نومبر ۲۰۰۵ء

متاثرین زلزلہ اور ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داری

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان میں ۸؍اکتوبر کو جو خوف ناک زلزلہ آیا ہے اور جس کے جھٹکوں کا تسلسل ابھی تک جاری ہے، اس کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا کو ملول اور افسردہ خاطر کر دیا ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کی بہی خواہ اقوام زلزلہ سے متاثر ہونے والوں تک پہنچنے اور باقی بچ جانے والوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے امدادی سرگرمیوں میں مسلسل مصروف ہیں۔ پاکستانی فوج اور دیگر سرکاری ادارے سرگرم عمل ہیں جبکہ ان کے ساتھ دینی، سیاسی وسماجی تنظیمیں اور عوام کے مختلف گروپ بھی امدادی کاموں میں شریک ہیں مگر ابھی تک نہ تو زلزلہ میں ہونے والے جانی نقصانات کا صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکا...

اسلام، مسلمان اور مغربی ذرائع ابلاغ

― ایم جے اکبر

اسلام اور مسلمانوں، خاص طور پر توانائی کی دولت رکھنے والے مسلم ممالک پر ایک زبردست فکری یلغار جاری ہے۔ پراپیگنڈے کی ایک آندھی ہے جس میں الزامات بڑی شاطرانہ مہارت سے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ الزامات عوامی ذرائع ابلاغ کے واسطے سے بری طرح پھیلائے جا رہے ہیں۔ ان الزامات کا جواب حقائق کی وضاحت اور عقل وحکمت کے ساتھ دیا جانا ضروری ہے۔ اس بحث میں ہم کو اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ہم خود سپردگی کی حد تک جھک کر دفاعی انداز اختیار کرنے لگتے ہیں، یا عقل وہوش کھو کر رد عمل اور جوش کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں، لیکن ہمیں جان لینا ہوگا کہ ہمارے لیے ان دونوں...

قرآنی متن کے حوالے سے مستشرقین کا زاویہ نگاہ

― محمد فیروز الدین شاہ کھگہ

جب ہم قرآنی متن کی تحقیق وتوثیق کے حوالے سے مستشرقین کے علمی کام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت وحی کی اصل روح کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات میں ان کے پہلے سے طے شدہ مقاصد کارفرماہوں یا اسلام کے مصادر کا حقیقی فہم حاصل کرنے کی عدمِ صلاحیت، بہرحال ان کی تحقیقی نگارشات میں دیانت دارانہ رویوں کے برعکس مصادرِ اسلامیہ کو مشکوک قرار دینے کے جذبات کا عکس نظر آتا ہے۔ مستشرقین کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی کیا حیثیت اور قدرو قعت ہے، اور جب تک یہ کتاب روئے زمین پر رہے گی، فوزوفلا ح کے راستے...

فروعی مسائل میں سہولت و رخصت کا فقہی اصول

― ادارہ

(۱) (مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے نام مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کے ایک خط سے اقتباس) تدوین فقہ پر کام شروع کر دیا گیا تھا۔ ۱۰۰ صفحات سے زیادہ جامعہ عثمانیہ کے ریسرچ جرنل میں شائع بھی ہو چکا تھا۔ اگرچہ اس کی حیثیت بالکل مقدمہ کتاب کی تھی، تاہم لوگوں نے پسند کیا تھا۔ مولانا مودودی صاحب کے غیر مشہور ایک بڑ ے بھائی ابو الخیر مودودی صاحب سے شاید آپ واقف ہوں۔ انھوں نے اس مقدمہ کو چھاپنے کے لیے لاہور سے طلب کیا تھا۔ فقیر نے روانہ کر دیا، لیکن پھر کچھ پتہ نہ چلا کہ کتاب کیا ہوئی۔ آپ جانتے ہوں یا جان سکتے ہوں تو اپنے کچھ لاہوری یا پنجابی عقیدت مند سے...

مِتھ کی بحث پر ایک نظر

― پروفیسر میاں انعام الرحمن

محترمہ شاہدہ قاضی ، جو جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ، ان کا روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والا ایک مضمون نہایت دلکش ترجمے کی صورت میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مئی ۲۰۰۵ کے شمارے کی زینت بنا۔ یہ مضمون مجموعی طور پر بہت عمدہ اور مضبوط دلائل پر مشتمل تھا ۔ محترمہ کے پیش کردہ بعض تاریخی حقائق میں ’افسانوی رنگ‘ ڈھونڈنے کی ’جسارت‘ روزنامہ ’جسارت‘ کے کالم نگار جناب شاہ نواز فاروقی نے کی۔ ’الشریعہ‘ نے بحث کے مختلف، متنوع اور متضاد پہلوؤں کو سامنے لانے کی درخشندہ روایت برقرار رکھی اور ’جسارت‘ کی جسارت کو جولائی...

انسان کا حیاتیاتی ارتقا: نظریہ یا حقیقت؟

― پروفیسر محمد عمران

سائنسی اصطلاح میں ارتقا ایک ایسا عمل ہے جس میں موجودہ دور کے پودے اور جانور ماضی کی اقسام سے، مختلف اور بتدریج تبدیلیوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ ارتقا کے بارے میں مختلف لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں، لیکن عام طور پر ڈارvن کے نظریہ ارتقا کو زیادہ پزیرائی ملی ہے۔ ارتقا کے تصور کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان نظریات پر بھی ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ یونانی فلسفیوں میں سے جن لوگوں نے شروع میں ارتقا کے نظریات پیش کیے، ان میں انیکسی مینڈر، زینو فینز، ایمیڈوکلس اور ارسطو نمایاں ہیں۔ انیکسی مینڈر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان ایک مچھلی...

مکاتیب

― ادارہ

(۱) مکرمی مدیر صاحب الشریعہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی! تازہ شمارہ (اکتوبر ۲۰۰۵ء) ایک روز کی تاخیر سے ملا۔ باقی دوستوں کے ہاں دیکھا تو گمان ہوا کہ اس بار ترسیل سے رہ گیا ہے مگر ایک روز بعد ملنے پر میرا گمان غلط ثابت ہوا۔ شمارہ ملا تو میں بہت ہی مخدوش اور مخبوط صورت حال میں تھا۔ نوید انور نوید کی بے وقت موت، پھر مرحوم کے ساتھ رفاقت کے ماہ و سال اور اس دوران ان کے ساتھ ربط و تعلق کی اونچ نیچ ذہن پر چھا گئی۔ مصروفیات کے تمام بندھن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ مرحوم کا طویل کیریر ذہن کی سکرین پر فلم کی طرح رواں ہو گیا۔ مسجد نور کی تحریک خاص طور پر مرحوم کی...

افتخار عارف کی شاعری

― پروفیسر شیخ عبد الرشید

اردو شاعری کی ارتقائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید اردو شاعری کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی سے ہوا جسے اقبال اور فیض نے بام عروج تک پہنچایا۔ جہاں تک جدید نظم کے ابتدائی سفر، عہد وسطیٰ اور عہد حاضر کا تعلق ہے تو ان تمام سفری مراحل کی منزلیں ن۔ م۔ راشد کے نام پر آ کر رک جاتی ہیں۔ انھوں نے اس صنف کے ضمن میں ایسے تجربات کیے کہ جدید نظم ان کے نام سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ آج کی غزل میں غالب کے مروجہ افکار واسالیب اور ن۔ م۔ راشد کے متنوع اسالیب سے روشنی حاصل کی جا رہی ہے، تاہم تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی قدروں نے نظم اور غزل ہر دو کے مقاصد ومطالب...

اخبار و آثار

― ادارہ

...

تلاش

Flag Counter