(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کیا گیا۔)
معزز ومحترم حاضرین
آج جس موضوع پر ہم غور وفکر (Deliberations) کرنے چلے ہیں، وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آئیں، کچھ زمینی حقائق کا ذکر ضروری ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے لیے بڑا نازک اور کڑا وقت ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور نے باقاعدہ ایک سوچے سمجھے اور طویل منصوبے کے تحت مسلمانوں کو کچل کر ان کے وسائل دولت بالخصوص تیل پر ہاتھ صاف کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس پروگرام کے رو بہ عمل لانے میں وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک پلان کے تحت افغان حکومت کے خلاف ایک زور دار پراپیگنڈا مہم چلائی گئی اور یہ کہا گیا کہ افغانستان دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ افغانستان کو اس لیے سبق سکھانا ضروری ہو گیا ہے کہ انہوں نے تمام عالم اسلام کے لیے جہادی ٹریننگ کے مراکز کھول رکھے ہیں۔ افغانستان کو اس طرح ایک زبردست اور وسیع (Massive) پراپیگنڈا کے تحت فساد کی جڑ مشہور کیا گیا۔ اس سے قبل مغربی قوتوں نے الجزائر کی اسلامی جماعتوں پر، جو کہ جمہوری اور جائز (Valid) طریقے سے اقتدار حاصل کرنے والی تھیں، جعلی الزامات لگا کر فوج کو ان کے سامنے لا کھڑا کیا اور الجزائر میں ایک لامتناہی قتل وغارت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان ملکوں میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ ایسے حکمرانوں کو آگے لایاجائے جو احیاے اسلام کو روکیں اور مغرب کے ایجنڈے کو آگے لائیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہمارے حکمران بالعموم اسلام اور اسلامی نظام کی تضحیک وتحقیر میں اہل مغرب سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ غیرت نام کی کوئی چیز ان میں نہیں ہے۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ الجزائر میں فتنہ وفساد برپا کرنے کے بعد افغانستان کی اسلامی حکومت کی تباہی وبربادی پوری طرح امریکہ اور اہل مغرب کے ایجنڈے پر تھی اور ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء والے واقعہ کا اس سے تعلق نہ تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۱۱ ستمبر کے چند دن بعد ہمارے سابق سیکرٹری خارجہ جناب نیاز اے نائیک کا بیان اخبارات میں جلی سرخیوں سے چھپا تھا کہ اس واقعہ سے کچھ پہلے برلن میں مغربی ممالک کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں جناب نائیک بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں افغانستان پرحملہ کر کے طالبان حکومت کو ہٹانے (Unseat) کا پروگرام سامنے آیا تھا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ افغانستان پر ۱۱ ستمبر کے واقعات کی وجہ سے قیامت برپا کی گئی، درست نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ طالبان کومشق ستم بنانے میں تیزی آ گئی۔ تمام مسلمان ممالک بشمول افغانستان اور اسامہ بن لادن نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کا ۱۱ ۔ستمبر کے واقعات میں عمل دخل نہیں۔
دوسری طرف امریکہ اور برطانیہ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ان کے پاس نام زد ملزمان پر مقدمہ چلانے (Prosecution) کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور اب تو مغربی دنیا میں اور بذات خود امریکہ میں یہ گمان بڑے زور سے جڑ پکڑ رہا ہے کہ یہ امریکی ایجنسیوں کا کام ہے جس پر یہودیوں کا بالعموم کنٹرول ہے۔ فرانس میں ایک مستند کتاب اس موضوع پر شائع ہوئی ہے جس میں امریکی موقف کی پرزور تردید کی گئی ہے اور اسے امریکی ایجنسیوں کا ہی کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہماری حکومت مسلسل یہ اعلان کیے جا رہی تھی کہ ان کو اسامہ اور افغانیوں کے ملوث ہونے (Involvement) کے ثبوت مل چکے ہیں۔ چنانچہ بعد میں Logistic Support اور جو جو سپورٹ ہم نے ان کو دل وجان سے پیش کی، وہ آپ کے سامنے ہے۔ جب مسٹر کولن پاول کا فون ہمارے ’صاحب‘ کو آیا تو انہوں نے اپنے رفقاے کار کے مشورہ کے بغیر ہی امریکیوں کی توقع کے برخلاف بہت زیادہ تعاون کی پیش کش کر دی اور اس مشورہ نہ کرنے کے عمل کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بقول نپولین : ’’بعض اوقات قریبی احباب سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور خود ہی فیصلہ کر دینا چاہیے۔‘‘ حالانکہ قرآن حکیم جناب نبی آخر الزمان ﷺ کو ، جن کا اللہ تبارک وتعالیٰ سے براہ راست رابطہ تھا، حکم دیتا ہے کہ:
وشاورہم فی الامر۔ (آل عمران)
’’ان سے امور میں مشورہ کر لیا کریں۔‘‘
وامرہم شوریٰ بینہم۔ (الجاثیہ)
’’باہمی مشورے سے ہی نظام مملکت چلایا جائے۔‘‘
چنانچہ اس وقت ۵۶ مسلمان ملکوں کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ ان مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کا عمل اپنے عوام کی آرا سے بالکل مختلف ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اپنے لیڈروں سے سخت بے زار ہیں اور وہ ان سے بے زار۔
نعشوں کو تم نہ جانچو، لوگوں سے مل کے دیکھو
کیا چیز جی رہی ہے، کیا چیز مر رہی ہے
کچھ عرصہ قبل میں نے انگلینڈ میں ایک جلسہ میں شرکت کی جس میں مقرر یہ کہہ رہا تھا کہ ۵۶ مسلم ممالک ۴۶ صفر ہیں اور ان میں ایک ملک ایٹمی صفر (Nuclear Zero)ہے۔ ان سے زیادہ وقیع اور طاقتور تو مشرقی تیمور ہے۔ اس وقت تمام مسلمان ممالک، بے بسی اور بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی تباہی وبربادی کی باری (Turn) کا انتظار کر رہے ہیں۔ افغانستان کے بعد اب عراق، پھر ایران، پاکستان، سعودیہ اور نہ جانے کس کی باری کب آتی ہے۔
ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف
بخیال آنکہ گاہے بشکار خواہی آمد
مختصراً اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ ایک بد مست ہاتھی کی طرح ساری مسلم دنیا کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ری پبلکن پارٹی جو اس وقت برسر اقتدار ہے، اس کا Symbol (نشان) بھی ہاتھی ہے جبکہ ڈیمو کریٹس کا نشان گدھا ہے۔
امریکہ اور اس کے حلیفوں کا عالم اسلام میں مداخلت کا حال یہ ہے کہ وہ بڑے دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ دینی مدارس کو بند کرو اور اس میں سے قرآن کی وہ آیات جو جہاد کی تعلیم دیتی ہیں، وہ سب نکالو۔ تعلیمی نظام کو ازسر نو Restructure کیا جائے اور اس میں ان کے کہنے کے مطابق اصلاحات اور تبدیلیاں لائی جائیں۔ عربی مدارس کو جو کہ غریب اور نادار طلبہ کو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے طعام وقیام کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کو مغرب دہشت گردی کی نرسریاں کہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے ایک پادری جیری فال نے جناب رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بڑی دیدہ دلیری سے (نقل کفر کفر نہ باشد) خاکم بدہن دہشت گرد کہا۔ جارج بش نے اردن کے شاہ عبد اللہ کو ریسیو کرنے کے بعد کہا کہ Islam is a false religion (اسلام ایک جھوٹا مذہب ہے) اس سارے پس منظر میں ہماری حکومت کا حال یہ ہے کہ وہ مغرب کے وفادار کارندے کے طور پر کام کر رہی ہے اور بار بار یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ ۵۸۔ ٹو بی ہمار یاختیار میں ہے اور کسی بھی حکومت کو کسی بھی وقت ڈس مس کر سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں ان سے کوئی بعید نہیں کہ آقاؤں سے اپنے انعام کی خاطر یہ کام کر ہی گزریں۔ لہٰذا صوبہ سرحد کی حکومت کے لیے مناسب یہ ہوگا کہ Go Slow کی پالیسی اختیار کی جائے لیکن عملی طور پر ایسے اقدام کیے جائیں کہ ان کے دور رس اثرات ملک میں محسوس کیے جائیں اور یہ حکومت اپنے حسن عمل سے پسندیدہ حکومت قرار پائے۔
اولین ترجیح: معاشی مسائل
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں اسلام آباد سیکرٹیریٹ میں برطانیہ کی ایک خاتون، جو کہ اسلامی قوانین کا مطالعہ کر رہی تھی، مجھ سے ملنے آئی تو اس نے کہا: ’’چونکہ یہاں اسلام نافذ ہو گیا ہے اس لیے میں اس کے اثرات کا مطالعہ کرنے آئی ہوں۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کس بات سے اندازہ ہوا کہ یہاں اسلام نافذ ہو چکا ہے؟ اس نے جواب دیا:
"Since punishment in the shape of flogging has been imposed in respect of certain offences, therefore I believe that Islam has been enforced."
’’چونکہ چند مخصوص جرائم پر کوڑے لگانے کی سزا یہاں نافذ کر دی گئی ہے، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ یہاں اسلام کا نفاذ ہو گیا ہے۔‘‘
اس نظریہ کی نفی کرنا مقصود نہیں ہے کہ یہ اسلامی قانون کا ایک پہلو بلکہ بہت اہم پہلو ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جرائم کی اسلامی سزائیں معاشرے کی درستی اور امن بحال کرنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ بشروا ولا تنفروا اور یسروا ولا تعسروا کے اصول کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ اس سلسلے میں ایک قانون دان (Jurist) نے فرمایا:
’’لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر اس کی سخت سزاؤں پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام پہلے لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے، پھر اخلاق پاکیزہ بناتا ہے، پھر تمام تدابیر سے ایک ایسی مضبوط رائے عام تعمیر کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں۔ پھر معاشی، سیاسی ایسا نظام قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے ہیں۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سر اٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کو بدنام کرنے کے لیے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے۔‘‘
سب سے اہم مسئلہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ لوگوں کے معاشی مسائل ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے اصول ریاست انسانیت کی فلاح وبہبود کے ضامن ہیں:
کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں ایں است وبس
بڑے بڑے مسائل جن کو اولین ترجیح دینی چاہیے، وہ یہ ہیں:
۱۔ بے روزگاری
۲۔ مہنگائی
۳۔ سرکاری عملہ کی کرپشن اور عوام سے بد سلوکی، بالخصوص پولیس کی زیادتی
۴۔ سرحد کے حوالے سے محکمہ جنگلات کی کرپشن
۵۔ سمگلنگ اور کار چوری
ان تمام امور کے بارے میں قومی اخبارات میں شکایات بالعموم چھپتی رہتی ہیں۔ صوبے میں چور، ڈاکو، سمگلر، نشئی اور دیگر مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ پچھلے پچاس برس میں صوبہ سرحد سمگلنگ کامرکز رہا جس سے سارا پاکستان متاثر ہوا۔ سمگلر، قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو اپنے حقیر نمبردار اور تابع سمجھتے ہیں۔ صوبہ سرحد گاڑیوں کے غیر قانونی کاروبار اور کار چوروں کا مرکز ہے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے جب کاریں یا ویگنیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ گھنٹوں کے اندر پشاور، مردان کے راستے سے غیر علاقے خصوصاً باڑہ یا باجوڑ ایجنسی میں پہنچائی جاتی ہیں۔ جس کی کار چوری ہوتی ہے، اسے رقعہ مل جاتا ہے کہ پولیس سے رابطہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہمارے ساتھ فلاں حجرے میں بات کرو۔ چند لاکھ دے کر گاڑی واپس مل جائے گی۔ صوبہ کی پولیس کو ان ڈاکوؤں اور چوروں کاپورا علم ہے مگر یہ کاروبار چل رہا ہے اور پولیس کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
فاٹا اور صوبہ سرحد منشیات اور غیر ملکی سامان کی تجارت کاعرصے سے مرکز ہے۔ وقتاً فوقتاً چند بوریوں کو تشہیر کے لیے آگ لگائی جاتی ہے لیکن اس کاروبار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔
بے روزگاری ایک بنیادی مسئلہ ہے جس کے بڑے بھیانک نتائج نکل رہے ہیں۔ ڈاکے، چوریاں اور دیگر جرائم کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔ صوبہ میں ۴۳۰ صنعتی یونٹس بند پڑے ہیں۔ مرکز سے مل کر ان کو دوبارہ چالو کرنے کی ضررت ہے۔ گدون امازئی میں کافی یونٹ کام کر رہے تھے۔ اب وہاں صرف چند ایک صنعتی یونٹ کام کر رہے ہیں۔ اس کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ فاٹا میں جو انڈسٹریز تھیں، ان کو بحال کیا جائے۔ ماربلز انڈسٹریز کی طرف توجہ دے کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماربل Extraction کے بعد کٹنگ وغیرہ کے سارے مراحل صوبہ سرحد میں ہی طے ہونے چاہییں تاکہ یہاں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار میسر آ سکے۔
تعلیم وتربیت
انگریزی تعلیم کو نصاب تعلیم سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انگریزی کو مسلمان کیا جائے اور برطانوی مسلمان سکولوں کی طرز پر کورسز ترتیب دیے جائیں۔
دینی مدارس پر توجہ دی جائے۔ دینی علوم کے ساتھ سائنسی اور جدید علوم پڑھائے جائیں تاکہ اسلام کی آفاقیت اور فوقیت ان کے ذہنوں پر نقش کی جا سکے۔ ایک برطانوی رسالے نے ایم ایم اے کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے:
(1) Ensure Good Governance.
(2) Win back sovereignty and independence of Pakistan.
یعنی عوام دوست طرز حکومت کو یقینی بنایا جائے اور پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کو بازیاب کیا جائے۔
ٹی وی میں جو وقت اب علاقائی پروگرام میں مل سکتا ہے، اس میں پشتو اور اردو میں اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ لوگوں کو اخلاق، شرافت، دیانت، ایمان داری جو کہ امت مسلمہ کا طرۂ امتیاز رہا ہے، اس کا خوب صورت انداز میں درس دیا جائے۔ لوگوں میں Civility اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس Civic Sense) (پیدا کیا جائے۔ اگر ہو سکے تو ایک دو پیریڈ بچوں کے سکول کورسز کی دہرائی کے لیے بھی مختص کر دیے جائیں۔ اس سے بچوں کو ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علامہ اقبال جاپان کی ترقی کا راز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جاپان نے ۱۹۰۰ء میں ملک میں صنعتی سکولوں کے جال بچھا دیے تھے جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتی تعلیم کے ادارے ہر جگہ کھولے جائیں۔
قوت مغرب نہ از چنگ ورباب
نے زرقص دختران بے حجاب
نے ز سحر ساحران لالہ رو است
نے ز عریاں ساق ونے از قطع مو است
قوت افرنگ از علم وفن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
عدلیہ
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بذات خود ایک ایمان دار آدمی ہو اور وہ یہ چاہے کہ صوبائی عدلیہ میں کرپشن نہ ہو تو کوئی سول جج، مجسٹریٹ، ایڈیشنل سیشن جج یا سیشن جج رشوت لینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اس سلسلے میں مجلس عمل کو بڑا چوکنا رہنا ہوگا اور چیف جسٹس سے رابطے کے بعد ان کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے رہنا ہوگا۔ اگر صحیح رپورٹوں کی بنا پر چند کرپٹ سول جج یا مجسٹریٹ یا دیگر سرکاری افسر سروس سے نکالے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ باقیوں کے کان کھڑے ہو جائیں گے اور وہ ڈر کر کام کریں گے۔ اسی طرح ایک ضلع کا سیشن جج اور ڈی سی او ایمان دار ہو اور وہ یہ چاہے کہ اس کے زیر اثر افسران میں سے کرپشن ختم کی جائے تو اس کے لیے کوئی عمل مانع نہیں ہے۔ کیا متحدہ مجلس عمل کی گورنمنٹ صوبے میں آٹھ یا دس ایمان دار اور باصلاحیت سیشن جج بھی نہیں ڈھونڈ سکتی؟ اگر اس سلسلے میں ایک سنجیدہ کاوش کر لی جائے تو آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ سے انتہائی مطمئن اور خوش ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ قانونی ضابطے ایک کرپٹ آدمی کو بے ایمانی کرنے سے نہیں روک سکتے لہٰذا زور اس امر پر دینا چاہیے کہ اختیارات کا استعمال کرنے والا شخص (Man behind the gun) صحیح کردار کاحامل ہو۔
جج یا مجسٹریٹ صاحبان کے لیے عدالتی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ایک حلف مقرر کیا جانا چاہیے جیسا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ء کی دفعہ ۱۶ کے تحت ہر جج پر لازم ہے کہ وہ ہر مقدمہ کی کارروائی شروع کرنے سے قبل یہ حلف لے کہ ایمان داری، راست بازی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ غیر مسلموں کے سلسلے میں حلف یہ ہوگا کہ وہ ایمان داری اور راست بازی کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خرابیاں واقع ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی ایک گیا گزرا مسلمان جج بھی اس حلف کے بعد بہت احتیاط برتے گا۔
ہماری بے مقصد تعلیم کے باعث افسران میں احساس ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کا احساس یا تو ہے ہی نہیں یا بہت کم ہے جس کی وجہ سے ان کے فرائض کی سرانجام دہی میں بے شمار کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عمدہ ٹریننگ کا اہتمام بہت ضروری ہے جس میں افسران کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ وہ ایک بڑی نازک ذمہ داری کے حامل ہیں جس میں احتساب بڑا سخت ہے۔ عدلیہ کے بارے میں جج صاحبان کو اس عہدے کی نزاکت اور شدید جواب دہی کے متعلق آیات قرآنی اور احادیث نبوی سے روشناس کرایا جائے اور انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ عدل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور عدل ایک فرض کے ساتھ ساتھ عبادت بھی ہے۔ اچھی ٹریننگ کے اثرات بہت دور رس اور عمدہ نکلتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت سرحد کے پاس جناب عبد اللہ صاحب سابق چیف سیکرٹری سرحد جیسا ذمہ دار اور دیانت دار افسر موجود ہے جن کی خدمات سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔ اگر نئی جوڈیشل اکیڈمی قائم کرنے پر خرچ زیادہ اٹھتا ہو تو پہلے سے قائم شدہ ادارے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ نیپا (Nipa) پشاور میں جناب عبد اللہ پہلے ہی ایک عرصہ تک یہی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
سول ججز : ماتحت عدلیہ کا انتخاب بہت حد تک آپ کے پاس ہے۔ آپ کا پبلک سروس کمیشن ان کا امتحان لیتا ہے۔ اچھے بیج سے اچھی فصل پیدا ہوتی ہے۔ انصاف کی فراہمی کا شعبہ بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ سب سے پہلی اور بنیادی عدالت ہے جس سے عوام کو بالعموم واسطہ پڑتا ہے لہٰذا اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ برطانوی چیف جسٹس لارڈ سنگ سے کسی نے پوچھا کہ اچھے جج کی کیا تعریف ہے؟ اس نے جواب دیا:
"A judge should be honest. He should be hardworking. He should understand men and matters and if knows little bit of law that would be blessing over blessings."
’’جج کو ایمان دار اور محنتی ہونا چاہیے۔ اس میں انسانوں کوجانچنے کی صلاحیت اور معاملات کی سوجھ بوجھ ہونی چاہیے، اور اگر اس کے ساتھ اسے قانون کی شد بد بھی ہو تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔‘‘
آپ کو علم ہے کہ تقریباً ۹۰ فی صد مقدمات انہی عدالتوں میں ہوتے ہیں لہٰذا سول جج صاحبان کے انتخاب پر ایک اچھی حکومت کو پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ کی کوشش یہ ہوتی کہ قاضی صاحبان صاحب اثر اور صاحب ثروت لوگوں سے لیں اور اس پر مزید یہ خیال رکھتے کہ قاضی عمدہ کردار کا حامل ہو۔ ایسے حضرات اپنی دنیوی خواہشات کا جلد شکار نہ ہوتے تھے۔
بفرض محال اگر کسی صورت ایسے مشکوک کردار کے لوگ کسی طرح سروس میں گھس گئے تو انہیں کنفرم نہ کیا جائے اور نکال باہر کیا جائے۔ جیسا کہ خاردار جھاڑیوں کی تراش خراش ضروری ہوتی ہے، اسی طرح شریف سوسائٹی کو ایسے ناہنجار لوگوں کو نکال باہر کرنا چاہیے۔
ایڈیشنل سیشن جج صاحبان: اگرچہ ان کے انتخاب کا تمام تر پروسس ہائی کورٹ کے ہاتھوں ہوتا ہے لیکن چونکہ تقرری گورنمنٹ کرتی ہے لہٰذا عدالت عالیہ کی مشاورت سے اعلیٰ کردار کے حامل لوگوں کو اس سروس میں لانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ موجودہ طریق کار میں کردار کی تفتیش وتحقیق کم ہی ہوتی ہے اور ہر قسم کے لوگ امتحان پاس کر کے اس اعلیٰ پائے کی سروس میں آ گھستے ہیں۔ ایمان دار اور محنتی ججز کو بروقت ترقی ملنی چاہیے اور غیر ضروری تاخیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہائی کورٹ ججز کی تقرری میں بے احتیاطی ملکی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے، اس میں بہت سی احتیاط کی ضرورت ہے۔
اگرچہ چیف جسٹس ججز کی تقرری کو Initiate کرتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے لہٰذا وزیر اعلیٰ پورے زور سے غلط تقرریوں کی مخالفت کر کے اس عہدہ عالیہ کو غلط قسم کے لوگوں سے بچا سکتے ہیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعات ۱۸۲ اور ۲۱۱ کا صحیح اور فوری استعمال بہت سے جرائم کو روکنے میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔
اس وقت پروسس بڑا طویل اور صبر آزما ہے۔ جج کو یہ اختیار دے دینا چاہیے کہ اگر وہ مقدمہ بد نیتی پر دائر کردہ پائے تو ملزموں کو بری کرتے ہوئے غلط اطلاع اور غلط الزام لگانے کو اسی وقت سزا دے دے۔
احتساب کا ایک عمدہ نظام قائم ہونا چاہیے جو اوپر سے شروع ہو کر نیچے آئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر ایک چیف جسٹس دیانت دار ہے اور وہ اس بات پر کمربستہ ہے کہ صوبے کی عدلیہ میں کرپشن نہ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ کرپشن رک نہ سکے۔ اسی طرح اگر ایک چیف سیکرٹری ایمان دار ہے اور اس بات کے لیے مصمم ارادہ رکھتا ہے کہ کرپشن روکی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس پر قابو نہ پا سکے۔ جب تک احتساب کا نظام کڑا نہیں ہوگا، اس وقت تک افسروں کی صحیح نگہداشت نہیں ہو سکے گی اور عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
صوبائی محتسب ایک ایسے شخص کو مقرر کیا جانا چاہیے جسے دینی علوم کے علاوہ جدید علوم پربھی دسترس حاصل ہو اور وہ عام لوگوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں ریلیف دے سکیں۔
صوبے میں سیشن کورٹ اور اس کے ماتحت عدالتوں کے علاوہ بے شمار عدالتیں قائم ہیں۔ اس سے بھی لوگوں کو انتہائی پریشانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انٹی کرپشن کورٹ، سروس ٹربیونل، لیبر کورٹ، انسداد دہشت گردی عدالت وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کو ختم کر کے عام عدالتوں کو، جو کہ سیشن جج کے ماتحت ہوتی ہیں، یا سیشن جج صاحبان کو یہ اختیارات تفویض کر دینے چاہییں۔ اس سے لوگوں کے مقدمات کی سماعت بہت جلد ہو سکے گی اور اس تنوع کے باعث جو پریشانیاں عوام کو ہوتی ہیں، ان سے بچا جا سکے گا۔
اس وقت عدلیہ کے متعلق عدم اعتماد کی جو فضا ملک بھر میں پائی جاتی ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کے بعد اگرچہ انتظامیہ کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اگر صوبائی حکومت خلوص دل سے کچھ کرنا چاہے تو ضرور کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہوگی کہ جناب اکرم درانی صاحب چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے ہاں جا کر بذات خود ملاقات کریں اور ان سے اپنے پروگرام اور منشور پر عمل درآمد کے سلسلے میں مدد طلب کریں۔ اس کے بعد چیف جسٹس صاحب اور سینئر جج صاحبان کو اپنے ہاں مدعو کرتے رہا کریں۔ چونکہ درانی صاحب خود وکیل ہیں اس لیے وہ لازماً اس کی افادیت سے پوری طرح آگاہ ہوں گے۔
دینی مسائل میں رہنمائی کے لیے علما کا بورڈ
ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں صوبہ سرحد اور دوسرے صوبوں کے نامور علما، پروفیسرز اور قانون دان شامل ہوں جو کہ عملی کردار کے حامل ہوں اور ان کے تبحر علمی کا ہر کہ ومہ قائل ہو، تاکہ وہ دقیق امور میں سرکار کی رہنمائی کر سکیں۔ سعودی عرب میں ایسا ہی ایک ادارہ ہیءۃ کبار العلماء کے نام سے قائم ہے۔ یہ ادارہ وقتاً فوقتاً گورنمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی رہنمائی کرتا رہے۔ جب تک ایسا ادارہ سرحد حکومت قائم نہیں کر پاتی، اس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل سے استفادہ کرے۔
وفود کی تشکیل
اب تک ایم ایم اے نے جو مثالی کردار پیش کیا ہے اور جس طرح اتحاد کو قائم رکھا ہے، اس سے عوام کی امیدوں کے چراغ روشن ہو گئے ہیں اور بیورو کریسی بھی ان شاء اللہ اس سے بہت متاثر ہوگی۔ بیرونی ممالک میں پاکستان کا امیج بہت خراب ہے اور ہمارے کیس کو کسی نے اچھی طرح سے پیش نہیں کیا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بیرونی ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کا دورہ کر کے پاکستانی عوام کے جذبات سے ان کو آگاہ کیا جائے۔ امریکہ اور تمام عیسائی دنیا کو یہ بتایا جائے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ جب ایرانیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کو شکست ہوئی تو سورۂ روم میں فرمایا گیا کہ یہ شکست عارضی ہے اور چند سال بعد عیسائی، دشمن کے مقابلے میں کام یاب ہوں گے جس سے مسلمان خوش ہو جائیں گے۔
ہمیں ان سے صرف یہ گلہ ہے کہ بلاجواز مسلمانوں کے خلاف ہوا کھڑا کر کے ان کو بدنام کیا جا رہا ہے حالانکہ دنیا میں وہ یہودیوں، ہندوؤں اور روسیوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور اہل کلیسا ان کی ناجائز مدد کر کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