تاریخ فلسطین کی دو اہم دستاویزات

ڈاکٹر رضی الدین سید

جنگ عظیم اول کے دوران برطانویوں کو اس بات کا پہلے سے اندازہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کے تحت عرب باشندے عثمانی ترک حکمرانوں سے تنگ آ چکے ہیں، اس لیے ۱۹۱۵ء میں ہینری میک موہن نے (جو اس وقت قاہرہ میں برطانیہ کی طرف سے ہائی کمشنر تھا) عربی ہاشمی لیڈر شریف حسین کو خط لکھا کہ وہ عثمانی اقتدار کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کرے۔ (مغرب اپنے سفیروں کو اسلامی مملکتوں کے عدم استحکام کے خلاف کس طرح استعمال کرتا ہے، یہ واقعہ اس کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے) جواب میں شریف حسین نے برطانیہ سے وعدہ کر لیا کہ اگر وہ میک موہن کی مرضی کے مطابق بغاوت کا راستہ اختیار کرے تو برطانیہ اسے مالی اور سیاسی، دونوں لحاظ سے تعاون دے گا۔ ہاشمی لیڈر شریف حسین نے اس خط میں برطانیہ پر یہ بات بالکل واضح کر دی تھی کہ جب تک برطانیہ یہ ذمہ داری نہ لے لے کہ ترکی حکومت کے تحت موجودہ تمام عرب ریاستیں آخر کار آزاد کر دی جائیں گی، اس وقت تک اسے کسی دوسری عرب قیادت کی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی۔ اس نے واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ محض ’’آقاؤں‘‘ کی تبدیلی کی خاطر بغاوت کا راستہ اختیار نہیں کرے گا، جب تک کہ عربوں کو فی الواقع آزادی نہ دے دی جائے۔ شریف حسین نے میک موہن کو وضاحت در وضاحت کے لیے کئی خطوط لکھے تھے۔ غالباً اسے برطانوی مزاج کا پہلے سے اندازہ تھا۔

۱۶۔۱۹۱۵ء میں ان دونوں اہم شخصیات کے درمیان خط وکتابت کا جو باہمی تبادلہ ہوا، اسے تاریخی طور پر ’’میک موہن /حسین خط وکتابت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ برطانیہ نے یقین دہانی کرائی کہ اگر حسین نے عثمانیوں کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا تو برطانیہ خلافت عثمانیہ کے تحت موجودہ تمام عرب علاقوں میں آزاد حکومتیں قائم کر دے گا۔

۵ جون ۱۹۱۶ء کو حسین نے عربوں کی آزادی کا اعلان کیا اور ترک عثمانیوں کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ اس بغاوت میں فلسطین اور شام کے عرب بھی حصہ دار بن گئے۔ اس دوران برطانویوں نے عرب علاقے میں ایک ذہین شخص ٹی ای لارنس کو روانہ کیا تاکہ وہ خلافت عثمانیہ کے خلاف خود مسلمانوں کا روپ دھار کر عربوں میں بغاوت کے جذبات پیدا کر دے۔ یہ شخص بعد میں ’’لارنس آف عریبیا‘‘ کہلایا۔

برطانوی افواج کے ساتھ شامل ہو کر عرب قافلے شریف حسین اور اس کے بیٹوں (عبد اللہ اور فیصل) کی قیادت میں فلسطین اور شام میں داخل ہو گئے جس کے بعد عثمانی قیادت دست بردار ہو گئی اور اس نے جزائر مڈ روس پر اتحادیوں کے ساتھ جنگ بندی کا ایک معاہدہ (Armistice) کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کا زوال مسلم تاریخ کا ایک بہت دردناک باب ہے۔ ترکوں کی خلافت کے نتیجے میں اس وقت مسلمان دنیا میں ’’جسد واحد‘‘ کی شکل اختیار کر چکے تھے اور ساری دنیا میں ایک ہی سبز ہلالی پرچم لہراتا اور ایک ہی خلیفہ کے احکام رائج ہوتے تھے۔ دنیا میں تاریخی طور پر تین بڑے امپائر یاد کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے دو عیسائی امپائرز تھیں یعنی رومن امپائر اور برٹش امپائر، جبکہ تیسری بڑی حکومت ’’اوٹومین امپائر‘‘ (خلافت عثمانیہ) کے نام سے پہچانی جاتی تھی جو خوش قسمتی سے خود مسلمانوں کی تھی۔ اس وقت یہ اوٹومین امپائر دنیا کے تین بر اعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی اور دنیا کے کئی بڑے سمندر اس کے اپنے قبضے میں تھے۔ سازشوں کے نتیجے میں مغرب نے مسلمانوں کے اس اتحادکو، تعصبات کوا بھار ابھار کر توڑ دیا اور اس وسیع وعریض سلطنت کے اندر سے پچاس پچاس لاکھ اور ایک ایک کروڑ کے چھوٹے چھوٹے راجواڑے نما کئی ممالک برآمد کر دیے جس کے بعد سے مسلمان مزید تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کل جو علاقے عثمانیہ کے تحت محض صوبے تھے، وہ آج باقاعدہ مملکت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم برطانیہ کا مذکورہ وعدہ ادھورا ہی رہا اور اس نے عربوں کو مکمل خود مختاری نہ دی بلکہ ان علاقوں پر خود اس نے اور فرانس نے مل جل کر قبضہ کر لیا۔

’’میک موہن/ حسین خط وکتابت‘‘ کے علاوہ عربوں کی آزادی اور مسئلہ فلسطین کو مزید سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک اور اہم تاریخی دستاویز ’’کنگ کرین کمیشن رپورٹ‘‘ کا مطالعہ بھی کیا جائے۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو امریکیوں اور برطانویوں کے بہت سے جھوٹ کا راز فاش کرتی ہے۔ ۱۸۔۱۹۱۷ء میں جب جنگ عظیم اول ختم ہوئی تو عرب علاقوں کے بارے میں صہیونیوں، برطانویوں، فرانسیسیوں اور عربوں کے متضاد دعووں پر کوئی بھی مفاہمت نہ ہو سکی، چنانچہ ۱۹۱۹ء میں اس وقت کے امریکی صدر وڈ رو ولسن نے خلافت عثمانیہ کے سابق عرب صوبوں میں ایک ’’کنگ کرین کمیشن‘‘ روانہ کیا تاکہ ان صوبوں کے لوگوں سے جنگ عظیم کے بعد کسی تصفیے کی خاطر معاملات پر پہنچنے کے لیے ان کی خواہشات معلوم کی جائیں۔ کنگ کرین کمیشن نے بہت سارے جائزوں اور ملاقاتوں کے بعد اپنی حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں نہایت واضح طور پر کہا گیا تھا کہ:

  • فلسطین کے نوے فی صد باشندے غیر یہودی (یعنی مسلم اور عیسائی) ہیں اور وہ فلسطین کے اندر ایک یہودی ریاست کے قیام کے سخت مخالف ہیں۔
  • اس کے باوجود اگر فلسطین یہودیوں کے حوالے کیا گیا تو صہیونیوں کی خواہش ہے کہ وہ ارض فلسطین سے تمام غیر یہودیوں (یعنی عربوں) کو نکال باہر کریں گے۔
  • فلسطین کی صہیونی ریاست کے قیام سے فلسطینیوں کے حق خود مختاری کی خلاف ورزی ہوگی۔
  • صہیونیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطینی باشندوں کی خواہشوں کا احترام کریں اور اپنی یہودی ریاست کے قیام کے لیے کوئی اور سرزمین تلاش کریں۔
کنگ کرین کمیشن کی یہ رپورٹ بہت جانفشانی، بہت ساری ملاقاتوں کے بعد اور انتہائی دیانت دارانہ طور پر تیار کی گئی تھی جس میں علاقے کے لیے ایک بہت منصفانہ حل تجویز کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ کمیشن امریکا نے خود سرکاری طور پر قائم کیا تھا۔ تاہم اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے صہیونی بے انتہا ناراض ہوئے۔ اسرائیل کی تاریخ بیان کرتے وقت برطانیہ اور امریکا بد قسمتی سے آج اس اہم سرکاری رپورٹ کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ یہ رپورٹ بہت سے غلط واقعات کے خلاف واضح ثبوت تھی یعنی 
  • صہیونیوں کو معلوم تھا کہ وہ لوگوں کی تمناؤں کے برخلاف کام کر رہے ہیں۔
  • عرب فلسطینی آج جس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں، امریکا نے کنگ کرین کمیشن رپورٹ کے ذریعے کل خود اس کے جائز ہونے کی تصدیق کی تھی۔

رپورٹ سے چند مزید اقتباسات:

  • یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے مطالبے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود فلسطین کو یہودی مملکت قرار دے دیا جائے۔
  • اس طرح کی کوئی یہودی ریاست اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ فلسطین میں موجود غیر یہودی (عرب) آبادی کی مذہبی وشہری آبادیوں کو بری طرح پامال نہ کیا جائے۔
  • اگر اصول یہ ہے کہ حکم رانی قائم کی جائے تو اس میں فیصلہ کن حیثیت فلسطینیوں کی رائے کی ہونی چاہیے، یعنی یہ کہ وہ فلسطین کا کیا مستقبل طے کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین کی غیر یہودی (عرب) آبادی کا دس میں سے نو حصہ صہیونیوں کے اس سارے منصوبے کا شدید مخالف ہے۔ اس طرح کا ذہن رکھنے والی کسی قوم پر یہودیوں کی لاتعداد ہجرت کو مسلط کرنا اور اس پر اپنی زمین سے دست برداری کی خاطر معاشی وسماجی دباؤ ڈالنا اوپر درج کیے گئے اصولوں اور کسی قوم کے حق آزادی کی بد ترین خلاف ورزی ہوگی، اگرچہ ان ساری کارروائیوں کو قانونی الفاظ کے جامے ہی میں کیوں نہ ڈھال دیا جائے۔
  • کمیشن نے جس برطانوی افسر سے بھی رابطہ کیا، اس نے یہی بتایا کہ صہیونی منصوبہ سوائے طاقت کے اور کسی طرح تکمیل نہیں پا سکتا۔ یہ چیز بذات خود صہیونی منصوبے کی شدید ترین نا انصافی کو نمایاں کرتی ہے۔
  • یہودی نمائندوں کے ساتھ کمیشن کانفرنسوں میں یہ حقیقت بار بار ابھر کے سامنے آئی کہ فلسطین میں صہیونی غیر یہودی (عرب) آبادی کا مکمل صفایا چاہتے ہیں۔
  • صہیونی نمائندوں کی جانب سے اٹھایا گیا یہ بنیادی دعویٰ کہ دو ہزار سالہ گزشتہ آباد کاری کی بنیاد پر وہ فلسطین پر اپنا ’’حق‘‘ رکھتے ہیں، کسی بھی لحاظ سے قابل توجہ نہیں ہے۔
  • کنگ کرین کمیشن رپورٹ کے ان الفاظ سے سچائی بالکل واضح ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عربوں کے ساتھ برطانیہ، فرانس، روس، امریکا اور اقوام متحدہ سب نے سراسر جھوٹ بولا تھا۔ وہ انھیں ’’آزادی‘‘ کی مسلسل آس دلا کر ان پر تاقیامت بربادی مسلط کرتے رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اسرائیل سے صحیح واقفیت حاصل کرنے کے لیے ان دو اہم دستاویزات ’’میک موہن۔ حسین خط وکتابت‘‘ اور ’’کنگ کرین کمیشن رپورٹ‘‘ کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے جن سے امریکا وبرطانیہ کی مسلم دشمنی اور ان کا یہودیوں کی جانب جھکاؤ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔

(بشکریہ جنگ سنڈے میگزین، ۱۸ جولائی ۲۰۰۴ء)


حالات و واقعات

(اگست ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter