امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ہفتے کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں کے سینکڑوں شہروں میں عراق پر امریکہ کے ممکنہ حملہ کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے اور اسے وسائل پر قبضے کا جنون قرار دیتے ہوئے دنیا کے کروڑوں انسانوں نے امریکی عزائم کی مذمت کی۔ بادی النظر میں ان مظاہروں کا اہتمام زیادہ تر ان حلقوں کی طرف سے کیا گیا ہے جنہیں بائیں بازو کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور جو امریکہ اور سوویت یونین کے خلاف ’’سرد جنگ‘‘ کے عنوان سے گزشتہ پون صدی کے دوران بپا ہونے والی کشمکش میں سوویت یونین کے حلیف یا ہم خیال تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ ان مظاہروں سے محسوس ہوتا ہے کہ سوویت یونین کی شکست وریخت کے صدمہ سے سنبھل کر اب دنیا بھر میں بایاں بازو پھر سے منظم ہونے جا رہا ہے اور عالمی سطح پر امریکہ کے خلاف فکری اور سیاسی محاذ میں اس نے سبقت بھی حاصل کر لی ہے۔

گزشتہ سال افغانستان پر امریکہ کی طرف سے مسلط کی جانے والی جنگ کے خلاف بھی مختلف شہروں میں عوامی مظاہرے ہوئے تھے اور عوام کی بڑی تعداد نے امریکی عزائم اور پروگرام کے خلاف جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لندن میں ہونے والے ایک بڑے عوامی مظاہرے میں راقم الحروف بھی شریک تھا بلکہ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے مسلمان تنظیموں کو آمادہ کرنے کی مہم میں بھی شامل تھا۔ یہ ۱۱ ستمبر کے سانحہ سے صرف دو تین ہفتے بعد کی بات ہے۔ اس وقت امریکی دھمکیوں اور مغربی میڈیا کے کردار کش طرز عمل کی وجہ سے عام مسلمانوں پر سراسیمگی کی کیفیت طاری تھی جبکہ بعض دینی حلقوں کو یہ اشکال تھا کہ اس مظاہرے میں بہت سی غیر اسلامی حرکات ہوں گی، نیم عریاں عورتیں ہوں گی، ڈانس اور گانا ہوگا اس لیے ہم اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور راقم الحروف نے مظاہرہ سے قبل بہت سی مسلمان تنظیموں سے رابطہ قائم کیا اور ان سے گزارش کی کہ اس مظاہرے میں مسلمانوں کی شرکت ضروری ہے، انہیں اعتماد اور حوصلے کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے جو موقع ملے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے دوستوں سے یہ بھی عرض کیا کہ وہ یوں سمجھیں کہ عکاظ کے میلے میں جا رہے ہیں جہاں تمام خرافات اور منکرات کے باوجود جناب نبی اکرم ﷺ اپنی دعوت پیش کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ برطانوی مسلمانوں کے مختلف راہ نماؤں نے بھی اس مظاہرہ میں مسلمانوں کی شرکت کے لیے کوشش کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس مظاہرہ میں شریک ہوئی۔ اس مظاہرہ میں مجھے بائیں بازو کی بعض تنظیموں کے بینرز، پمفلٹس اور نعرے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اور اندازہ ہوا کہ اس عوامی ریلی کو منظم کرنے کے لیے بائیں بازو کی تنظیموں نے خاصی محنت کی ہے۔ 

اس سال ابھی چند روز قبل لندن میں جو مظاہرہ ہوا ہے، اس کے بارے میں اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گزشتہ سال کے مظاہرے سے دوگنا بڑا تھا اور اس کو منظم کرنے میں بائیں بازو کے عناصر پیش پیش تھے۔ ویسے عراق پر امریکی حملے کے تیزی سے بڑھتے ہوئے امکانات کے خلاف میدان میں آنا بائیں بازو کا حق بھی تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین جو امریکی پروگرام کا سب سے بڑا ہدف ہیں، معروف طور پر بائیں بازو سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور جس ’’بعث پارٹی‘‘ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہ عرب قومیت کی علم بردار اور بائیں بازو کے رجحانات کی حامل ہے۔ اس حوالے سے ان کی حمایت میں بائیں بازو کو ضرور سیاسی میدان میں آنا چاہیے تھا، چنانچہ بائیں بازو نے یہ حق ادا کر دیا ہے اور لگتا ہے کہ بائیں بازو کی اس عالمگیر منظم سیاسی مہم کی وجہ سے امریکہ کی پریشانیوں میں اس قدر اضافہ ضرور ہو گیا ہے کہ اسے عالمی فورم پر تنہائی کا کچھ کچھ احساس ہونے لگا ہے۔ یہ تنہائی اسے عراق پر حملہ کرنے سے باز رکھ سکتی ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر ہمارے لیے یہ بات زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے کہ دنیا بھرمیں بائیں بازو نے پھر سے منظم ہونے کی طرف پیش رفت کی ہے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی دنیا کے سامنے کام یابی کے ساتھ کر دیا ہے۔

بائیں بازو کی اس جدوجہد میں اس کی طرف سے جاری کردہ ’’منشور‘‘ میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے، وہ اس کے روایتی تناظر میں معاشی مفادات کی کشمکش کے حوالے سے ہے اور ’’منشور‘‘ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یہ جنگ نہ مذہب کے لیے ہے، نہ اس کا تہذیب سے کوئی تعلق ہے اور نہ انسانی حقوق اور انسانیت کے تقاضوں ہی سے اسے کوئی نسبت ہے۔ یہ سیدھی سادی معاشی مفادات کی جنگ ہے اور امریکہ ایک عالمی استعمار اور سامراج کا کردار ادا کرتے ہوئے عراق پر حملے کے ذریعے تیل کے چشموں کا کنٹرول براہ راست حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو نہ عراق کے عوام کے حقوق سے کوئی دل چسپی ہے اور نہ عراق کی مختلف قومیتوں کی مظلومیت اس کا مسئلہ ہے۔ وہ ان باتوں کو صرف بہانے اور عنوان کے طور پر استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کا مسئلہ صرف اور صرف تیل ہے۔

بائیں بازو کی جاری کرد ہ تفصیلات کے مطابق ’’ڈیلی مرر‘‘ نے ۲۹ جنوری ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیلتھ آرگنائزیشن نے عراق پر امریکہ کے ممکنہ اور مجوزہ حملہ کی صورت میں ہونے والے نقصانات کا جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ ہے کہ امریکی بمباری سے براہ راست مرنے والوں کے علاوہ پانچ لاکھ افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہوگی جو بالواسطہ زخمی ہوں گے، پچاس لاکھ افراد قحط کا شکار ہوں گے، وبائیں لاکھوں افراد کو لپیٹ میں لے لیں گی، نو لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہوں گے، ستر فی صد آبادی پینے کے پانی سے محروم ہو جائے گی، ڈیموں کی تباہی سے جنوبی عراق اکہتر ارب کیوبک پانی میں ڈوب جائے گا اور تیل کے کنووں کو آگ لگنے سے جنگ کے بعد چالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔

اقوام متحدہ کے شعبہ صحت کی یہ رپورٹ یقیناًامریکی حکمرانوں کی نظر سے گزری ہوگی اور انہیں یہ رپورٹ پڑھنے کی ضرورت بھی کیا ہے کہ خود وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کے نتائج ونقصانات کا انہیں سب سے بہتر اندازہ بلکہ علم ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود امریکہ عراق پر حملے پر تلا بیٹھا ہے اور وہ عالمی رائے عامہ کے شدید احتجاج کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے عراق پر حملہ کی دھمکیوں اور تیاریوں کے سلسلے میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔

امریکہ کے معاشی عزائم اور وسائل پر قبضہ کرنے کے جنون کے حوالے سے ہمیں بائیں بازو کے اس موقف سے اختلاف نہیں ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نہ صرف عراق پر ممکنہ حملے بلکہ افغانستان پر گزشتہ سال سے جاری فوج کشی کے مقاصد میں بھی تیل، گیس اور ذخائر کے وسائل پر قبضہ کرنے اور عالمی معیشت پر فیصلہ کن کنٹرول کی مہم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن ہم اس سارے قضیے کو صرف اس دائرہ میں محدود نہیں سمجھتے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کی سرحدوں میں توسیع کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے خلیجی ممالک کی پہلی سرحدات کو توڑ پھوڑ کا شکار بنانا بھی امریکی عزائم کا حصہ ہے۔ اسرائیل کا قضیہ خالصتاً مذہبی اور نسلی ہے۔ یہودی اپنے مذہبی عقائد اور پروگرام کی تکمیل کے لیے ’’بیت المقدس‘‘ پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور نسلی برتری کے زعم میں عربوں پر حکمرانی کا ’’مزعومہ حق‘‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس مہم میں انہیں امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور اسرائیل نے اب تک جو کچھ بھی کیا ہے، وہ امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا ہے ورنہ اس کے لیے اپنے وجود کو قائم رکھنا بھی مشکل تھا۔ پھر عرب ممالک بالخصوص خلیج کے ممالک میں شخصی آمریتوں اور خاندانی بادشاہتوں کو تحفظ فراہم کر کے اس خطہ کے کروڑوں عوام کو انسانی اور شہری حقوق سے مسلسل محروم رکھنے میں بھی امریکہ کا یہ خوف کارفرما ہے کہ سیاسی آزادیوں اور شہری حقوق کی بحالی سے ان ممالک میں اسلامی رجحانات کے حامل عناصر کو آگے آنے کا موقع ملے گا جو عالم اسلام کو نظریاتی مرکز اور قیادت فراہم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے حوالے سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت اور ان کے خلاف مکروہ اور معاندانہ پراپیگنڈا بھی امریکی مہم کا حصہ ہے جس کے بارے میں امریکی قیادت کے ذمہ دار حضرات کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں، اس لیے ہم پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے خلاف امریکی عزائم اور یلغار صرف اور صرف معاشی مفادات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں مذاہب کے درمیان کشمکش اور مغربی تہذیب کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم بھی بنیادی اسباب کے طور پر پوری طرح کار فرما ہیں اور ان سے صرف نظر کرنا معروضی حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔

تاہم اس نظری اور فکری اختلاف کے باوجود ہمیں امریکی سامراج کے خلاف بائیں بازو کی اس عالمی مہم سے اختلاف نہیں ہے اور موجودہ حالات میں اسے بروقت اور ضروری سمجھتے ہوئے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہمیں محترم قاضی حسین احمد صاحب امیر جماعت اسلامی پاکستان کے اس موقف سے اتفاق نہیں ہے کہ:

’’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یورپ میں مظاہرے امریکہ اور برطانیہ کی پالیسی تبدیل کرانے کے لیے ہیں یا مسلمانوں کا رد عمل کم کرنے کے لیے ہیں، وہ مسلمانوں کا رد عمل ان مظاہروں کے ذریعہ اس لیے بھی کم کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم رد عمل زیادہ تلخ اور پر تشدد ہوگا۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ جنگ لاہور، ۱۷ فروری ۲۰۰۳ء)

دنیا میں اگر مسلم رد عمل کہیں نظر آ رہا ہوتا تو شاید ہم بھی یہی کچھ کہتے لیکن بد قسمتی سے عالم اسلام میں اس حوالہ سے جو ’’سکوت مرگ‘‘ طاری ہے، اس کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ہمارے لیے محترم قاضی صاحب کے اس ارشاد کی تائید کرنا ممکن نہیں ہے۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں کے کیمپ کا یہ حال ہے کہ جنرل پرویز مشرف، حسنی مبارک، خلیفہ بن حماد، اور عبد اللہ گل سمیت بہت سے مسلم حکمران اس بات پر کھلم کھلا بے بسی کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس جنگ کو روکنا ہمارے بس میں نہیں ہے بلکہ ہم امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی کی حالت یہ ہے کہ وہ اس نازک ترین وقت میں سربراہی اجلاس تو کجا، وزارتی اور سفارتی سطح پر بھی اس مسئلے کے حوالے سے باہمی مشاورت اور کسی موقف کے اظہار کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی بلکہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ایک محفل میں ہم نے عرض کیا کہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کرنے کی مہم چلانی چاہیے تو ایک صاحب علم ودانش بزرگ نے یہ کہہ کر ہمیں ٹوک دیا کہ مولانا، خدا کے لیے اسے رہنے دیجیے کیونکہ مسلم حکمران اگر کسی جگہ اکٹھے ہو گئے تو بھی وہ عراق کے بجائے امریکہ ہی کی حمایت میں کوئی نہ کوئی قرارداد منظور کر کے اپنے اپنے ملکوں کو واپس سدھار جائیں گے۔

دینی کیمپ کا منظر یہ ہے کہ حج کے موقع پر سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ نے اپنے خطبہ حج میں یہ کہہ کر ضرور مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے کہ:

’’اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو اقتصادی طور پر اپنا غلام رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ قوتیں اسلامی ممالک کی منڈیوں پر اپنا تصرف اور قبضہ چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلمان مجبور رہیں اور اپنی اقتصادی ضرورتوں کے لیے صرف انہی کی طرف دیکھیں۔ رب ذو الجلال نے مسلمانوں کو ہر طرح کے مادی وسائل اور قیمتی ذخائر سے مالامال کیا ہے۔ مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی اقتصادیات کی طرف توجہ دیں، اپنے فیصلے خود کریں، معاشی طور پرخود کفیل ہونے کی کوشش کریں، دنیا کو بتائیں کہ ہم آزاد اور خود مختار ہیں، ہم اپنے معاشی پروگرام خود مرتب کریں گے اور کسی کی محکومی اور غلامی قبول نہیں کریں گے۔ اس مقصد کے لیے عالم اسلام کو متحد ویک جان ہونا پڑے گا، اتحاد واتفاق کے بغیر امت مسلمہ کی معاشی، سماجی اور فطری آزادی محال ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اپنی آوازیں ایک کی جائیں، کندھے کندھوں سے ملائے جائیں، ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے، ایک دوسرے کی مدد کی جائے، نظم وضبط کے ساتھ یک دلی اور یک جہتی کے ساتھ مشترکہ آواز اٹھائی جائے۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۱۵ فروری ۲۰۰۳ء)

لیکن شیخ محترم کا یہ حقیقت پسندانہ خطبہ صرف ان کے ارشاد اور حجاج کرام کے سماع تک محدود رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی، موتمر عالم اسلامی اور لیبیا کی جمعیۃ الدعوۃ الاسلامیۃ جیسی عالمی تنظیموں میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس ارشاد کو کسی جدوجہد کی بنیاد بنائیں یا معالی الشیخ عبد العزیز آل شیخ نے مسلمانوں کے جذبات کی جو ترجمانی کی ہے، اسے ایک منظم مہم کی شکل دے سکیں حتیٰ کہ حج کے موقع پر اسی منٰی کے میدان میں مسلم ممالک سے آئے ہوئے ہزاروں سرکردہ علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کے درمیان بھی اس حوالے سے کسی مشاورت ورابطہ کی کسی درجے میں کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

مسلم ممالک کی دینی تنظیمات وعلمی مراکز اپنے اپنے دائرۂ فکر وعمل پر قناعت کیے ہوئے ہیں اور انہیں عالم اسلام کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے کسی اجتماعی کاوش اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت کی طرف توجہ دلانا اب وقت ضائع کرنے بلکہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔

لے دے کے چند جہادی تحریکات اور کچھ سرپھرے نوجوان ہیں جو عالم اسلام کے مختلف محاذوں پر جانیں ہتھیلی پر رکھے امریکی استعمار کی آہنی دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے میں مصروف ہیں اور صرف انہیں دیکھ کر کچھ احساس ہوتا ہے کہ شاید ملت اسلامیہ کے جسم میں تھوڑی سی حرارت باقی ہے لیکن ان کی یہ حرکت بھی ہمارے اکثر وبیشتر دانش وروں کو ہضم نہیں ہو پا رہی اور آج کی دنیا سے عقل ودانش کی سند حاصل کرنے کے لیے ان سے لاتعلقی کے اعلان کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔

تاریخ کے عمل اور تسلسل میں خلا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ امریکی استعمار کی طوفانی جارحیت کے رد عمل میں کسی نہ کسی کو تو آگے آنا ہی تھا۔ اگر اسلامی تحریکات اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں اور انہوں نے اپنا چانس ضائع کرنے میں عافیت سمجھی ہے تو جس نے اس خلا کو پر کرنے کا ’’رسک‘‘ لے لیا ہے، اس کی جرات وجسارت کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہم اگر یہ کرتے تو زیادہ سخت انداز میں کرتے یا ہمارے سخت رد عمل کو نرم کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔

ہمارے نزدیک تمام تحفظات کے باوجود بائیں بازو کی یہ عالمی مہم وقت کی ضرورت اور بسا غنیمت ہے جس سے ہمیں سبق لینا چاہیے، راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے اور تعاون واشتراک عمل کے امکانات تلاش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ مسئلہ اصل میں ہمارا ہے، ان کا نہیں۔


عالم اسلام اور مغرب

(مارچ ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter