مکاتیب

ادارہ

(۱)

مکرمی ومحترمی مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی!

انتہائی سپاس گزار ہوں کہ ایک عرصہ سے آپ کا موقر ماہنامہ ’الشریعہ‘ موصول ہو رہا ہے، مگر یہ ناکارہ اس کی کوئی رسید بھی نہ بھیج سکا۔اس کوتاہی کے باوجود ’الشریعہ‘ مسلسل مل رہا ہے۔ یہ بس آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ اس محبت وشفقت پر مکرر شکر گزار ہوں۔ ادارہ میں آنے والے جرائد ورسائل میں ایک ’الشریعہ‘ بھی ہے جسے بالاستیعاب پڑھتا ہوں اور اس کے مضامین سے استفادہ کرتا ہوں۔

’الشریعہ‘ کے ذریعے بلاشبہ سب کے دلوں کی ترجمانی ہوتی رہتی ہے اور یہ آپ کی وسعت ظرفی کا نتیجہ ہے، مگر میری ناقص رائے میں یہ ’الشریعہ‘ کی قطعاً ترجمانی نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ آپ کی پالیسی ہو کہ اس میں ہر صاحب قلم جو چاہے قلم کاری کرے اور ’’ما تخفی صدورہم اکبر‘‘ کے کچھ مصداق بھی ’الشریعہ‘ کو اپنے لیے وسیلہ ظفر بنانا چاہیں تو بنا لیں، مگر معاف کیجیے یہ ’الشریعہ‘ کے نام پر دین کی کوئی خدمت نہیں۔ اگر دین اسلام کے بارے میں تشکیک پیدا کرنا جرم ہے تو ایسے مضامین کو طبع کرنا مستحسن کیونکر ہو سکتا ہے؟

’’مکاتیب‘‘ میں الشریعہ کے معزز قارئین نے کئی بار اس قضیہ نامرضیہ کے بارے میں آپ کو توجہ دلائی، مگر وہ تاحال صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی۔ اسی تناظر میں سمجھتا ہوں کہ اس ناکارہ کی یہ جسارت بھی رائیگاں جائے گی۔ تاہم ’الشریعہ‘ سے تعلق ، جو آپ نے محض اپنی شفقت سے پیدا کیا ہے، کا تقاضا ہے کہ اپنی بات کہہ ہی دی جائے۔

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

والسلام۔ دعا جو

ارشاد الحق اثری

ادارۃ العلوم الاثریہ

منٹگمری بازار فیصل آباد

(۲)

مکرم ومحترم مولانا ارشاد الحق اثری صاحب زیدت فیوضکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی؟

آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا۔ بے حد شکریہ! مکتوب کے مخاطب تو والد گرامی ہیں، تاہم چونکہ وہ ان دنوں بیرونی سفر پر ہیں، نیز ’الشریعہ‘ کے مندرجات کی ترتیب کی ذمہ داری زیادہ تر مجھ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں خود آپ سے مکاتبت کی سعادت حاصل کروں۔

آپ نے جس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، میرا خیال ہے کہ زاویہ نگاہ کے ایک معمولی سے فرق کے باعث اس میں ہمارا موقف سمجھنے میں بالعموم قارئین کو دشواری پیش آتی ہے۔ اس وقت امت میں رائج بے شمار نقطہ ہائے نظر ہیں جن سے ہم اتفاق نہیں کرتے، تاہم چونکہ ہماری نظر میں وہ کسی نہ کسی فکری یا عملی الجھن سے پھوٹے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک سنجیدہ مباحثہ کے بغیر ان کی غلطی کسی طرح سے واضح نہیں کی جا سکتی، اس لیے ہم انھیں ’الشریعہ‘ کے صفحات میں موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپریل ۲۰۰۵ کے شمار ے میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے خطاب پر ادارتی نوٹ کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔

یہ بات ہمارے لیے بے حد حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ ’الشریعہ‘ آپ جیسے اہل علم کی نظر سے بالاستیعاب گزرتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کی توجہ اور عنایت ہمیں آئندہ بھی حاصل رہے گی۔

والسلام

عمار ناصر

۰۵/۰۶/۲۲

(۳)

باسمہ تعالیٰ

محترم المقام سلام مسنون!

مزاج گرامی؟

اعزازی طور پر فرستادہ جریدہ ’الشریعہ‘ نظر نواز ہوا۔ یہ آپ کا کرم ہے کہ ایک دور افتادہ، اجنبی گوشہ نشین کو آپ نے سرفراز فرمایا۔ اس یاد فرمائی پر میں خلوص دل سے آپ کا شکر گزار ہوں۔ میں اظہار تشکر کے طور پر نہیں، بلکہ امر واقعی کے طور پر بغیر کسی مبالغہ آرائی کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اسے دیگر مذہبی رسالوں سے بہت مختلف پایا ہے۔ آپ نے اس میں فروعی مسائل کے بجائے ٹھوس، جامع اور اہم بنیادی مسائل پر مبنی مضامین شامل کر کے اسے منفرد اور پروقار بنا دیا ہے۔

گزشتہ شمارے میں آپ نے بیک وقت طلاق ثلاثہ پر مختلف الرائے علما کو جو دعوت فکر دی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ فروعی مسائل پر فتاواے کفر جاری کرنے والے ، قرآن مجید کے واضح حکم پر ایک وقتی، انتظامی اور تہدیدی حکم کو کیونکر فوقیت دیے ہوئے ہیں اور اسے حکم خداوندی کی ہی توضیح کا نام دے رہے ہیں، یہ ناقابل فہم ہے۔

دین اسلام نوع انسانی کی سہولت کے لیے ہے، انھیں مصائب میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں۔ بلاد عرب میں طلاق ودوبارہ شادی تہذیبی وسماجی معمولات میں شامل ہے، لیکن یہاں باپ اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت نصیحت کرتا ہے کہ بیٹی! اب سسرال سے تمہارا جنازہ ہی نکلے، لیکن بلاد عرب میں ایسا نہیں۔ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت عقیل بن ابو طالب کی زوجہ تھیں۔ پھر وہ حضرت ابوبکر صدیق کے عقد میں آئیں اور حضرت محمد بن ابوبکر کی والدہ بنیں۔ پھر یہی خاتون حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زوجہ بنیں اور حضرت محمد بن ابوبکر کی پرورش اہل بیت میں ہوئی، لیکن یہاں پر دوسری شادی کو بہت سے خاندانوں میں غیر شریفانہ اور غیر خاندانی تصور کیا جاتا ہے۔

ہمارے اہل فکر ودانش کو شاید یہ احساس نہیں کہ اگر عتاب واشتعال کا وہی ایک لمحہ جس میں مغلوب الغضب شوہر اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے، اگر وہی ایک لمحہ بغیر طلاق مغلظہ کے گزر جائے تو ۸۰ فی صد گھر برباد ہونے سے بچ جائیں۔ میرے علم میں ہے کہ ایک بھوکے مزدور نے اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دے دی کہ جب وہ گھر آیا تو اسے کھانا تیار نہ ملا۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں لیکن 

ایں رشتہ بانگشت نہ پیچی کہ دراز است

آخر میں (دورۂ حدیث کے دوران) مجھے ایک حدیث ابھی تک اس عمر میں یاد ہے کہ ایک جید صحابیؓ نے (نام مجھے یاد نہیں رہا) اسی طرح اپنی زوجہ کو طلاق دے دی اور مغموم صورت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے مسکرا کر فرمایا: ’’تمھیں تو طلاق دینی بھی نہ آئی۔ جاؤ طلاق (مغلظ) واقع نہیں ہوئی۔‘‘

اس مسئلہ پر اور موجودہ دور کے دیگر نئے اجتہاد طلب مسئلوں پر مسلسل دعوت فکر دیتے رہیں، کیونکہ یہ اجتہاد بھی ہے، جہاد بھی ہے اور امت مسلمہ کی اہم ضرورت بھی ہے۔

میری زیر طبع کتاب ’’فرمودات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید دور کے تقاضے‘‘ عنقریب الفیصل لاہور سے شائع ہونے والی ہے۔ پیش کروں گا۔

والسلام

مخلص

(خواجہ) طاہر محمود کوریجہ

۱۵۔ سی ، ماڈل ٹاؤن اے، بہاول پور

(۴)

برادر محترم جناب عمار ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ! مزاج گرامی؟

میں ایک عرصے سے ’الشریعہ‘ کا قاری ہوں۔ جونہی ’الشریعہ‘ بذریعہ ڈاک مجھ تک پہنچتا ہے، تمام مصروفیات کے باوجود میری کوشش ہوتی ہے کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالوں۔ 

الشریعہ کے صفحہ اول پر اس کا پیغام ’’وحدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علم بردار‘‘ کے الفاظ میں مرقوم ہے۔ الشریعہ پڑھتے ہوئے کبھی کبھی یہ پیغام بھی ذہن میں آتا ہے، لیکن مضامین کی اکثریت اس پیغام سے عاری ہوتی ہے۔ کئی بار خیال ہوا کہ الشریعہ کے چند شمارے سامنے رکھوں اور اپنے تاثرات لکھ ڈالوں، لیکن پھر سوچا کہ الشریعہ کے صفحات کے لیے میری بے ڈھنگی تحریر موزوں بھی ہوگی یا نہیں، کیونکہ الشریعہ میں ایسے مضامین آب وتاب سے صفحات کی زینت بنائے جاتے ہیں جن میں انوکھی بات کو چھیڑا جائے اور اپنوں کو نہ چھوڑا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ جب الشریعہ میں ایسے مضامین چھپ سکتے ہیں جو پوری طرح اس کے پیغام کی نمائندگی نہ کرتے ہوں تو شاید میرے بے ترتیب خیالات بھی اس میں جگہ پا کر قارئین تک پہنچ سکیں۔ 

’’کلمہ حق‘‘ میں استاذی مولانا زاہد الراشدی صاحب کی حقیقت پسندانہ تحریریں واقعی قاری کو تصویر کا صحیح رخ دکھاتی ہیں، مگر ہم مولوی لوگ شاید حقیقت پسندی سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ حالات کا صحیح ادراک کر کے اپنی خامی کا اقرار کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مزید غلطیاں کر ڈالتے ہیں۔ ایک شمارے میں استاذی نے حقیقت کا ایک رخ دکھلایا اور ’’کافر کافر‘‘ کے نعرے پر تنقید کی تو ایک طوفان برپا ہو گیا۔ بعض دوسرے جرائد میں بھی اس موضوع پر لکھا گیا، لیکن خود ’الشریعہ‘ نے مختلف نقطہ ہائے نظر کو اپنے صفحات پر جگہ دے کر دینی صحافت میں ایک مثبت قدم اٹھایا۔ ایک طرف شیعہ سنی اتحاد کے داعی ہیں اور دوسری طرف وہ جو اس بات پر بضد ہیں کہ شیعہ حضرات کا وجود یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدتر ہے۔ غالباً دونوں گروہوں نے چودہ سو سال کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ شیعہ سنی اختلاف ہر دور میں معرکہ کامیدان رہا ہے۔ شیعہ حضرات نہ صرف اپنے عقائد پر کاربند ہیں بلکہ اپنی تحریر وتقریر سے سنیوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ کیا اتحاد کے داعیوں کو ان حضرات کے بنیادی عقائد میں کوئی کجی نظر نہیں آتی؟ کیا ان کو خلافت راشدہ کے عہد سے لے کر آج تک ان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ نظر نہیں آتا؟ کیا وہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط بغداد سے لے کر بش کے ہاتھوں سقوط بغداد تک کی تاریخ سے غافل ہیں؟ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ چودہ سو سال کی شدید نفرتیں شیعہ اقلیت کو مٹا نہیں سکیں نہ سنیوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکیں۔ یہاں ایک متوازن حقیقت پسندانہ رویے کی ضرورت ہے کہ دونوں گروہ اپنے اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے دائرۂ امتیاز میں رہ کر اپنے عقائد پر کاربند رہیں اور چھیڑ چھاڑ سے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر کے یہود ونصاریٰ کے آلہ کار نہ بنیں۔

ڈاکٹر محمود احمد صاحب غازی کا خطاب الشریعہ (فروری ۲۰۰۵) میں پڑھنے سے قبل میں براہ راست سن بھی چکا تھا۔ آج کے دور میں ہر چیز تیزی سے ارتقا کا سفر طے کر رہی ہے، مگر دینی سامراج مختلف حیلوں بہانوں سے ارتقا کی راہ میں جمود کے روڑے اٹکانے کے لیے کوشاں ہے۔ مدارس کے نصاب میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں، ڈاکٹر صاحب کی باتیں دل کو تو لگتی ہیں لیکن اکابر پرستی اس کی بھلا کیسے اجازت دے سکتی ہے۔ مدارس کے نصاب کو اگر طلبہ کی متفاوت صلاحیتوں اور دستیاب ذرائع ووسائل کے پیش نظر ترتیب دیا جائے تو دینی نصاب کو مختلف درجات میں تقسیم کر کے بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر درجہ اعدادیہ سے دورۂ حدیث تک کے طلبہ کی تعداد کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ شاید ۱۰ فی صد طلبہ ہی تکمیل کر پاتے ہیں۔ درمیان میں کسی وجہ سے تعلیم چھوڑ جانے والے طلبہ کو نہ ہم مولوی شمار کرتے ہیں اور نہ مذہبی ٹھیکے داری میں شریک۔ ہماری دوسری کوتاہ نظری یہ ہے کہ کہ اگر کوئی طالب علم تعلیم حاصل کر کے تجارت یا کوئی دوسری دنیوی پیشہ اختیار کرتا ہے تو ہم اس کے اس عمل کو اساتذہ کی بد دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ اگر ایک عالم شرعی طریقے کے مطابق تجارت کرے تو یہ مدارس کی کامیابی ہے کہ انھوں نے معاشرے کو ایک امانت دار اور سچا تاجر فراہم کیا۔ انگریز کے قابض ہونے سے پہلے برصغیر پاک وہند میں ایک ہی نظام تعلیم تھا جو مفتی، قاضی، عالم اور معاشرے کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے رجال کار مہیا کرتا تھا اور اس کے فضلا ہر میدان میں اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔ آج بھی مدارس کے نصاب کو مختلف صلاحیتوں کے پیش نظر ترتیب دینا چاہیے اور ایک متوازن نصاب کے ذریعے سے متنوع صلاحیتوں کے طلبہ پیدا کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ فارغ التحصیل ہونے والے تمام علما نہ تو تدریس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ اہل مدارس سب کے لیے ایسے مواقع پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ اس میدان میں دین کی خدمت کریں۔ چنانچہ گنتی کے چند باصلاحیت افراد کو نکال کر باقی فضلاے مدارس کو دوسرے میدانوں میں معاشرے کی راہنمائی کرنی چاہیے، نہ یہ کہ وہ معاشرتی سرگرمیوں اور مسائل سے لاتعلق اور احساس کمتری کا شکار ہو کر مدرسے کی چار دیواری تک محدود ہو جائیں۔ 

ہمارے قابل احترام دوست پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب کے قلم سے عموماً ایسی تحریریں برآمد ہوتی ہیں جن سے خاموش سمندر میں تلاطم پیدا ہو جائے۔ پروفیسر صاحب الفاظ کے داؤ پیچ، ہیر پھیر اور اونچ نیچ کو برمحل استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسی صلاحیت کو اپنے حق میں دلائل بنا کر الشریعہ کے صفحات کو زینت بخشتے ہیں۔

جون کے شمارے میں تاریخی افسانوں اور ان کی حقیقت سے متعلق پروفیسر شاہدہ قاضی صاحب کا مضمون قابل توجہ تھا، تاہم یہ بات دیکھنے کی ہے کہ خود ان کے دعویٰ کی بھی کوئی حقیقت ہے یا وہ بھی افسانے پر افسانے کا درجہ رکھتا ہے۔

الشریعہ کا سب سے جرات مندانہ قدم اس میں شائع ہونے والے ’’مکاتیب‘‘ ہیں جنھیں من وعن قارئین تک پہنچا دیا جاتا ہے، ورنہ روش عام یہی ہے کہ اگر کسی کی کوئی رائے آپ پر تنقید کا دروازہ کھولتی ہے تو اسے امانت داری کے ساتھ ردی کی ٹوکری کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ الشریعہ کے رئیس التحریر یا مدیر پر تنقیدی خطوط یا دیگر مندرجات پر ناقدانہ تبصروں کو الشریعہ میں جگہ دینا مجلس ادارت کی مثبت سوچ، رواداری اور تحمل کا واضح ثبوت ہے۔

الغرض الشریعہ اگرچہ اپنے پیغام کے معیار پر سو فیصد پورا نہیں اترتا، لیکن ایک نئی سوچ، مثبت رویوں،اچھوتی تحریروں اور بے لاگ تبصروں کا امین ضرور ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ الشریعہ اپنے مضبوط قلم کاروں کے سہارے اہل علم کے لیے غور وفکر کا سامان میسر کرتا رہے۔ آمین

حماد انذر قاسمی

استاذ جامعہ فاروقیہ 

چوک امام صاحب ۔ سیالکوٹ

(۵)

محترم ومکرم جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا فکری منہج اور اسلوب صاحب فکر قارئین کے لیے بے حد دلچسپی کا باعث ہے، جس پر اللہ رب العزت کے حضور اظہار تشکر ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ استاذی مولانا زاہد الراشدی صاحب کی صالح اور متوازن سوچ ہی ہے جس کا عکس الشریعہ کے جملہ کالم نگاروں کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے اور الشریعہ کی ٹیم اس پر بجا طور مبارکباد کی مستحق ہے۔ 

ماہِ اگست کے شمارہ میں میاں انعام الرحمن صاحب نے سرزمینِ مغرب میں وجود پذیر حقائق کی جس انداز میں تصویر کشی کی ہے، وہ واقعۃً قابل تعریف ہے۔ احقر ہمیشہ سے میاں صاحب کے اندازِ فکر وتحریر کا معترف ہے۔ اللہ رب العزت میاں صاحب اورجملہ قلمکاروں کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے۔ آمین۔

مزید براں راقم اپنی اور برادرم فیروز الدین شاہ کھگہ صاحب کی طرف سے ان تمام قارئین کرام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اندرون وبیرون ملک سے ’’الفرقان الحق‘‘ کے حوالے سے ہمارے تنقیدی مضمون پر اپنی آرا اور تجزیوں کا اظہار فرمایا اور اس طرح ہمارے اس عزم کو مزید تقویت پہنچائی کہ ہم استشراقی طرز فکر، منہج استدلال اور اس کے پس پردہ کارفرما عزائم کی حقیقت کو مسلمانوں پر آشکارا کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری کوششیں اس کی بارگاہ میں قبولیت سے سرفراز ہوں اور مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کے حصول میں کسی بھی درجے میں مفید اور مددگار ثابت ہو سکیں۔ آمین

والسلام

حافظ محمد سمیع اللہ فراز

ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان، لاہور

(۶)

جناب محمد عمار خان ناصر صاحب، مدیر ماہ نامہ الشریعہ

السلام علیکم!

خداوند تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ ماہنامہ الشریعہ ہمیں باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے جس کی وجہ سے میں اپنی لائبریری کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

ماہنامہ الشریعہ ایک معیاری رسالہ ہے جس میں عصر حاضر کے اہم موضوعات، حالات وواقعات پر خوبصورت مواد پڑھنے کو ملتا ہے جو کہ ہمارے طلبا وطالبات، ریسرچرز اور اساتذہ کرام کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ایک دفعہ پھر شکریہ اس امید کے ساتھ کہ آپ آئندہ بھی ہماری لائبریری کو یاد رکھیں گے۔

خداوند تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

رفعت رفیق

(لائبریرین)

شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب

قائد اعظم کیمپس، لاہور

مکاتیب

(ستمبر ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter