قرآنی علمیات اور معاصر مسلم رویہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

دنیا کی کوئی فکر، کوئی فلسفہ یا کوئی نظامِ حیات ، معاشرتی سطح پر اپنے نفوذ کی خاطر متعلقہ معاشرت اور کلچر کا لحاظ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔ یہ آدھا سچ ہے ۔ بقیہ آدھا سچ یہ ہے کہ متعلقہ معاشرت اور کلچر کا لحاظ اگر حدود سے تجاوز کر جائے تو وہ نظامِ حیات یا فلسفہ اپنے مخصوص اور منفرد منہج سے ہٹ کر محدودیت اور تنگ نظری کو فروغ دینے والی معاشرتی کہاوتوں کو بھی، جن کے پیچھے اصلاً نفسیاتی عوارض کار فرما ہوتے ہیں، اپنی بنیادی صداقتوں میں شمار کرنے لگتا ہے اور انہیں ازلی سچ گردانتے ہوئے اپنی علمیات (Epistemology) سے کچھ اس طرح خلط ملط کرتا ہے کہ نہ صرف جھوٹ اور سچ میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے، بلکہ وہ نظام حیات فی نفسہ اپنی ڈگر سے ہٹ جاتا ہے ۔ اگر قرآن کا موضوع انسان ہے اور انسان معاشرے میں ہی زندہ رہ سکتا ہے تو قرآنی علمیات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس طرح ہماری آئندہ گفتگو کم از کم دو جہتوں میں منقسم ہو گی: (ا) قرآنی علمیات (ب) قرآنی علمیات سے روگردانی ۔

سب سے پہلے ہم قرآنی علمیاتی اساس کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں : 

 الم o ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ o (البقرہ: ۱۔۳)
’’ الف، لام، میم ۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ نہیں کوئی شک اس (کے کتابِ الہٰی ہونے ) میں۔ ہدایت ہے (اللہ سے ) ڈرنے والوں کے لیے۔ جو ایمان لاتے ہیں غیب پر، قائم کرتے ہیں نماز اور اس میں سے جو رزق ہم نے دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘ 

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصریح فرمائی ہے:

(۱) کتابِ الٰہی میں شک کرنے کی گنجائش موجود نہیں۔

(۲) یہ متقین ( اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ) کے لیے ہدایت ہے ۔ 

(۳) اس کے بعد اللہ رب العزت متقین کے گروہ کو متعین کرتے ہیں کہ حقیقت میں متقین کون لوگ ہیں؟ یعنی کن صفات کے حامل لوگوں کے لیے ’الکتاب‘ ہدایت کا سر چشمہ ثابت ہو سکتی ہے ؟ ان میں ’’ ایمان بالغیب ‘‘ کو اللہ رب العزت سب سے پہلی صفت یا ناگزیر لازمہ قرار دیتے ہیں ۔ اس کے بعد اقامتِ صلوۃ اور انفاق کا ذکر کرتے ہیں ۔ 

اب ذرا غور فرمائیے کہ ’’الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْْبِ‘‘ کے بعد حرفِ عطف ’ و ‘ موجود ہے ۔ یہ حرفِ عطف اشارہ کر رہا ہے کہ ایمان ، غیب کے ساتھ مخصوص ہے۔ آیت کا بعد والا حصہ یعنی اقامتِ صلوۃ اور انفاق اپنی اپنی جگہ الگ اہمیت رکھتے ہیں (کیونکہ ان کے درمیان بھی حرفِ عطف موجود ہے)، ان کا ایمان کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق نہیں بنتا، البتہ متقین کی صفات کے ذیل میں ان کا مقام دوسری اور تیسری سطح پر ضرور آتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ متقین کی پہلی صفت ایمان بالغیب ہے اور انہی کے لیے یہ الکتاب ( جس میں کوئی شک نہیں) ذریعہ ہدایت ہے ۔ 

قرآن کی ان ابتدائی آیات کا فہم قرآن کی جس علمیاتی اساس کی جانب اشارہ کرتا ہے، وہ کچھ یوں ہے :

(۱) قرآنی علمیاتی اساس تشکیک کی نفی کرتی ہے ، یعنی علم کی بنیاد شک پر نہیں رکھی جا سکتی ۔ 

(۲) علمیاتی اساس ’’ لا ریب ‘‘ یعنی شک نہ کرنے میں پنہاں ہے ۔ 

(۳) جس علم میں شک نہ کیا جا سکے، ایسا علم صرف متقین کے لیے ہدایت ہے ( سب کے لیے نہیں ) ۔ 

(۴) متقین وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔

اگر مذکورہ چاروں نکات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاریب اور بالغیب میں گہرا تعلق ہے ۔ لاریب یعنی شک نہ کرنے کی صراحت کے بعد ، ایمان بالغیب کا ذکر ( وہ بھی کچھ اس طرح متصل الفاظ کے ساتھ کہ درمیان میں کہیں بھی حرفِ عطف نہیں آتا) خاصا معنی خیزہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شک نہ کرنے کے باوصف ایسے انسان کا ذہنی سانچہ کس قسم کا ہونا چاہیے جو متقین میں شامل ہوکر ہدایت پانا چاہتا ہے؟ قرآن اس کا پہلا جواب ایمان بالغیب سے دیتا ہے ۔ یہاں غیب کے وہ معنی مراد نہیں جومختلف مذہبی حلقوں میں معروف ہیں ۔ یہاں غیب سے مراد ’’نامعلوم ‘‘ہے، لیکن اس کا مطلب لا ا دریت بھی ہرگز نہیں ۔ نامعلوم ہونا ایک اور چیز ہے اور نہ جان سکنا چیزے دگر است ۔ نہ جان سکنے کی روش اپنانا ایک منفی رویہ ہے اور یہ تشکیک کے قریب ترین ہے جس کی قرآن ابتدا ہی میں نفی کرتا ہے ۔ اس کے برعکس نامعلوم ہونا ایک مثبت رویہ ہے جس میں جان سکنے کی خواہش اور یقین دونوں پائے جاتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ( الکتاب میں ) تشکیک کرنے کے بجائے ( یعنی وہ امکانات جو مستور ہونے کے باعث شک میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ خدا کے ہاں موجود ہیں ) نامعلوم یعنی امکانات کو چھونے کی خواہش اور سکت ، ایمان بالغیب ہے۔ اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ قرآنی علمیاتی اساس کسی بھی قسم کی فکری موضوعیت یا تشکیک کے بجائے ’’نامعلوم پر ایمان‘‘ یعنی امکانات کو چھونے کی سکت پر موقوف ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دنیا کی کوئی فکر، کوئی فلسفہ یا کوئی نظامِ حیات ، قرآنی علمیاتی اساس کی مانند نامعلوم پر قائم نہیں ہے، حتیٰ کہ ریاضی جیسی مجرد فکر بھی ’’ فرض کیا ‘‘ سے شروع ہوتی ہے یعنی اس میں بھی موضوعیت در آتی ہے ۔ 

قرآنی علمیات کا راہنمایانہ منہاج

قرآنی علمیات کی اساس کی دریافت کے بعد اب ہم اس کا راہنمایانہ منہاج (Directive Discourse) تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں : 

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَن یُفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیْ أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ o ( البقرۃ : ۳۰)
’’اور یاد کرو جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ یقیناًمیں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ ۔ تو انھوں نے کہا تھا کہ کیا تو مقرر کرے گا زمین میں اس کو جو فساد برپا کرے گا اس میں اور خون ریزی کرے گا؟ جبکہ ہم تسبیح کرتے ہیں تیری حمدو ثنا کے ساتھ اور تقدیس کرتے ہیں تیری ۔ اللہ نے فرمایا یقیناًمیں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔‘‘

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو اس بات کا علم کیسے ہوا کہ خلیفہ زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گا ؟ کیا فرشتے بھی ایک حد تک ’ علیم ‘ ہیں ( خدا سے کم تر درجے میں ہی سہی )؟ اس آیت سے متصل آیات جہاں اس نکتے کی وضاحت کرتی ہیں، وہاں اس امر پر بھی دال ہیں کہ ان کو متصل پڑھنے سے ہی قرآنی منشا زیادہ وضاحت کے ساتھ مشخص ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُوْنِیْ بِأَسْمَاء ہَؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن o قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم o (البقرہ: ۳۱، ۳۲)
’’اور سکھائے اللہ نے آدم ؑ کو نام سب چیزوں کے ، پھر پیش کیا ان کو فرشتوں کے سامنے اور فرمایا بتاؤ مجھے نام ان کے ، اگر ہو تم سچے۔ انھوں نے عرض کیا پاک ہے تیری ذات، نہیں ہمیں علم مگر اسی قدر جتنا تو نے سکھایا ہمیں ۔ بے شک تو ہی ہے سب کچھ جاننے والا ، بڑی حکمت والا ‘‘ 

آیت نمبر ۳۲ میں یہ الفاظ کہ ’’ نہیں ہمیں معلوم مگر اسی قدر جتنا تو نے سکھایا ہمیں ‘‘ صاف بتا رہے ہیں کہ فرشتے ادنیٰ درجے میں بھی علیم نہیں ہیں ۔ خلیفہ کے بارے میں فرشتوں کی یہ جان کاری کہ وہ زمین میں فساد اور خون ریزی برپا کرے گا، خدا ہی کی عطا کردہ تھی ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ فرشتوں نے کسی ’شک ‘ کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے معلوم کی مدد سے ایک ’یقینی اور امکانی‘ بات کی( یقینی ان معنوں میں کہ علم خدا کا عطا کردہ تھا اور امکانی ان معنوں میں کہ ابھی وقوع نہیں ہوا تھا ) کہ خلیفہ بھی آخر رب ذوالجلال کی تسبیح و تقدیس کرے گا اور وہ ہم پہلے ہی کر رہے ہیں۔ پھر چونکہ وہ فساد اور خون ریزی بھی کرے گا، لہٰذا اس کی تخلیق میں رب کی کیا حکمت ہے ؟ اس کے بعد آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے عطا کردہ علم کے یقینی و امکانی اظہار پر فرشتوں سے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا ( کہ تشکیک کے بر عکس یقینی اور امکانی علم کا اظہار خدا کے ہاں مقبول ہے ) ۔ آیت پر غور فرمائیے :

قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُون o (البقرہ: ۳۳)
’’ اللہ نے فرمایا ، اے آدم ؑ بتاؤ ان کو نام ان کے ، پھر جب بتا دیے آدم ؑ نے فرشتوں کو نام ان سب کے ، تو فرمایا : کیا نہیں کہا تھا میں نے تم سے کہ بیشک میں ہی جانتا ہوں سب راز آسمانوں کے اور زمین کے بھی اور جانتا ہوں ہر اس چیز کو جو تم ظاہر کرتے ہو اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘ 

اس آیت میں کہیں بھی ناراضی کا شائبہ نہیں ملتا، سوائے ان آخری الفاظ کے ’’ اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘۔ اگر ان الفاظ کے مخاطب فرشتے ہیں تو اس کی مزید صراحت اگلی آیت میں ہو جاتی ہے :

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَءِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْن o (البقرہ: ۳۴)
’’ اور جب حکم دیا ہم نے فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم ؑ کو ، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔ اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے ‘‘ 

یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ امکانی بات یہ ہے کہ جب فرشتے فساد اور خون ریزی کا تذکرہ کر رہے تھے تو فرمانِ ربانی کے مطابق ’’ جو تم ظاہر کرتے ہو ‘‘ کے مصداق ابلیس بھی ان کا ہم نوا تھا۔ اس وقت تک ابلیس نے اپنے انکار اور گھمنڈ کو چھپایا ہوا تھا ، اسی چھپانے کو اللہ رب العزت نے آیت ۳۳ میں ’’ اور وہ بھی جو تم چھپا رہے ہو ‘‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے ۔ آیت ۳۴ میں یہ نکتہ اہم ہے کہ ابلیس کا انکارکرنا اور اس کا گھمنڈ کرنا اسے دیگر فرشتوں سے ( عمومیت کے دائرے سے ) الگ کر دیتا ہے ۔ 

طوالت سے بچنے کی خاطر اس بحث کو یہیں منقطع کر کے ہم اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے کہ اللہ رب العزت پہلے فرشتوں کی زبان سے ’’ فساد اور خون ریزی ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اس کی نفی کرنے کے بجائے آدم ؑ کو سب چیزوں کے نام سکھلا کر فرشتوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ کیا تم یہ نام بتا سکتے ہو؟ پھر آدم ؑ کو حکم دیتے ہیں کہ فرشتوں کو یہ سارے نام بتا دو۔ اس آگاہی کے بعد فرشتے کوئی سوال نہیں کرتے بلکہ خدائی حکم کی تعمیل میں آدم ؑ کو سجدہ کرتے ہیں، سوائے ابلیس کے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان آیات کی متصل تلاوت ایک بہت واضح اشارہ کر رہی ہے کہ خلیفۃ الارض اگرچہ فساد اور خون ریزی برپا کرے گا، لیکن اسی فساد اور خون ریزی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے پاس ’’ الاسماء کلھا ‘‘ کا ہتھیار بھی ہو گا ، اسی لیے فرشتے ( خدائی پروگرام کے مطابق ) مزید سوال کرنے کے بجائے چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ہماری رائے میں قرآنی علمیات کا راہنمایانہ منہاج یہی ہے کہ انسان ’’فساد اور خون ریزی کو مغلوب کرنے والے علوم و فنون ‘‘ کی عظیم عمارت قائم کرے ۔ اس کی مزید تصریح اس آیت سے ہو جاتی ہے :

مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً (المائدہ: ۳۲)
’’ جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا، الا یہ کہ قصاص میں یا زمین میں فساد کا ارتکاب کرنے کی پاداش میں اس کی جان لی جائے ‘‘۔

یہاں اس امر کی وضاحت بر محل ہو گی کہ قرآنی علمیات میں راہنمایانہ منہاج کی باقاعدہ موجودگی، مجرد علمیات (Abstract Epistemology) کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی۔ در حقیقت ، مجرد علمیات اور تشکیک کے بجائے یقین اور امکان کے دائرے میں آنے والے علوم و فنون ہی راہنمایانہ منہاج کی چھتری تلے قابلِ قبول گردانے جائیں گے۔ 

راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہتیں 

قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے مختصر ذکر کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ثانوی جہتوں پر بھی سرسری نظر ڈال لی جائے ۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ فساد اور خون ریزی کا باقاعدہ تذکرہ ہونے سے ان کو براہ راست مغلوب کرنے والے علوم و فنون ’’ یقین ‘‘ کے دائرے میں آئیں گے ( جیسا کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر فساد اور خون ریزی کے ذکر کے ساتھ ان پر غالب آنے کے لوازمات کا بھی ذکر موجود ہے ) ، جبکہ فساد اور خون ریزی کی ایسی پرتیں جو قرآن مجید میں اگرچہ کھولی نہیں گئیں لیکن چونکہ امکانی سطح پر موجود ہیں ، لہٰذا ان پر غلبہ پانے والے علوم و فنون منطقی طور پر ’’امکان ‘‘ کے دائرے میں شمار ہوں گے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ قرآنی راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہتیں بنیادی طور پر ان امکانات سے عبارت ہیں جو مرورِ زمانہ سے فساد اور خون ریزی کی نئی صورتوں کے ظہور کے جواب میں مسیحائی کردار ادا کریں گے ۔ مثلاً ، خون ریزی کے حوالے سے ایٹمی ، کیمیائی اور دیگر ہتھیاروں کو دیکھ لیجئے ۔ اسی طرح خود کش حملوں کو دیکھیے کہ کیا یہ دفع فساد یا دفع خون ریزی کے لیے اس امکانی علم یا امکانی فن کے دائرے میں آتے ہیں جو فساد اور خون ریزی کی نئی صورتوں کے ظہور کے بعد راہنمایانہ علمیاتی منہاج کی ثانوی جہت گردانے جاسکتے ہیں، یا ایسے خود کش حملے بنفسہ ، فساد اور خون ریزی کی امکانی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا ظہور ہیں ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات کچھ ایسے ہی ہے جیسے ہمیں قرآن مجید میں جہاد وقتال سے متعلق آیات ملتی ہیں جو قرآن مجید سے ناآشنا فرد کے لیے جنگ سے متعلق ہی شمار ہوں گی کہ جنگ اور جہاد وقتال کی ظاہری صورت میں زیادہ فرق موجود نہیں، لیکن قرآن مجید کا فہم رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ اور جہاد وقتال کی نہ صرف ظاہری صورت میں کافی فرق ہے بلکہ جہاد وقتال کی داخلی یا باطنی صورت ، جنگ سے یکسر مختلف ہے ( بقول شخصے ، جنگیں پہلے اذہان میں جنم لیتی ہیں ) ۔ لہذا جنگ اور جہاد وقتال کی داخلی ، باطنی اور ذہنی حالتوں میں جو فرق پایا جاتا ہے، وہ اپنی نوعیت میں زیادہ بنیادی ہے کہ اسی کی وجہ سے ظاہری صورتوں میں فرق رونما ہوتا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود کش حملوں کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اسی بنیادی فرق کا لحاظ رکھنا شاید زیادہ سود مند ثابت ہو گا ۔ 

قرآنی علمیات سے روگردانی 

اب ہم دیکھیں گے کہ معاصر مسلم رویہ فکری و عملی اعتبار سے قرآنی علمیات سے ہم آہنگ ہے کہ نہیں ؟ بنظرِ غائر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ خارجی دنیا کے جبر اور داخلی معاشرتی تقاضوں کے باعث مسلمانوں میں مختلف النوع رویے سامنے آ رہے ہیں۔ اب کوئی جدت پسند ہے تو کوئی روایت پسند ،اور ان دو انتہاؤں کے درمیان مزید رویے معلق ہیں جنھیں بمشکل ہی روایت پسند یا جدت پسند ٹھہرایا جا سکتا ہے۔اگرچہ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ مسلمانوں کی اس داخلی فکری تقسیم کے ڈانڈے ماضی کے نوآبادیاتی نظام اورمغرب کے حالیہ متعصب رویے میں پنہاں ہیں، لیکن اس تقسیم میں جہاں جہاں قرآنی علمیات سے روگردانی شامل ہوئی ہے، وہاں صورتِ حال زیادہ سنگین ہو جاتی ہے ۔ 

مسلمانوں کی داخلی تقسیم کئی جہتوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ امہ کا تصور مفقود تو نہیں لیکن کم از کم دھندلا ضرور ہے ۔ روایت پسند مسلم گروہ نے بعض خامیوں اور کمیوں کے باوجود ، مسلم ذہن سے امہ کا تصور محو نہیں ہونے دیا ۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ جدت پسند مسلم گروہ نے بحیثیت مجموعی ، امہ کے تصور سے انکار نہیں کیا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ روایت پسند گروہ ، تصورِ امت کے متشکل ہونے میں علاقائی ، جزوی اور معروف تقاضوں کو حائل ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ۔ جدت پسند گروہ ان تقاضوں کی اہمیت اور ناگزیریت کو سمجھتے ہوئے ان پر گفت و شنید چاہتا ہے ۔ دونوں گروہوں کے موازنے سے یہ عجیب بات بھی سامنے آتی ہے کہ جدت پسند گروہ داخلی اعتبار سے اتنا منقسم نہیں جتنا کہ روایت پسند گروہ ۔ حالانکہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا کہ جدت پسندوں کی آزاد روی تقسیم در تقسیم کا سبب بنتی اور روایت پسندوں کا استقلال ، وحدتی رجحان کا باعث ہوتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ہماری رائے میں روایت پسندوں کے ہاں مسلسل تقسیمی عمل میں ’’جوازات کی حامل ہٹ دھرمی ‘‘ کا کردار بنیادی ہے ۔ اس ہٹ دھرمی کے باعث ہی کوئی شخص یا کوئی چھوٹا سا گروہ ، بڑے گروہ سے بغاوت کرتے ہوئے الگ ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد دونوں کا ملاپ ناممکن ہوجاتا ہے، کیونکہ نئے الگ ہونے والے چھوٹے گروہ کی بنیادی ساخت بھی ہٹ دھرمی میں گندھی ہوتی ہے۔اگر اس میں لچک کا عنصر ہوتا تو بڑے گروہ سے الگ ہی کیوں ہوتا ؟ہماری رائے میں سنیوں کی داخلی تقسیم اسی نوعیت کی ہے۔ بنیادی عقائد میں یکسانی کے باوجود ، وحدتی رجحان کی بجائے تقسیمی عمل کی شدت کو آخر کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟ اسلامی تعلیمات پر شخصی و علاقائی خصائل کی ملمع کاری کے بعد تعلیمات و اقدار کے صرف اسی ایڈیشن کو عین اسلام قرار دینا ہٹ دھرمی کے اعصابی خلل کے سوا اور کیا ہے ؟ ہر روایت پسند گروہ کی ذہنی ساخت اور افتادِ طبع ایسی ہے کہ وہ اپنے فہمِ اسلام کو ہی عین اسلام سمجھتے ہوئے ، اسی کے مطابق تصورِ امہ کے متشکل ہونے کا تمنائی ہے۔ صاف الفاظ میں اس کا مطلب یہی ہے کہ صرف وہی اسلام کا سچا پیروکار ہے۔ لہٰذا ہر گروہ کا ایک طرف امہ کے تصور پر زور اور دوسری طرف کسی بھی دوسرے گروہ (جس کی ساخت کسی دوسری شخصیت یا علاقے کی پروردہ ہو) کو accommodate کرنے سے انکار ، کتنا بڑا تضاد ہے؟ ہماری رائے میں امہ کے تصور کے متشکل ہونے کے بنیادی تقاضے جدت پسندوں کی نظر میں ہیں کہ وہ نہ صرف علاقائی و شخصی اثرات کو بنیادی اسلامی تعلیمات سے الگ کر کے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے اسلامیانے کی ناگزیریت کو بھی سمجھتے ہیں ۔ 

روایت پسند گروہ کی دو بڑی شاخوں اہل الرائے اور اہلِ حدیث کو بنظرِ غائر دیکھیں تو اہلِ حدیث زیادہ جامد اور بے لچک محسوس ہوتے ہیں ۔ مخالف شاخ انھیں عام طور پر لفظ پرست ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ (اس طعنے کی صداقت پر ہمارے زیادہ تحفظات نہیں ہیں) دلچسپ بات یہ ہے کہ نام نہاد اہل الرائے شاخ بھی، جو اپنے تئیں الفاظ کے بجائے ان کے فہم پر زور دینے کی دعوے دار ہے ، حقیقتاً لفظ پرست ہے۔جی ہاں ! اکابر ین کے فہمِ اسلام کی پرستش اس کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ شاخ ، اکابرین کے اس فہمِ اسلام کی پیروی کرتی ہے جو لفظوں میں زندہ ہے ، یعنی یہ شاخ بھی اپنی اپروچ میں اہلِ حدیث شاخ سے مختلف نہیں ہے ۔ چھوٹے پیمانے اور نچلی سطح پراہل الرائے کی شاخ میں بظاہرزندگی کا رنگ نظر آتا ہے اور اسلام کی نامیاتی خصوصیت کے اظہار کی امنگ بھی، لیکن وسعتِ نظری سے کام لیتے ہوئے اگر وسیع تر تناظر اور اعلیٰ سطح پر اس شاخ کی اپروچ کو جانچا جائے تو یہ اہلِ حدیث شاخ سے بھی زیادہ لفظ پرست محسوس ہوتی ہے ، کیونکہ اہلِ حدیث شاخ بہر حال قرآن و حدیث کے الفاظ کی پیروی کرتی ہے جبکہ نام نہاد اہل الرائے شاخ، اکابرین کے الفاظ کو تقدس کا جامہ پہنانے پر مصر ہے ۔فہم دوستی سے مغایرت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج کی اہل الرائے شاخ اپنی درخشندہ روایت کے برعکس معروف کی منکر ہے ۔ کسی ستم ظریف نے صحیح کہا ہے کہ’’ بدی ہمیشہ مذہب کے لبادے میں مستور ہوکر نیکی کا منہ چڑانے آ موجود ہوتی ہے‘‘۔ ( چاہے مکے کو بھلا کر مدینے کی گلیوں میں خاک چھاننے کے خواہش مندوں کی شکل میں ہو یا دنیا کو تج دے کر بستر بند اٹھائے آخرت میں کامیابی کی اسناد بانٹنے والے خدائی فوجداروں کے روپ میں ) روایت پسند گروہ کی ایسی مخدوش داخلی حالت کے پیشِ نظر جدت پسند گروہ سے اصلاحِ احوال کی امیدیں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔

اس سارے عمل میں عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذکورہ داخلی تقسیم ایک وحدتی رجحان بھی رکھتی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ وحدتی رجحان قرآنی علمیات سے روگردانی سے عبارت ہے۔ روایت پسند ہوں کہ جدت پسند ، دونوں گروہ اپنے اپنے مخصوص انداز میں ایسے تاریخی و خارجی جبر اور معاشرتی لوازمات کومسلم فکر و عمل میں شامل کر رہے ہیں جو قرآنی علمیات سے براہ راست متصادم ہیں۔ معاشرت اور کلچر کا لحاظ حدود سے متجاوز ہونے کے باعث معاصر مسلم رویہ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر قرآنی علمیات سے کس قدر دور ہوتا جا رہا ہے، اس کی فکری وواقعاتی شہادت کے لیے ہم قربانی سے متعلق واقعہ کا رائج الوقت فہم بطور کیس سٹڈی (Case Study) پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ شدید باہمی اختلاف رکھنے والے گروہ بھی ، اس واقعے کی قرآنی علمیات کے بر عکس تعبیر کرنے میں کس قدر ہم خیال ہیں۔ 

حضرت ابراہیم ؑ اور قربانی کا واقعہ 

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: 

قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o  فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنo وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْن o (الصافات: ۱۰۲۔۱۰۵)
’’کہا ، اے میرے بیٹے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ،سوچ کر بتاؤ ، تمھاری رائے کیا ہے ؟ بیٹے نے کہا، والد محترم! آپ وہ کام کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب سرِ تسلیم خم کر دیا ان دونوں نے اور لٹا دیا اسے ماتھے کے بل ، ندا دی ہم نے اسے، اے ابراہیم ؑ ، بلا شبہ سچ کر دکھایا تم نے اپنا خواب۔‘‘

ان آیات کی تشریح و تعبیر میں متقدمین کے اسلوب سے جداگانہ روش اختیار کرتے ہوئے متاخرین کے ہاں وہ انتہا پسندی نظر آتی ہے جو یہودیوں کے تاریخی نسلی رویے کے متوازی چلتے ہوئے قرآنی علمیاتی نہج کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق ( سیرت النبی ﷺ ج ۱ ، ص ۹۲) اگر ذبیح حضرت اسماعیل ؑ ہیں تو اقبال ؒ کے ہاں بھی حضرت اسماعیل ؑ ہی ذبیح قرار پاتے ہیں :

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی 
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب ِ فرزندی 

یہاں ’فیضانِ نظر‘ اور ’آدابِ فرزندی‘ کی تراکیب اور الفاظ کی نشست و برخاست میںِ اقبال نے اپنی فکر کی اس جہت کے اظہار کی کوشش کی ہے جس کے سبب اقبال کو قرآن فہمی کے اعتبار سے حکیم الامت کہا جاتا ہے ، لیکن دوسرے مصرعے میں ’’ اسماعیل ؑ ‘‘ کے نام سے اقبالی فکر کا وہ پہلو بری طرح مجروح ہوتا ہے جسے قرآنی کہا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پر بعد میں ’’ اہلِ قرآن ‘‘ کا ایک گروہ بھی سامنے آیا ۔

شبلی ؒ اور اقبال ؒ کے موقف سے مماثل رائے مفتی محمد شفیع ؒ کی ہے ۔ (ملا حظہ کیجئے معارف القرآن جلد ۷ ، ص ۴۵۸) یہی رائے پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ کی ہے۔ ( دیکھئیے ضیاء القرآن جلد ۴ ، ص ۲۱۱) سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (تفہیم القرآن جلد ۴ ، ص ۳۰۰)، ابوالکلام آزاد ؒ (ترجمان القرآن جلد ۳ ، ص ۲۶۳) اور عبدالماجد دریاآبادی (تفسیر ماجدی ص ۹۰۱) بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ شبیر احمد عثمانی ؒ کی تفسیرِ عثمانی (ص ۵۹۹) اور حافظ صلاح الدین یوسف کے تفسیری حاشیے ’احسن البیان‘(ص ۱۲۶۳ ) کے مندرجات بھی یہی ہیں ۔ ا لبتہ خواجہ احمدالدین امرتسری کے مطابق (تفسیر بیان للناس جلد ۶ ، ص ۳۳) ذبیح حضرت اسحاق ؑ تھے ۔ ہم زیادہ حوالوں سے گریز کرتے ہوئے امین احسن اصلاحی کی ’’ تدبرِ قرآن ‘‘ (جلد اول، صفحہ ۳۳۰) سے یہ اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ معروف معاصر تفاسیر میں اسے متاخر (latest) ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ملا حظہ کیجئے : 

’’یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے ۔ یہود نے خانہ کعبہ اور مروہ کی قربان گاہ سے حضرت ابراہیم ؑ کا تعلق بالکل کاٹ دینے کے لیے واقعہ قربانی میں بھی اور ان کی سرگزشت ہجرت میں بھی نہایت بھونڈی قسم کی تحریفات کر دی ہیں اور اس طرح انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جس بیٹے کی قربانی کی، وہ حضرت اسحاق ؑ ہیں نہ کہ حضرت اسماعیل۔ جس جگہ قربانی کی، وہ جبل یروشلم ہے نہ کہ مروہ۔ خدا کی عبادت کے لیے انھوں نے جو گھر بنایا، وہ بیت المقدس ہے نہ کہ بیت اللہ ۔ انھوں نے جس جگہ ہجرت کے بعد سکونت اختیار کی، وہ کنعان ہے نہ کہ جوارِ خانہ کعبہ ۔ ان بیانات کی تصدیق یا تردید کا واحد ذریعہ چونکہ تورات ہی ہے اور تورات میں یہود نے اپنے حسبِ منشا، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، تحریف کر ڈالی ، اس وجہ سے اصل حقائق سے پردہ اٹھانا بڑا مشکل کام تھا، لیکن ہمارے استاذ مولانا فراہی ؒ نے یہود کی ان تمام تحریفات کا پردہ خود تورات ہی کے دلائل سے اپنے رسالہ ذبیح میں بالکل چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انھوں نے تورات ہی کے بیانات سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسحاق ؑ کی والدہ کو تو کنعان میں چھوڑا اور خود حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ کے ساتھ بیر سبع کے بیابان میں قیام کیا۔ یہ جگہ ایک غیر آباد جگہ تھی، اس وجہ سے انھوں نے یہاں سات کنوئیں کھودے اور درخت لگائے ، یہیں ان کو خواب میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم صادر ہوا اور وہ حضرت اسماعیل ؑ کو لے کر مروہ کی پہاڑی کے پاس آئے اور اس حکم کی تعمیل کی۔ اسی پہاڑی کے پاس انھوں نے حضرت اسماعیل ؑ کو آباد کیا ، پھر یہاں سے لوٹ کر وہ بیر سبع گئے اور اپنے قیام کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جو خانہ کعبہ سے قریب بھی ہو اور جہاں سے وقتاً فوقتاً حضرت اسحاق ؑ کو دیکھنے کے لیے بھی جانا آسانی سے ممکن ہو سکے۔
مولانا ؒ نے یہ ساری باتیں تورات کے نہایت ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کر دی ہیں۔ ہر سوال پر اصل کتاب کے اقتباسات پیش کرنے میں طوالت ہے، اس وجہ سے ہم نے صرف خلاصہ بحث اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے ۔ جو لوگ تفصیل کے طالب ہوں، وہ مولانا کے مذکورہ رسالہ کا مطالعہ کریں ۔ ‘‘

ہم نے حمیدالدین فراہی ؒ کی اصل تحریر سے عمداً اجتناب کیا ہے کہ کہیں ہم پر ان کے موقف کو بگاڑنے یا نہ سمجھنے کا الزام نہ دھر دیا جائے ۔ امین احسن اصلاحی ؒ ان کے شاگردِ رشید ہیں، اس لیے یہ احتمال باقی نہیں رہتا کہ انھوں نے حمیدالدین فراہی ؒ کو سمجھنے میں خطا کی ہو۔

اس واقعہ کی مذکورہ تصریح ان سوالات کو جنم دیتی ہے : 

(۱) قربانی سے متعلق قرآنی آیات میں حضرت اسماعیل ؑ کا نام کہیں نہیں آیا ، نہ ہی اس بارے میں کوئی مستند حدیث موجود ہے ۔

(۲) حضرت اسماعیل ؑ کا نام اسرائیلیات کی مدد سے ’’ تحقیق ‘‘ کر کے شامل کیا گیا ہے ۔

(۳) کیا اسرائیلیات کو انھی حدود کے اندر استعمال کیا گیا ہے جو قرآن و سنت نے مقرر کی ہیں ؟ 

(۴) قرآن کے مطابق قرآن، سابقہ آسمانی کتب کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن سابقہ آسمانی صحائف میں تحریف ہو چکی ہے ، لہٰذا قرآن ہی کسی حکم کے بارے میں اساس ، پیمانہ اور اتھارٹی قرار پاتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی آسمانی کتاب میں زیرِ بحث واقعہ حضرت ابراہیم ؑ کے بجائے کسی اور نبی سے منسوب کیا جائے تو قرآن اس کی تکذیب کرے گا اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرف منسوب کرنے پر تصدیق کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی آسمانی صحیفے میں حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے کے بجائے کسی اور شخص کو ’’ ذبیح ‘‘ کہا جائے تو قرآن اس کی تکذیب کرے گا اور اس کے برعکس ہونے پر اس کی تصدیق ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تورات یا کسی اور سابقہ آسمانی صحیفے کی مدد سے حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ کو ذبیح ثابت کرنا کیا ’’ اسرائیلیات کے جائز استعمال ‘‘ کے دائرے کے اندر اندر آتا ہے ؟ اس بحث کے نتیجے میں قرآن ’’ اساس ‘‘ قرار پاتا ہے یا کوئی اور آسمانی کتاب ؟ 

(۵) ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ذبیح کو( اسرائیلی روایات کے ذریعے ) اسماعیل ؑ سے منسوب کرنے کے پیش نظر یہ باور کرانا مقصود ہے کہ اگر ذبیح ، اسحاق ؑ ہوتے تو وہ ابراہیم ؑ کو کوئی مختلف جواب دیتے؟ یقیناًنہیں ۔ پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن اپنے اسلوب میں بیٹے کے معاملے میں بیٹے کے جواب ( آدابِ فرزندی ) پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ بیٹا کون ہے ، اس کی حیثیت قرآن کے نزدیک اضافی ہے ۔ آخر ہم ایک اضافی چیز کو کھینچ تان کر یقین کے زمرے میں کیوں لانا چاہتے ہیں ؟ 

(۶) ذبیح کون ہے، اس کو ثابت کرنا ایک طرف رہا ، بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بحث قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے مطابق بھی ہے ؟ 

(۷) کیا اس بحث ( یعنی حضرت اسحاق ؑ یا حضرت اسماعیل ؑ کا تذکرہ ذبیح کے طور پر کرنا ) میں وہ فسادی شائبہ نہیں ملتا جس پر قابو پانے کے لیے ہی اللہ رب العزت نے خلیفۃالارض کو ’’الاسماء کلھا ‘‘ سے نوازا تھا؟ ذبیح کی نسبت اسحاق ؑ کی طرف کرنا یہودیوں کی مجبوری ہوسکتی ہے کہ وہ نسل پرست ہیں ، آخر ہم مسلمانوں کی کیا مجبوری ہے ؟ ہمارے لیے تو اسحاق ؑ بھی اسی طرح محترم ہیں جس طرح اسماعیل ؑ ہیں ، بلکہ ہمارا ایمان تو اسحاق ؑ کو تسلیم کیے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتا ۔

(۸) اس بحث کا بنیادی محرک کیا ہے ؟ کیا قرآن کے کسی حکم کا فہم مطلوب ہے یا کچھ اور ؟ کیا یہ بحث کئے بغیر قرآنی منشا مستور رہتی ہے ؟ حقیقت یہی ہے کہ اس بحث کے پیچھے بنیادی طور پر ’’جواب دینے کی نفسیات ‘‘ کار فرما ہے کیونکہ ’’مدبر ‘‘ کے اپنے الفاظ بھی اس کی صاف چغلی کھا رہے ہیں کہ ’’ یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے ‘‘ ۔ 

(۹) جب اسرائیلیات کی رو میں بہہ کر ’’ مدبرین ‘‘ قربانی جیسے مسئلے پر یہودیوں کے ’’ فریق ‘‘ بن کر سامنے آتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ’’ باپ کے فیضانِ نظر اور آدابِ فرزندی‘‘ سے توجہ ہٹ جاتی ہے بلکہ پیغام کی عمومیت ختم ہونے سے قربانی جیسے مسئلے کی بنفسہ قدرو قیمت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ کیا قربانی اسی چیز کا نام ہے کہ ہم عمومیت کے دائرے سے نکل کر اپنے گرد ایک ایسا دائرہ کھینچ لیں جو قربانی کی اصل روح کو تج دے کر محض تفاخر کا باعث بن جائے؟ ( ابلیس کے گھمنڈ کی مانند کہ وہ بھی فرشتوں کی عمومیت کے دائرے سے باہر ایک الگ نفسانی دنیا بسا بیٹھا ) ۔ 

اگر ہم اسرائیلیات کی مدد لینے کے بجائے قرآنی علمیات کے راہنمایانہ منہاج کے تحت زیرِ نظر قرآنی واقعہ پر غور و فکر کریں تو مترشح ہو گا کہ : 

(۱) باپ( ابراہیم ؑ ) کا تذکرہ باقاعدہ اس کے نام کے ساتھ ہوا ہے ۔ 

(۲) بیٹے کا ذکر اس کا نام لیے بغیر عمومیت کے انداز میں ہوا ہے کہ کوئی خاص بیٹا مراد نہیں ، بلکہ ابراہیم ؑ کا کوئی بھی بیٹا ہو سکتا ہے ۔ 

(۳) اگر یہاں اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ میں سے کوئی ایک بیٹا خصوصیت کے ساتھ مراد ہوتا تو قرآن مجید میں ’’بیٹے ‘‘ کی عمومیت کے بجائے اس بیٹے کا نام بھی لازماً موجود ہوتا، کیونکہ ہمیں قرآن مجید میں دیگر اہم مقامات پر ’ اسماعیل ؑ ‘ کا باقاعدہ نام کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے ۔

(۴) مستشرقین کا قرآن مجید پر ایک مستقل اعتراض یہ ہے کہ اس میں تکرار موجود ہے ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ الکتاب میں اگر بعض احکامات کا اعادہ موجود ہے تو یہاں اسماعیل ؑ یا اسحاق ؑ کا باقاعدہ نام لینے میں کیا چیز مانع تھی ؟ کیا ایک لفظ کا اضافہ خدا کے لیے مشکل تھا ؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ’’ خاص حکمت ‘‘کے تحت ہی بیٹے کا ذکر عمومیت کے انداز میں کیا ہے ۔ 

(۵) زیرِ نظر واقعہ کے اسلوب سے جو نکتہ زیادہ وضاحت کے ساتھ مشخص ہو کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق قرآنی منشا ’’ باپ کے فیضانِ نظر اور آدابِ فرزندی ‘‘ کے زیادہ قریب ہے نہ کہ یہودیوں کے نسلی تفاخر کی تردید میں انھی کی تقلید مقصود ہے ۔

(۶) ان آیات کے قرآنی اسلوب میں ایسے قرائن موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدا کے ہاں بیٹے کا تشخص مطلوب ہوتا تو بیٹے کا نام لازماً موجود ہوتا ۔ مثلاً قرآن کا یہ کہنا کہ ’’ندا دی ہم نے اسے اے ابراہیم ! بلاشبہ سچ کر دکھایا تم نے اپنا خواب ‘‘ کچھ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ، ’’ندا دی ہم نے اسے اے ابو اسماعیل‘‘ یا ’’اے ابو اسحاق‘‘۔اس طرح کے اسلوب میں باپ اور بیٹا، دونوں کا نام سامنے آسکتا تھا لیکن قرآن نے کسی خاص حکمت کے تحت ہی بیٹے کو مشخص نہیں کیا۔ ہمیں وہ حکمت تلاش کرنی چاہیے نہ کہ بیٹے کو مشخص کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگائیں ۔ 

(۷) حضرت ابراہیم ؑ کا بیٹے سے استفسار کرنا ’’فانظر ما ذا تری‘‘  کہ ’’سوچ کر بتاؤ تمھاری رائے کیا ہے ؟‘‘ کافی اہم معلوم ہوتا ہے ۔ پھر بیٹے کے اس جواب کے بعد کہ ’’آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘ ، ابراہیم ؑ کا بیٹے کو لٹا دینا اور اس کے بعد اللہ رب العزت کا یہ فرمانا کہ ’’اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا‘‘ ، ایک اہم نکتہ سامنے لاتے ہیں کہ خواب کو سچ کر دکھانے میں بیٹے کا کردار بنیادی ہے کہ اس نے ’فانظر ما ذا تری‘ کے جواب میں سرِ تسلیم خم کیا ، لیکن اللہ رب العزت مخاطب ابراہیم ؑ کو ہی کرتے ہیں کہ تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آخر بیٹے کو مخاطب کر کے کیوں نہیں کہا کہ تو نے خواب ( یا اپنے باپ کا خواب ) سچ کر دکھایا ؟ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹے کے بجائے باپ کی طرف متوجہ رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ بیٹا اور اس کا عمل اس واقعہ میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں ۔ باپ کی طرف ہماری توجہ مرکوز رکھنے کی خاطر ہی اللہ رب العزت نہ صرف باپ کو مخاطب کرتے ہیں بلکہ اس کے بعد آیت ۱۰۹ میں ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لینے کے علاوہ تمام ضمیریں بھی صرف انھی کو مشخص کرتی ہیں۔ ہماری نظر میں اقبال ؒ جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی ‘‘ تو قرآن کے ایک واضح اور مشخص نکتے کو مجرد بنا ڈالتے ہیں ۔ مکتب کی کرامت پر وہ طنز کرتے ہوئے فیضانِ نظر کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں جیسے وہ ( فیضانِ نظر ) باقاعدہ باپ کے ساتھ مشخص نہ ہو بلکہ عمومیت کی حامل کوئی ترکیب ہو جس سے مراد باپ کے علاوہ بھی کوئی اور ہو سکتا ہے ۔ حالانکہ قرآنی اسلوب کے قرائن بڑی وضاحت کے ساتھ فیضانِ نظر کو محض باپ کے ساتھ منسلک کرتے ہیں ۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے نہایت لطیف اور بلیغ پیرایے میں بیٹے کے آدابِ فرزندی کے فروغ کے لئے باپ ( نسلی تعلق کے لحاظ سے نہ کہ کوئی معنوی باپ جیسے استاد وغیرہ ) کے کردار کو اجاگر کر کے باپ بیٹے کے دائمی( نسلی) رشتے میں ذمہ داری کے مدارج کے ذیل میں ( خاص طور پر بیٹے کی تربیت کے حوالے سے ) باپ کو بنیادی ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ اقبال اس تعلق کو ، جو نسلی اعتبار سے ذمہ داری کے ذیل میں مشخص ہو کر سامنے آیا ہے ، عمومیت کا جامہ پہنا دیتے ہیں اور پھر دوسرے مصرعے میں اسماعیل ؑ کا نام لے کر قرآنی منشا کے برخلاف عمومیت کو مشخص کر لیتے ہیں۔ 

(۸) ’’و ترکنا علیہ فی الاخرین‘‘ (الصافات: ۱۰۸) پر غور کرنے سے ایک اور اہم نکتہ سامنے آتا ہے ۔ قرآن نے ’’ الاخرین ‘‘ کے ذکر سے ایک امکانی بات کی گنجائش چھوڑدی کہ’’ الاخرین ‘‘ (پچھلے لوگوں میں) جن کے ہاں قربانی پائی جائے گی، ان کی نسبت سے ان کے جدِ امجد کو تلاش کرکے ذبیح کو مستقبل میں مشخص کیا جا سکے گا ۔ اس سے ایک تو یہ قرآنی منشا ظاہر ہورہی ہے کہ ذبیح لازماً مشخص ہو ، دوسرا یہ کہ قرآن اس امکانی علم کی طرف بھی توجہ دلا رہا ہے جو وقت آنے پر مشہود ہو کر نہ صرف ذبیح کون ؟کی بحث چھیڑے بلکہ بحث کو منطقی انجام تک بھی پہنچا دے ۔ لیکن ٹھہریے ، ذرا توقف کر کے ایک بار پھر قرآنی اسلوب پر غور فرمائیے کہ قرآن مجید نے ’’وترکنا علیہ فی الاخرین‘‘ میں نہایت بلیغ انداز میں ’’علیھما ‘‘ کے بجائے ’’علیہ‘‘ کو ترجیحاً استعمال کر کے حقیقت میں اس بحث کے لیے ہر قسم کی گنجائش مکمل طور پر ختم کر دی ہے۔ ’’علیہ‘‘ سے مراد ابراہیم ؑ ہیں، لہذا ’’الاخرین‘‘ سے مراد بھی ابراہیم ؑ کے پچھلے لوگ ہیں نہ کہ ابراہیم ؑ اور ذبیح دونوں کے ۔ اسی لئے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے بھی قربانی کے واقعہ کو ’’سنتِ ابراہیمی ؑ ‘‘ کا نام دیا ہے نہ کہ سنتِ اسماعیلی کا۔ لہذا ’’و ترکنا علیہ فے الاخرین‘‘ میں مضمر قرآنی منشا یہی ہے کہ پچھلے لوگ ابراہیم ؑ کے بیٹے (اسماعیل ؑ ہوں یا اسحاق ؑ) کے بجائے خود ابراہیم ؑ سے ، اپنا تعلق جوڑیں (بالخصوص قربانی کے حوالے سے)۔ اس واضح قرآنی منشا کے بعد کہ مستقبل (الاخرین) میں بھی ذبیح کے بجائے ابراہیم ؑ کو ہی قربانی کے واقعہ میں مرکز و محور سمجھا جائے ، ذبیح کون کی بحث کرنا، کیا امکانی فساد کی صورت پذیری نہیں ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں کہیں ذبیح کو مشخص کرنے کی گنجائش نکلتی تھی، وہاں قرآن نے ’’سکوتِ حکیمانہ‘‘ کا اظہار کیا ہے ۔ ’’سلم علی ابراہیم‘‘ ۔ 

(۹) اگر ہم روحِ قربانی پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اسحاق ؑ یا اسماعیل ؑ میں سے کسی ایک کے نام کا باقاعدہ ذکر ایسے نظامِ تناسبات کو سامنے نہیں لا سکتا تھا جس میں مختلف انسانی گروہوں کے نفسیاتی مدارج کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اسلام کی عالمگیریت کی ایک زندہ علامت ( سنتِ ابراہیمی ؑ ) قائم ہوسکتی ۔ کون نہیں جانتا کہ حج اسلام کی عالمگیریت کا مظہر ہے اور حج اور قربانی میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ یہ تعلق ، قربانی کو کسی نسلی تعصب کا شکار بنانے کے بجائے آفاقی معنی پہنانے کا اشارہ کرتا ہے ۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْْئاً وَطَہِّرْ بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ o وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ o (الحج:۲۶،۲۷)
’’اور جب مقرر کی تھی ہم نے ابراہیم ؑ کے لئے جگہ اس گھر کی اس ہدایت کے ساتھ کہ نہ شریک بنانا میرے ساتھ کسی چیز کو اور پاک رکھنا میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے، قیام کرنے والوں کے لئے اور رکوع وسجود کرنے والو ں کے لیے۔ اور اعلان کر دو انسانوں میں حج کا ، آئیں گے وہ تمھارے پاس پیدل چل کر اور دبلے دبلے اونٹوں پر جو چلے آرہے ہوں گے تمام دور دراز راستوں سے ‘‘ 

مقامِ غور و فکر ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں بھی حضرت ابراہیم ؑ کو باقاعدہ مشخص کیا ہے ۔ اب اگر ان آیات اور قربانی کے واقعہ میں قرآنی منشاکو سورۃ آل عمران کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کی چند نا گزیر جہتیں منکشف ہوتی ہیں :

قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ o (آل عمران ، آیت ۶۴) 
’’ کہہ دیجئے اے اہلِ کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا رب نہ قرار دے پھر اگر وہ اعراض کریں تو تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم نے تو ( اللہ ) کی فرمانبرداری اختیار کر لی ‘‘ ۔

اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پراگرچہ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ دونوں کا باقاعدہ نام لے کر طواف اور اعتکاف کا حکم جاری کیا ہے لیکن اس حکم میں کہیں بھی ’’ حج ‘‘کا ذکر نہیں کیا اور جہاں کہیں حج کی طرف اشارہ ملتا ہے وہاں قطعیت کے ساتھ صرف ابراہیم ؑ کا نام ملتا ہے ۔ غور فرمائیے :

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّاءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُود o (البقرہ: ۱۲۵)
’’اور جب بنایا ہم نے بیت اللہ کو مرکز لوگوں کے لئے اور امن کی جگہ اور ( حکم دیا کہ ) بناؤ مقامِ ابراہیم ؑ کو نماز پڑھنے کی جگہ اور تاکید کی ہم نے ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو ، یہ کہ پاک رکھنا تم دونوں میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے ‘‘ ۔

احباب جانتے ہیں کہ بیت اللہ میں طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود ، اس سطح پر اسلام کی عالمگیریت کے مظاہر نہیں ہیں جس سطح پر حج ایک بڑا مظہر ہے ۔ 

( ۱۰) حج اور قربانی جہاں اسلام کی عالمگیریت کے بڑے مظاہر ہیں وہاں ایک خاص پہلو سے ان کی نوعیت دعوتی بھی ہے ۔ حج اور قربانی ، مدعی نہیں بلکہ داعی ہیں ۔جب ہم غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں تو اسلام کے نظری پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مثالیں بھی پیش کرنی پڑتی ہیں ۔ وحدتِ انسانی اور عالمگیریت ، اسلام کی امتیازی صفات میں سے ایک ہیں۔ اب جہاں ہم اس صفت کے نظری پہلوؤں پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں وہاں اس کی چند عملی مثالیں پیش کرنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایامِ حج صرف مسلمانوں کے لئے ہی اہمیت نہیں رکھتے ، بلکہ اتنے بڑے مظہر کو پوری دنیا بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہے ۔ اس طرح یہ مظہر خود اپنی ذات میں داعی بن جاتا ہے ۔ یہی صورتِ حال قربانی کی ہے ، یہ عمل بھی پوری مسلم دنیا میں وسیع پیمانے پر منعقد ہوتا ہے، غیر مسلم اسے بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ لہذا جب ہم قربانی کے واقعہ میں ذبیح کون کی بحث چھیڑتے ہیں تو قربانی اپنی نوعیت کے لحاظ سے داعی کے منصبِ جلیلہ سے اتر کر مدعی کی انتہائی پست سطح پر آ جاتی ہے ۔کیا یہ دین کی خدمت ہے ؟ 

(۱۱) اگر ہم قرآنی اساطیری سطح سے قربانی پر غور کریں تو یہ ’’ فدیہ ‘‘ معلوم ہوتی ہے: ’’وفدینا بذبح عظیم‘‘، ان خون ریزیوں کا فدیہ جو ’’ویسفک الدماء‘‘ کے مصداق انسان نے اس زمین پر آکر برپا کرنی تھیں۔ قرآنی اساطیری سطح سے خود قربانی کا واقعہ ہی اس کا شاہد ہے ۔ ظاہر ہے خدا کا مقصود کسی انسان کو قربان کرنا نہیں تھا بلکہ اس سلیقے سے قربانی کے مظہر کو پیش کرنا خدائی مطلوب تھا کہ قربانی کرنا انسانی نفسیات کا لازمہ بن جائے تا کہ خون ریزیوں کا ’’ فدیہ ‘‘ جاری و ساری رہے ۔ اس طرح قربانی وہ ’’ علم و فن ‘‘ ہے جو خون ریزیوں کو مغلوب کر سکتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قربانی کو خون کے فدیہ کے مقام سے گرا کر خون ریزی میں بدلنا چاہتے ہیں ؟ ۔ ذبیح کون ؟ کی بحث خون کے فدیہ کی طرف لے جائے گی یا خون ریزی کی طرف ؟

(۱۲) قرآن مجید کی یہ آیت بھی ہماری رائے کو تقویت دیتی ہے:

یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاۃُ وَالإنجِیْلُ إِلاَّ مِن بَعْدِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَo ....... مَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن o (آل عمران: ۶۵۔۶۷)
’’اے اہلِ کتاب ، کیوں حجت بازی کرتے ہو تم ابراہیم ؑ کے بارے میں جبکہ نہیں نازل ہوئی تورات اور انجیل مگر ابراہیم ؑ کے بعد۔ کیا تم نہیں سمجھتے ؟ ......نہ تھا ابراہیم ؑ یہودی اور نہ نصرانی، بلکہ تھا وہ سب سے لا تعلق، اللہ کا فرمانبردار، اور نہ تھا وہ مشرکوں میں سے۔‘‘ 

