معاشرے کی وہ حس تیزی سے کند ہوتی جا رہی ہے جو کسی نازیبا حرکت پر آتش زیرپا ہوجایا کر تی تھی اور اس حرکت کے مر تکب کے خلاف احتجاج کی ایک تند و تیز لہر بن کر ا بھرتی تھی۔ یہی و جہ ہے کہ دور حاضر میں لادینی قوتیں اپنے تمام ترمذموم ہتھکنڈوں کے ساتھ ہمارے گھر کی دہلیز پر ڈیرا جما ٰئے بیٹھی ہیں اور ہماری سوچ کے دھاروں کو اپنی تعفن زدہ فکر سے آلودہ کرنے کے لیے مصروف کار ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہماری بے حسی کے باعث لادینیت کی ا ن بپھری ہوئی موجوں نے ہمارے گھروں کا مو رچہ بھی سر کر لیا تو پھر آنے والی نسلوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہمارا حال تویہ ہے کہ جب مغرب کے ا س تہذیبی سیلاب کی کوئی تندوتیز لہر ہمارے دل و دما غ سے ٹکراتی ہے تو بس انفرادی سطح پر کوئی اکا دکا صداے احتجاج بلند ہوتی ہے اور وہ بھی وقت کے ساتھ خامو ش ہو جاتی ہے اور کاروبار زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر رواں دواں ہو جا تا ہے۔
مو رخہ ۱۲ ؍اگست ۲۰۰۵ کو روزنامہ پاکستان میں ’’گندے نالے پر ایک اورگھر ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے ایک کالم کی وساطت سے معلوم ہوا کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر .ہم جنس پرستی کی لہر باقاعدہ اور منظم طور پر ہمارے ملک میں داخل ہو چکی ہے اور اس کار بد کو پاکستان میں فروغ دینے کے لیے چار سنٹرز قا ئم ہو چکے ہیں۔ کالم کے مطابق پاکستان کے چاربڑے شہر کراچی، ملتان، لاہور اوراسلام آباد بچوں کی سیکس مارکیٹ بن چکے ہیں۔یہ"Gay sex centers" کہلاتے ہیں اور ان کی سرگرمیاں اور ان کے بارے میں معلومات کا طریقہ اتنا اوپن ہے کہMIRC چینل پرآپ net chat کر سکتے ہیں۔ "Gay Pakistani" سا ئٹ بالکل ویسے ہی آپریٹ کر تی ہے ، جیسے Gay America اور Gay India۔ اس سائٹ کو سرکاری یا غیر سرکاری طو ر پر کبھی Lock نہیں کیا گیا۔ راقم نے اس سا ئٹ کو خود چیک کیا ہے۔ جب آپ اس سا ئٹ پر جاتے ہیں تو آپ سے ASL یعنی Age, sex & Location پوچھا جائے گا۔ پھر Status یعنی Body, Weight & Color۔ یہ تفصیلات یوں دی اور لی جاتی ہیں جیسے منڈی سے کسی چوپائے کو خریدتے اور بیچتے ہوئے درکار ہوتی ہیں۔ پھر آئی ڈی کا تبادلہ کیا جا تا ہے، Contact لیا اور دیا جاتا ہے۔ ریٹ کبھی وہاں اور کبھی بعد میں موقع پر طے کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ عیاشی کو ہی زندگی کا مقصد اور حاصل سمجھتے ہیں۔ ان کی روشن خیالی یہیں سے شروع ہو تی ہے اور یہیں پر ختم ہو جا تی ہے ۔
یہ چھوٹی عمر کے غریب بروس [پیشہ ور] ملتان میں بسوں کے اڈے ، شاہ رکن عالم کالونی ، کھاد فیکٹری سے بہاول پور مظفر گڑ ھ بائی پاس ، پوری ایل شیپ پٹی ہے جہاں ٹین ایجرز دستیاب ہو تے ہیں۔ پولیس، ٹرک ڈرائیورز، دوسرے شہروں سے آنے والے تاجر اور عیاش زمین دار ان سے براہ راست رابطہ کر تے ہیں، جب کہ پڑھے لکھے اور امیر تاجر نیٹ پر رابطہ کرتے ہیں اور ہوٹلوں میں ملاقاتیں کرتے ہیں ۔
قارئین ! یہ ہے وہ طوفان جو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس ملک میں پھیلایا جا رہا ہے جب کہ اس کی روک تھام کے لیے نہ حکومتی سطح پر کو ئی باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہے اور نہ عوامی سطح پر۔اس قبیح عمل کے پھیلاؤ کا ذمہ دار وہ نام نہاد مہذب معاشرہ ہے جس کو نہ صرف اپنی ہم جنس پرستانہ تہذیب پر فخر ہے بلکہ وہ اس شنیع فعل کو قانونی شکل دینے کے لیے بیتاب ہے۔ اس ضمن میں روزنامہ پاکستان میں ۳۱ ؍ مئی ۲۰۰۵ کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں :
برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں ہم جنس پرستوں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس میں بعض اندازوں کے مطابق تقریباً بیس لاکھ افراد نے حصہ لیا ۔اگر یہ تعداد صحیح ثابت ہوئی تو یہ دنیا میں ہم جنس پرستوں کا سب سے بڑا جلوس ہو گا۔ ہم جنس پرستوں کا مطالبہ تھا کہ انھیں آپس میں شادی کا قانونی حق دیا جائے۔
ایک دوسری خبر کے مطابق ہم جنس پرستوں کے مطالبے کو تسلیم کر تے ہوئے ایک امریکی عدالت نے ان کو شادی کا قانونی حق دے دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
امریکی عدالت نے ہم جنس پرستوں کو شادی کی قانونی اجازت دے دی ۔ نیو یارک کی اسٹیٹ کورٹ کے جج ڈورس لنگ کوہن نے اپنے فیصلے میں ہم جنس پرستوں کو شادی کا لائسنس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ اپنے فیصلے میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم جنس پرست بھی برابر کے بنیادی حقوق کے حامل امریکی باشندے ہیں اور ان کو مخالف جنس کے شادی شدہ جوڑوں کی طرح تمام قانونی اور معاشرتی حقوق حاصل ہیں جب کہ ہم جنس پرستی کے مخالفین ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے آئینی ترامیم کے حق میں ہیں ۔پانچ ہم جنس پرست جوڑوں نے جن کے بچے بھی ہیں، ریاستی عدالت میں اپیل کی تھی۔ ( نوائے وقت لاہور، ۶ فروری ۲۰۰۵)
تیسری خبر میں کینیڈا کی اسمبلی کا ایک فیصلہ مذکور ہے جو پارلیمنٹ نے تقریباً ۸۰ فی صد اراکین کی متفقہ رائے سے منظور کیا:
کینیڈاکی پارلیمنٹ نے مذہبی گروپوں اور اعتدال پسند سیاستدانوں کی مخالفت کے باوجود ملک بھر میں ہم جنس شادیوں کی اجازت کے قانون کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی۔کینیڈا، بلجیم اور نیدر لینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا ملک ہے جس کی ۱۵۸ رکنی پارلیمنٹ میں سے ۱۳۳ ارکان پارلیمنٹ نے ہم جنس شادیوں کی اجازت کے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ کینیڈا کے زیادہ تر صوبے پہلے ہی ہم جنس شادیوں کی اجازت دے چکے ہیں اور کینیڈا میں Gay اور لیزبئین جوڑوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں عام خیال پایاجاتا ہے جہاں پر ان کی یونین پر پابندی ہے۔اقلیتی لبرل حکومت نے کہاکہ اس نے ملک کے دس صوبوں میں سے آٹھ میں عدالت کی طرف سے ہم جنس شادیوں پر پابندی کوکینیڈاکے حقوق اور آزاد ی کے چارٹر کے منافی قرار دینے اور مستردکرنے کے بعد قانون تیار کیا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے اس قانون کو پاس کیا ہے۔ کینیڈا Gayشادیوں اور دوسرے سماجی امور کے بارے میں لچک دار موقف رکھتا ہے جب کہ امریکہ میں صدر بش نے کانگریس سے درخواست کی ہے کہ وہ ہم جنس شادیوں پر پابندی سے متعلق آئینی ترامیم کی حمایت کرے۔ (روزنامہ پاکستان لاہور، ۳۰ جون ۲۰۰۵)
نام نہاد مہذب دنیاکے قانون ساز اداروں اور عدلیہ کے ان ’’مبنی بر انصاف‘‘ قوانین اور فیصلوں کے متعلق اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آئیے اس ناپاک اور خبیث عمل کے متعلق آسمانی تعلیمات کا جائزہ لے کر قانون الٰہی کے آئینے میں انسانیت کا مستقبل دیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ قانون الٰہی ہر قسم کے تغیروتبدل سے ماورا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اللہ تحویلا (فاطر : ۴۳)
’’اور تم اللہ کے قانون میں ہرگز نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ اس کا فیصلہ ٹل سکتا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں مختلف قسم کی بد اعمالیوں اور برائیوں میں ملوث افراد اور ان برائیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں جانتے بوجھتے خاموش رہنے والوں کو بڑے عجیب انداز میں وعیدسنائی گئی ہے :
افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائمون O او امن اھل القری ان یاتیہم باسنا ضحی وھم یلعبون O افامنوا مکراللہ فلا یامن مکراللہ الا القوم الخسرون O (اعراف: ۹۷۔۹۹)
’’کیا پھر بھی ان بستیوں کے باسی اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اس حال میں کہ وہ سو رہے ہوں ؟اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں؟ کیا پھر وہ اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہو گئے ہیں؟ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو، اور کوئی بے فکر نہیں ہوتے۔‘‘
دین اسلام زندگی میں جنس کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے لیکن اس کی تسکین کے لیے اسلام نے نکاح کا پاکیزہ نظام عطا کیا ہے۔ رشتہ ازدواج سے باہر مرد وعورت سے ہر قسم کے جنسی تعلق کو اسلام سخت ترین جرم قرار دیتا ہے جو موجب تعزیر ہے۔ جنس کے منحرف رویوں میں سب سے بدترین جرم، مرد کا مرد سے غیر فطری جنسی تعلق یعنی ہم جنس پرستی homosexuality ہے ،لیکن افسوس کہ ’’مہذب‘‘ دنیاکی مختلف پارلیمنٹوں نے اس جرم کے لیے باقا عدہ سند جواز عطا کر دی ہے۔ وہاں سماج کے ہر طبقے میں اس پرعمل کرنے والے موجود ہیں۔ اسلام اس غیر فطری فعل کو سخت ترین جرم اور گناہ قرار دیتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کے دستور اساسی قرآن کریم میں ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا اہم ترین نکتہ اس حرام کام کی اصلاح بیان کیا دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنس پرستی کا آغاز حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے کیا ۔ان سے پہلے دنیا کی قوموں میں اس عمل کا عمومی معاشرتی سطح پر کوئی رواج نہ تھا ۔یہی بدبخت قوم ہے جس نے اس ناپاک عمل کو ایجاد کیا۔ اس سے زیادہ شرارت ،خباثت اور بے حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے بلکہ علی الاعلان فخر کے ساتھ اس کو سر انجام دیتے تھے۔اس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آیاہے:
ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشتہ ما سبقکم بھا من احد من العالمین O انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء بل انتم قوم مسرفون O (الاعراف: ۱۸۰، ۸۱)
’’(اور یاد کرو) لوط کا واقعہ جس وقت اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم اس کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہوجسے تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ تم اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کے پاس آتے ہو۔ یقیناًتم حد سے گزرنے والے ہو ۔‘‘
قوم نے پیغمبر وقت حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحت کو سن کر ان کا مذاق اڑایا اور شہر سے نکال دینے کی دھمکی دی اور ستم بالائے ستم یہ کہ عذاب الٰہی کا مطالبہ خود اپنی زبانوں سے کر دیا ۔قوم کے جواب کو قرآن کریم نے اس انداز میں نقل فرمایا ہے :
