں۔ اس کے تو شاید تین چار سو صفحے ہوں گے، البتہ تقطیع چھوٹی ہے۔ میں نے اس کتاب کا دار المصنفین کی طرف سے ترجمہ کرایاہے۔ ترجمہ مکمل ہوگیاہے، شاید ایک سال کے اندر شائع ہوجائے۔
یورپ کے اثرات نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغی توازن میں فرق ضرور پیدا کیاہے، مگر اس کی اصلاح وتدارک کے لیے آپ کیا چاہتے ہیں؟ ایک نسخہ تو نسخ اسلام کا ہے جو بابی تحریک ہے۔ دوسرا نسخہ تجدید نبوت کا ہے جو قادیانیوں نے اختیار کیاہے۔ تیسرا نسخہ ابطال شرعیت احادیث کا ہے جو اہل القرآن نے تجویز کیاہے۔ ’وکل یدعی وصلا للیلیٰ‘
مجھے آپ کے خیالات سے براہ راست واقفیت نہیں، گو آپ کے رسالہ اجتہاد کا فحوائے مضمون بھی اپنے دوست مولوی عبدالماجد صاحب سے سن چکاہوں۔ آپ نے خلیل خالد بے کے جواب میں سید سجاد حیدر صاحب کو جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی دیکھ چکا ہوں۔ مسلم یونیورسٹی کے نصاب علوم مشرقی پر جو آپ نے تبصرہ کیاہے،اس کا بھی مطالعہ کیاہے، تاہم آپ کے کسی ایک واحد مرکزی خیال سے واقفیت نہیں جس سے یہ تمام مختلف شاخیں پھوٹتی ہیں۔
لیوتھر کی تجدید، مذہب سے زیادہ سیاست کے زیر سایہ کامیاب ہوئی، مگر مجھے نہیں معلوم کہ موجودہ یورپین اقوام میں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک کے درمیان کیا ارتقائی فرق ہے۔ انگلستان بیشتر پروٹسٹنٹ ہے، فرانس بیشتر کیتھولک ہے، اٹلی غالب تر کیتھولک ہے، اور سب شاہراہ ترقی پر ہیں۔ اب اسلام میں کس قسم کی تجدید کی ضرورت ہے، موازنہ کے ساتھ فرمائیے ۔
اسلام کا مذہب چار چیزوں سے مرکب ہے: عقائد، عبادت، معاملات، اخلاق۔ عقائد کو عجمیت سے، اخلاق کو صوفیت سے پاک کیا جا سکتا ہے، معاملات میں گزشتہ مسائل کی تنقیح یا کسی امام کی رائے کی بمصلحت زمانہ ترجیح ہوسکتی ہے، عبادات میں آپ کیا ترمیم چاہتے ہیں؟
اصل یہ ہے کہ ترمیم، تنسیخ کا خیال اسی وقت آسکتاہے جب اسماعیلیوں کے خیال کے مطابق مذہب کے محفل ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ یقین کیا جائے، اور میرا تو یہ اعتقاد نہیں۔ میں قرآن کے حرف حرف کو لفظی پابندی کے ساتھ قبول کرتاہوں۔ آیت میراث میں جو اصول مرعی ہے، اس کو تسلیم کیجیے تو پھر حصص کو کیوں تسلیم نہ کیجیے؟ اس قسم کی ترمیم وہی لوگ کرسکتے ہیں جو مذہب ووحی کی واقعیت کے قائل نہ ہوں، صرف ظاہری پردہ کے طورپر مذہب کو تسلیم کرنا چاہتے ہوں۔ اہل القرآن کی تاویلات ملاحظہ کیجیے اوراس کی فرقہ کی باطنیت پر ماتم کیجیے، علامہ مشرقی کا تذکرہ دیکھیے اور اس زہر میں ملے ہوئے قند کو ملاحظہ کیجیے۔ معاف کیجیے، ان تمام گمراہیوں کی جرات سید صاحب نے بے معنی تفسیر وتاویل کرکے دلائی ہے۔ مذہب کا بھرم اعتقاد میں ہے، جب اعتقاد گیا تو وہ تاویلات کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ میں تو صر ف ایک چیز کی دعوت دے سکتا ہوں۔ اسلام کو ہر حیثیت سے اپنے عہد اول کی سادگی اور عملیت پر لوٹ آنا چاہیے اور اس عجمی تصوریت اور تصوفی تعطل کے عقیدہ کو پارہ پارہ کردیناچاہیے۔ اگر آپ نے میرا رسالہ ’اہل السنہ‘ ملاحظہ فرمایاہے تو میرا تخیل اقرب الی الفہم ہوگا۔
معاملات اور فقہ کے باب میں جو جمود ہے، وہ بے شک دو ر ہونا چاہیے۔ معاملات اور فقہ کی بہت سی چیزیں اسلام نے رائے امام پر محمول کردی ہیں۔ اب امامت کے فقدان اور سلاطین وحکام کے جہل نے اس سے ان کو مستفید ہونے نہ دیا۔ ٹرکی میں جو مدنی قوانین بن رہے ہیں، وہ تھوڑے تغیر سے اسلامی رنگ اختیار کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ تعدد ازدواج کو روکتے ہیں مگر یہ کہہ کر کہ یہ تمدن کے خلاف ہے۔ یہ فسق ہے۔ یوں کہیے کہ تعدد ازدواج کی اجازت بقید عدل ہے، اور چونکہ عدل مفقود ہے، اس لیے اب اس کی ممانعت کی جاتی۔ آپ غلامی کا ابطال کرتے ہیں کہ یہ انسانیت اور قانون یورپ کے خلاف ہے۔ آپ اس کو یوں کرسکتے ہیں کہ جنگ کے قیدیوں کے ساتھ تین برتاؤ کیے جاسکتے ہیں:قتل، غلامی، اور آزادی۔ امام وقت ان تینوں میں سے ایک اختیار کرسکتا ہے، اور برائے امام آزادی کا حکم عام جاری کرسکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بہت سی باتوں میں اپنی رائے سے یا معاصر اقوام کے قانون سے فائدہ اٹھایا، وہ اب تک ہماری فقہ میں موجود ہے۔ آپ ان کو نکال سکتے ہیں، جیسے ذمیوں کے احکام ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کثرت طلاق کو دیکھ کر ایک مجلس کی تین لفظی طلاق کو تین مستقل طلاق قرار دے لی اور جو اب تک فقہ حنفی میں معتبر ہے۔ شارب خمر کی حد مختلف خلفاے راشدین نے مختلف قرار دی۔ اور بھی مثالیں ہیں، مگر ان مثالوں کا یہ نتیجہ نہیں کہ ہم قانون وراثت نکال دیں، وضو چھوڑ دیں، نماز کم کر دیں، روزے رخصت کریں۔ یہ تو وہی اسماعیلیت ہے جو چل نہ سکی اور معلوم ہوگیا کہ یہ اتباع مذہب نہیں، ابطال مذہب ہے۔
طول نفس کو معاف کیجیے۔ آپ کے خیالات کی تہ کو پاؤں تو کچھ عرض کروں۔
والسلام
۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۴۴ھ