آہ! حضرت مولانا عبید الرحمنؒ

مفتی محمد جمیل خان

حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے بڑے صاحب زادے، پاکستان اور انگلینڈ کی معروف ترین شخصیت اور ظلمت کدہ برطانیہ کی ہر دینی تحریک کے پشتی بان اور سرزمین بہبودی کے علمی خانوادہ کے سرپرست اعلیٰ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اجل اور حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین حضرت مولانا عبید الرحمن مختصر علالت کے بعد اپنے آبائی وطن بہبودی میں بروز بدھ ۲۲ جنوری ۲۰۰۳ء کو فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ اپنی برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ عجیب معاملہ فرماتے ہیں۔ آپ کے سب سے چھوٹے بھائی امام اہل سنت مولانا مفتی احمد الرحمن اس شان سے رخصت ہوئے کہ عشا کی نماز پڑھتے ہیں، مشکوٰۃ شریف کی آخری حدیث کا درس جامعہ بنوریہ میں دیتے ہیں اور گھر آ کر اس شان بان سے رخصت ہوتے ہیں کہ چہرہ وجوہ یومئذ ناضرۃ اور ضاحکۃ مستبشرۃ کا مشاہدہ کراتا ہے اور ہمارے ممدوح مولانا عبید الرحمن اس شان سے رخصت ہوتے ہیں کہ فجر کی نماز ادا فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں محو ہو جاتے ہیں۔ زبان پر فجر کے بعد کے معمولات جاری ہوتے ہیں کہ محبوب حقیقی کی طرف سے بلاوا آجاتا ہے۔ زندگی بھر کوئی نماز قضا ہونے کی ندامت اور حسرت سے باری تعالیٰ نے محفوظ رکھا تو مرض الموت میں اپنے مقرب ومحبوب بندے کو کس طرح باری تعالیٰ اس ندامت اور حسرت کے ساتھ اپنے پاس بلا سکتا تھا۔ 

بعض شخصیات اس آن بان سے رخصت ہوتی ہیں کہ اہل علم ودین اپنے آپ کو یتیم اور بے سہارا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مدارس اور دینی کاموں سے متعلق لوگ بے آسرا سے ہو جاتے ہیں۔ حضرت مولانا عبید الرحمن صاحب ظلمت کدہ انگلستان میں تپتی دھوپ میں ایک سایہ دار شجر اور شدید سردی میں ایک گرم مکان کی مانند اہل دین کو فیض یاب کرتے نظر آتے تھے۔ پوری زندگی علماء کرام اور اہل دین کی خدمت میں گزاری۔ انگلینڈ جانے والوں کی طرح پاؤنڈوں کو مطمح نظر نہیں بنایا۔ فقیری کے باوجود غنی دل کے ساتھ مہمان نوازی اور سخاوت ان کاطرۂ امتیاز تھی اور مسلمانوں کی حالت زار پر ان کی کڑھن قابل رشک اور مسلمانوں کے حقوق کی طلبی اور ان کی اصلاح کے لیے موج زن جذبات قابل تحسین تھے۔ دن رات کی تمیز کیے بغیر خدمت اہل دین سے ان کی زندگی عبارت تھی۔ تواضع وانکسار ان کی زینت اور اللہ پر یقین وتوکل ان کا ہتھیار تھا۔ مشکل گھڑیوں اور صبر آزما حالات میں وہ ساتھ دینے والی عظیم شخصیت تھے۔ ذاتی نفع ونقصان سے بالاتر دین کی بالادستی اور علماء کرام کے احترام ووقار کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہے۔ ان کا گھر سیاسی اختلافات ومفادات سے بالاتر ہو کر علما کے لیے مہمان خانہ تھا۔ میزبانی کا ذوق وشوق ان کی بدولت گھر کے ایک ایک فرد کے رگ وریشہ میں پیوست ہو گیا تھا۔ چوبیس گھنٹے کے کسی لمحہ میں بھی کوئی مہمان اس گھر سے سیر ہوئے بغیر واپس لوٹنے کے تصور سے عاری تھا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، وفاق المدارس العربیۃ پاکستان، سپاہ صحابہ، مجاہدین کی تمام تنظیمیں اور پاکستان کی اکثرخانقاہیں اورمدارس کے منتظمین اور علما ہی نہیں، متعلقین کے لیے بھی اس گھر کی حیثیت اپنے گھر کی سی تھی۔ مولانا مفتی محمود، علامہ سید محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا سید محمد اسعد مدنی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، مولانا عزیز الرحمن جالندھری، مولانا محمد اکرم طوفانی اور دیگر بڑے بڑے علماء کرام سے لے کر ہم جیسے ناکارہ لوگوں کے لیے آپ اور آپ کا گھرانہ چشم براہ رہتا تھا۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے آتے جاتے کسی نہ کسی طرح یہ گھر میزبانی کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے کچے گھر کی طرح مولانا عبید الرحمن صاحب کے گھر کی حیثیت بھی جنکشن کی تھی جہاں ہر طبقہ فکر کے اہل علم کا گزرے بغیر چارہ نہیں تھا۔

حضرت مولانا عبید الرحمن صاحب ۱۹۳۲ء میں سہارنپور کے جس مبارک اور پاکیزہ ماحول میں پیدا ہوئے، اس وقت مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کی مسند حدیث پر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری جیسی عظیم المرتبت ہستی رونق افروز تھی اور مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد زکریا کاندھلوی، مولانا محمد الیاس رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی نورانی شخصیات تدریس اور سرپرستی میں مصروف تھیں۔ ان ہستیوں کی دعاؤں اور صحبت میں آپ کا بچپن گزرا۔ قاری سعید الرحمن صاحب کے مطابق حفظ قرآن کے لیے بسم اللہ کا آغاز ان بزرگوں کی دعاؤں سے ہوا۔ حفظ کی تکمیل مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں کی ہی تھی کہ والد محترم حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ نے ابتدائی تعلیم اور تربیت کے لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا ابرار الحق کے پاس ہردوئی بھیج دیا۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ درس نظامی کی متوسط کتابوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور آئے اور ابھی تعلیم کے مراحل طے نہیں ہوئے تھے کہ قیام پاکستان کا عمل پیش آ گیا اور ہندوستان سے مسلمانوں کی ہجرت اور فسادات کے اندوہ ناک واقعات پیش آئے اور لاکھوں مسلمانوں کے کشت وخون کی ہولی نے ایک ایسی خلیج اور نفرت کی دیوار کھڑی کی کہ آج پچاس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نفرتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس لیے مظاہر العلوم سہارنپور کی تدریس کے لیے واپس جانا حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کے لیے ممکن نہ رہا اس لیے مولانا عبید الرحمن صاحب اپنا تعلیمی سلسلہ بزرگوں کی نگرانی میں پورا نہ کر سکے۔ کچھ عرصہ اپنے آبائی علاقہ بہبودی کے اطراف میں علماء کرام سے کتابیں پڑھتے رہے، بعد ازاں حضرت مولانا خیر محمد جالندھری کی زیر نگرانی جامعہ خیر المدارس ملتان میں، جو کہ اس وقت دیوبندی مدارس میں ممتاز حیثیت کا حامل تھا، تعلیم کا منقطع سلسلہ بحال کیا۔ 

اسی دوران مولانا احتشام الحق تھانوی کی دعوت پر جب حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری اور دیگر بڑے بڑے بزرگ دار العلوم ٹنڈو الٰہ یار میں تدریس کے لیے جمع ہوئے تو مولانا عبید الرحمن، قاری سعید الرحمن کو بھی تعلیم کے لیے اپنے ساتھ اس مدرسہ میں لے آئے اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کی نگرانی میں ۱۹۵۴ء میں حدیث کی تکمیل کر کے دستار فضیلت اور سند حدیث حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ اپنے علاقہ میں علمی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں جب علامہ سید محمد یوسف بنوری نے کراچی میں ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ کے نام سے ایک جدید طرز پر تعلیمی ادارہ قائم کیا ( جو اب الحمد للہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن اور اس کی سترہ شاخوں کی شکل میں مولانا سید محمد یوسف بنوری، مفتی احمد الرحمن، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، مولانا سید مصباح اللہ شاہ، سید محمد بنوری، مولانا بدیع الزمان رحمہم اللہ کا صدقہ جاریہ ہے) تو مولانا بنوری کے حکم پر ۱۹۵۵ء میں اس مدرسہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ کئی سال مولانا بنوری کی زیر نگرانی خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں مولانا عبد الرحمن کامل پوری کی علالت کی وجہ سے بہبودی واپس آ گئے اور وہیں مدرسہ میں تعلیمی سلسلہ کے ساتھ والد محترم کی خدمت اور تیمارداری میں مصروف ہو گئے۔ 

حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کے حکم پر مولانا عبید الرحمن اور قاری سعید الرحمن نے جامعہ اسلامیہ کے نام سے پنڈی میں مدرسہ کا آغاز کیا تو اس میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد والد محترم کی اجازت سے ظلمت کدہ انگلستان میں دینی رہنمائی کے لیے ۱۹۵۶ء میں تشریف لے گئے۔ اس وقت انگلستان میں مسلمانوں کی حالت زار بہت ہی مخدوش تھی۔ مساجد نہ ہونے کے برابر تھیں، لوگ گھروں میں نمازیں ادا کرتے تھے، حلال گوشت کا تصور تک نہیں تھا، پردہ اور اسلامی لباس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا،مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ لوگ انفرادی طور پر دینی امور کی انجام دہی کی خفیہ طور پر کوشش کرتے۔ اس صورت حال میں مولانا عبید الرحمن نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا عزم اور علماء کرام اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی تربیت کی وجہ سے جرات وبہادری اور دینی حمیت آپ کی رگ رگ میں پیوست تھی اور علمی خاندان کی وجہ سے خدمت دین آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے شیفیلڈ کو مرکز بنایا اور محنت ومزدوری کے ذریعہ مسلمانوں کے لیے حلال رزق کا بندوبست کیا اور اعزازی طور پر رضاکارانہ انداز میں خدمت دین شروع کی۔ دار العلوم ڈیوز بری میں تدریسی عمل کے ساتھ علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور ’’جمعیت علماء برطانیہ‘‘ کے نام سے ایک مذہبی پلیٹ فارم قائم کیا جس کی وجہ سے علماء کرام اجتماعی کام کی طرف متوجہ ہوئے اور مسلمانوں کو مربوط زندگی گزارنے کے لیے ایک مرکز مل گیا۔ علماء کرام کے اس پلیٹ فارم سے سب سے پہلے مساجد اور مکاتب قرآن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ حلال اشیا کی تجارت کی طرف متوجہ ہوں۔ حکومت سے بات چیت کی گئی اور آخر کار حکومت نے مسلم ذبیحہ کی اجازت دی۔ سکولوں میں مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے لیے وقت حاصل کیا گیا اور علماء کرام کو اس خدمت کے لیے مقرر کیا گیا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں کے ساتھ جیلوں میں بھی اسلامی تعلیم کے لیے وقت حاصل کیا گیا۔ عید کی نمازوں کے لیے کھلی جگہیں حاصل کی گئیں اور مختلف شہروں میں دینی پروگرام شروع کیے گئے۔ دعوت وتبلیغ کو مربوط کرنے کے ساتھ پاکستان بھر سے علماء کرام مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا مفتی محمود، مولانا احتشام الحق تھانوی، ہندوستان سے مولانا ابو الحسن علی ندوی اورمولانا سید اسعد مدنی وغیرہ کو بلوا کر مسلمانوں کے مشترکہ اجتماعات کیے گئے۔ مسلمانوں کے عائلی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کے لیے ’’مجلس قضا‘‘ کے نام سے علماء کرام کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور حکومت سے فیصلہ کرایا گیا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل ان کے مذہب کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے۔

۱۹۸۴ء میں جب قادیانیوں کے لیے امتناع قادیانیت آرڈی ننس جاری کیا گیا اور مرزا طاہر پاکستان سے فرار ہو کر لندن چلا گیا اور وہاں قادیانیت کا مرکز بنا کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور قادیانی بنانے کی مہم شروع کی تو مولانا عبید الرحمنؒ اور مولانا محمد یوسف متالا اور دیگر علماء کرام کی کوششوں اور جمعیت علماء برطانیہ، حزب العلما کے تعاون سے ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ کے انعقاد کافیصلہ کیا گیا اور ۱۹۸۶ء میں پہلی ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی اور اس کے بعد ان کی مشاورت سے انگلینڈ میں ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ قائم کی گئی۔ اس دوران مکی مسجد اور ان کا مکان مرکز کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد زید مجدہم، مفتی احمد الرحمن، مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کوششو ں اور مولانا عبید الرحمن، مولانا محمد یوسف متالا، مولانا مفتی محمد اسلم، مولانا مفتی مقبول احمد اور دیگر علماء کرام کی محنتوں سے لندن میں دفتر ختم نبوت ۳۵۔ سٹاک ویل گرین میں قائم کیا گیا اور مولانا منظور احمدالحسینی، حاجی عبد الرحمن یعقوب باوا کا مبلغ کی حیثیت سے تقرر کیا گیا۔ مولانا عبید الرحمن ختم نبوت کے سرپرست اور نائب صدر مقرر ہوئے اور اس کے بعد ہر سال اس ماہ میں ختم نبوت کانفرنس بھی منعقد ہوتی رہی۔ وفات تک آپ ختم نبوت کے اس عہدہ جلیلہ، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کی تردید میں مصروف عمل رہے۔

جمعیت علماء برطانیہ اور ختم نبوت کی خدمات کے ساتھ آپ نے شیفیلڈ اور انگلینڈ میں مساجد اور مدارس کے قیام کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کی۔ شیفیلڈ میں کئی مساجد قائم ہوئیں، لڑکیوں کے لیے اسکول اور مدرسہ قائم کیا گیا۔ غرض انگلینڈ کی ہر دینی خدمت اور تحریک میں آپ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے۔ انگلینڈ کے ساتھ آپ پاکستان کے حالات سے لاتعلق نہیں ہوئے بلکہ جمعیت علماء اسلام اور دینی مدارس کے ساتھ اپنا مضبوط رشتہ برقرار رکھا اور ان کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کرتے رہے۔ انتخابی معرکہ ہو یا کسی مدرسہ کا قیام، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ اسلامیہ راول پنڈی اور بہبودی کا مدرسہ، ان کی ترقی میں آپ بھرپور تعاون کرتے رہے۔ جہاد افغانستان، کشمیر، چیچنیا، فلسطین میں شریک مجاہدین کی بھرپور امداد کرتے رہے۔ 

گزشتہ ایک سال سے جگر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹروں نے ڈائی لائسز تجویز کیا مگر اللہ تعالیٰ پر توکل اور قوت ارادی کے بل بوتے پر بیماری کا مقابلہ کرتے رہے اور ڈائی لائسز نہیں کرایا۔ آخر کار یہی بیماری آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کا خاندان اور آپ کی علمی میراث آپ کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور بعد میں آنے والے آپ کی پر عزم زندگی سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔

اخبار و آثار

(مارچ ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter