بین المذاہب کانفرنس برائے عالمی امن و عدل اجتماعی

پروفیسر حافظ منیر احمد

جون ۲۰۰۴ میں اوسلو (ناروے) میں پہلی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گورنمنٹ آف ناروے اور نارویجن چرچ کی دعوت پر مولانا محمد حنیف جالندھری (جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان) کی قیادت میں پاکستان کے مقتدر مسیحی ومسلم مذہبی راہنماؤں کے ایک وفد نے شرکت کی۔ وفد کے دیگر ارکان میں مولانا مفتی منیب الرحمن (چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی)، مولانا فضل الرحیم (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور)، مولانا ریاض حسین نجفی (نائب صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان)، بشپ سموئیل عزرایاہ، مولانا عبد المالک (ایم این اے)، مولانا عبید اللہ خالد، محمد سعید اختر اور ڈاکٹر مانو رمل شاہ شامل تھے۔

اس کانفرنس کا مقصد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کی فضا کا فروغ تھا اور اس حوالے سے یہ کانفرنس امید کی ایک کرن ثابت ہوئی۔ کانفرنس کے ایجنڈے میں دنیا میں امن اور مذہبی ہم آہنگی کا فروغ، تشدد کا خاتمہ، جنگ اور دہشت گردی سے نجات، تحمل وبردباری اور انسانیت کا احیا جیسے موضوعات شامل تھے۔ کانفرنس میں موضوع سے متعلق مختلف مسائل پر بحث مباحثہ ہوا اور ایسے اقدامات پر غور وفکر کیا گیا جن سے دنیا میں امن اور ترقی کا دور دوبارہ شروع ہو سکے۔ ناروے کی حکومت، چرچ آف ناروے اور ناروے کی مقامی مسلم کمیونٹی نے مذہبی گروہوں کے درمیان اتحاد ویگانگت کی فضا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کانفرنس میں مقررین نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے قائدین سے گزارش کی کہ وہ انسانی معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر کوشش کریں اور اس ضمن میں نمایاں کردار ادا کریں۔ کانفرنس کے شرکا کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری کردہ اعلامیہ میں پوری دنیا کی اقوام سے اپیل کی گئی کہ وہ ایک دوسرے کی مذہبی آزادیوں میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کریں۔ نیز اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ مختلف مذاہب کے لوگ دنیا کو امن اور انسانی عظمت کا گہوارہ بنائیں گے اور مختلف ثقافتوں کے تصادم کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ علاوہ ازیں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس معاملے میں بنیادی کردار مذہب کا ہونا چاہیے کیونکہ ہر مذہب امن کا داعی ہے۔

’’اعلان اوسلو‘‘ کے تحت پاکستان میں بھی ورلڈ کونسل آف ریلیجنز برائے عالمی امن وعدل اجتماعی کے زیر اہتمام ۱۶ ستمبر ۲۰۰۴ء کو نیشنل لائبریری ہال اسلام آباد میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کے انعقاد عمل میں لایا گیا۔

کانفرنس کی پہلی نشست کی صدارت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب جنرل پرویز مشرف نے کی۔ کانفرنس کے داعی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ آج کا دن ایک تاریخی دن ہے جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی راہنماؤں کے علاوہ بہت سے غیر ملکی مندوبین بھی اس فورم پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ کانفرنس اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ مذہب فساد کی وجہ نہیں بلکہ امن کا ضامن ہے۔ انھوں نے کانفرنس کے انعقاد کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے امن ومحبت کے فروغ کے لیے اپنی اور اپنے رفقا کی جانب سے کوششوں کو تیز تر کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے مدارس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد معاشرے کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین اور مذہب کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم سب مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کریں گے۔ انہوں نے اعلان اوسلو میں کیے جانے والے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پوری دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے اور انتقام اور نفرت کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کریں گے۔

بشپ آف رائے ونڈ جناب سیموئیل عزرایاہ نے مختلف مذاہب بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ نہ بستے ہوں کیونکہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام الہامی مذاہب پیار اور محبت کا درس دیتے ہیں اور اس حوالے سے آج معاشرے میں امن اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے اہل مذہب کا کردار نہایت اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد کے لیے مولانا محمد حنیف جالندھری اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کی تعریف کی۔

وفاق المدارس الشیعہ کے راہنما الحاج جناب ریاض حسین نجفی نے کہا کہ دوسرے مذاہب کے بارے میں قرآن کی پالیسی امن کی پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں مسیحیوں کو مسلمانوں کے سب سے زیادہ قریب اور ان کا ہمدرد بتایا گیا ہے اور اس کی وجہ کے طور پر ان کے تین اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عالم ہیں، دوسرے یہ کہ وہ عبادت گزار ہیں، اور تیسرے یہ کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ بین المذاہب مکالمے کے بانی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے چودہ سو سال پہلے اس روایت کی بنیاد ڈالی۔

بشپ آف پشاور جناب ڈاکٹر مانو رمل شاہ نے کہا کہ مساوات اور یکسانیت کا پیغام اسلام اور مسیحیت کا مشترکہ پیغام ہے اور اسی وجہ سے ان دونوں مذاہب کو جنوبی ایشیا کے ماحول میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے خدا کی قربت کا پیغام دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تشدد انسانیت کے خلاف جبکہ دوسروں کے لیے جینا ہی اصل انسانیت ہے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) مولانا محمد تقی عثمانی نے Islamic Vision of Peace (اسلام کا تصور امن) کے زیر عنوان اپنے تحریری مقالے کا خلاصہ حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کے حوالے سے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے وقت ’السلام علیکم‘ اور ’وعلیکم السلام‘ کے الفاظ سے ایک دوسرے کو سلامتی اور امن کی دعا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بعض غیر ذمہ دار حلقوں کی جانب سے جہالت یا تعصب کی بنا پر مسلمانوں کی غلط تصویر کشی کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبر وتشدد کے خلاف اور قیام امن کے لیے کیے جانے والے تاریخی معاہدے ’’حلف الفضول‘‘ میں شریک ہوئے تھے اور آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر اس جیسے اور معاہدے ہوں تو ان میں بھی شرکت کروں گا۔ اسلام تو مکالمہ اور امن معاہدوں کا داعی ہے اور اپنے ماننے والوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں کیونکہ اس کے بارے میں ان سے باز پرس ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے تعاون کرنا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم اصول ہے جس کو قرآن مجید نے ’وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان‘ (نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کرو لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں پر تعاون نہ کرو) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام برداشت اور رواداری کا درس دیتا ہے اور آج ’’حلف الفضول‘‘ کی طرح کے معاہدوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد اسلام کا ایک لازمی فریضہ ہے لیکن اسلام کا تصور جہاد یورپ کے جنگی نقطہ نظر سے یکسر مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام نے جنگی طریقوں اور قوانین میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں۔ مثلاً اسلام سے پہلے لاشوں کو مسخ کرنے، عبادت گاہوں کو مسمار کرنے، مذہبی راہنماؤں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے اور فصلوں اور کھیتوں کو اجاڑنے کا طریقہ رائج تھا، لیکن اسلام نے سختی سے ان باتوں سے ممانعت کر دی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ کو روانہ کرتے وقت انھیں ان باتوں کی سختی سے تلقین کی۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور انسانیت کو امن کا پیغام دینے کے لیے ہمیں جہالت اور غربت کو دور کرنا ہوگا، لوگوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے اور جبر وتشدد کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے بغیر کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا، اس لیے بڑی اقوام پس ماندہ اقوام کا استحصال بند کر دیں۔ اس کے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ آج دنیا میں انسانیت کو اپنے حقیر مقاصد کے لیے نشانہ بنانے والے لوگ ہر جگہ موجود ہیں لیکن ان کی کارروائیوں کو کسی خاص مذہب سے منسوب کرنا درست نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح اوکلا ہاما بم دھماکوں اور آئر لینڈ اور سری لنکا کے خود کش حملوں کا ذمہ داری مسیحی یا ہندو مذہب کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اسی طرح گیارہ ستمبر کے واقعات کے ذمہ داروں کو بھی اسلام کے ساتھ نتھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تمام لوگ انسانیت کے یکساں دشمن ہیں۔ مذہب تو بھٹکی ہوئی اور تباہی کے راستے پر گامزن انسانیت کو فلاح وکامرانی کی منزل سے آشنا کرتا ہے اور آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے، عدالت ظالم کا قانونی ہتھیار بننے کے بجائے مظلوم کی جائے پناہ ثابت ہوں اور انسان دوسرے انسانوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان سے پیار کریں تو ہمیں مذہب کی طرف واپس آنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ آج تمام الہامی مذاہب کے ماننے والوں کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر انسانیت کو ظلم، کرب، بے انصافی، محرومی، بے بسی اور بے توقیری کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔

حکومت ناروے کے نمائندے جناب تورے بیان بورے نے وزیر اعظم ناروے کا پیغام کانفرنس میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ آج تمام مذاہب کو برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ کسی بھی مذہب کی تعلیمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ پیغام میں چرچ آف ناروے اور پاکستان کے مذہبی راہ نماؤں کی کوششوں کو سراہا گیا اور یہ توقع ظاہر کی گئی کہ اعلان اوسلو کی طرح اعلان اسلام آباد بھی انسانیت کے لیے امن اور اخوت کا پیغام پھیلانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے صدارتی خطاب میں اس کانفرنس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ مختلف مذاہب کے مابین مکالمے کے لیے ایک ایسے فورم کی تشکیل بے حد مثبت قدم ہے جہاں سب لوگ اپنے تنازعات اور مسائل پر اظہار خیال کرسکیں۔ انھوں نے چرچ آف ناروے، حکومت ناروے اور عالمی کونسل برائے مذاہب کے منتظمین کی مساعی کو اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ جنرل مشرف نے دنیا میں پائے جانے والے اضطراب اور بے چینی کی اصل وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انھوں نے کہا کہ آج دنیا کو تہذیب، امن اور قوموں کے باہمی تنازعات کے حوالے سے مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں دو غلط فہمیاں فروغ پا رہی ہیں۔ مغرب یہ سمجھ رہا ہے کہ اسلام عسکریت پسندی، دہشت گردی اور تشدد کا مذہب ہے حالانکہ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح عالم اسلام میں یہ سوچ موجود ہے کہ مغرب کی طرف سے اسلام کو بطور ایک مذہب کے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دونوں تصورات غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بے چینی اور اضطراب کی اصل وجہ اسلام نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی محرومی ہے۔ چونکہ بیشتر سیاسی تنازعات میں دوسرا فریق مسلمان ہیں جن میں سے کچھ لوگ تشدد کے غلط راستے پر چل پڑے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے بارے میں عمومی طور پر ایک منفی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام امن، انصاف، برابری، تحمل، برداشت اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا مذہب ہے اور دہشت گردی، خود کش حملے اور انتہا پسندی قطعی طور پر غیر اسلامی افعال ہیں۔ صدر نے کہا کہ اگرچہ پاکستان میں ایک طرف بنیاد پرستی اور قدامت پسندی اور دوسری طرف ضرورت سے زیادہ جدت پسندی کی دو انتہائیں موجود ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ اعتدال پسند اور ترقی پسند ہے۔ صدر نے کہا کہ بعض انتہا پسند مذہبی گروہوں نے سپاہ اور لشکر اور جیش کے ناموں سے تنظیمیں بنا رکھی تھیں اور وہ اپنے خیالات زبردستی لوگوں پر ٹھونسنا چاہتے تھے جو کہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک ہی سپاہ، ایک ہی جیش اور ایک ہی لشکر ہے جو کہ پاکستان کی مسلح افواج ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی دوسری سپاہ یا جیش کا وجود برداشت نہیں کریں گے۔

صدر نے او آئی سی کی تنظیم نو کے عمل کو تیز کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ مسلم ممالک کو اقتصادی اور سماجی طور پر ترقی کرنا ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت مسلمانوں کے سیاسی تنازعات کو حل کرانے کی طاقت اور صلاحیت صرف امریکہ کے پاس ہے جو دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور جب ہم عدل اور انصاف کی بات کرتے ہیں تو ہمیں افغانستان اور عراق وغیرہ میں امریکہ کے منفی کردار پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ امریکہ نے ہی بوسنیا اور کوسوو کے مسلمانوں کو مسیحی سربوں کے ظلم وستم سے بچایا تھا۔ دینی مدارس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پہلے میں بھی ان مدارس کے بار ے میں بہت سے خدشات کا شکار تھا مگر مدارس کے لوگوں سے ملنے کے بعد میرے ذہن میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دینی مدارس ہمارے ملک کی سب سے بڑی این جی او ہیں جو لاکھوں طلبہ کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اپنے آپ کو صرف مذہبی تعلیم تک محدود رکھنے کے بجائے جدید تعلیم کو بھی نصاب کا حصہ بنائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دینی مدارس کو مین سٹریم میں لانے کے لیے ان کے باصلاحیت طلبہ کو سکالر شپس دی جائیں گی تا کہ وہ مختلف شعبوں میں آگے بڑھیں اور ملک وقوم کی خدمت انجام دیں۔ اسی طرح مختلف سطحوں پر کھیلوں کے مقابلوں میں بھی مدارس کے طلبہ کو شریک کرنے کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ 

صدر نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک کے مذاہب اور ثقافتوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ بین المذاہب مکالمہ کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور عالمی کونسل برائے مذاہب کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرۂ کار کو وسیع تر کرے اورانسانی معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے اپنا کردار مزید سرگرمی سے ادا کرے۔

کانفرنس کی دوسری اور اختتامی نشست کی صدارت گورنر پنجاب لیفٹننٹ (ر) جنرل خالد مقبول نے کی جبکہ مہمان خصوصی وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق تھے۔ اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر جناب مصطفی صادق نے مولانا محمد حنیف جالندھری اور مولانا فضل الرحیم کی صلاحیتوں اور کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور ان سے وابستہ نیک توقعات کا اظہار کیا۔

دار العلوم کراچی کے مہتمم مولانا مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ مذاہب عالم کے مابین نقطہ اتحاد اللہ پر ایمان ہے اور مذہب کا راستہ انسان کو کائنات کے خالق ومالک سے ملاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام مذاہب کو مل کر انسانیت کو اس ظلم اور نا انصافی سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے آج ہم دوچار ہیں۔

شیعہ راہنما علامہ سید رضی جعفری نے کہا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین اسلام کے ابتدائی زمانے سے ہی اچھے تعلقات کی مثالیں موجود ہیں اور مسلمانوں نے مکہ کے کفار کے ظلم وستم سے بچنے کے لیے پہلی ہجرت حبشہ ہی کی طرف کی تھی جہاں کے نیک دل مسیحی بادشاہ نے انھیں پناہ اور تحفظ فراہم کیا۔

گورنر پنجاب جناب خالد مقبول نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام اور قرآن تمام آسمانی مذاہب کے تسلسل کی تائید وتصدیق کرتا ہے ۔ اسلام انسانی عظمت پر یقین رکھتا ہے اور جو انسان عظمت آدمیت پر یقین نہیں رکھتا، اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کی روشن خیالی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں مسیحیوں کی نئی عبادت گاہیں تعمیر ہوئیں اور عباسیوں کے عہد میں چار سو نئے چرچ بنے۔ انھوں نے کہا کہ کسی زمانے میں مسلمان فلکیات، طب، کیمیا اور طبیعیات کے میدانوں میں دنیا کی قیادت کرتے تھے جبکہ آج ہمارے پاس اسلاف کی روایات کی پامالی کے علاوہ کچھ نہیں اور اسی وجہ سے ہم دنیا کی قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ سائنسی علوم میں پس ماندگی ہمارے بیشتر مسائل کی جڑ ہے۔ انھوں نے کہا کہ بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ایک اچھی پیش رفت ہے جس کے لیے دینی مدارس کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے۔ 

کانفرنس کی اختتامی نشست میں پشاور یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی کی سربراہ ڈاکٹر سائرہ صفدر اور مولانا غلام دستگیر افغانی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے آخر میں وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے عالمی کونسل برائے مذاہب کو اس بات کی یقین دہائی کرائی کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے ان کی ہر کوشش کا خیر مقدم کیا جائے گا اور دینی مدارس کے بارے میں کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی جائے گی جس سے تمام مکاتب فکر کے وفاق مطمئن نہ ہوں۔ 

عالمی کونسل برائے مذاہب کی طرف سے اس موقع پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • ہم عالمی کونسل برائے مذاہب کے فورم سے ہر مذہب، ہر عقیدے، ہر قوم اور ہر معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ امن اور انصاف کے فروغ کے لیے کام کریں اور اس سلسلے میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔
  • ہم معصوم لوگوں، خصوصاً بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہیں۔
  • انسانوں پر ظلم وستم بند ہونا چاہیے اور پوری دنیا میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک ہو رہا ہے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
  • ہم حکومتوں اور ہر قسم کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مذہبی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو حملوں کا نشانہ نہ بنائیں۔
  • ہمیں انسانی فلاح وبہبود کی خاطر منشیات، جہالت اور غربت کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔
  • ہمیں تمام اقلیتوں کا احترام کرنا ہوگا اور ان کو مساوی حقوق دینے ہوں گے۔


اخبار و آثار

(اکتوبر ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter