پشاور فقہی کانفرنس / الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

پروفیسر حافظ منیر احمد

جامعۃ المرکز الاسلامی بنوں کے زیر اہتمام پانچویں سالانہ فقہی کانفرنس ۱۱، ۱۲ دسمبر ۲۰۰۴ بروز ہفتہ واتوار اوقاف ہال، چار سدہ روڈ، پشاور میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی افتتاحی نشست کی صدارت جامعۃالمرکز الاسلامی کے رئیس مولانا سید نصیب علی شاہ ایم این اے نے کی، جبکہ مہمانان خصوصی میں وزیر اعلیٰ سرحد جناب محمد اکرم درانی اور قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن شامل تھے۔ کارروائی کا آغاز قاری فیاض الرحمن علوی کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کے بعد کانفرنس کے داعی مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی نے خطبہ استقبالیہ میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے انعقاد کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف زمانہ شناس تھے اور انھوں نے اپنے علم وفہم کی روشنی میں اپنے اپنے زمانے کی مشکلات کا حل پیش کیا۔ اسی طرح آج ہمیں بھی دور جدید کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن کا عملی حل پیش کرنا دین متین سے وابستہ شخصیات کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں جدید سائنسی انکشافات اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے سامنے آنے والے علمی وفکری سوالات کا جائزہ لیا جائے گا اور علما، محققین اور دانش ور ان مسائل پر اظہار خیال کریں گے۔

افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سرحد جناب محمد اکرم درانی نے معزز مہمانوں کو پشاور میں خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس نشست کے انعقاد کے لیے پشاور کا انتخاب کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشرے میں سامنے آنے والے نت نئے مسائل کے حل کے لیے عوام علما ہی سے رجوع کرتے ہیں اور یہ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب علم ودانش محققانہ انداز گفتگو اختیار کرتے ہوئے اپنے اپنے موضوع کے حوالے سے فقہ اسلامی کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کریں گے۔ جناب اکرم درانی نے کہا کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے، لیکن عالمی سطح پر اس کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے سرحد حکومت کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ علما وطلبا کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ حکومت کو جو بھی مشکل پیش آتی ہے، اس کا فوری حل نکالنے میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ بھی ہمیشہ علما سے راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔

قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں فقہی مسائل وموضوعات پر کانفرنسوں کے انعقاد کو وقت کا تقاضا قرار دیا اور کہا کہ اسلام پوری انسانیت کا دین ہے اور اس کی تعلیمات شخصی زندگی کے دائرے تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ معاشرہ واجتماع کے ہر مرحلہ اور ہر شعبہ میں انسان کی راہنمائی کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت کی راہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے ہیں، اسی طرح آپ کی امت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ساری انسانیت کے لیے ذریعہ ہدایت بنے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام انسانیت کو امن کا پیغام دیتا ہے اور اس کے نزدیک تمام انسانوں کی جان، مال اور عزت وآبرو محترم اور مقدس ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام انسانی حقوق انھی تین چیزوں کے گرد گھومتے ہیں اور اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ان تینوں چیزوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی عالمی برادری کا تصور دیتا ہے اور جو دین، دنیا کی قوموں کو ایک برادری کا تصور دے کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ کا پیغام دے، وہ سخت گیر نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام دین اعتدال ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو کھانے پینے، تعلقات قائم کرنے، آمد وخرچ ، حتیٰ کہ عبادات میں بھی اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، اور اسی وجہ سے عالم انسانیت کے ایک بڑے حصے نے اس دین کو قبول کیا ہے۔ 

انھوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امن وسلامتی کے پیغمبر تھے، لیکن ان کی پیروی کے دعوے دار افغانستان اور عراق میں اپنا کردار دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں انسانیت پر کیا گزر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے انھی لوگوں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے علم بردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال کا بڑا چرچا ہے اور اس کی آڑ میں کہیں پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے تو کہیں لوگوں کو لنگڑا اور ٹنڈا بننے کا خوف دلا کر اسلامی احکام سے باغی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کو انسانی زندگی ختم کرنے سے نہیں، بلکہ اس کی حفاظت سے دلچسپی ہے اور اسی وجہ سے اس نے معاشرتی جرائم کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی سزاؤں کی تاثیر دیکھنی ہو تو اس سوسائٹی کا جن میں اسلامی حدود جاری ہیں، ان معاشروں کے جرائم کی شرح کے ساتھ تقابل کر کے دیکھ لیا جائے جو ان سزاؤں سے خالی ہیں۔ 

ملکی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معاہدات کو توڑنا یا ان کی پاس داری نہ کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی قوم کے قائدین کی بڑائی کی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان کی لاج رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام اور جمہوریت اس ملک کی اساس ہیں اور آئین پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، پارلیمانی طرز حکومت اور جمہوریت کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے اور اختلافات کو افہام وتفہیم سے سلجھانے کی روش اپنائی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور دلیل سے بات کرنا جانتے ہیں، اور ہم ملکی و عالمی قوتوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ طاقت سے نہیں، بلکہ دلیل سے بات کرو۔

کانفرنس کی مختلف نشستوں میں علما اور اہل دانش نے مجوزہ موضوعات پر مقالے پڑھے جن میں سے کچھ کے عنوانات حسب ذیل ہیں:

جدید سائنسی انکشافات اور اسلام، جدید سائنسی تحقیقات وایجادات اور اسلام کا نظریہ تحقیق ودلیل، جدید سائنسی تحقیقات پر مرتب شرعی احکام کے لیے فقہی اصول وضوابط، انسانی دماغ کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور اس پر مرتب فقہی مسائل، جدید طبی مسائل سے متعلق اہم سوالات کی نشان دہی، قرآن مجید کا نظریہ تسخیر کائنات، محرمات شرعیہ اور جدید سائنس، خلقت جنین کے بارے میں جدید سائنسی تحقیق اور قرآن کریم، انسانی کلوننگ کی شرعی حیثیت، قرآن، سائنس اور سمندر، خلافت وامامت کی اہمیت، رؤیت ہلال میں جدید سائنسی تحقیقات کی شرعی حیثیت، فلکیات جدیدہ قرآن وحدیث کی روشنی میں۔

مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمد یٰسین بٹ (انجینئرنگ یونیورسٹی، ٹیکسلا)، مولانا عبد القیوم حقانی (جامعہ ابو ہریرہ، نوشہرہ)، ڈاکٹر محمد اسلم خان، مولانا حفیظ اللہ (دار العلوم، کبیر والا) ، مولانا مفتی عبد النور (جامعہ فریدیہ، اسلام آباد)، پروفیسر صلاح الدین ثانی (قائد ملت کالج، کراچی)، مولانا مفتی محمد زاہد (جامعہ امدادیہ، فیصل آباد)، مولانا نعمت اللہ حقانی (وزیر ماحولیات، صوبہ سرحد)، پروفیسر شبیر احمد کاکاخیل (پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، پروفیسر نثار احمد (پشاور یونیورسٹی) ، ڈاکٹر محمد داؤد اعوان (وائس چانسلر، ہزارہ یونیورسٹی)، ڈاکٹر حمید الرحمن بن جمیل (ام القریٰ یونیورسٹی، مکہ مکرمہ) اور مصباح الدین یوسفی (دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد) شامل تھے۔ 

دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ ملک بھر کے معتمد اہل علم وتحقیق کے باہمی اشتراک سے امت مسلمہ کو درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے ایک مجلس قائم کی جائے گی۔

۲۔ جدید فقہی مسائل پر کانفرنسز، سیمینارز، اجتماعات اور مجالس کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

۳۔ جامعات، مدارس اور عصری تعلیمی درس گاہوں اور تحقیقی اداروں میں عصری مسائل پر فقہی تحقیق کا سلسلہ جاری کیا جائے گا۔

۴۔ جدید مسائل پر فقہی تحقیقات پر مشتمل مقالات ومضامین سہ ماہی ’’المباحث الاسلامیہ‘‘ اور شش ماہی ’’البحوث الاسلامیہ‘‘ میں شائع کیے جائیں گے اور ان جرائد کی اشاعت کو مزید بڑھایا جائے گا۔

۵۔ عصر حاضر کے مسائل ومشکلات کے حل کے لیے اہل علم اور علمی اداروں کو آگے بڑھنا چاہیے جبکہ اہل خیر کو اس ضمن میں بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ اسی طرح علما اور دینی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی ربط وتعاون اور اتحاد کو برقرار رکھیں۔

۶۔ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کے اسلامی اور رفاہی اقدامات قابل تحسین ہیں۔ ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی مزید کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔

۷۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینا ہر مسلمان حکومت کا فریضہ ہے۔ عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں پر جاری مظالم کو بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

الشریعہ اکادمی میں فکری نشست

تحریک ختم نبوت کے عالمی مبلغ اور ختم نبوت اکیڈمی لندن کے ڈائریکٹر الحاج عبد الرحمن باوا نے کہا ہے کہ مغربی دنیا تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لیے علماء کرام کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے جدید ذرائع کی مہارت بھی حاصل کرنا ہوگی، ورنہ وہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کر سکیں گے۔ الشریعہ اکیڈمی ہاشمی کالونی کنگنی والا گوجرانوالہ میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مغرب میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا وسیع میدان موجود ہے، جبکہ قادیانی گروہ اور اس جیسے دیگر گمراہ ٹولے اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے میں مصروف ہیں، اس لیے دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ علما اور فضلا کی تیاری میں اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں اور نوجوان علماء کرام کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے استعمال کی ٹریننگ بھی دیں۔ 

مجلس احرار اسلام کے مرکزی راہ نما مولانا سید کفیل شاہ بخاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علماء کرام اور دینی مراکز پر زور دیا کہ وہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کے ضروری تقاضوں کا ادراک حاصل کریں اور اس کے مطابق اپنی ترجیحات اور حکمت عملی پر نظر ثانی کریں تاکہ وہ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکیں۔

تقریب کی صدارت الشریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی اور پروفیسر محمد اکرم ورک نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے، جبکہ اس موقع پر شرکاء محفل کو بتایا کہ الشریعہ اکیڈمی میں حسب سابق اس سال بھی ایک سالہ کلاس میں درس نظامی کے فضلا کو انگریزی، عربی، کمپیوٹر، بین الاقوامی قانون، سیاست، معیشت، نفسیات، شہریت اور دیگر ضروری مضامین پر مشتمل کورس پڑھایا جائے گا۔


اخبار و آثار

(فروری ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter