نفاذ اسلام میں نظام تعلیم کا کردار

ڈاکٹر محمد امین

(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا۔)


پیشتر اس کے کہ ہم صلب موضوع کو زیر بحث لائیں، دو ضروری باتیں بطور تمہید کہنا چاہتے ہیں۔ ایک کا تعلق پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالے سے دینی عناصر کی غلط فہمی سے ہے اور دوسری کا ان کی خوش فہمی سے۔ غلط فہمی اس بات کی کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان کے دینی عناصر یہ سمجھتے رہے ہیں اور عوام کو بھی یہ باور کراتے رہے ہیں کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا مطلب ہے اسلامی قانون کا اجرا یعنی جب پاکستان کا قانون، اسلام کے مطابق بن جائے گا تو گویا شریعت نافذ ہو جائے گی۔ چنانچہ دینی عناصر کے مشورے سے صدر ضیاء الحق نے ۱۹۷۹ء میں حدود کے قوانین پاکستان میں نافذ کر دیے۔ اس موقع پر بڑا جشن منایا گیا اور دینی عناصر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے پھرتے تھے کہ الحمد للہ، پاکستان میں اسلام نافذ ہو گیا ہے لیکن آج اس خوش فہمی کے غبارے سے بڑی حد تک ہوا نکل چکی ہے کیونکہ ۲۳ سال گزرنے کے باوجود آج تک کسی چور کا ہاتھ نہیں کٹا، کوئی زانی سنگسار نہیں ہوا اور کسی ڈاکو کے پاؤں نہیں کٹے۔ گویا ایک بھی حد عملاً نافذ نہیں ہوئی لہٰذا چند قانون پاس کر کے یہ اعلان کرنا کہ ہم چوبیس گھنٹے میں اسلام نافذ کر دیں گے یا دو ماہ میں اسلام نافذ کر دیں گے، مضحکہ خیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون پاس کر دینے سے اسلام نافذ نہیں ہو جاتا لہٰذا اگر صوبہ سرحد میں سارے قوانین بھی اسلام کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں یا اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی قانونی سانچے میں ڈھال دیا جائے تو اس کے باوجود وہاں اسلام نافذ نہیں ہو جائے گا بلکہ اسلام اس وقت نافذ ہوگا جب وہاں کے عوام دل وجان سے اسلامی تعلیمات اور قوانین پر عمل شروع کر دیں گے اور جب وہاں کی پولیس اور بیوروکریسی خوش دلی اور اخلاص سے خود اسلامی قوانین پر عمل کرے گی اور دوسروں سے کرائے گی۔

دوسری بات کا تعلق خوش فہمی سے ہے اور اس سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ اگر ہمارے دینی عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی عوام کی دینی تربیت کی ہے اور لوگ اب دل سے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے ہمیں ووٹ دیے ہیں اور ہمیں انتخابات میں کام یاب کروایا ہے تو یہ محض ان کی خوش فہمی ہے، حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ دینی جماعتوں کو ان علاقوں سے ووٹ ملے ہیں جو افغانستان سے ملحق ہیں، جنہوں نے افغانستان میں امریکی مظالم کا مشاہدہ کیا ہے اور جو خود بھی وہاں کی تباہی سے متاثر ہوئے ہیں، جن کے اعزہ واقارب وہاں ہیں اور جنہوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ افغان جہاد میں حصہ لیا ہے۔ ہماری بات کا ثبوت یہ ہے کہ صوبہ سرحد کے لوگ افغانستان کے حالات سے زیادہ متاثر ہوئے لہٰذا انہوں نے غالب اکثریت سے دینی جماعتوں کو ووٹ دیے۔ صوبہ بلوچستان اس سے جزواً متاثر ہوا لہٰذا علما کو وہاں جزوی کام یابی ہوئی اور سندھ وپنجاب افغان صورت حال سے کم متاثر ہوئے لہٰذا دینی عناصر کو وہاں سے ووٹ بھی نہیں ملے۔ اگر دینی عناصر کو ان کے دینی کام کی وجہ سے ووٹ ملے ہوتے تو انہیں پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں سے زیادہ ووٹ ملتے جہاں ان کا کام نسبتاً زیادہ ہے لیکن انہیں ووٹ امریکہ کی مخالفت اور افغان فیکٹر کی وجہ سے ملے لہٰذا صرف سرحد وبلوچستان سے ملے۔ ہمارے کہنے کا مدعا یہ ہے کہ دینی عناصر کے اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے عوام کی دینی تعلیم وتربیت کا کام سرانجام دے لیا ہے اور اب مستقبل کا راستہ صاف ہو گیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی انہوں نے یہ ہمالہ سر کرنا ہے، سرحد اور بلوچستان میں بھی تاکہ انہیں نفاذ اسلام کی کوششوں میں صدق دلانہ تعاون میسر آسکے اور پنجاب وسندھ میں بھی تاکہ وہاں سے انہیں مستقبل میں حمایت میسر آ سکے۔

ہمارے نزدیک تعلیم وتربیت کے ذریعے عوامی ذہن سازی کا یہ کام انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور کرنے کا اصل کام یہی ہے کیونکہ سید بادشاہ کا قافلہ اپنے تمام تر اخلاص، اخلاق اور عزیمت کے باوجود یہاں کی وادیوں میں اس لیے کھو گیا تھا کہ انہیں نفاذ شریعت کے لیے عوام وخواص کا صدق دلانہ تعاون میسر نہ آ سکا تھا (اگرچہ تحریک مجاہدین کی بظاہر ناکامی کے دوسرے بھی کئی عوامل ہیں جن سے انکار ممکن نہیں) ہم ایک دفعہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ملفوظات پڑھ رہے تھے تو وہاں ہم نے یہ واقعہ پڑھا کہ ان کی ایک مجلس میں اسلامی حکومت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ مولانا نے کہا کہ اگر مجھے حکومت مل جائے تو میں دس سال اصلاح کا کام کروں گا۔ مطلب یہ کہ حکومت ملتے ہی حدود وتعزیرات سے ابتدا نہیں کروں گا بلکہ پہلے ایک لمبے عرصے تک اصلاحی کوششوں سے لوگوں کے دل ودماغ کو بدلنے کی سعی کروں گا تاکہ وہ خوش دلی سے اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور کوڑے مارنے اور ہاتھ کاٹنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ 

اسی قسم کا ایک تازہ واقعہ بھی سنیے۔ چند سال پیشتر جب ہم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی شریعہ اکیڈمی میں پڑھاتے تھے تو ایک دفعہ ہم لوگوں نے پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب افضل ظلہ صاحب کو لیکچر کے لیے مدعو کیا۔ ان کے لیکچر کے بعد سوال وجواب کی نشست میں ہم نے ان سے پوچھا کہ جب وہ چیف جسٹس تھے تو قصاص ودیت کا قانون سپریم کورٹ میں تقریباً ۹ سال پڑا رہا لیکن انہوں نے اس کی اپیل نہیں لگائی، تو اس کی کیا وجہ تھی؟ جسٹس صاحب نے کہا کہ میں ایمان داری سے یہ سمجھتا تھا کہ ہمارا معاشرہ اس کے لیے ابھی تیار نہیں ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے کہ جوں ہی قصاص ودیت کا قانون نافذ ہوا تو ڈرائیوروں نے ہڑتال کر دی اور اس کے بعد بھی حدود کے قوانین نے پولیس کا رشوت کا ریٹ ہی بڑھایا ہے، حدود عملاً نتیجہ خیز طریقے سے نافذ تو نہیں ہو سکیں۔

تو ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محض قانون بنا دینے سے اسلام نافذ نہیں ہو جاتا جب تک کہ معاشرے کے مختلف طبقے عملاً خوش دلی سے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اور اسی سے تعلیم وتربیت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے ذہن اور دل بدلنے کا سب سے بڑا ذریعہ، تعلیم ہی ہے۔

یہ بات کہ لوگوں کے دل ودماغ کو بدلنے کا سب سے موثر ذریعہ تعلیم وتربیت ہے، اگرچہ عقل ومنطق پر مبنی ہے اور عام فہم بھی ہے لیکن چونکہ ہمارے مخاطب علما بھی ہیں اس لیے ہم عرض کرتے ہیں کہ ہماری بات سو فی صد قرآن وسنت پر مبنی ہے چنانچہ قرآن حکیم میں کئی جگہ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی اصلاح اور تبدیلی کا جو طریق کار ہدایت فرمایا تھا، وہ دو نکات پرمبنی تھا یعنی تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ، چنانچہ سورہ آل عمران میں فرمایا:

لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔ (۳ ۔ ۱۶۴)

’’یقیناًاللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول کو مبعوث کیا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کرسناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘

اور دوسری جگہ فرمایا کہ پہلے انبیا کو بھی یہی طریقہ بتایا گیا تھا چنانچہ سورۃ الاعلیٰ میں ہے:

قد افلح من تزکی O وذکر اسم ربہ فصلی O بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا O والآخرۃ خیر وابقی O ان ہذا لفی الصحف الاولی O صحف ابراہیم وموسیٰ (۸۷ ۔ ۱۴۔۱۹)

’’یقیناًوہ شخص کام یاب ہے جس نے پاکیزگی اختیار کر لی اور اپنے رب کے نام کو یاد کیا پھر نماز پڑھی۔ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور پائیدار ہے۔ یہی بات پہلے صحیفوں میں بھی ہے، ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔‘‘

اب دیکھیے کہ تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ کیا ہے؟ یہ وہی چیز ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں ہم تعلیم وتربیت یا تطہیر فکر وتعمیر سیرت کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ پر امن طریقے سے ترغیب کے ذریعے، تعلیم کے ذریعے لوگوں کے دل ودماغ کو بدلو، ان کی فکری تطہیر کرو تاکہ ان کے نفوس کا ایسا تزکیہ اور تربیت ہو کہ وہ خوش دلی سے، اپنی مرضی سے شریعت حقہ پر عمل کرنے لگیں، اللہ کی اطاعت ان کے لیے سہل ہو جائے، شریعت طبیعت بن جائے بلکہ اللہ کی شریعت پر عمل ان کی خواہش اور مطالبہ وتقاضا بن جائے۔ یہ ہے صحیح تعلیم وتربیت کی اہمیت۔

اب یہ دیکھیے کہ نفاذ اسلام اس کے سوا کیا ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ اگر ہم اچھے، سچے اور باعمل مسلمان ہوں تو ریاست کا کام آسان ہو جاتا ہے کہ وہ ریاستی مشینری کے ذریعے ان احکام پر عمل درآمد کروا دے جن پرمسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں عمل ہونا چاہیے لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم اچھے اور باعمل مسلمان نہیں ہیں لہٰذا ریاست کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ اسلامی قوانین اسمبلی میں پاس کر دے بلکہ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ لوگوں کے دل ودماغ اور فکر وعمل کو بدلا جائے تاکہ وہ اچھے اور باعمل مسلمان بن جائیں۔ اسی لیے ہمارا یہ کہنا ہے کہ نفاذ اسلام کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیہ کے ذریعے عامۃ المسلمین کے فکر وعمل کوبدلا جائے تاکہ وہ دلی رضامندی سے اسلامی تعلیمات پر خود عمل کریں اور حکومت سے بھی تعاون کریں۔

نفاذ اسلام میں تعلیم کتاب وحکمت اور تزکیے کی اہمیت وضرورت واضح کرنے کے بعد آئیے اب یہ دیکھیں کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں مروج نظام تعلیم وتربیت کا کیا حال ہے اور کیسے اسے اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور اس میں ایک اسلامی حکومت کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ لیکن اس سے بھی پہلے یہ دیکھیے کہ ہمارے ہاں تعلیم ہے کہاں؟ حکومت پاکستان کی شائع کردہ مردم شماری ۱۹۹۸ء کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ سرحد کی ۸۳ فی صد آبادی دیہی ہے اور وہاں شرح خواندگی ۳۱ فی صد ہے جس میں عورتوں کی شرح خواندگی صرف ۱۴ فی صد ہے۔ ظاہر ہے یہ صورت حال افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک بھی ہے۔ لہٰذا موجودہ تعلیم کی کوالٹی بہتر بنانے کا سوچتے ہوئے پہلے اس کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ خواندگی میں اضافے کے لیے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے لیے کمیونٹی کو متحرک کیا جائے۔ ہمارا کوئی گاؤں محلہ ایسا نہیں جہاں مسجد نہ ہو، جہاں پڑھا لکھا امام مسجد نہ ہو اور کوئی ریٹائرڈ استاد یا فوجی اور سول ملازم نہ ہو لہٰذا اگر کمیونٹی کو متحرک کیا جائے اور انہیں قائل کیا جائے کہ تعلیم حاصل کرنا نہ صرف ہماری دنیاوی ضرورت ہے بلکہ یہ حکم خدا ورسول بھی ہے تو حکومتی مدد کے بغیر ہر گاؤں میں مسجد کو چھوٹے بچوں کی تعلیم کا مرکز بنایا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی مقامی بچوں بچیوں کے لیے الگ الگ سکول قائم کیا جا سکتا ہے۔ ان مکتب سکولوں کا نصاب ایسا ہونا چاہیے کہ قرآن حکیم اور اسلامیات کی تعلیم اس کا حصہ ہو اور انہیں الگ سے قرآن پڑھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

جہاں تک ہمارے معاشرے میں مروج دینی نظام تعلیم (درس نظامی) کا تعلق ہے، ہم دینی علوم کا طالب علم ہونے اور علما کا انتہائی احترام کرنے کے باوجود، معذرت کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ وہ فوری نظر ثانی کا محتاج ہے اور سنجیدہ علما اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ’’مجلس فکر ونظر‘‘ نے دو اڑھائی سال کی محنت کے بعد اور اہل سنت کے چاروں وفاقوں کے ذمہ دار علما کے ساتھ طویل نشستوں کے بعد موجودہ دینی نصاب میں تبدیلی کے لیے متفقہ سفارشات تیار کی ہیں اور انہیں متبادل نصاب بھی تیار کر کے دیا ہے جسے فی الفور نافذ کیا جا سکتا ہے۔ سرحد کی حکومت کو وہاں کے دینی مدارس کے علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو باہمی مشاورت سے خود درس نظامی میں تبدیلیاں تجویز کرے اور ان پر عمل درآمد کروائے۔ 

ہماری مجلس نے جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں، وہ یہ ہیں: قرآن حکیم پر مزید ترکیز، بخاری ومسلم کا تحقیقی مطالعہ، فقہ واصول فقہ کا تقابلی مطالعہ، عربی زبان کی اس طرح تدریس کہ بولنے اور لکھنے کی مہارتیں بھی حاصل ہوں، نیز سیرت النبی، اسلامی تاریخ، تقابل ادیان، گمراہ مذاہب، اسلام اور عصری مسائل جیسے مضامین بھی پڑھائے جانے چاہییں۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان، جدید سماجی وسائنسی علوم اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا تعارفی مطالعہ بھی درس نظامی کا حصہ ہونا چاہیے۔ دینی علوم کا اسلوب تدریس غیر فرقہ وارانہ ہونا چاہیے اور دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ سرحد کی حکومت کودینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کی کم از کم ایک اکیڈمی تو فوراً کھول دینا چاہیے۔

یہ تو دینی تعلیم کی بات تھی جس کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن ہم علما سے عرض کرتے ہیں کہ جدید تعلیم کی اہمیت اس سے زیادہ ہی ہے، کم نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ علما دینی مدارس میں کتنے طلبہ کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ لاکھ دو لاکھ، لیکن دوسری طرف جدید تعلیم کا یہ حال ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پچھلے سال پاکستان کے پرائمری سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ تھی۔ اب کیا ان کروڑوں بچوں کی اسلامی تعلیم وتربیت علما کی ذمہ داری نہیں؟ کیا علما ان کی اسلامی تعلیم وتربیت سے غفلت برت کر اپنے دینی فرائض سے عہدہ برآ ہونے کا اطمینان رکھ سکتے ہیں؟

اب یہ ایک تلخ لیکن ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہمارا جدید تعلیم کا سارا ڈھانچہ مغربی نظام تعلیم کی نقالی پر مبنی ہے۔ اس کی فکری اساس سے لے کر تنظیمی مدارج اور عملی مظاہر تک سب مغربی تہذیب اور اس کی فکر پر استوار ہیں۔ دینی عناصر کے مطالبے پر اس میں بعض اسلامی مظاہر کی دخ اندوزی ضرور کی گئی ہے جس نے اسے مزید غیر نافع اور غیر موثر بنا دیا ہے کیونکہ کفر میں اگر بعض خوبیاں ہیں تو اس کا سکہ تو چل سکتا ہے لیکن منافقت کی کشتی کبھی پار نہیں لگتی۔ وہ ہمیشہ بیچ منجدھار کے ڈوبتی ہے اسی لیے ہمارا جدید تعلیمی نظام پاکستانی بچوں کو یکسو اور کام یاب مسلم شخصیت میں ڈھالنے کی بجائے انہیں نظریاتی انتشار اور اخلاقی انارکی میں مبتلا کر رہا ہے اور یہی ہمارا سب سے بڑا نقصان ہے کیونکہ جس معاشرے میں انسان سازی کا کام معاشرے کے عقائد کے مطابق نہ ہو رہا ہو، اس کے مستقبل کی تباہی یقینی ہوتی ہے اور وہ قومیں مٹ جاتی ہیں جو یہ بھول جاتی ہیں کہ قوموں کے عروج وزوال کی جنگ کلاس روم میں لڑی جاتی ہے۔ 

یہ نشست چونکہ کسی تفصیلی تجزیے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم اختصار کے ساتھ ان اقدامات کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے موجودہ نظام تعلیم کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کے لیے ناگزیر ہیں۔

  1. ہماری سب سے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہم علم کو اسلامائز کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دینیات کا کورس بڑھا دیا جائے یا مغربی علوم کی کتابوں میں خدا ورسول کے ناموں کا اضافہ کر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے علوم کو اسلامی تناظر میں مدون کیا جائے۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کا ایک منفرد تصور علم ہے جو مغرب سے بالکل متضاد ہے۔ اس تصور علم کی بنیاد وحی اور اسلام کے مخصوص ورلڈ ویو یعنی تصور انسان وکائنات پر ہے اور یہ ہر قسم کے سماعی اور مشاہداتی علوم کو اپنے جلو میں لے کر چلتا ہے لیکن وحی کی سیادت میں۔ اس تصور علم کے مطابق جب علوم کی تدوین ہوگی اور اس کے مطابق جو نصابات تیار ہوں گے، وہ ان شاء اللہ یکسو مسلم شخصیت کو جنم دیں گے۔
  2. تعلیمی ثنویت کو ختم کیا جائے۔ دینی تعلیم الگ اور جدید تعلیم الگ کا تصور لازماً سیکولرزم کو فروغ دیتا ہے اور اسلام اس سیکولرزم کامخالف ہے لہٰذا نظام تعلیم میں وحدت ہونی چاہیے اور دینی تعلیم کو ایک تخصص کے طور پر اس کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید تعلیم اس طرح دی جائے کہ دینی علوم اس کا حصہ ہوں اور وہ اپنے مواد اور اسلوب میں بھی دینی بنیاد رکھتی ہو اور دینی تعلیم اس طرح دی جائے کہ عصری علوم اس کا حصہ ہوں۔
  3. تزکیہ وتربیت کے اسلامی تصور کا احیا کیا جائے۔ تعلیم صرف تدریس اور حصول علم کا نام نہیں بلکہ اس کا لازمی نتیجہ سیرت وکردار کی صورت میں نکلنا چاہیے۔ اس کے لیے مغربی طرز کی ہم نصابی سرگرمیاں کافی نہیں بلکہ جس طرح اسلام کااپنا تصور علم ہے، اسی طرح اس کا اپنا ایک مخصوص تصور تربیت (تزکیہ) بھی ہے لہٰذا اسلامی تربیت کو تعلیم کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی تربیت کا منہاج اور لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ یہ آج کے اسلامی مفکرین اور ماہرین اسلامی تعلیم کے سامنے بہت بڑا سوال ہے جس پر تحقیق وتجربات کی ضرورت ہے۔ راقم نے اپنی بساط کی حد تک اپنی کتاب ’’تعلیمی ادارے اور کردار سازی‘‘ میں تعلیمی اداروں میں اسلامی تربیت کے طریق کار کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
    تربیت طلبہ کے علاوہ تربیت اساتذہ کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے کیونکہ جب تک استاد کی صحیح تربیت نہ ہوگی، وہ اپنے طلبہ کی صحیح تربیت کیسے کرے گا؟ اور وہ ادارے جو ہم نے تربیت اساتذہ کے لیے قائم کر رکھے ہیں، ان میں فنی تربیت کا انتظام تو جیسا کیسا بھی ہو، موجود رہتا ہے لیکن نظریاتی تربیت کا وہاں کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ نہ انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ خود اچھا مسلمان کیسے بنتے ہیں اور طلبہ کو اچھا مسلمان کیسے بناتے ہیں۔
  4. تعلیم کا معیار نہایت اونچا ہونا چاہیے اور یہ محض کوئی دنیاوی بات نہیں (اسلام میں ویسے بھی دنیا دین سے الگ نہیں) بلکہ اسلام ہر بات میں ’’احسان‘‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ جو کام بھی کیا جائے، وہ اپنی بہترین صورت میں کیا جائے۔ یہی انگریزی لفظ Excellence کا مفہوم ہے۔ گویا اسلام کی رو سے تعلیم میں بھی ہر سطح پر ایکسی لینس مطلوب ہے۔
  5. نظام تعلیم ایسا ہونا چاہیے کہ وہ مسلم معاشرے کی ساری دنیوی ضرورتیں بھی بطریق احسن پوری کرے یعنی ہر قسم کی ٹیکنیکل اور سائنسی تعلیم اسلامی نظام تعلیم کا جزو ہے۔ الحمد للہ کہ اسلامی معاشرہ پچھلے چودہ سو سال سے بلا انقطاع قائم ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم ماضی میں بھی ہمارے نظام تعلیم کا حصہ تھی اور آج بھی ہونی چاہیے بلکہ جس طرح ماضی میں ہم سائنس وٹیکنالوجی میں دوسری دنیا سے آگے تھے، آج بھی ہمیں ان میں دوسری دنیا سے آگے ہونا چاہیے اور ہمارا نظام تعلیم ایسا اعلیٰ اور شاندار ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں اس ترقی کی ضمانت دے۔
  6. بچیوں کی تعلیم کو اہمیت دی جائے کیونکہ ایک ماں کو پڑھانے کا مطلب ہے سارے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانا۔ نیز مخلوط تعلیم ختم کر کے بچیوں کے الگ تعلیمی ادارے بنائے جائیں، ان کے لیے الگ خصوصی نصاب تیار کیا جائے اور ان کے شعبے میں مردوں کا عمل دخل بند کیا جائے۔

اسلامی نظام تعلیم کے حوالے سے یہ چند ضروری باتیں تھیں لیکن ان کی نوعیت نظریاتی تھی۔ اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان چند عملی اقدامات کا ذکر کرتے ہیں جو حکومت سرحد کو اسلامی نظام تعلیم کے حوالے سے کرنے چاہییں:

  1. ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مغربی فکر وتہذیب کی بالادستی ختم ہو۔ مثلاً انگریزی ذریعہ تعلیم پر پابندی لگا دی جائے اور اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ انگریزی کو اختیاری مضمون بنا دیا جائے۔ ہاں یونیورسٹی میں بزنس اورسائنسی مضامین کی تدریس انگریزی میں ہو تو کوئی ہرج نہیں۔ سکولوں میں انگریزی لباس پر بھی پابندی لگا دی جائے۔ آخر کب تک ہم اپنے بچوں کو غلام بننے کی ٹریننگ دیتے رہیں گے؟ اسی طرح دفتری زبان اردو ہونی چاہیے اور مقابلے کے امتحان بھی اردو میں ہونے چاہییں۔
  2. علوم کی اسلامائزیشن کے لیے ایک کمیشن بنایا جائے جو مستقل بنیادوں پر کام کرتا رہے۔ اس کمیشن کے کام کی روشنی میں ہر تعلیمی سطح کے نصابات ازسرنو مدون کر کے رائج کیے جائیں۔
  3. تعلیمی اداروں میں اسلامی نظام تربیت جاری کیا جائے۔ اساتذہ کے ٹریننگ کالجوں کانصاب اور اسلوب بدلا جائے۔
  4. میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی کی جائے۔ کالج یونیورسٹی کی تعلیم کو سستا کیا جائے۔ مسجد کو ابتدائی تعلیم کا مرکز بنایا جائے۔ پشاور میں ایک خواتین یونیورسٹی بنائی جائے اور مخلوط تعلیم ختم کر کے مزید خواتین کالج کھولے جائیں۔
  5. تعلیم سے طبقہ واریت ختم کی جائے۔ پرائیویٹ سکولوں کی نگرانی کی جائے اور انہیں اسلامی نصاب وتربیت اور کم فیسوں کا پابند بنایا جائے۔
  6. معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ خصوصاً بزنس، سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ ترین معیار کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔
  7. دینی نصاب تعلیم میں اصلاح کے لیے علما کی کمیٹی بنائی جائے اور دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیت کے لیے اکیڈمی کھولی جائے۔

یہ چند تجاویز ہیں جن پر اگر اخلاص اور محنت سے عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ ہمارا نظام تعلیم صحیح راہ اختیار کر لے گا اور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے میں ممد ومعاون ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ تاہم ان سے فوری نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ تعلیمی انقلاب خاموش انقلاب ہوتا ہے۔ یہ دیر سے آتا ہے لیکن دیرپا ہوتا ہے۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(مارچ ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter