(۲۷ اگست ۲۰۰۵ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں خصوصی تربیتی کورس کی تکمیل کے موقع مولانا زاہد الراشدی نے حاضرین سے مختصر خطاب کیا جس کا خلاصہ در ج ذیل ہے۔ مدیر)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد!
حاضرین کرام! یہ میرے ایک بہت پرانے خواب کی تعبیر کا آغاز ہے جو آج آپ موجودہ شکل میں الشریعہ اکادمی میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک مدت سے میں یہ سوچ رہا تھا کہ درس نظامی کے فضلا کے لیے کسی ایسے کورس اور تربیت گاہ کا اہتمام ہونا چاہیے جس میں انھیں دور حاضر کے تقاضوں اور ضروریات سے آگاہ کیا جائے اور اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اس دور کے لوگوں کی نفسیات اور ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے ان کے سامنے دین کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔ آج مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس سمت میں سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک زمانے میں یہ بات کی تھی کہ جس طرح اصحاب کہف حالات کے جبر سے بے بس ہو کر اپنا ایمان بچانے کے لیے غار میں گھس گئے تھے اور اپنے ایمان کا تحفظ کیا تھا، اسی طرح ہمارے اساتذہ نے بھی حالات کے جبر کو بھانپتے ہوئے ہمیں مدارس کی غاروں میں داخل کر دیا ہے۔ اصحاب کہف جب تین صدیوں کے بعد غار سے نکلے تھے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ زبان بدل چکی تھی، سکہ تبدیل ہو چکا تھا اور حالات انقلابات کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح جب ہم ان مدارس کی غاروں سے نکل کر سوسائٹی میں آتے ہیں تو ہمیں بھی سب کچھ بدلا ہوا ملتا ہے۔ سوسائٹی کی عام زبان ہمارے لیے نامانوس ہوتی ہے اور ہمارا سکہ آج کے دور میں مارکیٹ میں قبول نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ہم اپنی ہی سوسائٹی کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کی بیان کردہ یہ تمثیل ہمارے موجودہ ماحول اور معاشرتی تناظر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے خاصا کام دیتی ہے اور الشریعہ اکادمی کا بنیادی مقصد اسی اجنبیت کو کم کرنا اور دینی مدارس کے فضلا کو معاشرے کے عمومی ماحول سے باخبر اور مانوس کرنا ہے تاکہ وہ لوگوں کی زبان، نفسیات اور ذہنی سطح کا ادراک کرتے ہوئے ان کے سامنے دینی تعلیمات کو پیش کر سکیں۔ ہمارا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ دینی مدارس آج کے عالمی ماحول سے واقف ہوں، اپنے معاصر مذاہب اور فکری وعلمی تحریکات سے آگاہ ہو ں اور علمی وفکری کام کرنے والوں کے طریق کار اور ہتھیاروں سے باخبر ہوں۔ آج دنیا کے عالمی ماحول سے بے خبر یا لا تعلق رہ کر کوئی دینی، علمی یا فکری تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دین کی بات کرنے والے کی بات اس قدر عام فہم اور باعث کشش ہو کہ اس کی بات ہر جگہ توجہ سے سنی جائے اور اس پر غور کیا جائے کیونکہ کوئی بات کتنی ہی سچی اور حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو، اگر اس میں کشش نہیں ہوگی تو وہ قابل توجہ نہیں سمجھی جائے گی۔ غالباً مولانا روم کی بیان کردہ کہاوتوں میں ذکر ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ سفر پر جا رہا تھا۔ ان میں ایک صاحب کو اذان دینے کا بہت شوق تھا، مگر آواز اس قدر مکروہ تھی کہ سننے والے آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے تھے۔ ایک جگہ وہ غیر مسلموں کی بستی کے پاس سے گزرے۔ وہاں نماز کے لیے ٹھہرے اور ان صاحب نے بڑے شوق کے ساتھ اذان دی، مگر جب نماز سے فارغ ہوئے تو بستی سے ایک غیر مسلم مٹھائی کا ٹوکرا اٹھائے ہوئے ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ وہ اذان دینے والے بزرگ کون ہیں؟ میں یہ مٹھائی ان کے لیے لایا ہوں۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آخر کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ میری ایک جوان لڑکی ہے جو کچھ دنوں سے اسلام کی طرف مائل نظر آ رہی تھی اور ہم اسے سمجھا بجھا کر اسلام قبول کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہماری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ آج آپ حضرات کا قافلہ آیا تو میری بیٹی پھر بے تاب ہو نے لگی۔ اتنے میں اس موذن نے اذان دی تو اس کی آواز سن کر میری بیٹی کا ارادہ بدل گیا ہے۔ اس خوشی میں مٹھائی کا یہ ٹوکرا لایا ہوں اور شکرانے کے طور پر موذن صاحب کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ہم اس بات کے دعوے دار نہیں ہیں کہ ہم جو کچھ درس نظامی کے فضلا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، وہ انھیں ایک سال کے اس عرصے میں دے دیتے ہیں اور نہ یہ بات ممکن ہے۔ البتہ ہمیں اس قدر اطمینان ضرور حاصل ہے کہ ہم ان کے دلوں میں ان ضروریات کا احساس اجاگر کر دیتے ہیں اور اس خلا کو پورا کرنے کے راستوں کی طرف نشان دہی کر دیتے ہیں جس سے اس سمت میں ان کا اگلا سفر قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
ہم اس مشن کے لیے آپ حضرات سے تعاون کے خواست گار بھی ہیں، راہ نمائی اور تجاویز کے طلب گار بھی ہیں اور خصوصی دعاؤں اور توجہات کے متمنی بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص اور محنت کے ساتھ پیش رفت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین