’’ارمغان حج‘‘
مولانا محمد اکرم ندوی ہمارے فاضل دوست ہیں۔ ندوۃ العلماء لکھنو سے علمی وفکری وابستگی رکھتے ہیں، آکسفورڈ میں ایک عرصہ سے مقیم ہیں اور آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز سے ریسرچ اسکالر کے طور پر وابستہ ہیں۔ علم حدیث ان کا خصوصی موضوع ہے اور علم حدیث کے اساتذہ کی تلاش، ان کی خدمت میں حاضری، ان سے استفادہ اور روایت حدیث کی اجازت حاصل کرنے کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ کئی برسوں سے امت کی محدثات کے حالات جمع کرنے میں مصروف ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار کے قریب محدثات کے حالات قلم بند کر چکے ہیں اور ان کی یہ قابل قدر کتاب کئی ضخیم جلدوں میں ’’الوفاء فی اسماء النساء‘‘ کے نام سے شائع ہو رہی ہے۔
مولانا ندوی موصوف نے اپنے ایک سفر حج کی روداد تحریر کی ہے جس کے بارے میں انھوں نے مجھے کچھ عرصہ قبل بتایا تو خوشی ہوئی کہ ایک باخبر اور باذوق عالم دین ہیں، اس لیے یقیناًان کی یہ تحریر استفادہ کی چیز ہوگی، لیکن مکمل ہونے کے اس کے مطالعہ سے یہ خوشی دوچند ہو گئی کہ انھوں نے صرف اپنے سفر حج کی روداد اورکیفیات وواردات کو سپرد قلم نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ مختلف علماء کرام اور محدثین کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کی تفصیلات بھی پورے اہتمام کے ساتھ جمع کر دی ہیں اور اس طرح ان کا حرمین شریفین کا یہ مبارک سفر حج بیت اللہ کی سعادت کے ساتھ ساتھ طلب علم اور حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے ساتھ والہانہ وابستگی کا عنوان بھی بن گیا ہے۔
انھوں نے جس خوش اسلوبی اور محنت کے ساتھ اپنے سفر کی تفصیلات اور اکابر علما ومحدثین کے ساتھ ملاقاتوں کی کیفیات کو قلم بند کیا ہے اور خاص طور پر حدیث نبوی کے طلبہ کے لیے معلومات کا ایک گراں قدر ذخیرہ اس میں سمو دیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو دارین میں قبولیت عطا فرمائیں اور ہم سب کو قرآن کریم اور حدیث نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کے علوم کے ساتھ فہم وعمل اور مسلسل خدمت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
اڑھائی سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب انجمن خدام الاسلام حنفیہ قادریہ لاہور نے شائع کی ہے اور جامعہ حنفیہ قادریہ، ۲۸۵ جی ٹی روڈ، باغ بان پورہ لاہور سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’مسائل غیر مقلدین‘‘ اور ’’غیر مقلدین کی ڈائری‘‘
اہل حدیث اور احناف کے مابین بہت سے مسائل پر بحث ومباحثہ کا سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے چل رہا ہے اور دونوں طرف سے مناظرانہ انداز میں ایک دوسرے کے خلاف کتابوں، پمفلٹوں اور رسائل کا تسلسل قائم ہے۔ یہ مباحث اگر علمی انداز میں ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت وثبوت کے لیے ہوں تو بہت کارآمد اور ضروری ہیں اور متعدد اہل علم کی تصنیفات اس حوالے سے موجود ہیں جو یقیناًافادیت کی حامل ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان مسائل میں ایک دوسرے کی تحقیر، طعن وتشنیع اور تضلیل وتفسیق کا عنصر بھی عام طور پر گفتگو اور تحریر میں غلبہ پا جاتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ بحث وتمحیص کی افادیت اور لطف ختم ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ نئی نسل پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے معروف حنفی محدث حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں ایک مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھیں اس بحث میں سخت لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن چونکہ فریق مخالف یہ کہہ کر ظلم کرتا ہے کہ احناف کے پاس اپنے فقہی مسائل کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے اس کے جواب میں ہمیں بھی سخت لہجہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کم وبیش یہی صورت حال آج بھی ہے اور سوال وجواب اور پھر جواب الجواب میں لہجہ کی شدت اور شکوہ وشکایت کی یہ روایت بدستور موجود ہے جو بہرحال ذوق سلیم کو کھٹکتی ہے اور جدید تعلیم یافتہ حلقوں میں الجھن کا باعث بنتی ہے۔
اسی پس منظر میں بھارت کے معروف عالم دین مولانا ابوبکر غازی پوری فاضل دیوبند کی دو کتابیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں جن میں مناظرانہ انداز میں غیر مقلدین کے مسائل اور معمولات پر بحث کی گئی ہے۔ مختلف حوالوں اور دلائل کے ساتھ ان کے خلاف اپنے موقف کی وضاحت کی گئی ہے اور ان مسائل پر بحث ومباحثہ کا ذوق رکھنے والے علما اور طلبہ کے لیے معلومات کا ذخیرہ جمع کیا گیا ہے۔
’’مسائل غیر مقلدین‘‘ پونے چار سو صفحات کی مجلد کتاب ہے جس کی قیمت ۹۰ روپے ہے جبکہ ’’غیر مقلدین کی ڈائری‘‘ سوا دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، مجلد ہے اور اس کی قیمت ۷۵ روپے ہے۔ یہ دونوں کتابیں ادارہ خدام الاحناف، ۲۸۵ جی ٹی روڈ، باغبان پورہ لاہور سے طلب کی جا سکتی ہیں۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)