علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ ۔ مولانا سندھیؒ کے ناقدانہ خیالات کی روشنی میں

پروفیسر محمد سرور

مولانا سندھی نے کہا: قرآن مجید یہود اور نصاریٰ کی بے راہ رویوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا الہا واحدا لا الہ الا ہو سبحانہ عما یشرکون (ٹھہرا لیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا، اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، اور ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک معبود کی۔ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا۔ وہ پاک ہے ان کے شریک بتلانے سے) (سورۃ التوبہ آیت ۳۱)

مولانا فرمانے لگے کہ مسلمانوں میں پہلے شاہ پرستی آئی اور اس شاہ پرستی نے احبار (علما) ورہبان (درویش) پرستی کو جنم دیا۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی (۱۲۵۸) کے بعد امام ابن تیمیہؒ (۱۲۶۳۔۱۳۲۸) نے اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی اس دعوت کا سلسلہ برابر جاری رہا او ریہ آواز دور دور تک پہنچی۔ اس دعوت کی ایک کڑی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ (۱۷۰۳۔۱۷۸۷) تھے۔ یہاں ہندوستان میں اکبر بادشاہ نے علما اور مشائخ کا زور توڑنے کی کوشش کی۔ دین الٰہی سے دراصل اس کا یہی مقصد تھا اور وہ اس طرح اس طبقے کی دینی وسیاسی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہتا تھا جس میں وہ ناکام ہوا۔ مولانا نے کہا: میں اقبال کی بڑی عزت کرتا ہوں کہ اس نے شاعری کے ذریعہ، جس کی تاثیر نثر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف ابھارا۔ جمود، سکون پسندی، تقدیر پر صابر وشاکر ہونے اور اشخاص پرستی کو مذموم قرار دیا اور ان کے اندر جوش عمل اور جرات کردار پیدا کرنے کی جدوجہد کی۔ میں مانتا ہوں کہ اقبال کی شاعری نے بڑا کام کیا اور نوجوانوں کی ذہنی بیداری میں اس کا بڑا حصہ ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ احبار اور رہبان اب بھی ہمارے ہاں پج رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا علاج صرف یورپین ازم اور نیابتی حکومت ہے۔ جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اقتدار کے مالک وہ ہیں اور حکومت ان کے ووٹوں سے بنے گی اور ٹوٹے گی، اس دن سے مسلمانوں کے ’’احبار‘‘ اور ’’رہبان‘‘ کی قبر کھدنی شروع ہو جائے گی۔

مولانا کہتے تھے کہ میں اقبال کی شاعرانہ عظمت اور ان کے اس عظیم دعوت وابلاغ کے کارنامے کا دل سے معترف ہوں، لیکن میرے نزدیک سیاسی قیادت اور دینی امامت ایک شاعر کے، خواہ وہ کتنا بھی بڑا شاعر کیوں نہ ہو، سپرد کر دینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے۔ اقبال کو میں بڑا شاعر مانتا ہوں، لیکن انھیں قوم کا قائد وامام تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اقبال کو قائد وامام ماننے سے ہی جملہ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ 

اقبال نے اپنے اشعار میں عجم اور قومیت کی جو مسلسل مخالفت کی ہے، مولانا کو ا س پر اعتراض تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اسلامی تاریخ کے حقائق کا انکار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ اسلام کے اموی دور میں مسلمانوں کے جماعتی تصورات وخیالات اور ان کی ثقافت میں شامل عیسائی اور یہودی عناصر موثر تھے۔ عباسی عہد میں ایرانی تہذیب وادب اور یونانی فلسفہ ومنطق برسرکار آئے۔ اسی سے تصوف اور علم کلام واسلامی فلسفہ پروان چڑھے اور ان کے ذریعہ عجمیوں نے اسلام کی ہر لحاظ سے خدمت کی اور ہندوستان میں ہندی فکر نے اسلام کے تصورات وثقافت کو جلا دی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے عربوں کے دور کو مقدس سمجھ لیا گیا اور ایرانیوں، ترکوں اور ہندوستانیوں کے عہدوں کو زوال کا زمانہ مان لیا گیا، حالانکہ اسلام کے عالمگیر انقلاب کے اعتبار سے یہ سب دور ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس انقلاب کا اپنے مختلف مراحل میں قومی رنگ اختیار کرنا بالکل فطری تھا۔ مولانا کہتے تھے کہ بد قسمتی سے اقبال اسلامی تاریخ کے ارتقا کے ان قدرتی مظاہر کو نہ سمجھا اور وہ ساری عمر عجم وعجمیت کی مذمت اور عرب وعربیت کی تعریف کرتا رہا۔

مولانا نے اقبال کی قومیت ووطنیت دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں مسلمانوں کی الگ الگ قومیتوں کے انکار کے خلاف ہوں، بلکہ میرے نزدیک تو خود اس برعظیم میں بڑی بڑی زبانیں بولنے والی آبادیاں، قومیں ہیں۔ ایک خاص خطے اور ایک خاص ماحول میں رہنے والے زندگی کا ایک خاص رنگ جو سب میں مشترک ہوتا ہے، اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ اسلام کی ترقی اور نشر واشاعت کے لیے ان قومیتوں کا اعتراف ضروری ہے اور اس سلسلے میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کی عالمگیر تعلیم کو ان قوموں کی زبان میں پھیلایا جائے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے اور اس غلطی کو اپنی نہایت دل آویز، انتہائی موثر اور بڑی زور دار شاعری کے ذریعہ نوجوان مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں بہت گہرا اتارنے میں اقبال کا سب سے بڑا حصہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے الگ الگ قوم ہونے کا انکار کیا اور اپنے آپ کو بس ایک عالمگیر اسلامی برادری کا ایک حصہ سمجھتے رہے۔ اب امر واقعہ یہ ہے کہ مصری، عراقی، ایرانی، ترکی یہاں تک کہ حجازی بھی ۹۰ فی صد قومی ہیں اور ۱۰ فی صد مسلمان اور ان کے مقابلے میں ہم ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور ہمیں کسی قوم میں سے ہونے میں عار آتی ہے۔ مولانا کہتے تھے کہ اس فرضی سیاسی اسلامیت کی بدولت، جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی، ہم مرزا غلام احمد جیسے نبی مصلح اور اقبال جیسے پیغمبر شاعر پیدا کر سکے لیکن ہم رہے ہوا ہی ہوا میں معلق۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں آپ کو اس زمانے میں اس طرح کے مہدی، مسیح موعود اور نبی بننے والے مذہبی پیشوا اور قومی امنگوں اور وطنی وملکی مطالبوں وآرزوؤں کو قابل توجہ نہ سمجھنے والے ’’پیغمبر‘‘ شاعر نہیں ملیں گے۔ وہاں قومی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے پس ماندہ محکوم اور خستہ ونزار عوام کو قومیت کے فطری جذبے کے تحت بیدار کرنے کی کوششیں کیں۔ اقبال نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کو تو بے حد سراہا ہے لیکن شیخ محمد عبدہ اور مصطفی کمال کو نظر انداز کیا ہے، حالانکہ جہاں تک شیخ محمد عبدہ کا تعلق ہے، مصر اور ایک حد تک سارے عربی ممالک کا دینی فکر ان سے متاثر ہے۔ اور مصطفی کمال نے تو ترکی کی ساری کایا ہی پلٹ دی ہے۔ ان کے مقابلے میں نہ سید جمال الدین اور نہ حلیم پاشا کا مصر اور ترکی پر کوئی دیرپا اثر مترتب ہوا۔

مولانا سندھی کا کہنا یہ تھا کہ اجنبی غلامی کی سب سے بڑی لعنت یہ ہوتی ہے کہ محکوم اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کو بھول جاتے ہیں، اس لیے آزادی کی جدوجہد میں سب سے پہلی منزل یہ ہوتی ہے کہ عوام میں اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کا شعور پیدا کیا جائے۔ ترکوں، ایرانیوں اور عربوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ملت اسلامیہ کی ایک سیاسی شخصیت رکھی جس کا دنیا میں کہیں وجود نہ تھا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر اقبال کو ہندو مسلم متحدہ قومیت سے انکار تھا تو وہ اس برعظیم کی مسلمان آبادی کے گزشتہ آٹھ سو سال کے ہندی اسلامی فکر پر نظر ڈالتا اور اس کا احصا اور تجزیہ کر کے اس کی اساس پر اس سرزمین میں ہندوستانی مسلم قومیت کی عمارت اٹھاتا لیکن وہ دوسرے مسلمان ملکوں کے شاندار ماضی ہی کے راگ الاپتا رہا اور اسلامی ہند کی تاریخی عظمتوں میں خال خال اسے کوئی پرکشش موضوع سخن ملا۔

علامہ اقبال نے اسلامی کلچر اور اسلامی ثقافت کا جو فرضی ہیولیٰ کھڑا کر رکھا تھا، مولانا سندھی اس کے بھی سخت مخالف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کی فرضی بحثوں سے ہندوستانی عوام، مسلمانوں اور ہندووں، ہر دو کی توجہ اصل مسائل سے، جو اجنبی غلامی سے آزادی حاصل کرنے اور معاشی حالت کو بہتر بنانے سے متعلق تھے، ہٹ جاتی تھی اور اس سے بالواسطہ انگریزی حکمرانوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کلچر قومی ہوتے ہیں، جیسے زبانیں اور ادب قومی ہوتے ہیں۔ اگر ایک قوم مسلمان ہے تو ظاہر ہے اس کا قومی کلچر اسلامی عقائد وروایات وتاریخ سے متاثر ہوگا۔ اب عوام کی سیاسی آزادی اور ان کی معاشی مرفہ الحالی کو پیچھے ڈال کر ایک فرضی اسلامی کلچر کو، جس کے تصورات تک واضح ومتیقن نہ تھے، سر پر چڑھا لینا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ مولانا نے فرمایا، تم دیکھنا، اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اس سے ذہنی انتشار پیدا ہوگا۔مولانا یہ باتیں کرتے کرتے غصے میں آ گئے اور کہنے لگے: آج جو لوگ بڑھ چڑھ کر اسلامی کلچر کی باتیں کرتے ہیں، ان کی اپنی پوری زندگی، ان کا رہن سہن، ان کی سوچ بچار اور ان کے مجلسی آداب واطوار سب انگریزیت میں رنگے ہوئے ہیں۔

علامہ اقبال کی خود اپنی ذات اور شخصیت کے تضادات اور پھر ان کے فکر وعمل کے تضادات، راقم الحروف ان کی کنہ وحقیقت سمجھنا چاہتا تھا۔ علامہ اقبال کی عظیم شخصیت اور ان کے افکار عالی سے جہاں اور ہزاروں لاکھوں نئے تعلیم یافتہ متاثر ہوئے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر علامہ اقبال کی شخصیت کی گہری چھاپ لگی، وہاں ایک میں بھی تھا، اس لیے مجھے ان کے ان تضادات سے بڑی ذہنی الجھن رہتی تھی۔ میں نے مولانا کے سامنے علامہ اقبال کے اس طرح کے کئی ایک تضادات پیش کیے اور پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ ان کی ایک شخصیت کے اندر یہ دو الگ الگ شخصیتیں کیسے ہیں اور ان میں باہم کش مکش کیوں رہتی ہے؟ مولانا نے فرمایا: اقبال کو تھوڑا بہت جو میں سمجھ سکا ہوں، اس کے مطابق ان کے بارے میں میری رائے یہ ہے:

اقبال جس گھرانے میں پیدا ہوئے اور جس ماحول میں ان کی ابتدائی نشوونما ہوئی، اس میں اسلام سے جذباتی عقیدت بڑی رچی بسی ہوئی تھی۔ پھر خود قدرت نے انھیں یہ نعمت بدرجہ وافر دی تھی، چنانچہ اسلام سے جذباتی عقیدت اور رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے والہانہ عشق ومحبت کے نقوش بچپن میں ان کے دل ودماغ پر ایسے ثبت ہوئے کہ وہ آخر عمر تک اپنی اسی تازگی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کے ان جذبات عقیدت ومحبت میں پورا خلوص تھا اور بے حد شدت بھی۔ چنانچہ جب کبھی ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو ان کے انھی جذبات کو تحریک ہوتی تو جیسا کہ تم نے بتایا ہے، ان پر رقت طاری ہو جاتی، اپنے اوپر انھیں قابو نہ رہتا اور وہ رونے لگتے۔ اسی طرح جب کبھی اسلام کے ان معتقدات کے خلاف، جن کے سچے اور حق ہونے کے نقش نو عمری میں ان کے دل ودماغ پر ثبت ہو چکے تھے، کسی سے کچھ سنتے تو ان کے دل کو دھکا لگتا اور وہ بے قرار ہو جاتے۔ مولانا سندھی نے کہا: اپنے اس احساس، تاثر اور شدید رد عمل میں وہ بڑے مخلص تھے۔ اور یہ حقیقی اظہار ہوتا تھا ان کی اس شخصیت کا جو خود ان کے اپنے طبعی رجحان، خاندانی ورثے ، ماحول اور نوعمری کی رسمی تعلیم سے تعمیر ہوئی تھی۔

مولانا نے کہا: بعد میں جب وہ کالج میں پہنچے، پھر یورپ گئے اور جرمنی اور انگلستان کی اعلیٰ درس گاہوں میں انھوں نے یورپی فلسفہ پڑھا تو ان کی اپنی جو ایک فلسفی اور حکیم کی شخصیت ہے، اس کی تشکیل ہوئی۔ فلسفہ تشکیک، تنقید، آزادانہ غور وفکر، عدم تقلید اور فکری بغاوت کے رجحانات کو ابھارتا ہے۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اقبال جیسا غیر معمولی ذہین عالم وفاضل شخص ان موثرات کے اثر قبول نہ کرتا۔ چنانچہ اس نے یہ اثرات قول کیے اور ان سے اس کی ایک فلسفی وحکیم کی شخصیت بنی۔ اقبال کی یہ دو شخصیتیں باہم ترکیب پا کر اور ایک دوسرے سے پوری ممتزج ہو کر اس طرح ایک نہیں بنیں کہ دونوں کے ائتلاف وترکیب سے اقبال کی ایک سالم، کامل اور ہر لحاظ سے مربوط ومکمل شخصیت وجود میں آتی۔ وہ ہر چیز کو، خواہ وہ ان کا اپنا مذہبی عقیدہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، اسے ایک نظر سے دیکھتے۔ وہ نظر خواہ وہ ایک شاعر کی ہوتی جسے جذبات متحرک کرتے ہیں، یا ایک فلسفی وحکیم کی جس کا فکر تنقید وتشکیک سے آگے بڑھتا ہے، یا ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی جو ہر مذہبی روایت کو حجت سمجھتا ہے۔

مولانا سندھی کہنے لگے: کبھی کبھی اقبال کی ان دو یا دو سے زیادہ الگ الگ شخصیتوں میں ارتباط وائتلاف بھی ہوتا ہے۔ اس وقت اقبال اپنے فکر کے اعلیٰ وارفع مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ بے شک اقبال کے کلام میں اس کی کمی نہیں لیکن کبھی کبھی اس کی یہ شخصیتیں باہم ٹکراتی ہیں اور انھی سے وہ تضادات پیدا ہوتے ہیں جن کا تم نے ذکر کیا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ تضادات زیادہ ہیں اور وہی زیادہ مقبول بھی ہے۔ اب بحیثیت ایک فلسفی کے اس کی نظر وفکر عالمی ہے۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے وہ اپنے دور کے ہندوستان کا، جس میں چھوٹے چھوٹے ہندو مسلم تنازعات زوروں پر تھے، ایک فرقہ پرست مسلمان بن جاتا ہے اور پنجاب میں قادیانیت کے خلاف جو عام فضا تھی، اس سے متاثر ہوتا ہے تو وہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

مولانا نے فرمایا: یہ ہے میرے نزدیک اقبال۔ ایک عظیم شخصیت، لیکن کامل وسالم نہیں بلکہ اپنے آپ میں بٹی ہوئی اور تضادات کا شکار۔ جوانی میں فکری ہوش سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے وطن کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اقبال کے دماغ پر حاوی ہوا۔ آگے چل کر اس کی جگہ مسلمانوں کی جماعت کے تصوراتی وجود نے لے لی اور آخر تک جماعت کا یہ کابوس اس کے دماغ پر برابر سوار رہا۔ کبھی کبھی خود اس کی اپنی ذات کے نفسی تقاضے جماعت کے بندھنوں کے خلاف بغاوت بھی کرتے رہے لیکن یہ بغاوت محض شعر وشاعری تک محدود رہتی۔ اس ضمن میں اقبال کو ایک مستقل عقلی وفکری مثبت رائے، جسے فلسفیانہ رائے کہہ سکتے ہیں، کبھی نصیب نہ ہوئی، چنانچہ اس نے جماعت کے جبر کے خلاف شاعری میں تو بغاوت ضرور کی ہے لیکن نثر میں، جہاں تشبیہات واستعارات میں اصل غرض چھپائی نہیں جا سکتی، اس بارے میں انھوں نے کچھ نہ لکھا۔ مولانا کے نزدیک یہ وجہ تھی اقبال کی زندگی کی بے عملی اور اس کی شخصیت کے تضادات کی۔

غرض مولانا سندھی کے الفاظ میں اقبال نے جماعت کو، جسے وہ ملت اسلامیہ کہتے تھے، ایک بت بنا لیا۔ ان کے طبعی تقاضے، گرد وپیش کے حالات اور خود ان کی اپنی فکری شخصیت کچھ اور مانگتی تھی۔ وہ ان طبعی، سیاسی اور معاشی مطالبوں کے سامنے ہتھیار بھی ڈال دیتے اور جو زمانے کا چلن ہوتا، اس کا ساتھ دیتے، لیکن جماعت کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اور اس سے جو خصائص وامتیازات انھوں نے متعلق کر رکھے تھے اور اس سے جو احکام وہدایات وہ لیتے تھے، یہ سب چیزیں ان کے نیم شعور میں اس طرح رچی ہوئی تھیں کہ جیسے ہی ان کو موقع ملتا، وہ ان کے شعور میں عود کر آتیں اور فلسفی اقبال ایک روایت پرست بلکہ توہم پرست لاہوری مسلمان ہو جاتا۔ اس حالت میں وہ اپنے آپ کو کوستا، اپنی گناہ گاری کا اعتراف کرتا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے، روتا بھی۔ یہاں اس کی عقلیت جواب دے دیتی۔

مولانا نے کہا: سچ پوچھو تو اقبال ایک روایت پرست یہودی کی طرح مسلمانوں کی موہوم جماعت کو پوجتا ہے۔ وہ جماعت کی قیود سے نکلتا تو تھا لیکن اس کی یہ بغاوت منظم فکر کی بغاوت نہ تھی بلکہ یہ فکری آزادہ روی ہوتی جو شعر کا موزوں لباس پہن لیتی۔ اس کا دل اس جبر کی مخالفت کرنے کو چاہتا لیکن نوعمری کی عقیدتوں پر تشکیل شدہ شخصیت اس میں آڑے آتی۔ چنانچہ وہ ساری عمر انھی الجھنوں میں برابر پیچ وتاب کھاتا رہا:

تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی

میں مانتا ہوں کہ اقبال دل سے چاہتے تھے کہ قرآن کی حکومت بروے کار آئے اور اسلام پر بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر ہو، لیکن قرآن اور اسلام کی عملی تشریح جو آج کے زمانے میں قابل قبول اور قابل عمل ہو سکے، یہ ان کے بس میں نہ تھی کیونکہ وہ جماعت کے روایتی اثرات اور اس کے قوانین وضوابط سے ذہناً باہر نہیں نکل سکتے تھے اور قرآن واسلام کے نظام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر وہ پیش کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فکراً خواہ وہ کچھ بھی ہوں، اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام تھا۔ کردار کے غازی تو تھے ہی نہیں، وہ گفتار کے غازی بھی نہ بن سکے۔

(افادات وملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ )


شخصیات

(فروری ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter