مکرمی جناب مدیر ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ
سلام مسنون!
آپ کی جانب سے قاری ہونے کا اعزاز بحال فرمانے پر شکر گزار ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ میرا یہ اعزاز آپ کے کرم ہی سے باقی رہ سکتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے قضیے کے بارے میں سلسلہ مضامین میری دلچسپی سے باہر ہے۔ اس کے باوجود میں نے اسے پوری دلچسپی سے پڑھا ہے۔ اس پر آنے والے تبصرے اور جوابات بھی شوق سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ سب کچھ کافی ذہن کشا ہے۔ خوشی کا باعث یہ بات ہے کہ عزیزم محمد عمار خان صاحب کے اسلوب بیان میں علمی سطح، شائستگی، شستگی، دقت نظر، جدید وقدیم کا امتزاج ایسی خوبیاں ہیں کہ اگر مبالغے کی تہمت کا خطرہ نہ ہو تو آج کے دور میں معجزہ کہوں گا۔ بہرحال میں اپنی خوشی کا برملا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔
کسی شمارے میں یہ ذکر ہوا ہے کہ ۱۹۷۰ء کے زمانے میں ملکیت کے مسئلہ پر ایک مضمون تحریر فرمایا تھا جس پر بعض حلقوں نے کافی کچھ لکھا تھا۔ براہ کرم اگر ممکن ہو تو میرے استفادہ کے لیے اس مضمون کی تلاش اور فراہمی کی زحمت فرمائی جائے۔
دینی جماعتوں میں اپنے اپنے مسلک پر شدت کے باوجود میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اس میں گہرائی اور گیرائی مجروح ہو رہی ہے۔ میرا تعلق جماعت اسلامی سے رہا ہے۔ آج جماعت والے جانیں یا نہ جانیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حدیث وسنت کی حیثیت کے بارے میں مولانا مودودی مرحومؒ نے جس شدت سے مناظرہ فرمایا، وہ ان کی اپنی حیات کا واحد مناظرہ تھا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جب سے جماعت میں کچرا داخل ہونا شروع ہوا ہے، یوں لگتا ہے کہ انکار حدیث کے نقطہ نظر کو لے کر آنے والے بھی جماعت کی صفوں میں گھس گئے ہیں اور قیادت ایسے گمراہ لوگوں کو اپنی طاقت بنانے کا پورا موقع دینے لگی ہے۔
اس سلسلہ میں، میں اپنے دو محترم ساتھیوں ، جو کہ جماعت کے وکلا فورم پر مقتدر اور موثر ہیں، کے طرز عمل کے بارے میں فورم کی قرارداد کا متن ارسال کر رہا ہوں۔ یہ قرارداد مورخہ ۲۹ جولائی ۲۰۰۴ء کو اسلامک لائرز موومنٹ کے باقاعدہ اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ قرارداد قارئین کے لیے قابل توجہ ہے۔ اس کا پہلا حصہ حدیث وسنت کی صحت اور اسلامی حدود کے بارے میں ہمارے اپنے دوستوں کی انتہائی دل خراش سطح پر مہم سے متعلق ہے اور جماعت کے بالائی نظم کے لیے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ آپ کے ادارے کو اس سلسلہ میں واسطہ اس لیے بنا رہا ہوں کہ بات محدود سطح تک رہے اور اہل جماعت توجہ فرمائیں اور گمراہی کے فروغ پر فائز ارکان جماعت کی تفہیم کا فوری انتظام ہو سکے۔
آخر میں تازہ شمارے پر کچھ کہے بغیر بات پوری نہیں ہو سکے گی۔ پورا شمارہ بہت شاندار ہے، خاص طور پر سیرت پر مضمون بہت پسند آیا۔ اس میں فکری ندرت اور تخلیقی رجحان بہت قابل قدر ہیں، اسے بطور سلسلہ اختیار کیا جائے تو واقعتا بڑی خدمت ہوگی۔ والسلام
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
گوجرانوالہ
باجلاس اسلامک لائرز موومنٹ گوجرانوالہ
چوہدری محمد یوسف (سائل) بنام چوہدری محمد سلیم چہل وغیرہ (مسؤل علیہم)
درخواست مورخہ ۰۴-۱-۲۴ نسبت مہم وتبلیغ بر خلاف قوانین حدود وحجیت حدیث رسول
مجوزہ قرارداد بطور فیصلہ درخواست
جناب صدر! بطور فیصلہ درج ذیل قرارداد تجویز کی جاتی ہے:
۱) مورخہ ۲۴ جنوری ۰۴ء کی درخواست میں شکایت کی گئی کہ اسلامک لائرز موومنٹ گوجرانوالہ کے سابق صدر جناب سلیم محمود چہل اور موجودہ صدر جناب محمد سلیم کھوکھر نے مختلف عدالتوں میں حدود کے قوانین کے نصاب حرز، تزکیۃ الشہود اور رجم کی دفعات کو تحریک کا نام استعمال کرتے ہوئے چیلنج کیا اور اس کے لیے جس نقطہ نظر کو بنیاد بنایا، وہ مسلمان کے بنیادی عقیدے کے منافی ہے۔ مزید برآں درخواستوں میں جو پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے، وہ فنی اور اخلاقی لحاظ سے غیر معیاری ہے۔ شکایت سے پہلے سائل نے ایک خط کے ذریعے تحریک کے صدر (جناب محمد سلیم کھوکھر) کو صورت حال کی جانب متوجہ کیا۔ خط کا جواب نہ پا کر موجودہ شکایت پیش کی گئی۔ استدعا میں کہا گیا کہ:
’’موجودہ صدر جناب محمد سلیم کھوکھر اور محترم چہل صاحب کا طرز عمل جماعت اور تحریک کے دستور میں رکن کے لیے درج عقیدے کے خلاف کھلم کھلا تبلیغ کے مترادف ہے۔‘‘
مورخہ ۰۴-۳-۴ کو شکایت اجلاس میں پیش ہوئی۔ شکایت پر کارروائی کے دوران مسؤل علیہم اور بعض ساتھیوں کا طرز عمل خصوصی توجہ کا محتاج ہے۔ اس کے لیے الگ سے بحث کی جائے گی۔ البتہ یہاں اتنا ذکر کافی ہے کہ موجودہ صدر جناب محمد سلیم کھوکھر صاحب نے مورخہ ۰۴-۶-۱۰ کو اجلاس میں رجوع کرتے ہوئے چہل صاحب کی تحریروں کو لغو، لاحاصل اور بیہودہ قرار دے کر ان سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس بنا پر محترم کھوکھر صاحب کے خلاف کارروائی اپنے انجام کو پہنچی۔ جبکہ جناب سلیم محمود چہل صاحب نے کارروائی میں ایک عرصہ شرکت کے بعد احتجاجاً استعفا دیا اور کارروائی میں شرکت سے گریز اختیار کیا۔ اجلاس نے ایک کمیٹی کے ذریعے محترم چہل صاحب کو اجلاس میں واپس لانے کی کوششوں کے بعد ان کو تحریری نوٹس کے ذریعے کارروائی میں حصہ لینے کی درخواست کی۔ نوٹس کے بعد بھی چہل صاحب تشریف نہ لائے جس پر ان کے خلاف ان کی غیر حاضری میں کارروائی کی تکمیل کا فیصلہ مورخہ ۰۴-۷-۱ کے اجلاس میں کیا گیا۔
۲) شکایت کے ساتھ شامل دستاویزات میں مسؤل علیہم کی دو تحریریں اہم ہیں:
درخواست مورخہ ۰۳-۸-۳ روبرو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانولہ نسبت قانون سرقہ
درخواست روبرو عدالت عالیہ لاہور نسبت قانون رجم
شکایت زیر بحث کے مطابق مندرجہ بالا ہر دو درخواستوں پر مسؤل علیہم نے دستخط کیے اور ان کی عدالتوں میں پیروی کی۔ فنی عذرات کے تحت عدالتوں میں پذیرائی میں ناکامی کے بعد مسؤل علیہم نے درخواستوں کی وکلا اور عام لوگوں میں تقسیم جاری رکھی۔
۳) مسؤل علیہم کی تحریروں سے جو نقطہ نظر سامنے آتا ہے، وہ اس طرح ہے:
سرقہ کے قانون کے بارے میں درخواست میں لکھا گیا:
’’قرآن کا دعویٰ بابت اکمل وکامل سورۂ مائدہ کی آیات پر بھی برابر کا لاگو ہے اور کسی بندے کو یہ جسارت نہیں دی جا سکتی کہ وہ سورۂ مائدہ کے روشن وواضح احکام میں کوئی اضافہ، استثنا، ترمیم، تخفیف کی مجال کرے۔....... لوگو! ...... تمہارے درمیان ایک چیز .... چھوڑے جاتا ہوں...... وہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۳ کا آخری پیرا گراف، رجم سے متعلق درخواست صفحہ نمبر ۹، ساتویں سطر)
رجم سے متعلق درخواست کے صفحہ نمبر ۱۱ پر لکھا گیا:
’’رحمت للعالمین پر یہ اتہام لگانا کہ انہوں نے منافی قرآن سزا (رجم) صادر فرمائی، ایک غیر محتاط بیان ہے، خواہ کتنی ہی متواتر المعنی حدیثوں میں کیوں نہ ہو۔ کسی مسلمان کو زیب نہیں کہ وہ خلق عظیم پر فائز بزرگ ترین ہستی پر سنی سنائی روایت کے ذریعے منسوب کرے۔‘‘
اسی طرح کتاب اللہ کو کافی قرار دیتے ہوئے رجم سے متعلق احادیث کی حجیت سے انکار کو بنیاد بنایا گیا اور سرقہ سے متعلق نصاب اور حرز کی دفعات کو بھی قرآن میں نہ پا کر چیلنج کیا گیا۔ حرز اور نصاب کی نسبت احادیث کا عربی متن اور اردو ترجمہ سائل نے اپنی شکایت میں حوالوں کے ساتھ درج کیا۔ شکایت کی نقول مسؤل علیہم اور تمام ممبران کو مہیا کی گئیں۔ شکایت کا متعلقہ حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تقطع ید السارق فی ربع دینار فصاعدا (سنن ابو داؤد، کتاب الحدود، باب فی ما یقطع السارق، ۴۲)
’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ ایک چوتھائی دینار یا زیادہ مالیت کی چوری پر کاٹا جائے۔‘‘
لا قطع فی ثمر معلق ولا فی حریسۃ جبل فاذا اواہ المراح او الجرین فالقطع فی ما یبلغ ثمن المجن (الموطا، ۱۵۷۳)
’’میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا بکری پہاڑ پر چرتی ہو اور کوئی اسے چرا لے جائے تو اس میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ ہاں اگر وہ کھلیان میں آ جائے یا وہ باڑے میں پہنچ جائے تو ہاتھ کاٹا جائے، بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو۔‘‘
۴) کارروائی کے دوران محترم چہل صاحب نے اپنے نقطہ نظر کے دفاع میں یہ کہا کہ وہ احادیث پر ایمان رکھتے ہیں اور انہوں نے کئی مواقع پر احادیث کے حوالے پیش کیے ہیں، لیکن انہوں نے متنازعہ تحریروں کے بارے میں رجوع کیا اور نہ ہی ان کی کوئی وضاحت پیش کی۔ محترم چہل صاحب کی دونوں تحریروں کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بات بہت واضح ہے کہ وہ قرآن سے باہر، ہر چیز کو قرآن میں اضافہ وترمیم خیال کرتے ہوئے قابل لحاظ نہیں سمجھتے۔ اسی لیے وہ رجم، نصاب اور حرز کی دفعات کو منافی قرآن قرار دیتے ہیں۔ سرقہ سے متعلق درخواست کا صفحہ نمبر ۳ اور رجم سے متعلق درخواست کا صفحہ نمبر ۷ قابل ملاحظہ ہے۔ متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:
’’اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں۔‘‘
’’تمہارے رب کی کتاب سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو بدلنے والا نہیں۔‘‘
’’اے محمد کہہ دو میں اس کتاب کو اپنی طرف سے بدلنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اس وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف اتاری جاتی ہے۔‘‘
اس طرح جناب چہل صاحب کا نقطہ نظر سخت ذہنی مغالطے کا نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی اور اسلامک لائرز موومنٹ کے دستور میں رکن کے لیے درج عقیدے کے منافی ہے۔ انہوں نے اس کا تواتر کے ساتھ ابلاغ کیا ہے۔ بحث کے دوران انہوں نے اس پر اصرار کیا ہے اور بعد ازاں احتجاج کی آڑ میں جواب دہی سے گریز کیا، جس کے پیش نظر ان کے خلاف یک طرفہ فیصلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ چھوڑا۔
۵) یہاں یہ بھی عرض کر دینا ضروری ہے کہ حرز اور نصاب کے بارے میں چہل صاحب کے ارشادات حیرانی کا باعث ہیں۔ چوری کی بنیادی تعریف میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں۔ ہاتھ کاٹنے کی سزا سے قطع نظر تعزیر کے لیے بھی دونوں چیزوں کا اثبات لازم ہوگا۔ ایسی چیز جو مالیاتی قدر سے کم ہو، اس میں تو تعزیر بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔ چہل صاحب کا نقطہ نظر اس پہلو سے تو قانون کی مبادیات سے انحراف کے مترادف ہے۔
اسلامک لائرز موومنٹ کا یہ موقف واضح ہے کہ حرز، نصاب، تزکیۃ الشہود اور رجم کی دفعات سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہیں اور ان کو قرآن کے منافی قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سرقہ کی تعریف قرآن حکیم میں موجود نہیں۔ اس کی تعریف احادیث کی روشنی میں علماے قانون کا کام ہے۔ یہی کچھ کر کے ان قوانین کے مسودے مرتب کیے گئے۔ اس کے لیے سعودی حکومت کے اس وقت کے مشیر اور اخوان المسلمون کے سابق رہنما اور سابق وزیر اعظم شام ڈاکٹر معروف دوالیبی کی خدمات کا ہمیں اعتراف ہے۔ جناب چہل صاحب نے ان مسودات قانون پر جو کچھ بھی کہا ہے اور جس انداز سے کہا ہے، وہ ان کی ذاتی سوچ تو ہو سکتی ہے مگر اس کی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں۔ ہمارے ممبر کے طور پر اور ہمارے نام کے تحت ان کا اس بارے میں ابلاغ عام موومنٹ کی حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوا ہے۔ دینی مباحث پر کوئی پابندی نہیں مگر بحث کی حدود اور اصول متعین ہیں۔ ان سے تجاوز کی کوئی گنجایش نہیں۔ احادیث ،سند، تعبیر واطلاق کے لیے اصول حدیث کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ اسی طرح قرآن کے آسان اور مبین ہوتے ہوئے اس کی تفہیم وتشریح کے لیے لغت، تفسیر اور حدیث لازم ہیں۔ اب اگر چہل صاحب کا یہ خیال ہو جیسا کہ انہوں نے برسراجلاس یہ کہا کہ انہوں نے ایک آیت کو سمجھنے کے لیے باون انگریزی ڈرامے پڑھے ہیں، پھر اسی اجلاس میں انہوں نے تفہیم القرآن سنائے جانے کے خلاف احتجاج کیا اور سننے سے انکار کر دیا، اس طرح یہ واضح ہے کہ ان کے مطالعے کا شوق بے کراں ہونے کے باوجود ٹھوس علمی بنیاد سے خالی ہے۔ ہماری یہ حسرت ہے کہ ان کا شوق ٹھوس علمی بنیاد حاصل کر لیتا۔ کاش اس مکالمے کو شخصی کے بجائے علمی سطح پر چلنے دیا جاتا تو شاید اس سلسلہ میں فورم کوئی اچھی صورت پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا۔
۶) سائل نے یہ شکایت بھی کی کہ چہل صاحب نے اپنا نقطہ نظر جس پیرایہ بیان میں پیش کیا ہے، و ہ فنی لحاظ سے ناقص اور اخلاقی طور پر فروتر ہے۔ اس پہلو سے جب دونوں تحریروں کو دیکھا جائے تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص، قرآن اور اقبال کے حوالوں سے بات کرنے والا، اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں ایسا غیر علمی انداز تحریر اختیار کرے۔ حوالہ کی خاطر ان کے چند جملوں کا ذکر کافی ہے۔ حرز، نصاب اور تزکیۃ الشہود کو چور نواز زنجیریں، دین وشریعت کے مطالعے میں عمریں کھپا دینے والوں پر بو لہبی کے مارے ہوئے فقہا، مادر زاد اندھے، قرآن کے نور سے نابلد، گدھے کی پیٹھ پر کتابوں کی کہاوت کا مصداق قرار دیں۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے معاون خصوصی ملک غلام علی، مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم کے صاحبزادہ مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کو جانے پہچانے روایتی اسلام کے ایک فرقے کے ترجمان قرار دیں۔ ان جملوں پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ ہمارے منشا کو واضح کرنے کے لیے ان کا ذکر ہی کافی ہے۔
................
۸) اوپر درج تفصیلی جائزے کے بعد تجویز دی جاتی ہے کہ یہ قرار دیا جائے کہ محترم چہل صاحب نے واقعتا مسلمان کے بنیادی عقیدے کے خلاف تحریری وزبانی تبلیغ کر کے نہ صرف اپنے حلف رکنیت کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ حدود کے قوانین کے بارے میں بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں کی ہیں۔ کارروائی کے دوران جناب چہل صاحب اور جناب محمد سلیم کھوکھر صاحب نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے، وہ نظم کی شدید خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں چہل صاحب کی رکنیت فوری طور پر معطل کر کے ان کے اخراج کی سفارش کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چمن رشید صاحب کے استعفے کے بعد اور پہلے کے طرز عمل کے پیش نظر ان کے استعفے کی منظوری کی سفارش کر دینا ہی مناسب خیال کیا جاتا ہے۔ محمد سلیم کھوکھر صاحب کے طرز عمل کی تفصیلات اوپر درج کر دی گئی ہیں۔ ان کے رجوع کے پیش نظر، ان کے طرز عمل پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مزید برآں محترم جناب چوہدری سلیم محمود چہل صاحب کو قرارداد ہذا کی نقل فراہم کی جائے، ان کے لیے ایک ماہ کا موقع ہوگا کہ وہ ہماری قرارداد پر غور کر کے اپنے نقطہ نظر کو قرارداد کی روشنی میں تبدیل کر لیں، بصورت دیگر موجودہ قرارداد اخراج کی سفارش کی حد تک موثر ہو جائے گی۔
۹) جناب سلیم محمود چہل صاحب جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال سے نظم جماعت کو متوجہ کریں۔
۱۰) اس ساری صورت حال میں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ہمارے ہاں دوستوں کی ذہنی اور علمی سطح کو کافی زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے لیے لازم ہے کہ اس کا اہتمام کرے۔ خاص طور پر حدیث رسول کی صحت، جمع وتدوین، حدود کے قوانین اور دین کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے ممبران کے لیے استفادے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
۱۱) اسلامی حدود پہلے ہی بعض سرکاری حلقوں کی جانب سے نشانہ پر ہیں۔ ہمارے اپنے ساتھیوں کی جانب سے ان پر چاند ماری سے ہماری تنظیم کی حیثیت مجروح ہوئی ہے۔ اس کی تلافی کے لیے مناسب اقدامات کرنے لازم ہیں۔
(مرتبہ وپیش کردہ: چوہدری محمد یوسف)