(۱)
مکرمی مدیر صاحب الشریعہ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی!
تازہ شمارہ (اکتوبر ۲۰۰۵ء) ایک روز کی تاخیر سے ملا۔ باقی دوستوں کے ہاں دیکھا تو گمان ہوا کہ اس بار ترسیل سے رہ گیا ہے مگر ایک روز بعد ملنے پر میرا گمان غلط ثابت ہوا ۔
شمارہ ملا تو میں بہت ہی مخدوش اور مخبوط صورت حال میں تھا۔ نوید انور نوید کی بے وقت موت، پھر مرحوم کے ساتھ رفاقت کے ماہ و سال اور اس دوران ان کے ساتھ ربط و تعلق کی اونچ نیچ ذہن پر چھا گئی۔ مصروفیات کے تمام بندھن ٹوٹ پھوٹ گئے۔ مرحوم کا طویل کیریر ذہن کی سکرین پر فلم کی طرح رواں ہو گیا۔ مسجد نور کی تحریک خاص طور پر مرحوم کی ایجی ٹیشنل صلاحیت کا ابتدائی شاہکار تھی۔ اس وجہ سے مسجد نور کے ارباب علم نے ان کو ہمیشہ یاد رکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا سرفراز خان صفدر صاحب اپنے دروس کی ہر جلد مرحوم کو بطور خاص بھجواتے رہے۔ گوجرانوالہ کے اہل علم و دین کے اس اعتراف کے علاوہ شہر و سیاست دوراں میں مرحوم کو کہیں بھی نہ جگہ مل سکی اور نہ قرار ہی آیا۔ ان کی آخری پناہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ تھی۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ ہماری بار پر کچھ عرصہ سے عمومی سیاست سے دل شکستہ نوجوانوں کا قبضہ ہے۔ ان میں نوید صاحب سر فہرست تھے۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ بار کا سترہ بار انتخاب لڑا۔ پانچ بار سیکرٹری، تین بار صدر اور دو بار پنجاب بار کونسل کے رکن ہوئے۔ باقی بار ’’ہار‘‘ کے ہار گلے میں ڈالے۔ جنوری ۲۰۰۵ء کے سالانہ انتخابات میں انہوں نے آخری بار قسمت آزمائی کی۔ ان کی وفات بڑی مختصر علالت کے بعد زید ہسپتال میں ہوئی۔ بیمار تو بہت عرصہ سے تھے مگر بیماری کو کبھی اپنے ذہن پر سوار نہیں ہونے دیا۔ بیماری نے شدت اختیار کر لی تو وزن کافی کم ہو چکا تھا۔ گوشت جسم سے اتر چکا تھا۔ وہ صحیح معنوں میں زندہ لاشہ کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ آخری مرحلہ میں جب فاضل ہسپتال لائے گئے تو حالت یہ تھی کہ پیٹ سے خون کا بہاؤ بھی جاری تھا اور ساتھ ہی ڈرپ کے ذریعہ خون کی سپلائی کی رسم بھی ادا ہو رہی تھی، مگر خون جسم میں ٹھہرنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ چند گھنٹوں بعد لاہور ریفر کر دیا گیا جہاں جا کر رات بارہ بجے بے ہوش ہوئے۔ اس دم تک، بیماری کی اس حالت میں بھی ذہن پوری طرح توانا تھا اور وہ اپنی کچہری کی ذمہ داریوں سے با خبر رہنے کی کوشش میں رہے۔ پھر چند گھنٹے بعد سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ شعبان کی آخری تاریخ تھی اور نماز جنازہ میں وکلا اور ججوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ وکلا ساتھیوں نے واقعتا ان کو پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا۔ ہمارے ہاں بہت سینئر وکلا کے جنازے میں بھی اتنے وکلا کی شرکت بہت کم دیکھنے میں آئی ہے، جب کہ ان کا شمار بھی زیادہ سینئرز میں نہیں تھا۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں، مگر نمایاں ترین بات یہ ہے آٹھ سال ڈسٹرکٹ بار کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے کے باوجود بار فنڈز میں خیانت اور خرد برد میں خود ملوث ہوئے اور نہ کسی کو ہی اس کا کوئی موقع دیا۔ امانت داری کی روایت ان کے بعد دم توڑ چکی ہے۔ جنازے میں شریک ان کے کٹڑ مخالف بھی ان کی اس خوبی کا بر ملا اظہار کرتے رہے۔
بات ہو رہی تھی تازہ شمارے کی۔ درمیان میں نوید صاحب کا ذکر اس لیے آ گیا کہ ارباب ’الشریعہ‘ کے ساتھ مرحوم کا ایک تعلق خاطر رہا ہے۔ بہر حال شمارہ ملا تو طبیعت پڑھنے اور کام سے بیزار تھی مگر ایک دن کے انتظار کے بعد ملنے کی وجہ سے شمارہ دیکھنے کی بے چینی تھی۔ سرسری طور پردیکھا تو اس کی شاندار ترتیب دیکھ کر طبیعت بحال ہو گئی۔ مدیر صاحب کی مہارتِ ترتیب نے حیران کر دیا۔ کہتے ہیں تضادِ بیان حسن بلاغت کی انتہا ہے۔ اجتماع ضدین، جمع بین المشرقین، جدید و قدیم کا امتزاج، پھر اس میں توازن و اعتدال کے ٹچ۔ ذرا دیکھیے تو سہی، بھارت میں فقہائے اسلام کے اجتماع میں ٹی وی اور انٹر نیٹ جیسے ذرائع کے جوازو عدم جواز کی بحث، جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا سید مناظر احسن گیلانی صاحب کی تمثیل اور مولانا روم کی حکایت کا حوالہ، مسئلہ فلسطین پر میاں انعام الرحمن صاحب کا فاضلانہ اور متوازن تجزیہ، پھر اس میں سے ایک دو جملوں کو سر ورق پر چسپاں کر کے تو آپ نے کمال کر دیا ہے بلکہ کمال ڈھا دیا ہے۔ اس پر مستزاد سرسید کے بارے میں بحث کا تسلسل ہے۔ ادارت کا یہ کمال ہی تو ہے کہ شمارہ پڑھنے کے بعد لکھنے پر بھی مائل ہونا پڑا۔
تو جناب عرض یہ ہے کہ آپ نے تو اپنی مشاقیت کی تسکین کر لی مگر پڑھنے والا اگر سوچ میں غرق ہو گیا تو اس پر کیا گزرے گی۔ شاید آپ بھی غرق ہی کرنا چاہتے ہیں۔ صورت حال کی تصویر کشی تو حسب حال ہے، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ واضح سمت میں عملی سفر کے لیے رہنمائی کی جائے۔ اس بارے میں اشارے کنایے سے بات کچھ آگے جانی چاہیے۔ آپ تو نوجوان ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی نو جوان نہ سہی مگر جوان تو ہیں، طویل کیریر میں سیار الارض بھی ہیں۔ پھر ان کو بڑے بڑے اہل علم کی رفاقت بھی میسر رہی ہے، لہٰذا ان کو یہ منصب حاصل ہو گیا ہے کہ وہ بھر پور راہنمائی مہیا فرمائیں۔
فقہی مباحث اور فتاویٰ اپنا مقام رکھتے ہیں مگر عملی طور پر یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ انگریز کے دور سے چلے آنے والے تعلیمی اداروں سے نکلنے والوں میں ایسے لوگ بھی تو سامنے آئے ہیں جنہوں نے دنیا کے ہر فورم پر، جدید اسلوب اور زبان میں بات کرتے ہوئے دین کا موثر دفاع کیا ہے۔ در اصل علم، تعلیم اور ذرائع برے ہیں نہ اچھے، ان کا استعمال اچھا یا برا ہے۔ یہ فرد کے اختیار کی بات ہے۔ اس میں بھی اصل چیز یہ ہے کہ ذرائع کی فنی گہرائیوں سے واقفیت ہی نہیں بلکہ مہارت حاصل کر لی جائے تو اس کے منفی اور مثبت استعمال پر یکساں قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس مہارت کو چابک دستی سے کام لے کر اگر مثبت طور پر کام کیا جائے تو مقاصد کی سمت سفر میں پیش رفت کافی تیز ہو سکتی ہے۔
اس سلسلہ میں ایک حالیہ مثال بہت سبق آموز ہے۔ افغانستان کی جنگ میں تو گیارہ ستمبر کے ایک خود ساختہ و پرداختہ حادثے کی آڑ میں میڈیا کے زور پر پوری دنیا کے ذہنوں کو مفتوح کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر طالبان کی حکومت اپنی پوزیشن کا دفاع نہیں کر سکی، حالانکہ طالبان کی حکومت میں امن و سلامتی کی کیفیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے پر کہیں زیادہ اچھی تھی۔ یہی افغانستان جہاں آج بھی امن و سلامتی ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں، وہاں کیفیت یہ تھی کہ طالبان کی قید میں آنے والی خاتون صحافی ان کے حسن سلوک سے متاثر ہوئی۔ اس نے اس حسن سلوک کا پوری دنیا میں چرچا کیا۔ دین اسلام کا مطالعہ کیا اور اس کی حقانیت پر ایمان لے آئی۔ آج وہ اسلام کی مبلغہ بنی ہوئی ہے۔ طالبان کے پختہ حسن عمل نے اس کی ذہن کی کایا پلٹ دی اور اس نے میسر جدید ترین ذرائع سے اسلام کے پیغام کو پھیلانا شروع کر دیا۔ آزادی کے ٹھیکے دار اہل مغرب نے اس کی کتابوں کی اشاعت کو ممنوع قرار دے دیا۔
یہاں ایک پہلو قابل غور ہے۔ یورپ کا معاشرہ انفرادیت پسند ہے۔ وہاں چھوٹے سے چھوٹابچہ بھی جس بات کو درست سمجھ لے، اس کے اعلان میں ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کرتا۔ پھر اسے اپنے حالات میں اس کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے سے روکا نہیں جا سکتا، جیسے اوپر ذکر کردہ خاتون صحافی کی مثال ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کیفیت بالکل مختلف ہے۔ اہل علم کی مجالس میں مسائل کی ترجیحات کا افادی پہلوؤں سے کوئی تعین نہیں۔پھر ان پر غور کے لیے کھلے دل سے کام نہیں لیا جاتا۔ ہم اختلاف کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ بحث ہو بھی تو دلیل سے بات کرتے ہیں اور نہ دلیل سے دوسرے کی بات سنتے ہیں۔ پھر دلیل کتنی ہی سادہ اور قوی ہو، اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اپنے تعصبات کے اسیر ہیں۔ ایسے میں فکر و ندرت کہاں سے راہ پائے۔ بہر حال اس بارے میں مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے سات جولائی ۲۰۰۵ء کو لندن کے زیرِ زمین ریلوے میں دھماکوں کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ دھماکوں کے بارے میں جو سٹوری برطانیہ نے وضع کرکے پوری دنیا میں پھیلا دی تھی، اس کے مطابق دھماکوں کا تمام تر ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ایک شخص کی لاش کو لے کر اس کی سفری دستاویزات اکٹھی کی گئیں۔ پھر ان کی بنیاد پر پوری ایک داستان ترتیب دی گئی، حالانکہ وہ شخص زندہ تھا۔ اس نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ اے آر وائی کے ٹی وی چینل کے ذریعہ منظر عام پر آ گیا۔ ہفتے دو سے پھیلائی ہوئی داستان پوری دنیا کے اعصاب پر سوار تھی مگر اے آر وائی نے نصف گھنٹے کے اندر اندر پوری دنیا کی فضا کو صاف و شفاف کر دیا۔ اس شرمناک شکست پر برطانوی وزیر اعظم بلیئر صاحب ہاتھ ملتے رہ گئے، جبکہ ہمارے اپنے مبصرین برطانوی تفتیشی ایجنسیوں کی صلاحیتوں کی تعریف کے پل باندھنے میں مصروف تھے۔
اس کارنامے پر اے آر وائی کو خراج تحسین پیش کیا جانا ان کا حق ہے مگر ہمارے ہاں کے ’’دانشوروں ‘‘ کو اس کی عملی افادیت کو بلا تاخیر قلب و ذہن کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا چاہیے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ذرائع اچھے ہیں نہ برے۔ ان کی فنی باریکیوں پر کمانڈ حاصل کر لی جائے تو ان کے اچھے یا برے استعمال پر قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ قدرت اگر بر وقت حاصل کر کے اس کا بر موقع استعمال کیا جائے تو کامیابی آپ کے قدم، بڑھ کر چومے گی۔
حالیہ زلزلہ کے بعد میڈیا کے مثبت کردار کا انکار ایسے ہی ہے جیسے روز روشن کا انکار کیا جائے۔ حالات کے تناظر میں میڈیا نے لمحات میں پوری قوم میں روح و ایمان کی توانا لہر دوڑا دی ہے۔ کمپیئرنگ کرنے والے کوئی مسند ارشاد سے نہیں آئے۔ ان کےِ ’’کردار ‘‘ پر بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی بات دل سے نکلتی ہے اور گہرا اثر پیدا کر رہی ہے۔ زلزلہ کوئی خوشی کی بات نہیں، یقینابڑا اور سخت امتحان ہے۔ ہم کسی طرح امتحان و آزمایش کے لائق نہیں۔ آزمایش کا کوئی طالب نہیں ہو سکتا۔ ہزاروں میتیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ پچاس ہزار سے زائد خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی کی طرف سے آزمایش اور امتحان کا بھی کوئی قانون ہے یا نہیں۔ ان معصوموں کو کس بات کی سزا ملی ہے؟ میں سوچتا ہوں تو دل میں یہ خیال اٹھتا ہے کہ سالہا سال سے مقبوضہ کشمیر میں لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہیں، قبائلی علاقوں میں ہماری فوج ان مجاہدین کے خلاف نبرد آزما ہے جن کو پوری دنیا نے روسی جارحیت کے خلاف مجاہد تسلیم کیا۔ ان میں ایسے بھی تھے جو اپنی دولت و راحت کو چھوڑ کر افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں سرخ جارحیت کے خلاف ایک عشرہ تک بر سر جہاد رہے۔ ہماری مسلح افواج اور حکومت نے اس جہاد میں پورا حصہ لیا۔ مرحوم جنرل محمد ضیا ء الحق کو روس کا wrecker in cheif کا لقب عطا فرمایا گیا۔ (ہنری کسنجر) لیکن دنیا کے ضمیر نے یو ٹرن لیا۔ یہ مجاہد دہشت گرد قرار پا گئے۔ سر حد کے موجود حکمرانوں کو اس صورت حال کے خلاف ایک واضح مینڈیٹ ملا، مگر انہوں نے اس سے انحراف کیا اور بے حسی اختیار کر لی۔ ادھر آزاد کشمیر کی ریاست کے قیام کا تصور، آزادی کی جنگ کے بیس کیمپ کا ہے مگر سب کچھ پلٹ گیا۔ آخر قدرت کو کسی نہ کسی صورت میں اپنی تعزیریں نافذ کرنا ہوتی ہیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑی دہشت گرد مملکت اور اس کے دہشت گرد صدر بش کی قیادت میں جو کچھ ہوتا رہا، اس کی تائیدی گردان اب ہمیں بھول گئی ہے۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
لیکن کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
ہمیں اس مرحلے پر مجموعی طور پر اپنی کوتاہی اور غفلت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ یہ ایسا مرحلہ ہے کہ ہم تعمیر نو پر تیار ہیں۔ پوری قوم میں زندگی کی روح بیدار ہو چکی ہے۔ رہنماؤں کو بھی کچھ خیال ہونا چاہیے۔ اس مرحلہ پر نیشنل سکیورٹی کونسل میں وزیر اعلیٰ سرحد کی شرکت پر تحفظات کا اظہار موقع کی مناسبت سے عاری ہے۔
افسوس یہ ہے کہ آج تک ہمیں بلندی کردار کا صحیح تصور تک نہیں دیا گیا۔ منبر و محراب سے اعلیٰ کردار کا جو تصور دیا گیا، وہ بہت ناقص ہے۔ میں یہاں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ ہمارے شہر گوجرانوالہ کے ایک نامور کمپیئر دلدار پرویز بھٹی تھے۔ وہ میرے ہم جماعت تھے۔ ایف سی کالج کے پروفیسر تھے۔ ان کا عمر بھر کا عمل یہ رہا کہ اپنا گزارا تنخواہ میں کیا۔ تنخواہ کے علاوہ جو کچھ بھی کمایا، وہ تنخواہ سے کہیں زیادہ رہا مگر وہ اسے ہمیشہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ کیا یہ ایسا کردار نہیں کہ جس پر فلمیں بنیں، ناول لکھے جائیں اور ڈرامے دکھائے جائیں؟
اسی طرح ہمارے ملک کے ایک چیف جسٹس اے آر کارنیلیس تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں مقیم رہے۔ ان کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔ اس وجہ سے پنشن میں ہوٹل کے ایک آدھ کمرے میں رہتے تھے۔ عمر کے آخری مرحلے میں بیماری شدت اختیار کر گئی تو بار کے حلقوں نے شور مچایا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اتنے عظیم شخص کا علاج حکومت کو کرانا چاہیے۔ حکومت کی جانب سے اس کے لیے پیش کش ہوئی تو جناب کارنیلیس نے حکومتی پیشکش یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ پنشن کے اندر رہ کر جتنا علاج کرا سکتے ہیں، کرا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کے وہ مکلف ہیں اور نہ ضرورت مند۔ صحت اور زندگی اور موت آخر کار آنی ہے۔ مملکت کے وسائل اپنی صحت یابی پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
کردار کے اونچے مینار ہمارے معاشرے میں رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ میں کہوں گا کہ کردار کی عظمت کے حقیقی تصور اور اس کی روشن مثالوں کو جو سوسائٹی میں پے درپے موجود ہیں، ان کو میڈیا کے ہر ذریعے، (ریڈیو، فلم، ناول، ڈرامہ، ٹی وی ، انٹر نیٹ) سے پھیلایا جائے۔ ذرائع کے مثبت استعمال کے بارے میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی ۔ہم ان کی جانب رخ کرنے کے بجائے دولت کی دوڑ میں شریک ہو گئے ہیں۔ یہ حدیث تو ٹی وی سکرین پر ہر دوسرے چوتھے دیکھتا ہوں: ’’مال و دولت اور جائیدادیں مت بناؤ، کہ تم دنیا کے ہو کر رہ جاؤ گے‘‘۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر اقدس میں کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے، کبھی کل کے لیے بچا رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ حضور پاک کا یہ عمر بھر کا اسوہ ہے۔ منبر و محراب سے نصاب زکوٰۃ، نصاب عمرہ اور نصاب حج جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، پھر تعمیر مسجد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ غربا کے محلوں میں محل نما مساجد غربت، بیماری اور جہالت کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہیں۔ مسجد نبوی حضور اکرم کے آخر دور تک بھی کس تعمیری معیار پر رہی، کوئی نہیں بتاتا۔ منبر و محراب سے جو شریعت بیان کی جاتی ہے، اس میں بنیادی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کی رونق اور جبہ و دستار کی چمک دمک قائم رہے ، مگر حلال ذرائع سے کمانے کے بارے میں کبھی زور نہیں دیا جاتا۔ ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ معاشرے میں رشوت اور بد دیانتی کا چلن عام ہو گیا ہے، اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی دوڑ بیرون ملک کے لیے تیز سے تیز ہو رہی ہے۔ انہیں کوئی نہیں بتاتا کہ یہاں اگر اتنی محنت اور کفایت اختیار کی جائے جتنی ہمارے یہ دوست باہر جا کر کرتے ہیں تو ہمارے ہاں بھی کوئی کمی نہیں۔ حلال کما کر ضروریات پورا کر لینا بھی مشکل ہے۔ ان حالات میں ہر گلی اور نکر پر ضرورت سے زائد اور حجم اور تعداد میں امیر محلوں کے طرز پر مساجد کی تعمیر کے جواز عدم جواز پر کبھی بحث نہیں ہوئی ہو گی۔ در اصل مولانا راشدی صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ:
’’جس طرح اصحاب کہف حالات کے جبر سے بے بس ہو کر اپنا ایمان بچانے کے لیے غار میں گھس گئے تھے اور اس طرح انہوں نے اپنے ایمان کا تحفظ کیا تھا، اسی طرح ہمارے اساتذہ نے حالات کے جبر کو بھانپتے ہوئے ہمیں مدارس کی غاروں میں داخل کر دیا ہے۔ ‘‘
غاروں میں گھسنے والوں کا ایمان تو شاید بچ گیا، مگر جن کو وہ باہر چھوڑ گئے، ان کے ایمان کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ بات بڑھتی جا رہی ہے۔ حالات کے جبر کو توڑنے اور ایمان کے لیے ساز گار بنانے کا ایجنڈا کہا ں ہے؟
میں مسائل پر بحث و استدلال کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ علمی طریقہ یہ ہے کہ علمی مسائل پر بات اہل علم کے درمیان ہو۔ گلی اور سڑک پر نہ لائیں جائیں۔ جب اہل رائے سے مسائل غیر اہل رائے میں لائے جاتے ہیں تو، فکری انتشار اور عملی رذالت پیدا ہوتی ہے۔ یہ علم کا استحصال ہے۔ پھر مسائل زیر بحث کی عملی ضرورت کے لحاظ سے درست ترجیحات متعین ہوں۔ ان پر بات کرنے والے اس مضمون کے ماہرین ہونے لازم ہیں۔ بات کھل کر کی جائے۔ سنی بھی جائے اور سنائی بھی جائے۔ دلیل سے بات کی جائے اور دلیل کو سنا بھی جائے۔ اس کے ساتھ قوی تر دلیل کو تسلیم کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ اس طرح دلیل ہی کو حکم مانا جائے۔ فیصلہ کے لیے بنیاد اکثریت ہو اور نہ ہی تعصب اور مفاد کو پیش نظر رکھا جائے۔ decisive پوزیشن دلیل ہی کو حاصل ہو۔ اس ضابطہ کار کے تحت معاملات طے کرنے کا کلچر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں میں ایک حوالہ پیش کرنا چاہتا ہوں:
یہ حوالہ سید امیر علی کا ہے۔ سید امیر علی قیام پاکستان سے پہلے ہائیکورٹ کے جج رہے۔ انہوں نے تین بڑی فاضلانہ کتابیں تحریر کی ہیں جن کے نام، سپرٹ آف اسلام، شارٹ ہسٹری آف سیری سنز اور محمڈن لا ہیں۔ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔ شاید اسی تعصب کا نتیجہ تھا کہ ان کی انتہائی فاضلانہ کتابیں ہمارے ہاں مارکیٹ میں جگہ نہیں پا سکیں۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک کتاب محمڈن لا، اسلام کے شخصی قانون سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ہمارے ہاں لا کالجوں کے نصاب کے لحاظ سے مرتب کی گئی۔ کتاب ہر لحاظ سے معیاری ہے مگر اسے کوئی جانتا ہی نہیں۔ اس کے مقابلے پر ایک پارسی،دنشا فریدون جی ملا (ڈی ایف ملا )نے بھی ’’پرنسلز آف محمڈن لا ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب ہمارے ہاں مارکیٹ میں چھائی ہوئی ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۸۵۲ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب ہمارے ہاں یونیورسٹی میں قانون کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کے ایڈیشن ہر سال شائع ہوتے ہیں۔ سید امیر علی کی کتاب ہر لحاظ سے بہتر ہے مگر اسے کوئی جانتا بھی نہیں۔
بہرحال اس بحث سے میرا منشا محمڈن لا کی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا نہیں۔ سید امیر علی نے اپنی ایک کتاب میں اپنی ایک آبزرویشن دی ہے، ایک اصول بیان کیا ہے۔ بس اسی کا ذکر کرنا ہے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر میں انہوں نے فرمایا:
"He (Muhammed P.B.U.H) upheld the sovereignty of reason".
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دلیل کی حاکمیت قائم کی‘‘۔
سید امیر علی کا یہ جملہ بظاہر ایک جملہ ہے مگر حقیقت میں یہ جملہ اپنے اندر اک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ پورے نظام استدلال کی بنیاد ہے۔ یہ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی نظام کی روح کا بیان ہے۔ جس بلاغت اور جامعیت سے انہوں نے اس بنیادی اصول کو بیان کیا ہے، سیرت کے دیگر ذخائر میں ایسا اشارہ ملنا مشکل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جملہ کی گہرائیوں میں اتر کر اسلام کے حقیقی نظام اقتدار کی حدود دریافت کی جائیں۔ جمہوری اور شورائی نظام کی جن شکلوں کو ہمارے ہاں مختلف وجوہ اور حالات کے تحت قبول کر لیا گیا ہے،اس کا نتیجہ اس بنیادی اصول کی نفی ہے۔ تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ جمہوری نظام کا خاصہ میرٹ، دلیل اور اہلیت کی نفی ہے۔ جھوٹ، بد دیانتی اور استحصال کا غلبہ ہے۔ اس میں جماعتی اور گروہی سوچ اور فکر کے تحت، دلیل کی اہمیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے کام کیا جاتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ جمہوریت نے جو شاہکار کیریکٹر پیدا کیے ہیں، وہ کس معیار کے لوگ ہیں۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر، بین الاقوامی ’’برادری‘‘ کے سامنے کیے گئے اپنے مواعید سے آج تک نہایت بے شرمی کے ساتھ مکرے جا رہا ہے۔ دنیا نے بھی پنڈت نہرو کی یقین دہانیوں کو بھلا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں ’’پرانی‘‘ ہو گئی ہیں۔ واجپائی بہت پڑھا لکھا شخص ہے۔ شاعر بھی ہے۔ چند سال پہلے، اس نے انتخابات میں ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے کس طرح پاکستان اور ہندوستان کی بھاری افواج کو سال ڈیڑھ سال تک آمنے سامنے رکھا۔ دونوں ایٹمی قوتیں ٹکراتے ٹکراتے رہ گئیں۔ آج امریکہ کے بش صاحب افغانستان اور عراق میں جمہوریت اور آزادی تقسیم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کس طرح اقوام عالم اور خود اپنے شہریوں کو دھوکہ دیا۔ جھوٹ کو اس ڈھٹائی سے بولا گیا کہ وہ سچ دکھائی دینے لگا۔ آخر کار میکیاویلی ان سب کا استاد ٹھہرا۔
میرا منشا یہ ہے کہ یہ پورا نظام استدلال کی نفی پر مبنی ہے جبکہ اسلامی نظام کا ہر شعبہ دلیل و استدلال کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کا سب سے بڑا اصول بھی دلیل ہے اور ہتھیار بھی۔ قرآن حکیم نے بار بار غور و فکر پر زور دیا ہے۔ ہر حقیقت کو واضح کرنے کے لیے دلیلِ روشن پیش کی ہے اور کفار کو دلیل لانے کا چیلنج دیا ہے۔ میں اس وقت اس بارے میں کسی تفصیلی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر یہ حقیقت ہے کہ دلیل کی حاکمیت کا اصول ایسا زبردست اصول ہے کہ دنیا بھر میں اس کی حقانیت کو پیش کرنے کا بیڑا اٹھانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ اگر ہم علوم جدید و قدیم پر کامل دسترس کے ساتھ دلیل کی بالا دستی کے علمبردار بنیں تو دلیل کی قوت کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اسے محض تعلّی نہ سمجھا جائے، ہم علم ، قلم اور سکرین کے ذرائع سے لیس ہو کر فاتح عالم بن سکتے ہیں۔ کل تک ہم اس پوزیشن میں تھے۔ ہمارے ہی علمی ذخائر سے استفادہ کر کے ہمیں پچھاڑا گیا ہے۔ ہمارے اپنے ہتھیار ہم پر استعمال ہوئے ہیں۔
بلا شبہہ دینی حلقوں میں مذکورہ بالا مسائل پر کھلا بحث و مباحثہ بھی غنیمت کے درجے کی چیز ہے، مگر بات غنیمت سے نہیں بنتی۔ میں نے ا وپر عرض کیا ہے کہ حالات میں عملی پہلوؤں سے ترجیحات کے درست تعین اور مسائل کے بارے میں بر وقت اور درست فیصلے اور ان کے مطابق درست اور دور رس عملی اقدات سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارا تمام تر لائحہ عمل مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ایک موثر اور کامیاب حکمت عملی کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ انسانی ذہن دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اس کو بھر پور طور پر استعمال کیا جائے تو کم سے کم وسائل میں بھی بڑے سے بڑے نتائج حاصل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ سائنسی تجزیے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ بڑے سے بڑے سائنسدان اور محقق نے بھی اپنے دماغ کا بہت ہی تھوڑا حصہ استعمال کیا ہے۔ اس نعمت خدا داد کے تھوڑے سے استعمال ہی سے اتنی بڑی ایجادیں دریافت ہوئی ہیں اور عظیم علمی حقائق سامنے آئے ہیں۔ ہمیں یکسوئی سے موثر اور نتیجہ خیز لائحہ عمل اختیا رکرنے کے لیے اپنے ذہن کے کسی حصے کو تو کام میں لانا چاہیے۔
ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم لائحہ عمل بناتے ہیں تو وہ کسی گہری فکر اور عملی طور پر ایسی موثر حکمت عملی پر مشتمل نہیں ہوتا جو کامیابی کی ضمانت ہو۔ اس طرح جب ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کو ایسا ہی منظور تھا۔ سوچ کا یہ انداز کسی طرح درست نہیں۔ اللہ تعالی نے اسباب کی دنیا بنائی ہے۔ ذرائع اور وسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہم ان کو پیدا نہیں کرتے، صرف ان کی جستجو کرتے ہیں۔ جستجو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ نتائج بھی اسی کی بنیاد پر ہوں گے۔ نتائج کے لیے ذمہ دار اور جوابدہ بھی ہونا ہو گا۔ عام آدمی اپنی صلاحیت کی حد تک ذمہ دار ہو گا۔ ذمہ دار حیثیت والے حضرات کی جواب دہی بھی اسی درجے کی ہوگی۔ ان کے لیے جواب دہی اور ذمہ داری میں رعایت نہیں ہو گی۔ جس درجہ ذمہ داری بڑھے گی، اسی درجہ جواب دہی بھی کڑی ہو جائے گی۔ اہل علم و دین، وراثت انبیا کے دعوے دار ہیں۔ اسی لحاظ سے ان پر ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اہل ایمان کی راہنمائی ان کا فرض منصبی ہے۔ اس رہنمائی کے لیے ان کا جدید و قدیم علوم سے آگاہ ہونا لازم ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتے۔ کردار کے لحاظ سے ان کا معیار عام مسلمان کے معیار سے کہیں اونچا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ بلندی کردار کے ہوتے ہوئے زبان کھولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کردار کی خوشبو خود بخود دور دور تک پھیلتی ہے۔ لیکن کردار اگر بد بو دار ہو تو اس کی بد بو کو کوئی پھیلنے سے نہیں روک سکتا، خواہ اس اروڑی پر کوئی کتنی ہی مٹی ڈالے یا سپرے کرے۔ یہ سپرے کتنا ہی موثر کیوں نہ ہو، یہ امریکہ سے آیا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اس بد بو کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جب یہ بد بو پھیلے گی تو دعوت و تبلیغ کی تمام تر پکاریں صدا بصحرا ہو جائیں گی۔
پھر اس میں بھی قرآن کا حکم واضح ہے جس کی رو سے فریضہ دعوت سب پر عائد نہیں ہوتا۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ، اپنے دائرہ کار کے اندر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
وما کان المومنون لینفروا کافۃ فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون (۹:۱۲۲)
’’ یہ تو نہ تھا کہ سب ہی مسلمان نکل کھڑے ہوتے، تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتے جب ان کی طرف لوٹتے تاکہ وہ بھی بچتے۔‘‘
عمومی سطح پر اس فریضے کی ادائیگی کے لیے بڑے ہی عالم، فاضل اور صاحب بصیرت لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس کو ایک فن اور سائنس کے درجہ دیا جانا چاہیے۔ جس طرح طب، قانون اور انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ صلاحیت، تعلیم، تربیت اور تجربہ درکار ہے، اسی طرح دعوت و تبلیغ کے شعبے کے لیے بھی بڑے ہی اعلیٰ درجے کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جو لوگ میدانِ دعوت میں آئیں، وہ میدان میں آنے سے پہلے دین میں بصیرت حاصل کریں۔ یہ پیشگی ضرورت ہے۔ بغیر اس کے آپ میدان میں اتریں گے تو قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہو گی۔
یہاں تو دعوت کے میدان میں اترنے سے بھی بڑا مرحلہ در پیش ہے۔ زمانے کے چیلنجوں سے نبٹنا، بہت بڑا کام ہے۔ اس کے لیے اور بھی زیادہ بصیرت کی ضرورت ہے۔ اس میں ایک بات بڑی اہم ہے اور وہ ہے بر وقت فیصلہ۔ میں اپنی بات کی تقویت کے لیے ماؤ زے تنگ کا ایک قول پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں، مگر اس سے پہلے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ عقل ودانش مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جدید دور میں ہمارے گرد و پیش میں تین لیڈر مانے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح، ماؤ زے تنگ اور امام خمینی۔ ان میں سے ماؤ زے تنگ جدید طرز انقلاب میں بڑی اہمیت اور امتیازی شان رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
"This is an age of war of quick decision."
’’یہ جلد فیصلے کی جنگ کا زمانہ ہے‘‘
اقبال نے بھی کہا ہے کہ:
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
مگر ہمارے ہاں عملی صورت یہ ہے کہ آج بھی یہ بحث موجود ہے کہ آیا لاؤڈ سپیکر پر اذان اور نماز ہو سکتی ہے یا نہیں۔ جواز کا قائل ہو جانے کے بعد، اس کے بے محابا استعمال کی بھی ایک تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ عریاں لٹریچر کی مد میں منٹو پر فرد جرم سو فی صد جائز مگر یہ حقیقت ہے کہ جنس ایسا موضوع ہے جس کی جستجو میں جبہ و دستار والے دوسروں سے کسی طرح کم نہیں۔ ٹی وی اور انٹر نیٹ اور سی ڈیز اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال کی بحث تو بحث کرنے والوں کے لیے ہے مگر ان کے مثبت اور منفی استعمال کو روکنا کس کے بس میں ہے۔ وہ جواں عزم بھی ہیں جنہوں نے ایک سی ڈی میں کتنے صحاح جمع کر دیے ہیں۔ ٹی وی اور انٹر نیٹ پر مثبت کام بھی ہو رہا ہے۔افسوس یہ ہے کہ چرچا مثبت کا نہیں، منفی کام کا ہے۔ شکست خوردہ ذہنیت کی وجہ سے ہم خود بھی تمام تر چرچا تنقید کے رنگ میں منفی پہلوؤں ہی کا کرتے ہیں۔
ایک اور پہلو سے دیکھ لیں۔ معاشرے میں کرپشن کا کتنا چرچا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ معاشرے سے دیانت و امانت ناپید ہو گئی ہے؟ نہیں، اس کی عظیم الشان مثالیں تلاش کرنا پڑتی ہیں،لیکن ان کو کوئی تلاش کرتا ہے اور نہ ان کا چرچا ہوتا ہے۔ کرپشن والے تو معاشرے کے کندھوں پر سوار ہیں۔ ہم مثبت طرز عمل کے بجائے ان پر تنقیدی رویہ اختیار کر کے انہی کے چرچے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ مجموعی طور پر آج بھی ہمارے معاشرے کی بڑی اکثریت (حالات کی مجبوری کے تھوڑے سے الاؤنس کے ساتھ) دیانت و امانت سے کام لیتی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ تمام تر کھیل با اثر طبقات کے درمیان ہے۔ ہم بھی انہی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ مثبت کھیل کے لیے کوئی میدان رہا ہے، نہ کھیل اور نہ کوئی کھیل کا سامان۔ نمایشی کاموں نے ہمیں کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ عام سطح پر لوگ آج بھی بہتر کردار کے حامل ہیں، مگر جہاں کسی کو کوئی اختیار، اثر یا حیثیت میسر آئی، وہ ہر حد سے گزرنے پر بے چین نظر آتا ہے۔ بے چینی حل نہیں۔ قرار کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے بہتر پوزیشن والوں کو دوسروں کے کھیل میں، ان کے میدان میں، ان کے رولز آف گیم میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا الگ میدان لگانا چاہیے۔ سامان کھیل بھی ہمارا اپنا ہو اور رولز بھی اپنے۔ اس کے لیے
چیتے کا جگر شاہیں کا تجسس چاہیے
چودہ پندرہ صدیوں کی تاریخ میں جد وجہد کے دوران، عزیمت و عظمت کی روشن مثالیں موجود ہیں مگر یہ سب کچھ تاریخ کا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ بہت ہو چکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کا رخ پلٹ دیاجائے۔ اس کا دھارا تبدیل ہو۔ یہ درست ہے کہ آج تک
ہوئی نہ جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب اس کا یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
مگر یہ تو ماضی کا تجزیہ ہے۔ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ ایسے لائحہ عمل پر گفتگو ہو تو اک زمانہ سنے گا۔ سنے گا ہی نہیں کان بھی دھرے گا اور زمانے کا رخ بھی پلٹ کر رہے گا۔
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
عابد کالونی کھوکھر کی، گوجرانوالہ
(۲)
۲۵؍ستمبر ۲۰۰۵
محترم محمد عمار خان ناصر صاحب، السلام علیکم
امید ہے کہ خیریت سے ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا اعزازی شمار باقاعدگی سے موصول ہو رہا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ ستمبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد آصف اعوان کا مضمون ’انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن‘ پڑھا۔ میری رائے میں قرآن ماسوائے انسان کے، کسی دوسری نوع کے متعلق صراحت سے یہ نہیں بتاتا کہ اسے special creation کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس لیے دیگر جانداروں کی تخلیق کے متعلق اگر نظریہ ارتقا کو درست مان لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تخلیق آدم کے معاملے میں نظریہ ارتقا نصوص قرآنی سے ٹکراتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں ہے:
’’اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور کہا ہو جا اور وہ ہو گیا۔‘‘
گویا حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر والدین کے پیدا کیا گیا۔ یاد رہے کہ نظریہ ارتقا ایک سائنسی اصطلاح ہے اور اس اصطلاح کو اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے۔ ارتقا ایک نوع کے، نسلاً بعد نسل، کسی نئی نوع میں تبدیل ہونے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ بعض اہل علم اس اصطلاح کو ان معانی میں استعمال کرنے کے بجائے اپنے اس تصور کی وضاحت کے لیے کرتے ہیں جس کے مطابق حضرت آدم تراب، طین اور طین لازب کے مختلف مراحل سے گزر کر انسانی وجود میں آئے۔ بہتر ہے کہ اس نظریے کو ارتقا کے بجائے کوئی اور نام دیا جائے، اس لیے کہ حیاتیات میں ارتقا اس طرح کے کسی عمل کا نام نہیں ہے۔
والسلام
محمد عزیر بھور
۹۰۔ اے۔۵، پی۔ جی۔ ای۔ سی۔ ایچ۔ ایس،
ٹاؤن شپ لاہور
(۳)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
ایڈیٹر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ ا..... وبرکاتہ مزاج گرامی!
آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا مئی ۲۰۰۵ کا شمارہ ان دنوں ہمارے زیر نظر ہے جس کے صفحہ نمبر ۲۱ پر ’’شیعہ سنی تنازع اور اس کا پائیدار حل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد امین صاحب کا مضمون موجود ہے جس میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (جسے بعد میں تحریک جعفریہ سے موسوم کیا گیا) کی تشکیل وکردار کے بارے میں بعینہ وہی موقف دہرایا گیا ہے جو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی تشکیل کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے اختیار کیا اور پھر ا س کی نشر واشاعت سپاہ صحابہ کے لٹریچر اور اس کے ذمہ داران کے ذریعے کرائی گئی جو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔
ہمیں تعجب ہے کہ دیوبند مکتب فکر کے دانش ور اور سنجیدہ افراد بھی اس پروپیگنڈا مہم کا شکار ہیں اور ایجنسیوں اور ایک متعصب گروہ کے موقف کے حامی ہیں۔ بغیر دلیل کے اس طرح کا نظریہ قائم کرنا قرآنی احکامات کے قطعاً مطابق نہیں ہے۔ فرقہ واریت کی وجوہ کی تلاش میں موصوف سے جو چوک ہوئی ہے، اس میں ہم ان کی بہتر مدد کر سکتے ہیں۔ خداوند کریم ہمیں سچ بولنے، سچ سننے اور سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام
سید عبد الجلیل نقوی
مسؤل روابط
قائد ملت جعفریہ پاکستان
۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۵