فما کان جواب قومہ الا ان قالو ا ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصادقین O (العنکبوت: ۲۹)
’’پس لوط کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے، تو ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر تو سچا ہے ۔‘‘
چنانچہ اس عمل بد کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آیا ۔قرآن میں مذکور ہے :
فلما جاء امرنا جعلنا عا لیھا سافلھا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل منضود O مسومۃ عند ربک وما ھی من الظا لمین ببعید (ہود: ۸۲، ۸۳)
’’پھر جب ہماراحکم آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھربرسائے جو تہ بہ تہ تھے، تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور یہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہے ۔‘‘
درج بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس عمل قبیح کا ارتکاب کرنے والے اور اس پرخاموش تماشائی بننے والوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ جیسے ہمارے عذاب کا کوڑا قوم لوط پر برسا، ایسے ہی تم لوگوں پر بھی برس سکتا ہے ۔اعاذنااللہ منہ
قوم لوط کی یہ بستیاں (سدوم وعمورہ) اردن میں اس جگہ واقع تھیں جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے۔ یہاں پہلے سمندر نہیں تھا۔ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور زمین کا تختہ الٹ دیا گیا اور سخت زلزلے اور بھونچال آئے، تب یہ زمین تقریباً چار سو میٹر سمندر سے نیچے چلی گئی اور پانی ابھر آیا۔اسی لیے اس کا نام بحر میت یا بحر لوط ہے۔(قصص القرآن از مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی)
پیکر شرم وحیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اس فعل بد پر شدیدترین وعید سنائی ہے اور اسے سخت ترین جرم قرار دیا ہے۔ ایک موقع پر فرمایا:
ملعون من عمل قوم لوط (رواہ الترمذی)
’’اس شخص پر لعنت ہے جو قوم لوط کا عمل کرے۔‘‘
لعن اللہ من عمل قوم لوط (مسند احمد)
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص پرلعنت کرتاہے جو قوم لوط کا عمل کرے۔‘‘
ان اخوف ما اخاف علی امتی عمل قوم لوط (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
’’سب سے زیادہ خطرناک چیز جس کا مجھ کو اپنی امت پر خطرہ (اندیشہ) ہے، وہ قوم لوط کا عمل ہے۔‘‘
مختلف احادیث میں اس عمل کی مختلف سزائیں بیانکی گئی ہیں ۔حضرت عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلو الفاعل والمفعول بہ (رواہ ابو داود)
’’جس کسی کو تم قوم لوط کاعمل کرتے ہوئے پاؤ تو اس حرکت کے کرنے والے اور جس کے ساتھ یہ حرکت کی جارہی ہو، دونوں کی گردن اڑادو۔ ‘‘
اس مضمون پر اور بیسیوں روایات موجود ہیں لیکن اہم ترین حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی بیان کردہ روایت ہے ۔فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہمیں ایک روز خطبہ دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مدینہ میں آخری خطبہ تھا ۔اس کے بعد آپ اپنے پروردگارکے پاس چلے گئے۔ آپ نے مبارک وعظ میں فرمایا:
من نکح امراۃ فی دبرھا او رجلا او صبیا حشر یوم القیامۃ وریحہ انتن من الجیفۃ یتاذی بہ الناس حتی یدخل النار واحبط اللہ اجرہ ولا یقبل منہ صرفا ولا عدلا ویدخل فی تابوت من النار۔
’’جس کسی نے اپنی بیوی یا کسی مرد یا کسی لڑکے کے ساتھ پچھلی طرف سے بد فعلی کی ، قیامت کے روز اس کے جسم کی بدبو مردار کی بدبو سے زیادہ ہو گی جس کی وجہ سے لوگ سخت اذیت محسوس کریں گے، یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ تعالی اس کے اجر کو ضائع کر دیں گے اور اس کی فرض عبادت یا نفلی عبادت قبول نہ ہو گی۔ جہنم میں اسے آگ سے بنے ہوئے صندوق میں رکھا جائے گا۔‘‘
حضر ات صحابہ کرام سے ایسے مجرم کے سلسلے میں مختلف سزائیں منقول ہیں، مثلاً آگ میں جلادیا جائے، نیچے کھڑاکرکے اس کے اوپر دیوار گرا دی جائے، کسی بلند مقام سے اسے اوندھے منہ گرا دیا جائے ،اور اس کے ساتھ ہی اس کے اوپر پتھروں کی بارش کر دی جائے ،وغیرہ۔
قرآن وحدیث کے علاوہ دیگر آسمانی کتب نے بھی اس عمل قبیح کی شدید مذمت کی ہے ۔ تورات میں اس کی مذمت ان الفاظ میں آئی ہے:
’’اور اگر کوئی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کرتے ہیں تو ان دونوں نے نہایت مکروہ کام کیا ہے۔ سو وہ دونوں ضرور جان سے مارے جائیں۔ ان کا خون ان ہی کی گردن پر ہوگا۔‘‘ (احبار، ۲۰ : ۱۳)
قارئین کرام! آپ نے درج بالا دلائل وبراہین کی روشنی میں ہم جنس پرستی کے قبیح ہونے کے متعلق آسمانی تعلیمات کامطالعہ کیااور اس فعل بد کاارتکاب کرنے والوں کے انجام سے با خبر ہوئے۔ اب انصاف کاتقاضا یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات کا ہر حقیقی پیروکار، خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی اس عمل قبیح کی روک تھام کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے۔ تاہم جو لوگ خود کو آزاد خیال تصور کرتے ہیں، ان پر بھی لازم ہے کہ وہ انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے اس معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں صرف کریں کیونکہ صرف اس صورت میں ایک فلاحی انسانی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔
ہم جنس پرستی جس طرح انسان کی روحانی زندگی کے لیے سم قاتل ہے، ایسے ہی انسان کی جسمانی زندگی کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ اور خطرناک ہے۔ جدید طبی تحقیقات کے مطابق Aids ایک ایسی بیماری ہے جو اس بد چلنی کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔یہ ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس بیماری نے حال ہی میں ان تمام ممالک میں تہلکہ مچادیا ہے جن میں ہم جنس پرستی اور فحاشی کو برا نہیں جاناجاتا ہے۔یہ چھوت کی بیماری ہے ،جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے اور اس بیماری کے وائرس کو (LAY) Human lyphadenopathy virus کہاجاتاہے۔ اس بیماری کواس وقت تک کنٹرول نہیں کیا جا سکتاجب تک اس فعل بد اور فحاشی کو ختم نہ کیا جائے، لیکن افسوس صد افسوس اس برے عمل کو ختم کرنے کی بجائے مختلف NGOs کی طرف سے safe sexکے نام پر اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے مختلف پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں اور مختلف ادویات متعارف کروائی جاتی ہیں تاکہ یہ عمل زیادہ ’’اچھے‘‘ اور ’’مطمئن‘‘ انداز میں فروغ پاسکے۔
شاید دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مختلف قسم کی ادویات کے ذریعے سے ہم جنس پرستی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو کنٹرول کرکے اس فعل قبیح کی قباحت وشناعت کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ safe sex کی اس مہم کے ذریعے سے نہ ہم جنس پرستی کی شناعت کم ہو گی ،اور نہ ا س کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل میں کوئی کمی ہی آئے گی۔ایسا تو ممکن ہے کہ ادویات کے ذریعے کسی ایک بیماری کو کنٹرول کر لیا جائے لیکن جلد ہی اس سے بھی مہلک کوئی اور بیماری ظاہر ہو کر میڈیکل سائنس کے لیے چیلنج بن جائے گی کیونکہ جب تک بیماریوں کی جڑ یعنی ہم جنس پرستی اور فحاشی اور عریانی کو معاشرے سے نہیں اکھاڑ پھینکا جائے گا، اس وقت تک بیماریاں ظاہر ہوتی رہیں گی ۔اس ضمن میں مخبر صادق جناب نبی کریمﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں:
لم یظھر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بھا الا مشی فیھم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم الذین مضوا ( رواہ ابن ماجہ)
’’جب کسی قوم میں فحاشی اور عریانی ظاہر ہو جائے اور وہ اس کو علانیہ کرنے لگے تو ان میں طاعون کی بیماری پھیل جائے گی اور ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہونگی جو ان کے آباؤ اجداد میں نہ تھیں۔ ‘‘
درج بالا حدیث میں نت نئی بیماریوں کا بنیادی سبب فحاشی اور عریانی کو قرار دیا گیا ہے۔کاش! ہمارے ارباب اقتدارکو بھی یہ بات سمجھ میںآجائے کہ نت نئی بیماریوں کو صرف ہسپتالوں، جدید میڈیکل انسٹی ٹیوٹس یا میڈیکل ٹریننگ سنٹرز کے قیام کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ بنیادی سبب ،عریانی وفحاشی کے خاتمہ کی کو ئی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے۔
ہم جنس پرستی کی لعنت نے جدید نام نہاد مہذب دنیا میں کیا تہلکہ مچایاہے، اس کا اندازہ ایک امریکی اداکار راک ہڈسن کے درج ذیل واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
راک ہڈسن ایک امریکی اداکار تھا۔ وہ بڑا خوبصورت اور جوان تھا۔ بہت بڑا ایکٹر تھا اور کروڑوں میں کھیلتا تھا۔ اس کی بنیادی دلچسپی ہم جنسیت سے تھی اور وہ غیر فطری افعال کا مرتکب ہو تارہتاتھا۔ اس نے رواج کے مطابق شادی بھی کی۔ چونکہ جنس مخالف سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی، اس لیے وہ شادی جلد ہی ختم ہو گئی۔ اس نے غیر فطری افعال کے لیے اپنے ہی جیسے متعدد افراد سے جنسی تعلقات رکھے ہوئے تھے جن میں سے کسی سے اسے ایڈز کی بیماری لاحق ہو گئی۔ بیماری کی تشخیص کے بعد وہ تقریباً تین سال زندہ رہا مگر یہ تین سال ایک عام زندگی کے نہ تھے۔ وہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ اس کے وزن میں چالیس پونڈ کمی ٓا گئی۔ بات چیت کے دوران بھی اسے سانس چڑھ جاتا تھا۔ اسے روزانہ نت نئی تکالیف گھیرتی رہتیں۔ جب وہ سیر کے لے پیرس گیا تو اس کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ وہاں اسے ایک ایسے ہسپتال میں داخل کیا گیا جو صرف ایڈز کا علاج کرتا تھا، لیکن وہاں پر صرف فرانسیسی مریض داخل کیے جاتے تھے۔ امریکا کے صدرکی اہلیہ (نینسی ریگن) نے فرانس کے صدر سے ذاتی التماس کی اور راک ہڈسن اس خصوصی شفاخانہ میں داخل ہوا۔ کافی عرصہ زیرعلاج رہنے کے بعد وہ جان کنی کی کیفیت میں امریکالایاگیا جہاں اس کی موت واقع ہوئی۔ اس کی رفیقہ کارالزبتھ ٹیلرنے اس کی موت پر ایڈز کے خلاف تحقیقاتی کام کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے فنڈمیں چالیس لاکھ ڈالر جمع کرکے دیے ۔اس کے مرنے کے کچھ عرصہ بعد ایک نوجوان نے امریکی عدالت میں دعویٰ کیاکہ راک ہڈسن کے اس کے ساتھ غیر فطری تعلقات رہے ہیں۔ چونکہ راک ہڈسن ایڈز سے مرا ہے،اس لیے اندیشہ موجود ہے کہ مدعی کو بھی غالباً ایڈز ہو جائے گی۔ اس لیے عدالت اسے راک ہڈسن کی جائیداد میں سے ہرجانہ دلوائے۔عدالت نے مدعی کی ذہنی اذیت اور دہشت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو چار لاکھ ڈالر بطور ہرجانہ اور معاوضہ دلوائے۔ (امراض جلداور علاج نبویﷺ،ڈاکٹرخالد محمود غزنوی )
یہ تو صرف ایک واقعہ ہے۔نہ جانے ہم جنس پرستی کی اس لعنت نے کتنے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ان تکلیف دہ حالات میں ہر مسلمان کی خصوصی اور درد دل رکھنے والے اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے متمنی افراد کی یہ عمومی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انفرادی واجتماعی سطح پر ہم جنس پرستی کے نقصانات کو اجاگر کرکے اس کے خلاف بھر پور کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں :
۱۔ قومی اخبارات، رسائل وجرائد،خصوصاً مذہبی رسائل ہم جنس پرستی کے متعلق آسمانی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی قوت عطافرمائی ہے، وہ اس نعمت کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس کے ذریعے سے ہم جنس پرستی کے خلاف بھر پورآواز بلند کریں۔
۲۔ وارثان منبر ومحراب اپنے دروس، جمعۃالمبار ک کے خطبات اور نجی محافل میں عامۃالناس کو ہم جنس پرستی کے تصور،اس کے آغاز ،اس کے نقصانات اور اس کے نتیجے میں قوم لوط کی تباہی وبربادی کے متعلق آگاہ کریں اور انہیں اخلاقی طور پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے نونہالوں کو جو کہ ان کا بھی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا بھی مستقبل ہیں، بلیرڈگیمز کی دوکانوں ، ویڈیو گیمز کے مراکز، سنوکر کلبوں ، تھیٹرز ، منی سینماز اور دیگر ایسے مقامات میں جانے سے روکیں جہاں ہر طبقے ،ہر عمر اور ہر مزاج و فطرت کے لوگ جمع ہوکر مختلف قسم کی گیمز کھیلتے ہیں۔
۳۔ تعلیمی درس گاہیں، خواہ وہ دینی ہوں یا عصری ، اس ضمن میں طلبہ کی فکری تربیت کرتے ہوئے انھیں ہم جنس پرستی کی حقیقت اور اس کے دینی و دنیاوی نقصانات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مختلف NGOs کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی تھوڑی سی کاوش بھی بہترین نتائج کا باعث بنے گی۔
۴۔ جدوجہد کا ایک دائرہ کار یہ بھی ہے کہ حضرت لوط کی قوم کی تباہی کا مکمل قرآنی واقعہ،اس برائی کی مذمت میں مذکور احادیث نبویہ،اس برائی کے روحانی اور طبی نقصانات کو کتابچے کی صورت میں شائع کرواکر عامۃالناس میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔
امت مسلمہ ہی نہیں، بلکہ ہر وہ شخص جو آسمانی تعلیمات کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو انسانیت کی فلاح و بہبود کا حامی ہے، اسے اس برائی کے خلاف اپنا پورا کردار ادا کرنا چاہیے۔
قارئین !آخر میں ہمیں کچھ وقت کے لیے پوری قوت فکر کو مجتمع کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ کہیں بحرلوط کی کوئی طوفانی لہرپھر انسانیت کا پیچھا تو نہیں کر رہی؟یہ سوچتے ہوئے یہ فرمان الہٰی بھی پیش نظر رہے: وما ھی من الظالمین ببعید (سورہ ہود) ’’اور قوم لوط کی یہ (تباہ وبرباد ہونے والی )بستی ان ظالموں سے دور تو نہیں ۔‘‘