دینی مدارس میں تحقیق و تصنیف کی صورت حال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۱ جولائی ۲۰۰۴ء کو شیخ زاید اسلامک سنٹر ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ’’دینی مدارس میں تحقیق وصحافت‘‘  کے موضوع پر جناب ڈاکٹر رفیق احمد کی زیر صدارت منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا۔)


نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

’’عصر حاضر میں دینی مدارس کے طریق تحقیق وتالیف کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان پر گفتگو سے قبل معاشرے میں دینی مدارس کے دائرۂ کار، اہداف اور طرز عمل کے بارے میں مجموعی صورت حال پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کیونکہ اسے سامنے رکھ کر ہی ہم دینی مدارس کے ’’طریق تحقیق وتالیف‘‘ کا بہتر انداز میں جائزہ لے سکیں گے۔ 

دینی مدارس کا موجودہ نظام دور غلامی کی پیداوار ہے۔ جب جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار نے تسلط جما کر صدیوں سے چلے آنے والے سیاسی، معاشی، عسکری، تعلیمی، دفتری اور قانونی نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور معاشرتی وثقافتی نظام کی بیخ کنی کے لیے پیش رفت کا آغاز کیا تو تعلیمی، دینی، ثقافتی اور فکری محاذ سے دل چسپی رکھنے والے چند مخلصین نے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا فیصلہ کیا اور دینی تعلیم، اسلامی ثقافت، مذہبی معاشرت اور مشرقی اقدار کے تحفظ کے لیے رضاکارانہ بنیاد پر دینی مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا اور یہ ضرورت چونکہ ہمہ گیر اور ملی نوعیت کی تھی، اس لیے اس کار خیر کا سلسلہ پھیلتے پھیلتے جنوبی ایشیا کے طول وعرض تک وسعت پذیر ہو گیا۔

ان مدارس کی بنیاد تحفظات پر تھی اور ان کے اہم اہداف یہ تھے کہ مسلمانوں کا عقیدہ وایمان سلامت رہے، اسلامی معاشرتی اقدار کے ساتھ ان کا تعلق قائم رہے، قرآن وسنت اور دیگر متعلقہ علوم کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ قائم رہے، مساجد ومکاتب آباد رہیں اور انھیں امامت وخطابت، تدریس وافتا اور دعوت واصلاح کے ضروری کاموں کے لیے رجال کار فراہم ہوتے رہیں اور اسلامی عقائد وتہذیب کے خلاف سامنے آنے والی کوششوں کا مقابلہ ہوتا رہے۔ دینی مدارس کی اب تک کی جدوجہد تحفظات کے اسی دائرے میں مذکورہ بالا مقاصد کے گرد گھومتی ہے اور جن خطرات وخدشات اور مخالفانہ اقدامات وتحریکات کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے تحفظ اور دفاع کے لیے یہ نظام قائم کیا گیا تھا، وہ تمام تر خدشات وخطرات اور مخالفانہ اقدامات وتحریکات چونکہ نہ صرف بدستور موجود ہیں بلکہ ان کی گیرائی، گہرائی اور اثر اندازی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اس لیے مدارس دینیہ کے اہل حل وعقد ابھی تک تحفظ ودفاع کے ماحول میں ہیں اور وہ اپنے گرد خود اپنے کھینچے ہوئے دفاعی اور تحفظاتی حصار کے دائرے کو کراس کرنے کا ’’رسک‘‘ نہیں لے رہے اور بادی النظر میں ان کی یہ حکمت عملی معروضی حالات کے تقاضوں سے کافی حد تک ہم آہنگ نظر آتی ہے۔

اس پس منظر میں دینی مدارس میں آج کے دور میں ہونے والے تحقیقی اور تصنیفی کام کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔

مثبت پہلو

  • روز مرہ پیش آنے والے مسائل پر عوام کی راہ نمائی کے لیے فتویٰ نویسی کا کام تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور سینکڑوں مدارس میں مستقل طور پر دار الافتاء قائم ہیں جن سے لاکھوں مسلمان رجوع کرتے ہیں اور متعلقہ مسائل میں راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔
  • اردو اور دیگر زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر، احادیث نبویہ اور فقہ کی مختلف کتابوں کی شروح لکھی جا رہی ہیں اور مختلف مکاتب فکر کی طرف سے سینکڑوں ضخیم کتابیں اس سلسلے میں سامنے آ چکی ہیں۔
  • عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، معاشرت اور دیگر ضروریات پر دینی مدارس کے اساتذہ اور متعلقین کی تصانیف کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد کو ہزاروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
  • دینی مدارس کی طرف سے دینی، اصلاحی اور تحقیقی جرائد کی اشاعت کی روایت شروع سے قائم ہے اور جنوبی ایشیا کے مجموعی ماحول کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے جرائد کی تعداد کا اندازہ کیا جائے تو وہ یقیناًسینکڑوں سے متجاوز ہوگی۔ ان جرائد میں اپنے اپنے مسلک اور مکاتب فکر کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ عام طور پر پیش آمدہ مسائل میں مسلمانوں کی راہ نمائی، تاریخی واقعات، بزرگان اسلام کا تعارف، جدید مسائل پر بحث اور فقہی مذاہب اور فکری مکاتب فکر کے مابین مناظرانہ اور مجادلانہ بحث وتمحیص کا سلسلہ بھی موجود ہوتا ہے۔
  • کچھ عرصہ سے جدید فکری وعلمی مسائل پر اجتماعی بحث وتمحیص اور تحقیق ومطالعہ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دیوبندی مکتب فکر میں اس وقت بھارت میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی، دار العلوم کراچی کے تحقیقاتی علمی کام اور المرکز الاسلامی بنوں کی علمی مجالس، بریلوی مکتب فکر میں دار العلوم امجدیہ کراچی، جامعہ غوثیہ بھیرہ اور جامعہ نعیمیہ لاہور، جماعت اسلامی کے مرکز علوم اسلامیہ منصورہ لاہور جبکہ اہل حدیث مکتب فکر میں مجلس التحقیق الاسلامی ماڈل ٹاؤن لاہور کی علمی مساعی کو اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ شیعہ مکتب فکر کا بھی اس جگہ مجھے ذکر کرنا چاہیے لیکن ان کے مدارس کے کام سے زیادہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے سردست ایسا نہیں کر پا رہا۔
  • قومی اخبارات میں مختلف مسائل کے حوالے سے دینی مدارس کے اساتذہ اور متعلقین کے مضامین کی اشاعت کا رجحان ترقی پذیر ہے اور اردو اخبارات میں شائع ہونے والے دینی مدارس کے متعلقین کے مضامین کا تناسب اگرچہ ضرورت سے بہت کم مگر پہلے سے بہتر ہے ۔
  • مختلف دینی مدارس میں تخصصات کے شعبے قائم ہیں جن میں درس نظامی کے فضلا کو متعین عنوانات پر مطالعہ کرایا جاتا ہے، تحقیق وتالیف کی تربیت دی جاتی ہے، ان سے مقالات لکھوائے جاتے ہیں اور ان کی تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
  • دینی مدارس کے سینکڑوں فضلا نے اب تک ملک اور بیرون ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے ہیں جو اگرچہ ان یونیورسٹیوں کے نظم کے تحت اور ان کی نگرانی میں لکھے گئے ہیں لیکن ان کی اصل اساس دینی مدارس کی تعلیم وتربیت پر ہی ہے۔
  • دینی مدارس سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مکاتیب اور خطوط بھی ہزاروں لوگوں کی تعلیم وتربیت اور فکری وروحانی اصلاح کا ذریعہ بنے ہیں اور بیسیوں شخصیات کے مکاتیب وخطوط اب تک کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔
  • بعض بڑے مدارس نے انٹر نیٹ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اپنی ویب سائٹس قائم کر رکھی ہیں جن کی تعداد بیسیوں میں ہے اور وہ اپنے اپنے دائرے میں محدود سطح پر ہی سہی مگر مصروف کار ہیں۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے سے جامعات کا تعارف کرایا جاتا ہے، اپنے اپنے مسلک کی ترجمانی کی جاتی ہے، اور اس کے ساتھ پیش آمدہ مسائل پر عوام کی راہ نمائی کے لیے خطبات وتقاریر، مضامین ومقالات اور سوالات کے جوابات کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔

یہ تو وہ چند پہلو ہیں جنھیں تحقیق وتالیف کے میدان میں دینی مدارس کی مثبت کارکردگی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور جو کسی حد تک یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ دینی مدارس تحقیق وتالیف کے تقاضوں اور اہمیت سے بالکل غافل نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے ذوق، ماحول، فکری دائرے اور تربیتی پس منظر کے مطابق اس شعبہ میں بھی بہرحال مصروف عمل ہیں۔

منفی پہلو

اب ہم تصویر کے دوسرے رخ کی طرف آتے ہیں جسے تحقیق وتالیف کے میدان میں دینی مدارس کی کارکردگی کے منفی پہلو سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً

  • دینی مدارس میں تحقیق ومطالعہ کے حوالے سے مسلکی وابستگی اور شخصی عقیدت کو ترجیحات میں فیصلہ کن اولیت حاصل ہے، زیادہ تر وقت اور زور انھی دو ترجیحات میں صرف ہو جاتا ہے اور ترجیحات کے ان کے بعد کے مراحل کے لیے اکثر اوقات وقت اور صلاحیت، دونوں میں کوئی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی۔
  • فقہی اور مسلکی مباحث کے حوالے سے باہمی مناظرہ ومباحثہ میں افہام وتفہیم اور تطبیق ومفاہمت کے بجائے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا ذوق غالب ہوتا ہے اور اس کے لیے طعن وتشنیع اور تحقیر وتمسخر کی زبان استعمال کرنے سے بھی بسا اوقات گریز نہیں کیا جاتا۔
  • تحقیق ومطالعہ کا جدید اسلوب، طریق کار، ذرائع اور بین الاقوامی سطح کے علمی وتحقیقی اداروں کے کام اور طرز سے استفادہ دینی مدارس کے نزدیک ابھی تک شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ صرف بین الاقوامی زبانوں سے ناواقفیت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بھی اس کا باعث ہے کہ ہمیں دنیا کے دیگر تمام حلقوں پر علمی اور فکری برتری حاصل ہے اور ہمیں کسی دوسرے حلقہ کے علمی کام سے واقف ہونے اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
  • دینی مدارس میں عالم اسلام کے علمی حلقوں کی تحقیقات، دوسرے مسالک کے علمی کام اور غیر روایتی علمی مراکز کی تحقیقی مساعی سے استفادہ کو اپنی نفسیاتی برتری کے منافی تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بعد اور فاصلہ قائم رکھنے کو بھی تحفظاتی حکمت عملی کا ایک ناگزیر حصہ بنا لیا گیا ہے۔
  • بڑے مدارس کو دیکھتے ہوئے بھیڑ چال کے معاشرتی مزاج کے باعث اب جگہ جگہ دار الافتاء قائم ہو رہے ہیں اور ان کا دائرہ ضرورت سے زیادہ پھیلتا جا رہا ہے جس سے فتویٰ کی اہمیت اور معیار، دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔
  • اجتماعی اور قومی مسائل میں بھی تحقیق ومطالعہ اور علمی رائے کے اظہار کے لیے مسلکی دائرے میں پابند رہنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور ایسی روایت ابھی جڑ نہیں پکڑ سکی کہ کسی اہم قومی مسئلہ پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام مل بیٹھیں، مشترکہ طور پر مطالعہ وتحقیق کا اہتمام کریں اور باہمی مشاورت کے ساتھ اجتماعی رائے کا اظہار کریں۔ اس سلسلے میں ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات اور عقیدۂ ختم نبوت وناموس رسالت ﷺ کے ناگزیر تقاضوں پر اتفاق کے سوا غیر سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر کوئی اہم کام گزشتہ نصف صدی کے دوران میں ہماری دینی تاریخ کا حصہ نہیں بن سکا۔
  • دینی مدارس میں تحقیق وتالیف کے ذوق اور صلاحیت کی آبیاری کے لیے کوئی اجتماعی اور ادارتی نظم موجود نہیں ہے۔ یہ کام زیادہ تر شخصی رجحان اور ذوق کا رہین منت ہوتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی، سرپرستی اور نگرانی بھی شخصی طور پر ہی ہوتی ہے۔
  • دینی مدارس میں لائبریریوں کا نظام ناگفتہ بہ ہے۔ گنتی کے چند مدارس کے علاوہ اکثر مدارس میں یا تو لائبریریاں موجود نہیں ہیں، اور اگر موجود ہیں تو ان میں ضرورت کی اہم کتابیں، بالخصوص مختلف موضوعات پر حوالہ کی کتابیں میسر نہیں ہیں۔ کتابوں کے انتخاب میں شخصی اور مسلکی ذوق کا غلبہ ہوتا ہے اور اگر کسی مدرسہ کی لائبریری میں کچھ کتابیں پائی جاتی ہیں تو ضرورت، وقت اور سہولت کے مطابق اساتذہ وطلبہ کی ان تک رسائی نہیں ہوتی۔
  • انسانی سوسائٹی کا معاشرتی ارتقا، تاریخ، نفسیات، پبلک ڈیلنگ، سیاسیات، معاشیات، تہذیب وثقافت اور دیگر عمرانی علوم نہ صرف دینی مدارس کی تدریس، تحقیق اور مطالعہ سے خارج ہیں بلکہ ان کی اہمیت وضرورت کا احساس بھی ابھی تک اجاگر نہیں ہو سکا جبکہ خود دینی مدارس کے مقصد قیام اور ان کے مذکورہ بالا اہداف کے حوالے سے یہ علوم انتہائی ضروری ہیں۔
  • زبانوں کا مسئلہ دینی مدارس میں سب سے زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کی بات تو رہی ایک طرف، عربی زبان بھی صرف کتاب فہمی تک محدود رہتی ہے اور دینی مدارس میں سالہا سال تک پڑھائی جانے والی اس زبان میں فی البدیہہ گفتگو، خطاب اور مضمون نویسی کی صلاحیت سے فضلا کی غالب اکثریت محروم ہوتی ہے اور اس سے بھی زیادہ مظلومیت کا سامنا اردو کو کرنا پڑتا ہے کہ وہ بطور زبان نہیں پڑھائی جاتی اور زبان کی اصلاح، جدید اسلوب سے شناسائی، محاوروں، ضرب الامثال اور اشعار کے برمحل استعمال کی تربیت اور سلاست وشستگی کا ذوق بیدار کرنے کا کوئی نظم اور اہتمام موجود نہیں ہے۔ بالخصوص مروجہ صحافتی زبان اور اسلوب تو سرے سے دینی مدارس کے ماحول میں اجنبی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھی خاصی علمی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ اور طلبہ بھی سادہ اردو میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے دو تین صفحات کا مختصر مضمون لکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

اصلاح احوال کی تجاویز

اس وقت دینی مدارس میں ہونے والے تحقیقی اور تصنیفی کام کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا ایک سرسری جائزہ لینے کے بعد اصلاح احوال کے لیے کچھ گزارشات پیش کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو ذہنی اور فکری برتری کے نفسیاتی ماحول کی ہے جس نے دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے گرد رکاوٹوں کی بہت سی بلند وبالا دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں۔ ہمیں اس ماحول سے نکلنا ہوگا اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے سوا اور لوگ بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور وہ بھی عقل اور علم تک رسائی کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ ان کی رائے سے اختلاف ہمارا حق ہے لیکن ان کے وجود سے اختلاف کا ہمیں حق حاصل نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کو تین سطح کے علمی کاموں تک رسائی کو اپنے اہداف و مقاصد میں ضرور شامل کرنا چاہیے اور ان کے طریق کار سے استفادہ کرنا چاہیے:

۱۔ بین الاقوامی سطح پر وہ مسلم اور غیر مسلم علمی وتحقیقاتی ادارے جو دینی مدارس کی دل چسپی کے موضوعات پر کام کر رہے ہیں اور ان کی علمی کاوشیں مختلف حولاوں سے سامنے آ رہی ہیں۔

۲۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے علمی ادارے اور تحقیقاتی مراکز جو ان موضوعات پر کام میں مصروف ہیں۔

۳۔ دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کی علمی تحقیقات اور مساعی جو جدید پیش آمدہ مسائل پر علمی جدوجہد کر رہے ہیں۔

دوسرے نمبر پر ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کو الگ الگ طور پر اور پھر مشترکہ فورم پر اجتماعی حیثیت سے بھی اس صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے اور خود احتسابی کے جذبہ کے ساتھ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جن کے باعث آج ہمارے دینی مدارس علوم دینیہ میں گہرا رسوخ رکھنے کے باوجود تحقیقی وتصنیفی میدان میں معاصر اداروں سے بہت پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔

تیسرے نمبر پر ہماری گزارش اس حوالے سے ہے کہ دینی مدارس کی قیادت کو آج کے اس خوفناک چیلنج کا ادراک واحساس کرنا چاہیے جو عالمی تہذیبی کشمکش کے حوالے سے مسلم امہ کو درپیش ہے اور جس میں انسانی حقوق اور گلوبلائزیشن کے عنوان سے مسلمانوں کے عقائد وافکار، تہذیب وثقافت، خاندانی نظام، معاشرتی اقدار اور مسلم ممالک کے اسلامی تشخص کو پامال کر دینے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ اس کشمکش کے علمی، اعتقادی اور ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کرنا، فکر وفلسفہ اور علم وتحقیق کے جدید ہتھیاروں کے ساتھ اس یلغار کا سامنا کرنا اور مسلمانوں کو اس سیلاب بلا سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گرد تعلیم وتربیت، دعوت واصلاح اور فکری بیداری کا حصار قائم کرنا اپنے اہداف ومقاصد کے حوالے سے دینی مدارس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور انھیں اس اہم ترین ذمہ داری سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(اگست ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter