اخبار و آثار

ادارہ

ایشیا کے دینی مدارس پر ایک ورکشاپ

سال رواں کے ماہ مئی کے آخری ہفتے میں نیدر لینڈز کے ’’انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف اسلام ان دی ماڈرن ورلڈ‘‘ (ISIM) نے برلن کے ادارے ’’زینٹرم ماڈرنر اورینٹ‘‘ (ZMO) کے تعاون سے ’’ایشیا کے مدارس: مابین الممالک روابط اور حقیقی یا فرضی سیاسی کردار‘‘ کے عنوان پر ایک دو روزہ ورک شاپ منعقد کی۔ ورک شاپ میں پیش کیے جانے والے ۹ مقالات میں ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے جاری بحث کے تناظر میں ایشیا کے مختلف ملکوں میں موجود مدارس کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے پانچ مقالات کا موضوع جنوبی ایشیا کے مدارس تھے، جو کہ دنیا میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی کا حامل خطہ ہے۔ امریکہ میں ملٹن کینز کی اوپن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب عادل مہدی نے بھارت کے مدارس اور دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے برعکس، جہاں چند مخصوص مدرسے دہشت گردی میں ملوث ہیں، بھارت کے کسی ایک مدرسے کا بھی دہشت گردی کی کارروائیوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ بہت سے مدارس نے بھارت کی جدوجہد آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ پھر بھی بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ مدارس کو قوم دشمن قرار دے کر انھیں بدنام کرنے کی مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عادل مہدی نے ’’طالبان‘‘ کے ساتھ دیوبند کے تعلق پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دونوں کا وژن مشترک تھا، لیکن حکمت عملی کے معاملے میں یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ انھوں نے اس نکتے پر زور دیا کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے کی وجہ ان کی دیوبندی آئیڈیالوجی کم اور دوسرے سیاسی عوامل زیادہ تھے، جن میں طالبان کو پاکستان، سعودیہ عرب اور امریکہ کی طرف سے ملنے والی سپورٹ بھی شامل ہے۔

ZMO کے Dietrich Reetz نے ۱۹۸۲ء میں مدرسہ دیوبند میں پیدا ہونے والی تفریق کے بعد اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گفتگو کی۔ دیوبندی مدارس کے بارے میں پائے جانے والے اس عام خیال کی کہ وہ تبدیلی کے خلاف ہیں، تردید کرتے ہوئے انھوں نے ان تبدیلیوں کا ذکر کیا جو دار العلوم دیوبند نے حال ہی میں اپنے نظام میں کی ہیں اور جن میں شعبہ انگریزی اور شعبہ کمپیوٹر کا قیام شامل ہے۔ دوسرے گروہوں کے ساتھ دیوبندی تعلقات کے بارے میں Reetz نے کہا کہ دیوبندی علما کو غیر مسلم گروہوں کی بہ نسبت دوسرے مسلمان گروہوں کے مقابلے سے زیادہ دلچسپی رہی ہے۔ انھوں نے ان کوششوں کا بھی ذکر کیا جو بعض دیوبندی حضرات ہندوؤں کے ساتھ مکالمے کے حوالے سے کر رہے ہیں۔

بھارت میں لڑکیوں کے مدارس کے حوالے سے حال ہی میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ ISIM کے ماریک ونکل مین (Mareike Winkelmann) نے دہلی میں لڑکیوں کے لیے قائم ایک دیوبندی مدرسے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسی مفت تعلیم فراہم کر کے جو ثقافتی لحاظ سے بھی موزوں ہے، اس طر ح کے مدارس غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں میں خواندگی کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس کا نصاب مرد وزن کے تعلقات کے حوالے سے قدامت پسندانہ ہے، لیکن یہ مدرسہ مسلمان لڑکیوں کے لیے عملی سرگرمیوں کے نئے میدان بھی فراہم کر رہا ہے جس میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان تحریک تبلیغی جماعت میں شرکت بھی شامل ہے۔ 

فارش نور کا مقالہ کراچی کے دو مدرسوں میں زیر تعلیم ایک درجن انڈونیشی اور ملائشی طلبہ کے موضوع پر تھا جنھیں حال ہی میں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات کے الزام میں واپس ان کے ملک بھجوا دیا گیا جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ فارش نور نے کہا کہ ان حکومتوں کی طرف سے، جنھوں نے تمام مسلمان تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے حکومت مخالف تنظیموں کو دبانے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کیا، ان طلبہ کو منصفانہ عدالتی کارروائی کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ اس معاملے کو امریکہ اور اس کی اتحادی حکومتوں کے مابین پائے جانے والے پیچیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ ان دونوں کے لیے مدارس کو ’’دہشت گردی کے گڑھ‘‘ قرار دینے کا نعرہ داخلی مخالفت کو دبانے کے لیے ایک ہتھیار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ بد قسمتی سے آج مدارس کی اصلاح کے معاملے کو دہشت گردی کے مقابلے کے مسئلے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔

یوگندر سکند کے مقالے میں ان کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی جو بھارت کے علما اور مسلم رہنما مدارس کے نصاب میں جدید مضامین کے شامل کیے جانے، غیر مفید مضامین اور کتابوں کے اخراج اور طریقہ تدریس کی اصلاح کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ 

لیڈن کے انسٹی ٹیوٹ فار ایشین سٹڈیز کے نور ہادی حسن نے انڈونیشیا کے سلفی یا وہابی مدارس پر گفتگو کی۔ انھوں نے انڈونیشیا میں سلفی مدارس کے ارتقا اور شافعی علما، صوفیا اور ’’بے عمل‘‘ مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کا جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ سلفی مدارس کو سعودی حکومت کی طرف سے فراخ دلانہ امداد مل رہی ہے اور اس کا تعلق، امریکی منشا اور مفادات کے عین مطابق، سعودی حکومت کے اس وسیع تر مقصد سے ہے کہ انقلاب ایران کے بعد مسلمان ملکوں میں شہنشاہیت کے خلاف پیدا ہونے والے رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے قدامت پرستی، جمود اور لفظ پرستی پر مبنی (Literalist) اسلام کو فروغ دیا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ انڈونیشیا کے کچھ سلفی مدارس دہشت گرد تنظیم ’’لشکر جہاد‘‘ کے ساتھ وابستہ اور ۲۰۰۲ء میں ہونے والے بالی بم دھماکوں میں ملوث تھے جس کے بعد ان میں سے کچھ پر حکومت انڈونیشیا نے پابندی عائد کر دی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعہ کے بعد سعودی حکومت کی طرف سے انڈونیشیا کے مدارس کو ملنے والی مالی سپورٹ نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں سلفی حلقہ بحران سے دوچار ہو گیا ہے۔

Martin van Bruinessen کے مقالے میں انڈونیشیا میں اسلامی اقامتی سکولوں (pesantren) کے سسٹم پر توجہ مرکو ز کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ ان میں سے بعض مدارس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ جنگ جو ہیں، لیکن اکثریت کے بارے میں یہ بات درست نہیں۔ ان مدارس میں شدت پسندی کے رجحان کو ایک وسیع تر سیاسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اور یہ حقیقت میں انڈونیشی حکومت کی طرف سے اپوزیشن پارٹیوں کو دبانے کی پالیسی کا رد عمل ہے۔

چین میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر اپنے مقالے میں ابو ظبی کی زاید یونیورسٹی کے جیکی آرمیجو (Jakied Armijo)نے وسیع تر مذہبی آزادی کے ماحول میں پورے ملک میں مدارس کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا۔ ان میں سے کچھ جز وقتی سکول ہیں جو اپنے طلبہ کو بیک وقت دوسرے باقاعدہ سکولوں اور کالجوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ سنکیانگ کے استثنا کے ساتھ، چین کے باقی علاقوں میں مدارس، حکومت مخالف پراپیگنڈا کا مرکز نہیں ہیں۔ انھوں نے ایسے متعدد چینی مسلمانوں کا حوالہ دیا جنھوں نے ایران یا عرب ممالک میں تعلیم پائی ہے اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد چین میں اسلامی تعلیمی ادارے قائم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف بوچم کی کرسٹین ہنر (Christine Hunner) نے آزر بائیجان میں اسلامی مدارس پر گفتگو کی۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ اسلام اس خطے کے لوگوں کی شناخت کا ایک لازمی حصہ ہے، لیکن کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے روسی تسلط کے باعث بہت کم لوگ اسلام کے بارے میں مستند معلومات رکھتے ہیں۔ انھوں نے اسلامی معلومات کو منتقل کرنے کے بعض نئے ذرائع اور طریقوں کا بھی تذکرہ کیا، جن میں یونیورسٹی آف باکو میں قائم ہونے والی نئی ’’تھیولاجیکل فیکلٹی‘‘ اور باکو ہی میں قائم ہونے والی ’’اسلام یونیورسٹی‘‘ شامل ہیں، جس میں شیعہ اور سنی مشترکہ طور پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے ترکی حکومت کی ان کوششوں کے ممکنہ مضمرات پر بھی روشنی ڈالی جو وہ شیعہ اکثریت کے اس ملک میں ترکی کی طرز کے اسلامی پروگراموں کو فروغ دینے کے حوالے سے کر رہی ہے۔ 

ورک شاپ کے شرکا کا مجموعی تاثر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ تمام یا بیشتر مدارس کو دہشت گردی کے گڑھ قرار دینے کا تصور بے بنیاد ہے، اگرچہ انھوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ بعض ممالک میں کچھ مخصوص مدارس کو جنگ جو یا دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس بات پر بھی ایک عمومی اتفاق رائے پایا گیا کہ مختلف ملکوں کے مدارس کے مابین علمی وفکری اور مالی حوالے سے عرصہ دراز سے روابط قائم ہیں اور چند مدارس کے سوا، دوسرے ممالک کے مدارس سے روابط رکھنے والے ان مدارس کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں۔ بعض شرکا نے اس پر زور دیا کہ کچھ مدارس میں جنگ جویانہ رجحانات کے مظہر کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ یہ کم از کم جزوی طور پر ریاستی دہشت گردی اور مغربی بالخصوص امریکی تسلط کا رد عمل ہیں۔ گمراہ کن اور بے بنیاد طور پر پھیلے ہوئے خیالات کے ازالے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے شرکا نے اس نکتے کو اجاگر کیا کہ مختلف ملکوں کے مدارس اور ان کے باہمی روابط کے بارے میں حقائق پر مبنی مزید تحقیق اور مطالعہ کی ضرورت ابھی موجود ہے۔ 

(ISIM Newsletter, June 2004)

مولانا چنیوٹی ؒ اور مولانا نذیر احمدؒ کی یاد میں تعزیتی نشست

سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد آف فیصل آباد کی وفات پر ۱۷ جولائی کو الشریعہ اکادمی میں ایک تعزیتی نشست مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی مہمان خصوصی تھے جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے راہ نماؤں مولانا قاری جمیل الرحمن اختر اور مولانا محمد نواز بلوچ کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہ نما سید احمد حسین زید نے بھی خطاب کیا۔ 

مقررین نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے زندگی بھر عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں اور پورے جذبہ وخلوص کے ساتھ اس محاذ پر مسلمانوں کی جرات مندانہ قیادت کرتے رہے ہیں۔ وہ انتہائی جفاکش، بے باک اور ان تھک راہ نما تھے جن کا کوئی بدل اس شعبہ میں اب دکھائی نہیں دیتا۔

مقررین نے کہا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد کی ساری زندگی تعلیم وتدریس کے ماحول میں گزری اور انھوں نے ہزاروں علماء کرام اورطلبہ کو تعلیم وتربیت دے کر دین کی خدمت کے لیے تیار کیا جو ان کا مسلسل صدقہ جاریہ رہے گا۔ اجلاس میں دونوں بزرگوں کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی گئی اور ان کے دینی وعلمی مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

مولانا زاہد الراشدی کا دورۂ امریکہ

’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران میں دار الہدیٰ (سپرنگ فیلڈ۔ ورجینیا۔ امریکہ ) کی دعوت پر امریکہ کے مختلف شہروں کا دو ہفتے کا دورہ کیا اور ۱۹ جون سے ۲ جولائی تک واشنگٹن، نیو یارک، میری لینڈ، ورجینیا، لانگ آئی لینڈ اور دیگر علاقوں میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ دینی اجتماعات سے خطاب کیا۔ انھوں نے دار الہدیٰ میں مسلسل نو روز تک قرآن فہمی کے ضروری تقاضوں پر لیکچر دیے اور ۲ جولائی کو مکی مسجد بروک لین نیو یارک میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا۔ انھوں نے واشنگٹن میں پی ایچ ڈی کے لیے پاکستان سے جانے والے سینئر طلبہ کے ایک گروپ کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی اور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مغربی ممالک میں آنے والے طلبہ کو اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ عالم اسلام اور اپنے ممالک کی ضروریات کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں اور اس شعبہ میں پائے جا نے والے خلا کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کے طلبہ پر زور دیا کہ وہ اپنے مضامین میں زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت اور اسلامی اقدار کے ساتھ اپنی شعوری وابستگی کو مضبوط بنائیں۔ مولانا زاہد الراشدی ۴ جولائی کو گوجرانوالہ واپس پہنچ کر اپنی مصروفیات میں مشغول ہو گئے ہیں۔

الشریعہ اکادمی میں مولانا عبد الرؤف ملک کی تشریف آوری

متحدہ علما کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور آسٹریلیا مسجد لاہور کے خطیب مولانا عبد الرؤف ملک ۱۹ جون کو الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور اساتذہ وطلبہ کے ساتھ ایک نشست میں شرکت کی۔ اس موقع پر انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ علماء کرام کو فکری وثقافتی محاذ پر آج کے دور کے چیلنج اور تقاضوں کو سمجھنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ انھوں نے الشریعہ اکادمی کی سرگرمیوں پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا محمد فیروز خان کی اہلیہ کا انتقال

میرپور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی کی ہمشیرہ، بھمبر کے تحصیل قاضی مولانا محمد اویس خان ایوبی کی پھوپھی اور مولانا محمد فیروز خان مہتمم دار العلوم مدنیہ ڈسکہ کی اہلیہ محترمہ گزشتہ ہفتہ قضاے الٰہی سے انتقال کر گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ گزشتہ چار ماہ سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھیں۔ نماز جنازہ دار العلوم مدنیہ کی عید گاہ میں ادا کی گئی جس میں عوام، علما اور طلباکی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ میر پور میں متعدد شخصیات نے ضلع مفتی میر پور سے تعزیت کی اور مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔


اخبار و آثار

(اگست ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter