ضرورت سے زیادہ پڑھنا اپنے ساتھ ظلم وزیادتی ہے اورضرورت سے زیادہ لکھنا دوسروں سے، اس لیے راقم کا مطالعہ خاصا محدود ہے۔ سوئے اتفاق کہ جناب زاہد الراشدی خان صاحب کے رسالہ الشریعہ کا فروری ۲۰۰۷ء کا شمارہ دیکھنے کا اتفا ق ہوا۔ اس میں ’مباحثہ ومکالمہ‘ کے ذیل میں حضرت قبلہ پروفیسر میاں انعام الرحمن زیدہ مجدہ کا مضمون نظر پڑا۔ ایک پرانا واقعہ یاد آیا۔ مولانا احسن اصلاحی نے ڈاکٹر اسرار احمد سے پوچھا: ’’آپ محاضرات قرآنی کے نام پر مختلف الخیال لوگ بلا لیتے ہیں، اس کا مقصد ومنشا کیاہے؟‘‘ ڈاکٹر اسرار احمد نے کہا: ’’حضرت! میں مختلف الخیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتاہوں۔‘‘ مولانا امین احسنؒ نے فرمایا : ’’ڈاکٹر صاحب! یہ کام تو پاکستان ریلوے ایک مدت سے سرانجام دے رہاہے۔‘‘
پہلے تو راقم یہ سمجھتا تھا کہ ’الشریعہ‘ ریلوے پلیٹ فارم ہے جس پر ہر طرح کے لوگ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ اب مضمون دیکھ کر پتا چلا کہ یہ صرف ریلوے کا پلیٹ فارم ہی نہیں، ۱۹۴۶ء کے مشرقی پنجاب کا ریلوے پلیٹ فارم ہے۔ اس کی مجلس ادارت ومجلس مشاورت میں جس قسم کے عبقری اور نابغہ جمع ہیں، ان سے اسی رویے کی توقع تھی۔ ممکن ہے کہ قارئین ساٹھ سال پرانی تاریخ بھلا بیٹھے ہوں، وہ مولانا حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کی سوانح کی کوئی کتاب پڑھ لیں۔ انہیں پتہ چل جائے گا کہ ۱۹۴۶ ء کے مشرقی پنجاب کے ریلوے پلیٹ فارم کی کیا تاریخ ہے۔ انہیں پروفیسر میاں انعام الرحمن کے تاریخی کردار کو جاننے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔
۱۹۴۶ء کے مشرقی پنجاب کے ریلوے پلیٹ فارموں پر کچھ نوجوانوں نے عاقبت فراموش کرکے جس نیم فطری لباس میں ڈانس فرمایا تھا، میاں انعام الرحمن نے یہ مضمون لکھ کر خود کو ویسے ہی نیم فطری لباس میں دکھادیاہے۔ ایک با ر کی ملاقات میں ہم نے سمجھا تھا کہ یہ کچھ نہ کچھ پڑھتے بھی ہیں، یہ مضمون دیکھ کر پتا چلا کہ وہ صرف لکھتے ہیں۔ میاں انعام الرحمن کی ذات بابرکت کی عقیدت مندی اور ارادت مندی میں وہ ہم سے پیچھے نہیں۔ ہمیں ان کی یہ ادا بے حد پسند آئی ہے کہ انہوں نے بلوغت کے لیے وقت کا انتظار نہیں کیا۔ وہ ماشاء اللہ فقہ وکلام اور تاریخ وفلسفہ پر لکھتے ہیں اوران علوم کے ماہرین سے اختلاف کرتے ہیں اورکمال کی بات یہ کہ ان علوم میں مطالعہ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ شاید کسب کے زیادہ قائل ہی نہیں۔ شاعر تلامیذ الرحمن ہوسکتے ہیں تو پروفیسر میاں انعام الرحمن کیوں نہیں؟ وہ سیاسیات کے لیکچرر ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ خود کو پروفیسر لکھتے ہیں، حالانکہ پروفیسر بننے کے لیے ابھی ایک مدت درکار ہے۔ ممکن ہے کہ انہیں تمام عمر پروفیسر بننے کا موقع نصیب نہ ہو، لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ محکمے کے فیصلے کا انتظار کرتے رہیں۔ وہ فقہ وکلام پر بغیر علم کے مسند ہوسکتے ہیں، حالانکہ ان بیچاروں نے ان علوم پر ابتدائی کتب بھی نہیں پڑھی، تو کیا پروفیسر نہیں بن سکتے ۔وہ اپنی ذات کی عقیدت میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ ہم جیسے عقیدت مندوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ پروفیسر (نہ ہونے کے باوجود) لکھ دیاہے، مگر حضرت مدنی قدس سرہ کے نام کے ساتھ شیخ الحدیث یا کوئی دوسرا سابقہ تو کجا، مولانا لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
میاں انعام الرحمن علم سیاسیات کے استاذ ہیں، مگر ان دنوں فقہ وکلام پر ماہرانہ مضامین لکھ رہے ہیں۔ ہم انہیں پڑھتے نہیں کہ عقیدت میں کمی نہ ہو جائے۔ سوئے اتفاق کہ یہی مضمون پڑھا (وہ بھی پورا نہیں)، ابھی تک صدمے سے باہر نہیں آسکے۔ صدمہ یقیناًاپنی جہالت کے ادراک کا بھی نہیں، جملہ فقہائے مت کی کم علمی پر دکھ ہوا کہ کسی فقیہ کو اجماع اور تفرد کا مفہوم نہیں سوجھا جو میاں انعام الرحمن سمجھ پائے ہیں۔ ہم ان بزرگوں کے اتباع میں یہ سمجھ سکے تھے کہ اجماع، عقائد واحکام میں ہوتاہے، مگر اب پتا چلا کہ یہ اجماع خبروں میں بھی ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ اجماع اہل علم کا معتبر ہوسکتاہے، مگر اب پتا چلا کہ اجماع میاں انعام الرحمن کی سطح کے لوگوں کا معتبر ہوسکتاہے۔ پھر ایک اور بات کا علم بھی ہواکہ اکبر کے بارے میں ایک خاص تعبیر پر ایمان لانا عقائد کا حصہ ہے نہ کہ تاریخ کا۔ ویسے تو ہمارے مسلم لیگی رضاکاروں نے عقائد کے سلسلے کو ہمیشہ آگے بڑھا کر اسلام کو خوب ترقی دی ہے۔ مثلاً ۱۹۴۶ء میں ایمان کی صفات میں ایک اور صفت کا اضافہ ہوا تھا:
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آمرحوم
پروفیسر منور مرزا زندہ تھے تو انہوں نے یوم اقبال پر ایک جلسہ میں برسرِجلسہ یہ تجویز پیش کی کہ ایمان کی صفات میں ’واقبالہ وجناحہِ‘ کا اضافہ کر دیا جائے۔ ہمارے ایمان کی کمزوری کہ یہ سن کر کانپ اٹھے۔ راوی ثقہ تھے۔ انکار کی ہمت نہ پڑی، مگر یقین بھی نہ آیا۔ پروفیسر صابر لودھی سے تصدیق چاہی کہ وہ جلسے میں شریک تھے اور منور مرزا کے سابقہ کولیگ بھی تھے۔ انہوں نے لفظ بلفظ تصدیق بھی فرما دی۔ پھر منور مرزا کے داماد صلاح الدین ایوبی سے تحقیق کی تو انہوں نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی تائید میں دلائل دینا شروع کر دیے۔ ہم ان کی عظمت پر ایمان لے آئے اوریہ بھی مانتے بنی کہ وہ واقعی شخصیت پرست نہیں۔ اگر وہ زیادہ اصرار کرتے تو ہم یہ بھی مان سکتے ہیں کہ شخصیت پرست ہم ہیں۔ جیسے ایک شاعر نے کہا تھا :
گرنازنیں کہے سے برامان گئے ہوتم
میری طرف تو دیکھیے، میں نازنیں سہی
میاں انعام الرحمن کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے تقلید کے استرداد میں ایک مضمون رقم فرمایا ہے (وہ مضمون الشریعہ کے دسمبر کے شمارے میں شائع ہواہے) اب قول سعدی یہ برآمد ہواہے کہ ائمہ فقہ کی بجائے میاں انعام الرحمن کی تقلید موزوں رہے گی، اسی لیے انہوں نے اجماع اور تفرد کے فیصلے کرنا شروع کردیے ہیں۔ میاں انعام الرحمن کی تقلید میں ایک آسانی یہ بھی رہے گی کہ کوئی ان کی بات کا جواب نہ دے سکے گا، کیونکہ ایسے لوگوں کے جواب میں دانا ؤں نے خاموش رہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
ریلوے پلیٹ فارموں پر عموماً لکھا ہوا دکھائی دیتاہے کہ یہاں تھوکنا منع ہے، مگر الشریعہ کے پلیٹ فارم پر تو جو شخص جی چاہے اور جہاں جی چاہیے، تھوک سکتاہے حتیٰ کہ چاند پر تھوکنے کی ممانعت بھی نہیں، اسی لیے میاں انعام الرحمن کا مضمون بے تکلف چھاپ دیا گیا ہے۔ جناب زاہد الراشدی خان کو چاہیے کہ ایسے مضمون چھاپنے کے بعد مصنف کے چہرے کو دیکھ لیا کریں۔ اس عمل کے بعد لکھنے والوں کے چہرے یقیناًچمک اٹھتے ہیں۔
اکبر کی سیاسی پالیسی اوربدعات پر کسی نے بھر پور تحقیق نہیں کی۔ محمد حسین آزاد نے ’’دربار اکبری‘‘ لکھی تو وہ افسانہ وافسوں سے زیادہ نہیں۔ آزاد کی گپ بازی اردو تحقیق میں مسلمہ ہے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کی ’’منتخب التواریخ‘‘ میں بہت سی روایات محلِ نظر ہیں۔ ’’رود کوثر‘‘ میں اکبر کی تائید ملتی ہے ۔دراصل اکبر کے بارے میں مستند ماخذ تین ہیں: ابو لفضل کی ’’آئین اکبری‘‘، حضرت مجدد الف ثانی کی تحریریں یعنی ان کے مکتوبات اورجہانگیر کی تزک۔ان تینوں مآخذ کی بنیاد پر مستند واقعات اور امور کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ بہرحال اب تک جو کچھ سامنے آیاہے، اس کے مطابق اکبر کے بارے میں دو باتیں بنیادی نوعیت کی ہیں:
۱۔منفی امور: اکبری بدعات اور ہر قسم کی مشرکانہ رسوم وعادات کی سرکاری سرپرستی۔ اس حوالے سے ہمارے تمام حاکم اکبر کے مقلد ہیں۔ کبھی کسی حاکم نے مزار کو غسل دیتے ہوئے شرک اوربدعت کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ شیعہ کو خوش کرنے کے لیے بعض دانشور علما نہ صرف حضرت امیر معاویہؓ پر تنقید کرنا جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی مجالس عزا میں شریک ہونا بھی عیب نہیں سمجھتے۔ اب تو خیر سے لیاقت بلوچ نے کرسمس کیک کاٹ کر اکبری بدعات کی تقلید میں ایک قدم اور آگے بڑھا دیاہے۔
۲۔مثبت امور: اکبر نے ہندوستان میں امن قائم کیا، مسلمانوں اورہندوؤں کے مابین موالات اورقرب پیدا کیا، اس طرح دونوں مذاہب میں مکالمے کی صورت پید ا ہوئی۔ ہمار ے ہاں بڑے بڑے باکمال لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ تلک لگواسکتے ہیں، مندر میں عبادت کے لیے گھنٹی بجانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے جیسا کہ امیر المومنین ضیاء الحق صاحب نے کیا تھا۔ دیوی کے سامنے پرارتھنا کرسکتے ہیں جیسا کہ بشریٰ رحمن نے کیا تھا۔ کرسمس کا کیک کاٹ سکتے ہیں جیساکہ لیاقت بلوچ نے کیا تھا۔ مگر ایک بات سخت ناپسند کرتے ہیں۔ وہ ہے ہندو اور مسلم میں مکالمہ اور قرب۔ اس میں بہت خطرے ہیں۔ اب اگر لاکھوں ہندو مسلمان ہو گئے تو اسلام پر قبضہ ہوسکتاہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت مدنی کلکتہ میں مسجد ناخدا میں ہوتے تھے تو سینکڑوں لوگ مسلمان ہوتے۔ ماشاء اللہ مسلمانوں کو نسلی قوم بنایا گیا تو ہندوؤں میں یہ رویہ ختم ہوا اور اسلام محفوظ ہوا ۔
حضرت مدنی ؒ نے ایک خط میں لکھا تھا :
’’اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا ،بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیاتھا مگر ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بدظنی ہوئی، اگر چہ بہت سے بدظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے۔ ادھر برہموں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا‘‘الخ۔
اس پیراگراف کا مفہوم بڑا سادہ ساہے کہ حضرت مدنی اکبر کی پالیسی کے منفی پہلو کی تردید اور مثبت پہلو کی تائید کررہے ہیں۔ یہی تفرد ہے جناب پروفیسر میاں انعام الرحمن کی نظر میں۔
آخر میں مجھے مولانا محمد مالک کاندھلوی ؒ کا ایک واقعہ یاد آرہاہے۔ واقعے کا تعلق بھی ریلوے سے ہے،اسی لیے اس کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ مولانا محمد مالک ؒ کراچی جانے کے لیے ریل میں سوار ہوئے۔ ایک ہم سفر نے آپ کو پہچان لیا اور بڑے تپاک سے ملا۔ تعارف کراکرکہا: ’’راستے میں آپ سے تبادلہ خیال رہے گا ۔‘‘ حضرت پریشان ہوگئے۔ بڑی عاجزی سے کہا : ’’میرے خیالات تو لے لیجئے گا، مگر اپنے خیالات سے مجھے محروم ہی رکھیے گا۔‘‘ پھر مخاطب کی آرزدگی کا سوچ کر فرمایا: ’’میاں بات یہ ہے کہ میرے خیالات تو قرآن وسنت سے مستنبط ہیں اور آپ کے خیالات مغرب سے آئے ہیں‘‘۔
میاں انعام الرحمن صاحب سے تو یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ انہوں نے مغرب کو کہاں پڑھا ہوگا؟ وہ تو خود مفکر ہیں۔ دوسروں کی تحریریں اور افکار تھوڑا ہی پڑھتے ہیں۔ ان کے افکار دوسرے لوگ پڑھیں اور ان کا اتباع کریں۔
زاہد الراشدی خان سوچتے ہوں گے کہ ہم نے ان کے نام کے ساتھ مولانا نہیں لکھا۔ ہم یہ جرات کیسے کرسکتے ہیں؟ ان کے استاذ الاساتذہ شیخ مدنی ؒ تو ان کے رسالے میں مولانا ہیں نہیں، زاہد الراشدی خا ن مولانا کیسے ہوں گے؟ زاہد الراشدی خان کو دو روایات سنا نے کو جی چاہتاہے۔ ایک تو انہوں نے ضرور سنی ہوگی۔ مولانا عبیداللہ اکثر یہ واقعہ سناتے تھے۔ ہم نے متعدد دفعہ مولانا سے یہ واقعہ سنا تھا۔ فرماتے تھے کہ حضرت لاہوری ؒ فرماتے تھے:
’’لوگ کہتے ہیں بینا سارے، اندھا کوئی کوئی۔ میں کہتاہوں اندھے سارے، بیناا کوئی کوئی۔ میرے بزرگ حضرت مدنیؒ اور حضرت رائے پوری (قدس اللہ اسرارہما) بینا ہیں، باقی ساری دنیا اندھی۔ یہ بزرگ ایک بات کہہ دیں اور ساری دنیا اس کے مخالف ہوجائے ، میں ان بزرگوں کی بات مان لوں گا، ساری دنیا کی بات چھوڑ دوں گا۔‘‘
زاہد الراشدی خان! کیا یہ بات سچ یا جھوٹ! کیا آپ نے یہ قول نہیں سنا؟ کیا آپ اس بات کی تردید فرما سکتے ہیں؟
اب اردو کے ایک نقاد افسانہ نگار اور انگریزی کے استاذ کا قول بھی سن لیجئے۔ یہ شخص تھے پروفیسر محمد حسن عسکری اعلی اللہ عقائدہ۔ اس مرد درویش نے ایک اصول مقرر کیاتھا کہ دین کا علم صرف دین کے مستند نمائندوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دین میں صرف مستند نمائندوں کی رائے معتبر ہے۔ پھر اس مرد درویش نے کہا کہ حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مدنی قدس اللہ اسرارھم دین کے مستند نمائندے تھے،انہی کا فرمان معتبر اور مستند ہے۔ پروفیسر میاں انعام الرحمن تو یہ بات نہیں سمجھ سکتے، کیا زاہد الراشدی خان بھی نہیں سمجھ سکتے؟ اگر بھول گئے ہوں تو اپنے والد محترم اور چچا محترم سے پوچھ لیں کہ کیا دین میں غیر عالم کا قول معتبر ہو سکتا ہے؟ جناب !دین تو بڑی بات ہے، ہم تو شاعری میں بھی غیر عالم کا قول معتبر نہیں سمجھتے۔
میاں انعام الرحمن (پروفیسر نہ لکھ سکنے پر معذرت خواہ ہوں) نے اپنے مضمون میں سے پڑوسیوں کی تعبیر کرتے ہوئے اس پر تمام گلوب کو قیاس فرمایاہے۔ اس قیاس پر ہمیں توایک اصطلاح یاد آرہی ہے ’’قیاس مع الفارق‘‘۔ میاں انعام الرحمن ان قدیم اصطلاحوں کو سمجھنے کے لیے دماغ پر زور نہ ڈالیں کہ یہ ماضی کا قصہ ہیں اور ان جیسے ائمہ فکر کے لیے ماضی کے علوم کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی۔ میاں صاحب اگر بضد ہوں تو زاہد الراشدی خان سے اس کامفہوم ومعنی پوچھ لیں۔
بقیہ مضمون ہم پڑھ نہیں سکے کہ ہم میں زیادہ صبر بھی نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں اوسط عمر کچھ زیادہ نہیں۔ بہرحال مضمون ان کی علوفکر کی دلیل ہوگا، یقیناًبہت علمی ہوگا، ہم جیسوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ہماری کم نصیبی کہ استفادہ نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ ہم ان کی عقیدت میں مبتلا ہیں اور ان کے عقیدت مند جیسے کہ وہ خود ہیں، اس طرح سوچ سکتے ہیں۔ بہرحال یہ چند سطریں محض ان کی عقیدت مندی میں لکھ دی ہیں، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ امید ہے میرے لکھے کو وہ ناپسند نہیں کریں گے۔