یہاں منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ابراہیم ؑ کو ’اسماعیلی‘ بنانا چاہتے ہیں ؟ ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید کا دل پذیر اسلوب صحیح راہ کی اس طرح نشاندہی کرتا ہے :

أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ o (البقرہ: ۱۳۳)
’’ کیا تھے تم حاضر اس وقت جب قریب آیا یعقوب ؑ کی موت کا وقت ۔ جب پوچھا تھا اس نے اپنے بیٹوں سے کہ کس کی عبادت کرو گے تم میرے بعد ؟ ان سب نے کہا عبادت کریں گے ہم تیرے معبود کی اور تیرے آباؤ اجداد ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ کے معبود کی ، جو الہ واحد ہے اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں ‘‘ 

ذرا غور فرمائیے کہ کیا اس آیت میں اللہ تعالی نے چار جلیل القدر نبیوں کے نام گنوائے ہیں ۔ کیا صرف یعقوب ؑ کے نام سے کام نہیں چل سکتا تھا ؟ یا پھر آباؤ اجداد کا ذکر انھیں مشخص کئے بغیر بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔۔تیرے معبود کی اور تیرے آباؤ اجداد کے معبود کی ۔۔۔۔لیکن قرآن نے یہاں یہ اسلوب نہیں اپنایا بلکہ عمومیت ’’ ابائک ‘‘ کے ساتھ باقاعدہ نام بھی لئے ہیں ۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ یہ ایک الگ بحث ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بیٹے کا تشخص خدا کے ہاں ا تنا ہی ضروری ہوتا جتنا ہمارے ہاں سمجھ لیا گیا ہے تو کیا اللہ رب العزت بیٹے کو باقاعدہ مشخص نہ کرتے ؟ یا پھر کم از کم کوئی واضح اشارہ ہی ضرور فرمادیتے ۔ خود قرآن مجید اپنے آپ کو ’تبیانا لکل شء‘ اور ’تفصیلا لکل شء‘ قرار دیتا ہے جس میں ہر ضروری پہلو کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ قرآنی الفاظ اور روح قربانی کی پیروی میں بیٹوں ( نسلوں ) کی بحث میں الجھے بغیر ابراہیم ؑ پر فوکس کریں کہ دونوں بیٹے انھی کے تھے اور دونوں ہی جلیل القدر پیغمبر تھے ۔ قربانی کے واقعہ میں قرآنی اسلوب در حقیقت خاندانی نظام کی بقا اور خاندانی نظام میں باپ بیٹے کے تعلق میں ذمہ داری کے ذیل میں باپ کے فیضانِ نظر کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے ہمیں اسی فیضانِ نظر کی کھوج لگا کر عالمی سطح پر خاندانی نظام کے دوام اور اس سے وابستہ تقدس کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ 

حرفِ آخر

جوں جوں وقت گزرتا گیا ہے ، ہم مسلمانوں کے ہاں قرآن و سنت کے فہم اوراس پر عمل کے حوالے سے تاریخی و خارجی جبر اور معاشرتی تقاضوں کا لحاظ حدود سے متجاوز ہوتا گیاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ لحاظات اپنے مقام سے ہٹتے ہوئے ہمارے لیے نفسیاتی عوارض کی شکل اختیار کرتے گئے ہیں ۔ قربانی کے مسئلے ہی کو لیجئے اور غور کیجئے کہ ہم نے قرآنی علمیات سے صریحاً پہلوتہی کرتے ہوئے اس میں حضرت اسماعیل ؑ کا نام اس طرح شامل کر دیا ہے کہ اب یہ نام قربانی کے حوالے سے ہمارے ہاں بنیادی صداقتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ معاشرے میں کسی فرد سے پوچھ لیجیے، وہ قربانی کے ذکر میں ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کو اس طرح ڈسکس کرے گا جیسے اسماعیل ؑ کا نام قرآن نے باقاعدہ اس واقعہ میں لیا ہو ۔ اور تو اور، سکولوں اور کالجوں کی نصابی کتب میں بھی اسماعیل ؑ کا تذکرہ اسی انداز میں ہوتا ہے۔ مقامِ غور و فکر یہ ہے کہ ایسی افراط و تفریط بنیادی طور پر اس حلقے کی پیدا کردہ ہے جو اپنے ’’تدبر ‘‘ کے دائرے کو قرآنی قرار دینے پر اس قدر مصر ہے کہ حدیث کی حجیت کو طوعاً وکرہاً ہی تسلیم کرتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے’’ مدبرین‘‘ محض اسرائیلیات کے بل بوتے پر( تاریخ و معاشرت اور کلچر کے بے جا اثبات کا شکار ہو کر) ایسا علمی و فکری رویہ پروان چڑھارہے ہیں جس سے قرآنی علمیاتی منہج اور قرآنی منشا پسِ پشت چلے گئے ہیں، حالانکہ نبی خاتم ﷺ کا مستند ارشاد موجود ہے کہ اہلِ کتاب کی نہ تصدیق کرو، نہ تکذیب۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ذبیح کون کی بحث میں مبتلا لوگوں کا طرِ عمل سورۃ البقرۃ میں گائے کے واقعہ میں یہودیوں کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے۔ یہودی بھی خوامخواہ کی بحث کر رہے تھے کہ گائے کی عمر کتنی ہو ؟ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن نے یہ فرما کر ’’آخر ذبح کر دیا انہوں نے اسے ، اگرچہ نہ لگتا تھا کہ وہ ایسا کریں گے ‘‘ یہودی رویے پر گرفت کی ہے ۔ اب اگر ہم بھی ذبیح کون کی لایعنی بحث کے بعد( بلکہ اسی بحث کی اساس پر ) قربانی کر ہی لیتے ہیں تو غور فرمائیے قرآن کی نظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ 

ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں بہتر سمجھا، وہاں اسماعیل ؑ کا ذکر باقاعدہ نام لے کر کیا ، مثلاً بیت اللہ کی تعمیر کے ذکر میں ان کا نام موجود ہے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر قربانی کے واقعہ میں بھی ان کا نام شامل ہوتا تو معترضین کو پھبتی کسنے کا موقع ملتا کہ اسلام دعویٰ تو عالمگیریت کا کرتا ہے لیکن اصلاً اسماعیلی ہے۔ اسی طرح اگر اسحاق ؑ کا نام شامل ہوتا تو یہودیوں کی نسل پرستی کو مزید شہ ملتی۔ قرآن نے نہایت حکیمانہ اسلوب میں بیٹے کا ذکر عمومیت کے انداز میں کر کے توازن اور جامعیت کی روش اپنائی ہے ۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیرت کے مورخین بھی ( بشمول شبلی نعمانی) نبی خاتم ﷺ کا نسلی تعلق حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے باقاعدہ الگ ابواب اور فصلیں باندھتے ہیں حالانکہ قرآن نے کسی بھی مقام پر آپ ﷺ کو ذریتِ اسماعیل ؑ کے حوالے سے مخاطب نہیں کیا، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ کو ہی پیشِ نظر رکھا ہے۔ مثلاً سورۃ آل عمران میں ہے کہ 

إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوا (آیت ۶۸)
’’بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراہیم ؑ کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیروی کی ان کی، نیز یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔‘‘

بہر حال ! یہودیوں کی طرز پر نسلی ( نفسیاتی) عوارض کا شکار ہو کر کسی خاص بیٹے کو ذبیح قرار دینے سے ( چاہے اسماعیل ؑ کو ثابت کیا جائے یا اسحاق ؑ کو ) نہ صرف قرآنی متن اور قرآنی منشا سے تصادم ہوتا ہے بلکہ دینِ اسلام کی عالمگیریت ( اور عالمگیریت کی بنیادی اکائی یعنی خاندانی نظام )بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں ۔ہم درود شریف پر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ اس کی معنویت پر غور و فکر گہری بصیرت سے نواز سکتا ہے:

اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید۔


قرآن / علوم القرآن

(جنوری ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter