امت مسلمہ آج جن مسائل سے دوچار ہے، ان سے کون ذی شعور شخص ناواقف ہوگا؟ اس حوالے سے جذبات، تاثرات، تحریریں اور پھر مذاکرات اور کانفرنسوں کے ذریعے تجاویز اور آرا وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن یہ صورت حال جس قدر گھمبیر، پیچ در پیچ الجھاؤ سے دوچار اور ہمہ جہت قسم کی ہے، اس اعتبار سے شاید غور وفکر کا حق ابھی تک ادا نہیں ہو سکا جس کا قرض اس امت کے ذمہ باقی ہے اور معاملے کی نوعیت کے پیش نظر ان امور کے بارے میں مزید غور وفکر ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری اور فوری ضرورت ہے۔
یہ امور اپنی اہمیت کے پیش نظر اور موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں باہم مل کر مشترکہ موقف دنیا کے سامنے پیش کریں۔ راقم کی دانست میں ان امور پر اہل دانش کے درمیان صحیح اور خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مکالمہ فوری ضرورت ہے اور اس کے لیے رسمی کانفرنسیں اور سیمینار قطعاً ناکافی ہوں گے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے اجتماعات میں سنجیدہ موضوعات پر طویل بحثیں تو ہو جاتی ہیں مگر انھیں نکات کی شکل دینا اور حتمی نتائج مرتب کرنا ’کارے دارد‘ کا مصداق ہوتا ہے۔ اس لیے سنجیدہ اور چنیدہ اہل علم اور دانش وروں کا، خواہ ابتدائی سطح پر اور محدود پیمانے پر ہی ہو، مل بیٹھ کر ان امور پر غور کرنا اور پھر مشترکہ رائے کا اظہار ضروری ہے جس کے لیے کوئی بھی قابل عمل صورت متعین کی جا سکتی ہے۔
راقم سردست ان امور کی ایک اجمالی فہرست پیش کر رہا ہے جو ہم سے فوری غور وفکر کے متقاضی ہیں۔ یہ سطور ارتجالاً لکھی جا رہی ہیں۔ پھر راقم کی حیثیت ایک مبتدی کی ہے۔ اس بنا پر ان عنوانات وتفاصیل میں ہر طرح کا حک واضافہ عین ممکن ہے۔ ان سطور کی حیثیت محض ایک پتھر کی ہے جو خاموش جھیل میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے پھینکا جاتا ہے۔
۱۔ دہشت گردی کی متفقہ تعریف: آج امت مسلمہ کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ہے۔ وہ دو جانبوں سے اس مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ ایک جانب تو وہ ریاستی دہشت گردی ہے جس سے مسلم علاقوں کے مکین دوچار ہیں۔ دوسری جانب مغرب کے تصورات کے تحت خود ان کے اندر دہشت گردوں کی تلاش جاری ہے۔ اس باب میں ہماری جانب سے بارہا یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ یہ سوال بجائے خود درست ہے لیکن اس سوال کے مخاطب صرف اقوام مغرب نہیں، خود ہم بھی ہیں۔ اس محاذ کے ایک فریق کی حیثیت سے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کی متفقہ تعریف متعین کریں جو اس کے تمام لوازم اور جزئیات ومتعلقات کا احاطہ کرے اور اس کی حدود وقیود کو واضح کرے تاکہ ہمیں اس سے متعلق تمام سوالات کے جواب حاصل ہو سکیں۔ مثلاً فلسطین، کشمیر، چیچنیا وغیرہ میں مسلم گروہوں کی جانب سے کی جانے والی مسلح جدوجہد کی اسلامی حیثیت کیا ہے؟ کیا ریاستی چھتری کے بغیر جہاد کا تصور اسلامی شریعت میں موجود ہے؟ گوریلا جنگ کی حدود کیا ہیں؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جیسے واقعات دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ وغیرہ۔
۲۔ جہاد کی ضرورت واہمیت اور متفقہ تعریف: یہ اصلاً پہلے نکتے ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کی ضرورت، حدود وقیود اور شرائط وآداب پر مشترکہ رائے کا اظہار آج ہمارے لیے ناگزیر ہے۔
۳۔ خود کش حملے: اس بارے میں امت مسلمہ میں تین طرح کی آرا پائی جاتی ہیں اور عقلاً بھی تین ہی طرح کی آرا ممکن ہیں: ۱۔ مطلق جواز، ۲۔ مطلق انکار اور ۳۔ مشروط جواز۔ صحیح صورت حال کیا ہے؟ یہ سوال ہماری توجہ کا طالب ہے۔
۴۔ غیر مسلموں سے تعلقات: یہ سوال ہر دور میں مسلم علما کے سامنے رہا ہے لیکن عصر حاضر کی سیاسی ومعاشرتی صورت حال میں ہمیں اس کی حدود اور معنویت پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ اس باب میں کچھ کام ہوا ہے لیکن تفصیلی غور وفکر ابھی باقی ہے۔
۵۔ اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ مکالمہ بین المذاہب جس کا آج کل کافی چرچا ہے اور نجی وحکومتی سطح پر کئی اطراف سے کوششیں بھی جاری ہیں، کس بنیاد پر ہونا چاہیے؟ وہ کون سے نکات ہیں جن پر ہم دوسرے مذاہب سے تعاون بھی کر سکتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے ان سے رابطہ بھی استوار کر سکتے ہیں۔
۶۔ مسلم ممالک میں آج کل عجیب صورت حال ہے۔ اکثر ممالک میں عوام کی بڑی تعداد اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی۔ سو انھیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اپنی رائے پر قائم رہیں؟ اپنی رائے سے حکومت کو مطلع کرنے کے لیے انھیں کون سے طریقے اختیار کرنے کی اجازت ہے؟
۷۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے جس پر امت عرصے سے غور وفکر کرتی چلی آ رہی ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کا کون کون سا راستہ شریعت میں بتایا گیا ہے؟ خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ عوام کی ایک معتد بہ تعداد اس عمل کو ضروری سمجھتی ہو؟
۸۔ نیز یہ کہ ان حالات میں حکومتوں سے عوام الناس کن حدود کے اندر تعاون کر سکتے ہیں اور کن کن امور پر ان کے لیے حکومتی پالیسی سے اتفاق ضروری ہے؟
۹۔ آج یہ بات بھی زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ اس وقت جو صورت حال ہے، وہ تہذیبی یلغار کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ لیکن ثقافت اور تہذیب، یہ دونوں الفاظ خود مغرب کے ہاں پیچیدہ اصطلاحات کے گورکھ دھندے میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کی متفقہ تعریف جس میں ان میں سے ہر ایک کی حدود وقیود کو واضح کیا گیا ہو، ان کے ہاں بھی موجود نہیں۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ ہم تہذیبی کشمکش سے دوچار ہیں تو ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ تہذیب وتمدن اور ثقافت اور کلچر کی تعریف اور حدود وقیود کو واضح کریں۔اور جب ہم اسلامی ثقافت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ اس کی حدود کی نشان دہی کریں اور واضح کریں کہ کون کون سی اشیا اس میں شامل ہیں، کون کون سی اس کے معارض ہیں اور کون کون سی چیزیں اس دائرے سے خارج ہیں۔
یہ تمام امور امت مسلمہ میں فکری انتشار اور ذہنی خلجان کا باعث بن رہے ہیں۔ نتیجتاً من چاہی تعبیروں اور جذبات کی سیاہی سے لکھے جانے والی تحریروں کی بہتات ہے مگر صحیح اسلامی فکر کی روشنی میں کی جانے والی مدلل گفتگو کا فقدان ہے۔پوری دل سوزی کے ساتھ راقم اہل علم سے درخواست کرتا ہے کہ ان امور پر امت مسلمہ کی راہ نمائی فرمائی جائے اور اپنے غور وفکر کے نتائج سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری صحیح راہنمائی فرمائے، آمین۔