1897 کی بیسل کانفرس میں یہودیوں نے اپنی جدا گانہ آزاد ریاست کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کر لی تھی اوراس کے بعد سے وہ اسے عملی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ انہی دنوں انگریزوں نے پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے ’انعام کے طور پر عربوں کو آزاد اور خود مختار علاقے دینے کا وعدہ کر رکھا تھا، لیکن سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر نے میں عربوں کے تعاون کے باوجود برطانوی وزیرِ خارجہ بالفور نے ۱۹۱۷ء میں یہودیوں سے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کر لیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ادھر برِ صغیر پاک و ہند میں مسلمان اپنے ہم وطن ہندوؤں کے ہمراہ سلطنتِ عثمانیہ کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف انتہائی جوش و جذبے سے تحریکِ خلافت چلا رہے تھے اور اُدھر عرب موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے ہم مذہب مسلمان ترکوں کے خلاف بر سرِ پیکار تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام رشید رضا کا خط ملاحظہ کیجئے:
’’ مسئلہ بیداری عرب کے متعلق آپ کی رائے معلوم ہوئی ۔ آپ کے خیال میں عجلت کی ضرورت نہیں ، تامل درکار ہے۔ یورپ کے بھوت سے خوف لازم ہے۔ یہ خیال کہ اہلِ عرب ترکی کی حالت سے واقف نہیں، اس لیے درست ہے کہ اہلِ ہند عربوں کی حالت سے واقف نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رہی یہ بات کہ یورپ کے خوف سے اہلِ عرب کو اپنے مطالبات میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کہیں کہ یورپ کے خوف سے اہلِ عرب کو مطالبہ اصلاح میں جلدی کرنی چاہیے تو یہ زیادہ موزوں ہو گا ۔ ۔۔‘‘
صرف اسی اقتباس سے عالمی سیاست کی سفاکی معلوم ہو جاتی ہے۔ 9 جون 1916 کو فلسطینی عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ عربوں کی بغاوت جب زور پکڑ گئی تو ترکوں نے 8 اور 9 دسمبر 1917 کی درمیانی شب میں بیت المقدس خالی کر دیا تاکہ اس مقدس شہر میں خون خرابہ نہ ہو۔ 10 دسمبر 1917 کو عربوں کے دوست اور مسیحا برطانیہ نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت یہودیوں کی تعداد کل آبادی کا پانچ فیصد یعنی 2600 تھی لیکن کچھ ماہ بعد ہی ان کی آبادی 83000 ہوگئی ،جبکہ فلسطینی عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔ جنگ کے اختتام پر فلسطین برطانوی کنٹرول میں آیا اور برطانیہ نے حسبِ وعدہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی مہم شروع کر دی۔ یہودی 1922 میں مجموعی آبادی کا 12 فیصد، 1931 میں 17فیصداور 1944 میں 31 فیصد ہوگئے۔ 1937 میں جب برطانیہ کی طرف سے فلسطین کی تقسیم کی تجویز سامنے آئی تو محمد علی جناح ؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس کی مذمت کی ۔ دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں یہودی ہٹلر کے نازی ازم کا شکار ہوئے۔ بچ جانے والوں کو نازی کیمپوں سے نکال کر سر زمین فلسطین میں منتقل کر دیا گیا جس سے اس خطے میں یہودیوں کی عددی قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ خیال رہے کہ عربوں نے اپنے بہت سے علاقے یہودیوں کو فروخت بھی کیے تھے۔ 1943 میں یہودیوں نے یورپ اور امریکہ میں پراپیگنڈا مہم چلا کر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ انہی دنوں 1944 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح ؒ نے کہا:
’’اگر یہودی عناصر کے دباؤ کے تحت ( امریکی) صدر روزویلٹ ، برطانیہ کو فلسطین کے سوال پر عربوں سے نا انصافی کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو یہ فیصلہ مسلم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ لگا دے گا۔ اگر یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ جاری رہا تو پوری اسلامی دنیا اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔ ‘‘
برطانیہ نے 1947 میں فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال کر اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری اقوامِ متحدہ پر ڈال دی۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے صرف 56 ارکان تھے۔ مسئلے کے حل کے لیے جنرل اسمبلی کی ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چےئرمین پاکستان تھا۔ افغانستان اور چھ عرب ریاستوں کو بھی کمیٹی کی رکنیت دی گئی ۔ کمیٹی نے رپورٹ میں سفارش کی کہ فلسطین میں ایسا وحدانی نظام اپنایا جائے جس میں یہودی اقلیت کے حقوق کی ضمانت موجود ہو اور باہر سے آنے والے یہودیوں کو یورپ میں یا پھر ان کے ابتدائی علاقوں میں آباد کیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے سپرد کرنے کی بات بھی چلائی گئی۔ بہرحال یہ رپورٹ جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی۔ تقسیم کے سوال پر ووٹنگ ہوئی تو 13 ووٹ مخالفت میں اور 33 حق میں آئے، جبکہ 10 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی ریاستوں کی اکثریت ان علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جن کا مشرقِ وسطی سے کسی قسم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ رشتہ موجود نہیں تھا۔ اس طرح پاکستان سمیت مسلم دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود مئی 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے اسرائیل کی حقیقت کو قانونی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی ۔
قیامِ اسرائیل کے بعد مشرقِ وسطی کے حالات
اسرائیل کے قیام کے بعد مشرقِ وسطی کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ 14 مئی 1948 کو فلسطین سے برطانوی دستبرداری کے صرف 7 گھنٹے بعد یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تھا ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ 10 منٹ بعد امریکہ نے اور 15 منٹ بعد سوویت یونین نے اسے تسلیم کر لیا ۔ اس وقت 6 لاکھ سے زائد عرب بے گھر ہو چکے تھے ۔ اس صورتِ حال میں پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی ۔عربوں نے جرات سے مقابلہ کیا اور بیت المقدس کے قدیم حصے پر قبضہ کر کے تل ابیب تک پہنچ گئے۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت پر اقوامِ متحدہ نے عارضی صلح کرا دی۔17 ستمبر کو یہودیوں نے اقوامِ متحدہ کے ثالثی نمائندے کاؤنٹ برنا ڈوٹ کو ہلاک کر دیا جس سے دوبارہ جنگ چھڑ گئی ۔ اسرائیلی فتوحات کے بعد جب اسرائیل کو مار پڑنے لگی تو اقوامِ متحدہ نے مصالحت کراتے ہوئے مارچ 1949 میں جنگ بند کرا دی۔ جنگ کے خاتمے پر فلسطین کا 78 فیصد علاقہ اسرائیل کے قبضے میں تھا ۔ جنگ کے نتیجے میں تقریباً 10 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے۔ 70 فیصد عربوں کو ان کے قدیم آبائی گھروں سے نکال دیا گیا۔ 1948 کی سنگین صورتِ حال کے بعد حالات ابھی معمول پر نہ آئے تھے کہ 1956 میں جنگ کے شعلے پھر بھڑک اٹھے ۔ مصر نے نہر سوئز کا نظام چلانے والی کمپنی کو قومی تحویل میں لیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس پر حملہ کر دیا ۔ اسرائیلی فوج نہر سوئز کی حدود کے 40 میل اندر تک اتاری گئی۔ اس چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے نہ صرف 6 ہزار مصری فوجیوں کو گرفتار کر لیا بلکہ سینائی کے مصری علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ جنگ میں شدید نقصان کے باوجود جمال ناصر نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔ سوویت یونین کے خروشیف کی طرف سے فرانس ، برطانیہ اور اسرائیل کو دی جانے والی دھمکی شاید اس لیے کام کر گئی کہ امریکہ اس جنگ سے لاتعلق بلکہ قدرے ناراض تھا کہ تینوں ممالک نے امریکی عندیے کے بغیر یہ جنگ چھیڑ دی تھی۔ اس طرح جنگ بند ہو گئی ۔ بعد ازاں امریکی دباؤ پر اسرائیل کو مارچ 1957 میں غزہ کا علاقہ خالی کرنا پڑا جس پر اس نے دورانِ جنگ قبضہ کر لیا تھا ۔ اس جنگ میں عالمی طاقتوں کے کردار سے اسرائیل نے بھانپ لیا کہ اب برطانیہ کی عالمی شہنشاہیت قصہ ماضی ہے اور امریکہ اس کا حقیقی جانشین ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے امریکہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کر دیں ۔ جون 1967 کی جنگ میں عربوں کو یقین تھا کہ وہ بآسانی اسرائیل کو شکست دے لیں گے لیکن اسرائیل نے 5 جون کو حملہ کر کے پوری مصری فضائیہ کو زمین پر ہی تباہ کر ڈالا اور 7 جون کو یروشلم کے تاریخی شہر کو فتح کر لیا ۔ اس جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے بہت سے علاقے ہتھیا لیے اور عربوں کو ہر میدان میں شکست فاش دی۔ 1948 میں اسرائیل کا رقبہ آٹھ ہزار مربع میل تھا ۔ 1967 کی جنگ کے بعد یہ چار گنا ہو گیا۔ نومبر 1967 میں اقوامِ متحدہ نے قرارداد 242 کے تحت اسرائیل سے کہا کہ وہ اپنی سرحدیں جنگ سے پہلے والے مقامات پر لے جائے، لیکن اسرائیل نے اس پر عمل نہیں کیا اور ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس سے پہلے 19 اگست 1967 کو خرطوم کانفرنس میں عربوں نے اپنے تین مشہور ’’ نہیں ‘‘ کا اعلان کر دیا تھا: (۱) اسرائیل کے ساتھ امن نہیں ہو گا، (۲) اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، (۳) کسی فلسطینی علاقے کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے ۔
1971 میں مصر کے جمال ناصر کے جانشین انور سادات کی آفر سے خطے میں ڈرامائی تبدیلی رونماہوئی ۔ سادات نے کہا کہ اگر اسرائیل جزیرہ نمائے سینائی سے اپنی فوجیں نکال لے تو مصر اسرائیل کے لیے نہر سوئز کھول دے گا ، نہر کے مشرقی کنارے سے مصری فوجیں ہٹا لی جائیں گی اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے ، لیکن اسرائیل نے انور سادات کی یہ پیشکش ٹھکرا دی ۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں نے اسرائیل سے حساب چکانے کی کوشش کی ۔سادات کی قیادت میں مصر ، نہر سوئز آزاد کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔ امریکی مداخلت اور سوویت یونین کی غیر جانبداری کے باوجود اس جنگ سے عربوں کے اعتماد میں بھی قدرے بہتری آئی ۔ اس وقت تک سوویت یونین کی منافقانہ پالیسیوں کے باعث عربوں کے مسائل جوں کے توں قائم تھے ۔ یہ دیکھتے ہوئے انور سادات نے امریکی راہنماؤں سے تعلقات قائم کیے۔ امریکی تعاون سے نہر سوئز کُھل گئی۔ انور سادات نے 9 نومبر 1977 کو مصری پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امن کی خاطر زمین کے آخری سرے تک جانے کو تیار ہے ۔ 15 نومبرکو بیجن نے سادات کو یروشلم کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ عرب لیڈروں کی شدید مخالفت کے باوجود سادات عیدالاضحی کے دن یروشلم گیا اور مسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کی۔ سادات نے کنیسٹ ( اسرائیلی پارلیمنٹ) سے بھی خطاب کیا اور مذہبی بقائے باہمی کی بات کی ۔ سادات نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صلیبی جنگوں کی عدم روادار ی کو ترک کر دیا جائے اور حضرت عمرؓ اور صلاح الدین ایوبی کے جذبے کی طرف واپسی اختیار کی جائے جنہوں نے مقدس شہر میں پر امن بقائے باہمی کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔ستمبر 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جس کی پاداش میں مصر کو عرب لیگ سے نکال دیا گیا اور لیگ کا صدر مقام قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا گیا ۔مصر کو او آئی سی کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔ بیجن نے 1979 میں معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے خود کو تسلیم کرا لیا لیکن اسے سینائی چھوڑنا پڑا ۔ اس معاہدے کے بعد بھی بیجن نے توسیع پسندانہ پالیسی جاری رکھتے ہوئے مغربی کنارے میں مزید بستیاں بسانے کا اعلان کیا ۔ بیجن کے اس اقدام کے باوجود معاہدے کے خلاف احتجاج کے طور پر یہودیوں نے ’’ تہیہ ‘‘ پارٹی قائم کی، جس کے تین اہم اصول یہ تھے:
(۱) اسرائیل کی بقا کے لیے جنگ نا گزیر ہے ۔
(۲) اسرائیل کو کسی بھی مقبوضہ علاقے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
(۳) کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو لازماً مسترد کر دینا چاہیے اور مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیاں قائم کی جانی چاہئیں ۔
اسرائیل کے خلاف اکتوبر 1973 کی جنگ میں فتح کی خوشی میں منعقدہ پریڈ میں 6 اکتوبر 1981کومصر کے صدر سادات کو قتل کر دیا گیا ۔ دن عید الاضحی کا تھا ۔ سادات نے اسی دن 1977 میں یروشلم کا تاریخی دورہ کرکے اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے اس نے اس وارنٹ پر باقاعدہ مہر تصدیق ثبت کر دی تھی ۔ سادات پر گولیاں برسانے والا فرسٹ لیفٹیننٹ خالد چیختا رہا: ’’ یہ کتا ، یہ کافر میرے حوالے کر دو‘‘۔
پچاس سیکنڈ کے اس حملے میں سات افراد ہلاک اور اٹھائیس زخمی ہوئے ۔ مصری عوام سادات کے قتل پر نہ تو روئے اور نہ اس کے جنازے کے انتظار میں دو رویہ قطار باندھ کر کھڑے ہوئے ۔ سادات کے قتل کی رات قاہرہ کی سڑکیں بھی بالکل خاموش تھیں ۔ سادات کو دفن کرتے ہی امن خاک آلود ہو گیا ۔
فلسطین کاز ، عرب اور فلسطینی
مصر نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے چار ماہ بعد ہی غزہ کے علاقے میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور 20 ستمبر 1948 کو مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کی قیادت میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، مگر اردن کے امیر عبداللہ نے نہ صرف اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ فلسطین کے ان علاقوں کو جن پر ان کی فوج نے 1948 کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا ، اردن میں ضم کر لیا ۔ 24 اپریل 1950 کو اردن کی پارلیمنٹ نے بھی دریائے اردن کے مشرقی اور مغربی علاقوں کو اردن میں باقاعدہ ضم کرنے کی منظوری دے دی ۔ اردن کو عرب لیگ سے خارج کر دیا گیا ۔ اسرائیل سے مذاکرات کا حامی ہونے اور برطانیہ کی طرف بے جا جھکاؤ کے باعث 20 جولائی 1951 کو بیت المقدس کی مسجد عمر فاروقؓ میں دوران نماز ، امیر عبداللہ کو کسی نامعلوم عرب نے گولی مار دی ۔ اس طرح آزاد و خود مختار فلسطین کا مصری منصوبہ عربوں کی باہمی منافرت کی نذر ہو گیا ۔ 1952 میں مصر کے شاہ فاروق کا تختہ جنرل نجیب اور کرنل ناصر نے الٹ دیا۔ 1958 میں عراق میں خونی انقلاب آیا۔ 1961 میں شامی فوج میں بعث پارٹی کے غلبے کے بعد شام ، مصر سے علیحدہ ہو گیا ۔ 1963 میں عراق میں انقلاب در انقلاب آئے ۔ ان واقعات نے مصر ، شام اور عراق میں قوم پرستانہ رجحانات کو فروغ دیا ۔ عالمِ عرب کی قیادت کے لیے تینوں ملکوں کی رقابت نے فلسطین کاز کو بے حد نقصان پہنچایا ۔
1964 میں مصر کے جمال ناصر نے پہلی عرب سر براہ کانفرنس کے دوران معروف فلسطینی راہنما احمد شکیری کی قیادت میں تنظیم آزادی فلسطین (P.L.O) کی بنیاد رکھی، لیکن یاسر عرفات کی فدائی تنظیم ’’ الفتح ‘‘ نے دنیا کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کر لیا۔ 1965 میں اس تنظیم نے اسرائیل کے اندر 35 کامیاب کارروائیاں کیں ۔ 1967 تک اس تنظیم نے پوری عرب دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ جون 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد مصر کے جمال ناصر نے P.L.O کی قیادت عبدالرحمان یاسر عرفات کے سپرد کر دی ، جس سے آزادی فلسطین کی سیاسی اور عسکری جدوجہد ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو گئی۔ اگست 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگا دی گئی ۔ اس واقعہ سے مسلم اتحاد کو مہمیز ملی اور ستمبر 1969 میں (O.I.C) کا قیام عمل میں آگیا ۔1970 میں فلسطینی گوریلوں نے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر اور اس کے اندر غیر معمولی کارر وائیاں کیں ، جس سے تنظیم کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب اردن کے شاہ حسین نے ان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ خیال کرتے ہوئے 1971 میں ان کو اردن سے نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوج کشی کی ۔ اردنی فوج اور فلسطینیوں میں دست بدست جنگ ہوئی ۔ فلسطینیوں کے انخلا کے لیے اردن نے بیرون ممالک سے فوجی امداد بھی حاصل کی۔ اردن سے نکالے جانے پر فلسطینیوں نے لبنان کے شہر بیروت کو اپنا مسکن بنایا ۔ 1974 میں اردن کے شاہ حسین سمیت تمام عرب حکمرانوں نے پی ایل او اور اس کے سربراہ یاسر عرفات کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تنظیم اور لیڈر تسلیم کر لیا ۔ یاسر عرفات کو اس کے بعد کانفرنسوں میں سر براہ مملکت کا درجہ دیا جانے لگا۔ اسرائیل نے لبنانی عیسائیوں میں فلسطینیوں کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کر دی ۔ انہیں گوریلا تربیت دی اور بڑے پیمانے پر اسلحہ تقسیم کیا ۔ اسرائیلی پالیسی کے نتیجے میں لبنانی عیسائیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ شامی لیڈر جو یاسر عرفات سے خائف تھے، انھوں نے بھی در پردہ عیسائیوں کی مدد کی ۔ 1976 میں جب عیسائیوں کی نیم فوجی تنظیم ’’عیسائی ملیشیا ‘‘ اور فلسطینی مجاہدین میں لڑائی جاری تھی، شامی فوج عیسائیوں کی مدد کو آگئی ۔ شامی فوج نے زبردست کارروائی کر کے فلسطینی مجاہدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ یوں اردن کے بعد شام نے بھی فلسطینیوں کے خلاف ’’ جہاد ‘‘ کا علم بلند کر کے فلسطین کاز کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس کے بعد تنظیم کے مختلف متحارب گروپوں پر پی ایل او کا کنٹرول کمزور پڑ گیا۔ اب کوئی گروپ شام کے حافظ الاسد کے زیرِ اثر تھا تو کوئی لیبیا کے کرنل قذافی کا احسان مند تھا ۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر ، فلسطینی کاز سے لا تعلق ہوچکا تھا ۔ ایسے ماحول میں ایک اسرائیلی سفیر پر قاتلانہ حملے کے الزام میں جون 1982 میں اسرائیل نے لبنان کے فلسطینی کیمپوں پر شدید حملہ کر دیا ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی خوب دھلائی کی لیکن کوئی عرب ریاست فلسطینیوں کی ’’ عملی مدد ‘‘ کو نہیں پہنچی ۔ امریکہ حسبِ روایت ’’ امن کا علم ‘‘ تھامے میدان میں کود پڑا اور اس نے بیروت سے فلسطینی انخلا کو مسئلے کا شاندار حل بتایا۔ جولائی 1982 میں برطانیہ ، امریکہ ، اٹلی اور فرانس کی مشترکہ فوج قیام امن کے لیے بیروت میں آئی ۔ اس فوج کا مقصد لبنان سے فلسطینی گوریلا فوج کا مکمل انخلا تھا ۔ لہٰذا ان طاقتوں نے عربوں کی پسِ پردہ حمایت کے ساتھ فلسطینی ہیڈ کوارٹر بیروت سے تیونس منتقل کر دیا۔ اسرائیلی، فلسطینی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کو اپنے پڑوس میں برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے ان کی کوششوں اور عربوں کی بے وفائی سے پی ایل او کو اپنے مرکزی دفاتر با ر بار مختلف مقامات پر منتقل کرنے پڑے ۔
4 جولائی 1988کو مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کے اکیسویں سال کے موقع پر اسرائیل میں عسکری گروپس نے جلوس نکالا ۔ اس میں دس ہزار اسرائیلی شریک ہوئے ۔ اسی دن تل ابیب میں امن پسندوں نے بھی جلوس نکالا اور قبضہ ختم کرنے، فلسطینیوں کے ساتھ امن قائم کرنے اور فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ۔14 نومبر 1988کو اسرائیل میں الیکشن ہوئے ۔ 15 نومبر کو فلسطین تحریکِ آزادی کے ہیرو یاسر عرفات نے فلسطینی آزادی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ساری دنیا میں عرفات کے اس اقدام کی دھوم مچ گئی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ہاں دہشت گرد قرار پانے والا یاسر عرفات قلابازی کھا کر سادات کے مقام پر کیوں جا کھڑا ہوا ؟ اس کا دو لفظی جواب ہے: ’عربوں کی باہمی مناقشت‘۔
دسمبر1987 میں غزہ میں انتفاضہ کے نام سے ایک انقلابی فلسطینی تحریک منظرِ عام پر آئی جو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم تک پھیل گئی ۔ اس تحریک سے عرب دنیا اور بین الاقوامی برادری کافی متاثر ہوئی ۔ انتفاضہ کے آغاز میں ہی ایک نئی تنظیم ’’ حماس ‘‘ بنائی گئی جس نے فلسطینیوں کی جدوجہد کو اسلامی رخ دے دیا ۔ یہ اسرائیلیوں اور فلسطینی قوم پرستوں ، دونوں کے خلاف کمر بستہ تھی ۔ 1992 میں جب اسحاق رابن اسرائیل کا وزیر اعظم بنا تو وہ انہی تنظیموں کو مدِ نظر رکھ کر پی ایل او کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو گیا۔ 1993 میں اسرائیل اور پی ایل او نے معاہدہ اوسلو پر دستخط کیے ۔ 4 نومبر1995 کو تل ابیب میں ایک امن ریلی کے دوران رابن کو امن معاہدے کرنے کے پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل کے بقول رابن ایک ’’روڈیف ‘‘ یعنی یہودیوں کا دشمن تھا، اس لیے اس کا قتل اس پر فرض تھا ۔اس طرح مصر کے سادات کی طرح ، اسرائیل کے رابن کے قتل نے واضح کر دیا کہ اس خطے میں ایک نہیں، بلکہ دو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ۔ ایک وہ جس کا دنیا میں چرچا ہے یعنی عرب اسرائیل جنگ، اور دوسری قدرے ڈھکی چھپی ہے لیکن اب منظرِ عام پر آ چکی ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور عرب ممالک میں سیکولر اور مذہبی قوتوں کے درمیان زور پکڑ رہی ہے ۔
مشرقِ وسطی کی موجودہ صورتِ حال
اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم ایریل شیرون ، مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کی پالیسی کے بانی ہیں۔ غزہ کی پٹی سے یہودی نو آبادیوں کے خاتمہ کا اعلان بھی انھی کی طرف سے آیا ہے ۔ ان کی اپنی پارٹی ’ لکوڈ ‘ اس مسئلے پر انتشار کا شکار ہو گئی ہے اور انتہا پسند یہودی عناصر ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ جب انخلا کی پالیسی منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کی گئی تو وزیر خزانہ اور لکوڈ پارٹی کے اہم راہنما نیتن یاہو نے احتجاجاً استعفا دے دیا ۔ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے، لیکن یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ قیادت نے انخلا کے ڈرامے کو بڑی خوبصورتی سے سٹیج کیا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا اس وقت شیرون کو ’ امن کا ہیرو‘ بنا کر پیش کر رہا ہے ، حالانکہ غزہ کی پٹی میں بمشکل آٹھ نو ہزار یہودی آباد کار ہیں جو دس لاکھ فلسطینیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ پٹی حماس اور اسلامی جہاد جیسی عسکریت پسند تنظیموں کی آماجگاہ ہے ۔ اسرائیل کو اپنی ان نوآبادیوں کی حفاظت کے لیے جدید اسلحہ سے لیس فوج رکھنی پڑ رہی ہے جس پر کثیر اخراجات آرہے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم غزہ کی پٹی سے نکل کر ایک طرف دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں اور دوسری طرف اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کرتے ہوئے ’’ زمین برائے امن ‘‘ کے عمل کو تج کر اپنی شرائط پر امن کے خواہاں ہیں ۔ اقوامِ متحدہ ، امریکہ ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں کی کوششوں سے جو ’’ امن روڈ میپ ‘‘ تشکیل پایا تھا، فلسطینیوں کی طرف سے مثبت ردعمل کے باوجود وہ اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کاغذوں میں بند پڑا ہے۔عالمی برادری کے نزدیک اسرائیلی انخلا امن روڈ میپ کی طرف پیش قدمی ہے ، لیکن شاید عالمی برادری کی نگاہوں سے یہ امر پوشیدہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے (West Bank) میں حفاظتی دیوار کے نام پر پورے علاقے کو بھول بھلیاں میں بدل دیا ہے ۔ یہ دیوار جان بوجھ کر اس طرح اٹھائی گئی ہے کہ متصل اور یکجا علاقے کا وجود ہی غائب ہو جائے ۔عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کے دیوار تعمیر کرنے کے عمل کوجولائی 2004 میں خلافِ قانون اور ناجائز قرار دیا ہے لیکن اسرائیل نے عدالت کے فیصلے کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ستمبر 2005 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے عالمی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے میں سقم پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کی سکیورٹی ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھا۔ امریکی صدر بش نے بھی جب اس دیوار کا نقشہ دیکھا تو اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا تھا کہ: ’’ پھر فلسطینی ریاست کہاں ہوگی ؟ ‘‘
بدیہی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزہ کی پٹی سے انخلا فلسطینی ریاست کے قیام کو التوا میں ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے ؟ کیا یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے والی بات نہیں کہ مغربی کنارے کے چار لاکھ یہودی آباد کاروں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے آٹھ ہزار آباد کاروں کے انخلا کو فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف جرات مندانہ اہم قدم سمجھا جائے۔ موجودہ صورتِ حال میں Demographic Balance اسرائیل کے حق میں ہے ۔اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق غزہ کی پٹی کے ساتھ سیکورٹی زون قائم کیاجائے گا۔ اس سیکورٹی زون میں یورپی یونین کی فوج کی تعیناتی کی بات چل رہی ہے ۔ یورپی یونین کی ابھرتی ہوئی طاقت دیکھتے ہوئے اب اسرائیل شاید امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا چاہ رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غزہ سے انخلا کے باوجود اس علاقے پر اسرائیل کا تزویراتی کنٹرول باقی رہے گا ۔ ایریل شیرون یہ بات بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یروشلم تقسیم نہیں ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مغربی یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت کیسے بنے گا ؟ شیرون مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں سے بھی پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔کثیر الاشاعت عبرانی اخبار ’’ یدیعوت احرنوت ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ سے انخلا ہی بہت بڑا زخم ہے اور اسرائیل آئندہ کسی علاقے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا ایک اعلیٰ فوجی افسرجنرل عودید تیرہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے کہ ’’ غربِ اردن ‘‘ کے بارے میں اسرائیل کا موقف وہی ہے جو 1967 میں اس پر قبضے کے وقت تھا ۔ عودید کے مطابق غربِ اردن کی اسرائیل کے لیے علیحدہ سے دفاعی اہمیت ہے لہٰذا اسرائیل کسی ایسے منصوبے پر غور نہیں کرے گا جس سے اس کے دفاع میں کمزوری آتی ہو ۔ ایریل شیرون اور عودید کے بیانات سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ فلسطینی مزاحمت کی وجہ سے ہی اسرائیل غزہ کی پٹی چھوڑ رہا ہے ۔ اندریں صورت حماس جیسی تنظیموں کا یہ کہنا کہ موجودہ انخلا مکمل آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہم مکمل آزادی تک لڑتے رہیں گے ، درست معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان / اسرائیل روابط کی تاریخ
جہاں تک پاکستان کے اسرائیل سے روابط کا تعلق ہے، یہ دو چار روز کی بات نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کواسرائیل کی طرف سے تسلیم کر لینے کی درخواست موصول ہوئی ۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ ظفر اللہ (جو قادیانی تھے) تقسیم ہند سے قبل فلسطین کی تقسیم کو غیر قانونی اور عربوں کے ساتھ نا انصافی خیال کرتے تھے ۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد ظفر اللہ نے بھی پنیترہ بدلا اور عربوں کو عملیت پسند (Pragmatic) ہونے کا مشورہ دیا ۔ ایک وقت میں یہ قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں کہ پاکستان ،انڈیا کی مخالفت میں انڈیا پر سبقت لے جاتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا ہے ۔ان دنوں قاہرہ میں پاکستانی وزیرِ خارجہ نے بیان دیا کہ عربوں کواسرائیل سے اپنے معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں اپریل 1952 میں ظفراللہ اور واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر Abba Eban کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی نشست ہوئی۔ اس کے بعد جنوری 1953 میں ایک اور ملاقات کا اہتمام کیا گیا ۔ 1956 کے نہر سوئز کے بحران میں پاکستان تیسری دنیا کا غالباً سب سے اہم ملک تھا جس نے عوامی خواہشات کے بر عکس مصر کے بجائے مغربی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ اسرائیل کے ہاتھوں جمال ناصر کی حواس باختگی پر پاکستانی سفارت کار نجی محفلوں میں خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ اوٹاوہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر مرزا عثمان علی نے اسرائیلی سفارت کار کوکچھ یوں مبارک باد دی:
''Wonderful show! Your splendid little army put up in beating the Egyptian.''
’’زبردست! آپ کی شاندار فوج مصریوں کو شکست دینے میں ثابت قدم رہی۔‘‘
اور پھر عثمان صاحب نے افسوس کا بھی اظہار کیا کہ اگر برطانوی اور فرانسیسی مداخلت نہ ہوتی تو اسرائیلی فوج قاہرہ میں مارچ کر رہی ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق، جنہیں اپنے ’’ امیر المومنین ‘‘ ہونے کا بہت زعم تھا ، 1970 میں فلسطینی مجاہدین کے خلاف اردنی حکومت کی شدید فوجی کارروائی میں بطور بریگیڈےئر شریک تھے۔ اس کارروائی کو بعد میں Black September Massacre of 1970 کا نام دیا گیا ۔ ظاہر ہے یہ عمل اردن کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے بھی مفاد میں تھا کیونکہ یہودی لیڈر ہر اس کارrوائی کے حامی تھے جس سے پی ایل او کمزور ہوتی اور فلسطین کاز کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ۔ شاہ حسین نے ’’ گراں قدر خدمات ‘‘ کے اعتراف میں ضیاء الحق کو خوب نوازا۔ عربوں سے الگ راہ اپنا کر مصرنے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ اسے عرب لیگ ( جس کا وہ بانی ممبر تھا ) اور او آئی سی سے نکال دیا گیا تھا - 1984 میں او آئی سی کی سربراہی کانفرنس منعقدہ کاسا بلانکا میں جنرل ضیاء الحق نے بڑی مہارت سے مصر کے حق میں راہ ہموار کی۔ اس کے بعد مصر کے لیے اسلامی دنیا کے دروازے کُھل گئے ۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی پیش رفت تھی کہ کوئی اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ دیرینہ مراسم رکھتے ہوئے بھی اسلامی بلاک میں رہ سکتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کا یہ عمل، بالواسطہ ہی سہی، واضح طور پر پاکستان / اسرائیل رابطے کا غماز ہے اور طرفین کے نرم رویوں کا آئینہ دار بھی۔
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں سرد جنگ کے خاتمے، بھارت اسرائیل سفارتی تعلقات اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے اسرائیل کے ساتھ روابط کا ایک نیا دور آیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ، دونوں نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان مخصوص حالات میں اپنی اسرائیل پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے ۔ بیگم عابدہ حسین نے، جو امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں، اسرائیل سے مکالمہ کرنے پر زور دیا ۔ ان دنوں اقوامِ متحدہ کے مشن میں پاکستانی نمائندے نے ایک ایسے سفارتی استقبالیہ میں شرکت کی جس کا میزبان نیویارک میں متعین اسرائیلی سفیر تھا ۔پاکستانی وزیرِ خارجہ سردار آصف احمد علی اوران کے اسرائیلی ہم منصب شمعون پیریز کے درمیان بھی خفیہ روابط قائم رہے ۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے اسرائیل سے معاملات طے کیے بغیر اگست 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ کی پٹی میں جانے کی کوشش کی تو اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا:
''The lady from Pakistan should be taught some manners.''
’’اس پاکستانی خاتون کو کچھ آداب واطوار سکھائے جانے چاہییں۔‘‘
اس کے باوجود چند ہفتوں بعد ہی پاکستان Arava میں اسرائیل/ اردن امن معاہدے کی تقریب میں شریک تھا۔ نومبر1995 میں اسحاق رابن کے قتل پر ایسی تمام دہشت گرد کارروائیوں کی پاکستان نے سرکاری سطح پر مذمت کی ۔ محترمہ بے نظیر نے تو رابن کے قتل اور ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں مشابہت تلاش کرنے کی بھی کوشش کی ۔ جنوری 1996 میں ایک ممتاز اسرائیلی روز نامہYediot Ahronot کو انٹر ویو دیتے ہوئے محترمہ نے کہا کہ امن کے عمل میں پیش رفت اور دوسرے عرب ممالک کی رضا مندی سے پاکستان اپنی پالیسی تبدیل کر سکتا ہے ۔ محترمہ نے اسرائیل اور امریکہ میں اس کے دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے F-16 کی سپلائی کی بحالی اور اسلحہ کی پابندی ختم کرانے میں پاکستان کی مدد کی ۔مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اسرائیل نے پاکستان کو ذمہ دار ملک قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ پاکستان اسے کسی Third Country or Entity کو منتقل نہیں کرے گا ۔ غالباً Entity کا لفظ اسرائیل Palestinian Entity کے تناظر میں استعمال کرتا ہے ۔ان دنوں پاکستانی وزرا اسرائیلی ٹیلی ویژن پر خدشات دور کراتے پائے گئے ۔ اسرائیل نے بھی پاکستانی بم کو جنوب ایشیائی حوالے سے دیکھا اور اس کے دفاعی ماہرین نے اسے اسلامی بم کی بجائے چینی بم قرار دیا۔ انہی دنوں اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا کہ پاکستان سے باقاعدہ تعلقات نہ ہونے کے باوجود ، سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے زمانہ عروج میں اسرائیل اسلام آباد میں مستقلاً موجود رہا ۔ جنرل پرویز مشرف نے جون2003 میں پاکستانیوں سے کہا تھا کہ:
''We should not overreact on this issue. We should give serious consideration. It is a very sensitive issue. We fought three wars with India but still had diplomatic relations.''
’’ہمیں اس مسئلے پر ضرورت سے زیادہ رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے۔ ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے مابین سفارتی تعلقات بھی قائم رہے ہیں۔‘‘
جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسرائیل سے کبھی کوئی جنگ نہیں ہوئی ۔ اگر انڈیا سے تعلقات قائم رہ سکتے ہیں تو اسرائیل سے تعلقات قائم کیوں نہیں کیے جا سکتے ؟ جرمن ہفت روزہ Der Spiegel سے بات کرتے ہوئے جنرل پرویز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم شیرون کے بارے میں کہا تھا: A great soldier and a courageous leader ( ایک عظیم سپاہی اور جرات مند لیڈر) ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب شوکت عزیز نے بھی اس سال جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس میں اسرائیلی ڈپٹی وزیرِ اعظم شمعون پیریز سے ہیلو ہائے کی ۔ حال ہی میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ نے انقرہ میں با ضابطہ ملاقات کی ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کے حالیہ دورے کے دوران میں اسرائیلی وزیرِ اعظم شیرون سے مصافحہ کرنے کے علاوہ جیوش نیشنل کانگرس سے خطاب بھی کیا۔
جنوبی ایشیامیں پاک بھارت کشمکش اور اسرائیل
جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کشمکش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک میں اب تک تین باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں ۔1971 کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا ۔ ان جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور حالتِ جنگ(State of War) کی نوبت بھی کئی بار آئی ہے ۔ بھارت نے پاکستان سے معاندانہ تعلقات کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں عربوں کو ناراض کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ 1956 کے نہر سوئز بحران میں بھارت نے امریکی تجاویز کو رد کرتے ہوئے کھلم کھلا مصر کا ساتھ دیا تھا۔ سوئز کو قومیانے سے مصر کا جمال ناصر عرب دنیا کا لیڈر بن کر ابھرا تھا، ایسے میں پاکستان کا معذرت خواہانہ رویہ اور بھات کا دو ٹوک موقف پاکستان کی رسوائی کا سبب بنا ۔ جب پی ایل او قائم کی گئی تو بھارت پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے اسے تسلیم کیا اور پوری طرح سپورٹ کیا ۔ عربوں کی طرف بھارت کے واضح جھکاؤ کے باوجود اسرائیل بھارت کو کیسے دیکھ رہا تھا؟ اس کا اندازہ جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بننے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن گوریان کی Sorbone (پیرس) میں تقریرسے ہوتا ہے ۔ اس کی ایک جھلک 19 اگست 1967 کے برطانوی ہفت روزہ The Jewish Chronicle کے اس اقتباس میں دیکھی جا سکتی ہے:
’’ عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کے خطرہ سے غافل نہیں رہنا چاہیے ۔ اب پاکستان اس کا پہلا نشانہ ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لیے ایک چیلنج ہے ۔ پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے ۔ عرب ہمارے لیے اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنا عربوں کے ساتھ محبت کرنے والا پاکستان خطرناک ہے ۔ اس خطرے کے پیشِ نظر صہیونیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری قدم اٹھائے ۔اس کے بر خلاف ہندوستان کے ہندو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کے لیے ہندوستان ہی ہمارے لیے سب سے اہم Base ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اسے استعمال کریں اور بھیس بدل کر یا خفیہ پلان کے ذریعے یہیں سے یہودیوں اور صہیونیت سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں پر کاری ضرب لگائیں اور انہیں فنا کر دیں‘‘۔
اسرائیلی موقف میں یہ سختی شاید اس لیے آئی کہ اس سے قبل پاکستان کے اسرائیل سے روابط معمول کے تھے اور سفارتی تعلقات قائم ہونے کی بھی توقع تھی ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فلسطین پالیسی واضح ہوتی چلی گئی جس میں اسرائیل کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا ۔ پاکستان میں عوامی سطح پر فلسطین تحریک کو ، جو در حقیقت قوم پرستی پر مبنی تھی ، اسلامی زاویے سے لیا جا رہا تھا۔ خیال رہے، ماضی میں بھارت اسرائیل تعلقات خیر سگالی پر مبنی نہیں رہے ۔1966 میں جب اسرائیلی صدر Shazar کا جہاز نیپال جاتے ہوئے غیر متوقع طور پر کلکتہ میں ایندھن لینے اترا اور اسرائیلی صدر نے رات کلکتہ میں ٹھہرنے کا عندیہ دیا تو بھارت سرکار نے صاف انکار کر دیا اور کسی افسر کو استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ بھیجا ۔ اسرائیل سے لاتعلقی کی بھارتی پالیسی اس وقت مزید کھچاؤ کا شکار ہو گئی جب 1975 میں بھارت نے اقوامِ متحدہ کی ایک قراردادکے حق میں ووٹ دیا جس کے مطابق صیہونیت اور نسل پرستی کو مساوی قرار دیا گیا تھا ۔
بہر حال، یہ بھار ت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو تھے جنھوں نے اسرائیلی ریاست کی de jure حیثیت تسلیم کر لی تھی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم رہے اور 1953 سے ممبئی میں اسرائیلی کونسلیٹ کام کرتا رہا جبکہ اسرائیل میں بھارت نے اپنا کونسلیٹ نہ کھولا۔ کانگرس پارٹی کے سرد رویے سے خائف ہو کربھی اسرائیل نے بھارت سے دیرینہ مراسم قائم کرنے کی جدوجہد ترک نہ کی۔ 1977 میں جب پہلی غیر کانگرس حکومت ( جنتا پارٹی ) قائم ہوئی تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ خارجہ موشے دایان نے اگست1977 میں بھارت کا خفیہ دورہ اس امید کے ساتھ کیا کہ اب اسرائیل کو عربوں کے خلاف بھارت کی سفارتی سپورٹ مل جائے گی، لیکن موشے دایان کو ناکام لوٹنا پڑا ، کیونکہ ابھی سوویت یونین( جو اسرائیل مخالف تھا ) پورے دم خم میں تھا اور بھارت کے اس کے ساتھ تزویراتی مفادات وابستہ تھے۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیرِ خارجہ تھے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں موشے دایان سے کہہ دیا کہ عربوں کے حقوق کی بازیابی تک بھارت ، اسرائیل کے ساتھ تعاون اور سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ 80 کے عشرے میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت پر پاکستان کو اسلام کے نام پر عربوں کی امداد پاتے دیکھ کر بھی اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی، لیکن عربوں کو خبردار کیا کہ افغانستان میں مقدس جنگ کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس سے بالآخر جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے خطے عدم استحکام کا شکار ہو جائیں گے ۔
جنوری 1992 میں بھارت نے اسرائیل سے’’ سفارتی تعلقات‘‘ قائم کیے تو پاکستان کے مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ بھارت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سوویت یونین کی طاقت پارہ پارہ ہو چکی ہے اور دنیا میں unipolar system رائج ہو چکا ہے ، فوراً اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اور ایک تو براہ راست امریکہ سے قربت کی پینگیں بڑھائیں اور دوسرا اسے خوش کرنے کے لیے ( اور امریکہ میں یہودی لابی کے بے پناہ اثرات دیکھتے ہوئے ) اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔ غالباً بھارتی پالیسی سازوں نے بھانپ لیا تھا کہ عرب اسرائیل کشمکش مفاہمت کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ہی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اوسلو معاہدہ ہو گیا۔بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں عربوں نے بھی بالواسطہ اہم کردار ادا کیا ۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد ایسے عرب مجاہدین جو افغانستان میں تھے ، پاکستان کے کشمیر کازکی حمایت میں کشمیر چلے آئے ۔ اب بھارت کے سامنے واضح راستہ تھا کہ ایک تو سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے، دوسرے عرب مجاہدین پاکستان کی حمایت میں باقاعدہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس لیے آپشن صرف ایک ہی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کیے جائیں تاکہ جنوبی ایشیا میں عرب فیکٹر کو بیلنس کیا جا سکے۔بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پالیسی کو پاکستان کی سفارتی ناکامی پر محمول کیا ۔1998 میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے سے بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی آئی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل نواز بھارتی پالیسی کے باوجود مشرقِ وسطی میں بھارتی مفادات پر کوئی ضرب نہیں لگی ۔ غالباً اس کی وجہ عربوں کی داخلی سیاست میں مسئلہ فلسطین کی مسلسل زوال پذیر اہمیت ہے ۔ 2000 میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے پر بھارت کی بائیں بازو کی جماعتوں نے اسرائیل نواز بھارتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ، تل ابیب سے سفیر واپس بلانے کا مطالبہ کیا اور اسرائیلی سفیر کو بھارت سے نکالنے کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالا۔ اسرائیل مخالف ، کمیونسٹوں کی آواز پر کان نہیں دھرا جا رہا ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بھارت نے اپنے تزویراتی مفادات( Strategic Interests ) اسرائیل سے وابستہ کر لیے ہیں ۔ ستمبر 2003 میں شیرون نے بھارت کا متنازعہ دورہ کیا تو عالمی سطح پر ہلچل مچ گئی ۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کی آخری رسومات میں بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ اور کانگرس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کی عدم موجودگی کو اسرائیل کی طرف بھارت کے واضح جھکاؤ پر محمول کیا گیا۔ یاسر عرفات کی وفات سے صرف اسرائیل عرب تعلقات میں ہی تبدیلی نہیںآئی بلکہ فلسطینیوں اور عربوں کے تعلقات بھی از سرِ نو ترتیب پا رہے ہیں ، جس سے بھارتی حکومت کو اسرائیل سے دوطرفہ تعلقات قائم کرنے میں مزید سہولت مل گئی ہے ۔ 2004 میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان Phalcon spy planes کی فراہمی کا معاہدہ ہوا ، جسے پاکستان نے روکنے کی ناکام کوشش کی۔ یہ معاہدہ اس اعتبار سے بھی اہم تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کو انہی طیاروں کی چین کو فراہمی سے روک دیا تھا ۔ اس تناظر میں مبصرین نے بھارت اسرائیل اور امریکہ کو عالمی سیاست میں ایک نئی ٹرائیکا قرار دیا ۔ بھارت اس وقت اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اسرائیل کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ بھی ۔ ان کے مابین اسلحہ ڈیل 2.8 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے ۔ دونوں ممالک انٹیلی جینس معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ اسرائیل کے دفاعی ماہرین نے بھارتی سیکورٹی فورسز کی تربیت بھی کی ہے جو پاکستان کے خلاف کشمیر میں نبرد آزما ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ، کشمیر میں بھارتی پوزیشن کی پوری حمایت کرتا ہے ، جبکہ پاکستان کشمیر کو ہی بھارت کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ ہاں، اگر پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی پر بھی یو ٹرن لے لیا ہے تو پاک اسرائیل تعلقات میں معنویت بآسانی تلاش کی جا سکتی ہے ۔
پاک / اسرائیل تعلقات میں مذہبی سوال
بعض حلقے اسرائیل / پاکستان روابط کو مذہبی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسرائیل سے رابطے قائم کرنا مذہبیات کے خلاف ہے۔ ایسے حلقے قرآن مجید کی کچھ آیات اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً:
’’ اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے خلاف اللہ کو کھلا ثبوت دے دو؟ ‘‘ ( النساء : ۱۴۴)
’’ اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ۔ وہ ( آپس میں ) ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور جو کوئی تم میں سے ان کو دوست بنائے گا، وہ بلا شبہ انھیں میں سے ہو جائے گا ۔ بلاشبہ اللہ ظالم لوگوں کی راہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘ ( المائدہ : ۵۱)
ہم گزارش کریں گے کہ قرآن مجید کی ایسی تمام آیات میں خدائی منشا بہت واضح ہے ، لیکن ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایک تو ان آیات میں کفاراور یہود و نصاریٰ کو ’’ دوست ‘‘ بنانے سے منع کیا گیا ہے اور دوسرا وہ بھی ایسی دوستی جو مسلمانوں کے خلاف ہو ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے رابطے قائم کرنے میں ’’ دوستی ‘‘ کا عنصر شامل نہیں ہے اور یہ رابطے مسلمانوں کے خلاف ہر گز نہیں ہیں کیونکہ مسلم دنیا کے اسرائیل کے ساتھ پہلے سے روابط قائم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل کے ساتھ روابط کا تعلق عقیدے یا ایمانیات سے نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں خارجہ پالیسی کی مابعد الطبیعات میں پیوست ہیں۔
اسرائیل کئی برسوں سے پاکستان کے ساتھ روابط کا خواہاں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اب تک اس وجہ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے کہ اسرائیل نے عربوں کے بہت سے علاقے ہتھیا رکھے ہیں، اور چونکہ یہ صورت حال آج بھی برقرار ہے، اس لیے ایک غاصب کی طرف سے تعلقات کی پیش کش کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ہم عرض کریں گے کہ بین الاقوامی سیاسی تعلقات کی اصل بنیاد اس طرح کے اخلاقی اصولوں پر نہیں ہوتی، بلکہ ان کا حوالہ کسی سیاسی پالیسی کو محض اضافی جواز فراہم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ خالصتاً خارجہ پالیسی کا داؤ پیچ تھا تاکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکے ۔ اب اگر معروضی حالات نئے داؤ پیچ کے متقاضی ہیں تو ہم اس سے محترز نہیں ہو سکتے۔
پاکستان / اسرائیل روابط کے سلسلے میں مذہبی سوال اٹھاتے وقت ہمیں یہ تاریخی حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خود عربوں نے، بشمول فلسطینیوں کے، اپنے ’’ قومی حقوق ‘‘ پانے کے لیے ترکوں کی مخالفت میں اسلامی پہلو کا لحاظ نہیں رکھا تھا اور انگریزوں کا ساتھ دیاتھا ۔عربوں کے اسی کردار کی وجہ سے اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور عرب / اسرائیل مسئلہ پیدا ہوا ۔ یہ عرب ہی ہیں جنھوں نے اسلامی دنیا کی وحدت کی علامت ’’ خلافت ‘‘ کے ادارے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ آج عرب اور فلسطینی اپنے حقوق کے حصول کے لیے اسی ’’ وحدت ‘‘ کو تلاش کر رہے ہیں ۔ آج اگر مسلم دنیا عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ ’’ قومی مسائل ‘‘ ہیں جن سے مسلم ریاستیں بر سر پیکار ہیں ۔
حاصل مطالعہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل ، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے ۔ تمام عرب مقبوضات کے پیشِ نظر ، غزہ سے اس کاانخلا اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے ۔ لیکن مسئلہ فلسطین کا اونٹ آخر کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے ۔ آج اسے جس کروٹ بٹھایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ اسرائیل کے مفاد میں ہے لیکن اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ 1948-49 میں اگر واقعیت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا اور اسرائیل کو تسلیم کر لیا جاتا تو یروشلم ، مغربی کنارے کا علاقہ اور غزہ کی پٹی بدستور فلسطین کے قبضے میں ہوتے ۔ ان علاقوں کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے کئی سالوں سے جو جدوجہد ہو رہی ہے، اس کی نوبت ہی نہ آتی ۔ 1948 سے لے کر اب تک اگر اسرائیلی ریاست قائم ہے اور اس کی قوت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیل کو کارنر کرنے کی ہماری پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کا قیام عالمی طاقتوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے اور اس کی بقا اور قوت کے پیچھے بھی وہی طاقتیں کارفرماہیں ۔ ایک محدود آبادی والے چھوٹے سے ملک کو ساری مسلم دنیا مل کر بھی ہڑپ کیوں نہ کر سکی ؟ کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور ریاستوں سے بھی ہمیں نبرد آزما ہو نا ہے۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہتھیاروں کی اپنی سپلائی لائن کے ساتھ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکیں؟ ہم اکثر اوقات دیکھتے ہیں کہ کوئی چڑیا دانہ ڈالے جانے پر فوراً ہی اس پر نہیں جھپٹتی۔ وہ شروع میں بہت محتاط انداز میں دانوں کی طرف بڑھتی ہے ۔ دانہ چگنے کے دوران یہ احساس ہو جانے کے باوجود کہ اب سر پر کوئی خطرہ نہیں ، وہ غافل نہیں ہوتی اور ادھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ سے اسرائیلی انخلا کا دانہ چگنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہم غافل نہ ہوں۔عسکریت کی ایک اپنی کیمسٹری ہوتی ہے اور خارجہ پالیسی کی اپنی ایک ما بعد الطبیعیات ہے اور وہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔ ہمیں اسی کی پیروی کرنی چاہیے ۔
1990کی دہائی میں صورتِ حال 1948-49 والی تھی ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی دوقطبی نظام ختم ہوگیا اور یک قطبی نظام ابھر کر سامنے آیا۔ بھارت نے فوراً اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اور سوویت یونین کی زندگی میں اس کی وفادار ی کا دم بھرتے ہوئے اس سے مفاد اٹھانے والا اس کے خاتمے سے بھی فوائد سمیٹ گیا۔ یہی خارجہ سیاست کا بنیادی اصول ہے ۔ شخصی اخلاقیات، قومی معاملات میں پوری طرح لاگو نہیں کی جاسکتی۔ کوئی شخص نقصان اٹھا کر بھی اپنے دوست کا وفادار رہ سکتا ہے، لیکن ریاست کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔ آج پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے جو بحث ہو رہی ہے، ہماری رائے میں اس کا آغاز سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد ہو جانا چاہیے تھا ۔ ہمیشہ کی طرح ہم اس بار بھی واقعات کی رفتار سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایران جیسے ملک نے بھی، جس کے بھارت کے ساتھ گہرے مراسم ہیں اور وہ اسرائیل کے شدید خلاف ہے ، بھارت / اسرائیل گٹھ جوڑ پر بھار ت سے احتجاج نہیں کیا۔ عالمی اور علاقائی سیاست میں تبدیلی آنے کے بعد بھارت کے یہ انداز و اطوار ایران کے لیے قابلِ فہم ہو گئے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ درحقیقت ایران نے بھی اسرائیلی ریاست کے بارے میں پہلے کے سے رومانوی رویے کے بجائے ٹھوس حقائق کی روشنی میں معتدل راہ اپنائی ہے ۔ یقیناً امریکہ ، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل ٹرائیکا کے تینوں ممالک سے بگاڑ رکھنا ایران کے مفادمیں نہیں تھا ۔ اندریں صورت بھارت پر ایرانی دباؤ ایران کے مفادات کے خلاف ہوتا۔ ایران کا یہ کہنا کہ روس، چین اور پاکستان مشترکہ کوشش سے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کو ٹریک پر لا سکتے ہیں، کچھ ایسا بھی غلط نہیں تھا، لیکن روس اور چین کے بدلتے ہوئے موقف کے باعث ایران کی توقعات نہیں ہوئیں اور بھارت نے تو ایٹمی تنازع پر واضح طور پر امریکا کی حمایت میں ایران کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اس کے باوجود ایران بھارت مراسم تناؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ بھارت کے ائر چیف مارشل ایس پی تائیگی کے مطابق اس سال نومبر میں بھارتی فضائیہ امریکی فضائیہ کے ساتھ ’’ مقبوضہ کشمیر ‘‘ میں مشترکہ فضائی مشقیں کرے گی ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہی برطانوی فضائیہ کے ساتھ مشترکہ مشقیں نئے سال کے شروع میں ہوں گی ۔ بھارت / امریکہ دفاعی و ایٹمی معاہدہ ہو چکا ہے ۔اگست میں روس / چین جنگی مشقیں ہوئیں ۔ یورپی یونین میں داخلی کشمکش اور Old Europe, New Europe کی بحث نے امریکہ کے لیے ممکن بنایا ہے کہ وہ یورپی یونین کو علاقائی طاقت کے طور پر ابھرنے سے روک سکے ۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن اس مختصر سے تعارف سے عالمی سیاست کی نئی صف بندی کے متوقع خط و خال نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یک قطبی نظام (Unipolar System)م یں ضعف کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں ۔ امریکی قیادت کی دھول بیٹھنی شروع ہو گئی ہے اور Power Vacuum کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں ۔ ایک طویل المیعاد کثیر قطبی نظام ( Multipolar System ) ظہور پذیر ہے ۔ اس نظام میں یورپی یونین ، رشین فیڈریشن ، امریکی فیڈریشن کی نئی ہیئت، بھارت اور چین طاقت کے مختلف منطقوں کی نشاندہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہمارے لیے ایک پیغام موجود ہے ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ امن معاہدے امن قائم نہیں کرتے ، اگرچہ وہ اس بات کی علامت ضرور ہوتے ہیں کہ ’’فی الحال ‘‘ امن قائم ہو گیا ہے۔ روسیوں کی ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ ’دائمی امن صرف اگلے برس تک ہی قائم رہتا ہے‘۔ ایک اندازے کے مطابق 1500 قبل مسیح اور 1860 کے درمیانی عرصہ میں امن کے 8000 معاہدے ہوئے ۔ ہر معاہدے کو ہمیشہ کے لیے نافذ اور دائمی امن کا ضامن تصور کیا گیا ، لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ معاہدے اوسطاً دو برس سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکے۔موجودہ عہد کی معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب Holy War میں لکھتی ہیں کہ:
’’جب صدر جمی کارٹر ، وزیرِ اعظم میناحم بیجن اور صدر انور سادات نے 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے تھے تو ہم میں سے بیشتر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ عرب اسرائیل مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ تاہم اب ہمیں ادراک ہو گیا ہے کہ ہم غلطی پر تھے۔ ۔۔۔۔یہ مسئلہ عام علاقائی معاہدوں سے حل نہیں ہو سکتا ، اس میں بہت گہرے مذہبی جذبات ملوث ہیں جنہوں نے ایک ملک میں مل جل کر رہنے کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔۔۔۔‘‘
اگر اوپر کی سطریں قارئین کے ذہن میں تازہ ہیں تو وہ یقیناًنہیں بُھولے ہوں گے کہ عربوں کے تین مشہور ’’ نہیں ‘‘ اوراسرائیلی تہیہ پارٹی کے تین اصول دو انتہاؤں کے غماز ہیں۔ایسی تشویش ناک صورتِ حال میں امن کے عارضی معاہدے بھی آس کی کرن بن کر کسی نہ کسی راستے کی نشاندہی ضرور کرتے رہتے ہیں ۔ ہمیں ایسی کرنوں کی قدر کرنی چاہیے ۔
ایک اندازے کے مطابق 1500 قبل مسیح اور 1860 کے درمیان معلوم دنیا میں جنگ اور امن کے برسوں کی شرح 1:13 رہی ، یعنی جنگ کے تیرہ برسوں کے مقابلے میں امن کا صرف ایک سال ۔ 1820 اور 1970 کے درمیان دنیا کی بڑی اقوام ہر بیس سال میں اوسطاً ایک مرتبہ جنگ میں ملوث ہوئیں ، یعنی فی پشت ایک بار ۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کر لینا چاہیے کہ دنیا میں دائمی امن کبھی قائم نہیں گا ۔ ایسی امید صرف اسی وقت کی جا سکتی ہے جب سائنس موت کو شکست دینے کے قابل ہو جائے۔ موت میں تاخیر ایک الگ بات ہے اور موت کی موت ایک بالکل جداگانہ تصور ہے ۔ اگر سائنس موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس نے زندگی کے اسرار و رموز تک رسائی پا لی ہے ۔ پھر ان اسرار و رموز کی شناسائی کے طفیل ہی وہ انسانی نفسیات میں بنیادی تبدیلی لا کر انسانی زندگی میں جنگ کے عنصر کو مکمل طور پر ختم کر سکے گی ۔ ہم یہ کہہ کر ’’ انسان دوست ‘‘ سیکولر حلقوں کو پھبتی کسنے کا موقع نہیں دینا چاہتے کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے ۔ ہم تو ان سے درخواست کریں گے کہ وہ ’’انسان دوستی ‘‘ کے نام پر اپنے انسانیت سوز تجربات جاری رکھیں کہ بقول شخصے ہر چیز کی انتہاسے اس کی نفی ہو جاتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موت کی موت کے لیے زندگی پر قابو پانا پہلی شرط ہے ۔ ہمیں اپنی محدود زندگی پر کتناقابو حاصل ہے، یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر لامحدود زندگی پانے کے بعد ہمارا اس پر کتنا کنٹرول ہو گا ، یہ ہمیں ضرور سوچنا چاہیے ۔ لا محدود زندگی کی لاحاصل تگ و دو کرنے کے بجائے اگر ہم اپنی محدود زندگی پر ہی کنٹرول حاصل کرنا سیکھ لیں تو دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے، اگرچہ دائمی نہ سہی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امن کی عمر غالب فریق کے اخلاقی رویے پر منحصر ہوتی ہے ۔ اگر دنیا میں امن کی مدت قلیل رہی ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ غالب فریق اکثر اوقات غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اسرائیلیوں اور دیگر سامراجی قوتوں کے پاس عسکری و اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود ایسی اخلاقی قوت کی انتہائی کمی ہے جو دیرپا امن کی ضامن بن سکے ۔وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب اسرائیل خود ہی موجودہ امن روڈ میپ کی دھجیاں بکھیر دے گا ۔ غالب قوتوں کا اخلاقی انحطاط ہمیں بارہا ایسے مواقع فراہم کرے گا کہ ہم ٹیبل کے بجائے میدان کا رخ اختیار کریں ۔ ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہے ۔ اگر ہم مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے تو ہمیں غالب آنے کے لوازمات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ، اپنی زندگیوں میں ان اخلاقی معیارات کی بازیابی کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے جو عالمی امن کی پائیداری کے حقیقی ضامن ثابت ہو سکتے ہیں ۔
جہاں تک اسلامی حمیت کا تعلق ہے ، یہ تحت الشعوری کیفیت ہے جو ہمیں شعوری سطح پر مضطرب رکھتی ہے ۔ہمیں اس کا علاج کرنا چاہیے ۔ ہم تاریخی ناولوں کی خیالی دنیاؤں میں رہتے ہیں جن میں گھوڑوں کی ٹاپیں ہیں ، شمشیروں کی جھنکاریں ہیں اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے ۔ یہ ’’فقط اللہ ہو اللہ ہو‘‘ والی کیفیت ہے ۔ شاید ہم لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے تصور کرنے سے ہی فتوحات حاصل ہو جائیں گی اور دودھ کی نہریں بہنی شروع ہو جائیں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم (نعوذ باللہ ) خدا ہیں کہ کہا ہو جا اور ہو گیا؟ کیا ہم ان تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے اس تگ و دو کے پابند نہیں ہیں جو رب العزت نے انسانوں کے لیے مقدر کر رکھی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی مادی تیاری کے صرف ایک ذہنی کیفیت کے زیرِ اثر کوئی ہاری ہوئی لڑائی لڑنا اور مسیحی اخلاقیات کے مطابق تھپڑ مارنے والے کو دوسرارخسار پیش کرنا ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
اس وقت موجودہ عالمی سیاق و سباق میں اسرائیل سے رابطے قائم کرنا بحث طلب نہیں ہے ۔ اس سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ روابط قائم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ایشو پر قومی بحث و مباحثہ کرانے کے بجائے جس طرح آمرانہ انداز میں پیش رفت کی ہے، اس سے تحفظات جنم لیتے ہیں ۔ نماز کی بے وضو ادائیگی کے بعد وضو کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حساس معاملات ، جن کی بابت قوم حد سے زیادہ جذباتی ہو ، ان سے متعلق عوام سے بالاتر ہو کر آمرانہ فیصلے کرنے سے خارجی حقائق کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی قومی نفسیات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔
جنرل پرویز مشرف نے جیوش نیشنل کانگرس سے اپنے خطاب میں دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے جرات اور مصالحت کی طرف رجوع کرنے کی بات کی ہے ۔ ہم جنرل صاحب سے یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ ایک دہشت گردی 12 اکتوبر 1999 کو بھی ہوئی تھی ، انھیں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بھی سختی سے ختم کر دینا چاہیے ۔ اسی طرح دو مقبول جماعتوں کے قائدین اور سابق وزراے اعظم کو ملک سے باہر رکھ کر ’’ انتہا پسندی ‘‘ سے کام لیا رہا ہے۔ جنرل صاحب کو ’’مصالحت ‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے انھیں ملک میں آنے اور آزادانہ الیکشن میں حصہ لینے کا موقع دینا چاہیے تاکہ پاکستانی قوم اپنے ’’ قومی مسائل ‘‘ حل کرنے کے قابل ہو سکے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر جنرل صاحب اپنے ہی بتائے ہوئے اصولوں ’’ جرات اور مصالحت ‘‘ کو اپنی شخصی سطح پر بھی نافذ کرنے سے قاصر ہیں تو وہ اسرائیلیوں سے ان اصولوں کی پیروی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب بے نظیر اور نواز شریف ہیں ، ہم سب جنرل پرویز مشرف ہیں ، ہم سب بھٹو اور ضیا ہیں ۔ ہم سب اپنے اپنے سچ کے دائروں میں قید ہیں ۔ ہم سب دوہرے انسان ہیں ، منتشر ہیں ، بٹے ہوئے ہیں۔ ہاں ! ہم سب اکائی سے محروم ہیں۔