پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس / امریکی حملہ اور جامعہ ازہر کا فتویٰ / فاضل عربی کا نصاب

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی کونسل کا اجلاس

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی کونسل کا اجلاس ۱۶ فروری ۲۰۰۳ء کو جامع مسجد سلمان فارسی اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا عبد الخالق، مولانا محمد رمضان علوی، مولانا صلاح الدین فاروقی، مولانا قاری میاں محمد نقش بندی، مولانا مفتی سیف الدین، مولانا اکرام الحق صدیقی، احمد یعقوب چودھری، پروفیسر ڈاکٹر احمد خان، ڈاکٹر مسعود احمد اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔

اجلاس میں مولانا مفتی سیف الدین نے شمالی علاقہ جات کے زلزلہ زدہ علاقوں کی تازہ ترین صورت حال سے شرکا کو آگاہ کیا اور ایک قرارداد کے ذریعہ مرکزی کونسل نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ شمالی علاقہ جات کی انتظامیہ مبینہ طور پر مذہبی تعصب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کی طرف ضروری توجہ نہیں دے رہی اور نہ صرف یہ کہ متاثرہ علاقوں سے عوام کی منتقلی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے بلکہ غریب عوام کے لیے باہر سے جانے والی امداد بھی مستحق لوگوں تک نہیں پہنچ رہی۔ قرارداد میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خود امدادی سرگرمیوں کو کنٹرول کرے اور صدر اور وزیر اعظم فوری طور پر متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی غفلت ہزاروں خاندانوں کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان شریعت کونسل نے پاکستان کے بزرگ دینی وسیاسی رہنما اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سابق امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ماہنامہ انوار القرآن کراچی کے ضخیم نمبر کی اشاعت پر مسرت واطمینان کا اظہار کیا اور طے پایا کہ اس خصوصی اشاعت کی رونمائی کے لیے پریس کلب راول پنڈی میں ۵ مارچ بدھ کو ایک باوقار تقریب منعقد کی جائے گی جس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ مولانا فضل الرحمن، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا سمیع الحق، راجہ محمد ظفر الحق، قاضی حسین احمد، مولانا محمد اعظم طارق، پروفیسر ساجد میر اور صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ محمد اکرم خان درانی کو بطور خاص شرکت وخطاب کی دعوت دی جائے گی۔ اس تقریب کے انتظامات کے لیے مولانا عبد الخالق، مولانا محمد رمضان علوی، احمد یعقوب چودھری، مولانا میاں محمد نقش بندی، ڈاکٹر احمد خان اعوان، شفیق الرحمن اور شاہد خان پر مشتمل انتظامیہ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

اجلاس میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور عراق پر امریکہ کے مجوزہ حملہ کے خلاف عالمی رائے عامہ کے منظم رد عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا کہ عالمی رائے عامہ کے رد عمل سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ خلیج میں تیل کے چشموں پر قبضے کے لیے عراق کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، امریکہ تمام بین الاقوامی اصول وضوابط کو پامال کرتے ہوئے عراق پر حملہ کر کے تیل کے چشموں پر قبضہ کرنے پر تل گیا ہے اور اس کی یہ ہٹ دھرمی پوری دنیا پر پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔ قرارداد میں مسلم ممالک کی سربراہی تنظیم او آئی سی کے حالیہ کردار اور خاموشی کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ او آئی سی امریکہ کی حاشیہ برداری کی پالیسی پرنظر ثانی کرے اور عالم اسلام کے خلاف امریکہ کے معاندانہ عزائم کی روک تھام کے لیے جرات مندانہ موقف اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عالم اسلام کی موجودہ صورت حال اور امریکہ کے معاندانہ کردار کے حوالہ سے پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے ایک جامع عرض داشت اسلام آباد میں مسلم ممالک کے سفرا کو پیش کی جائے گی اور پاکستان شریعت کونسل کا وفد مسلم ممالک کے سفرا کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور پارلیمنٹ کے ارکان سے بھی ملاقات کرے گی۔ ان شاء اللہ العزیز

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ افغانستان کے چیف جسٹس مولوی فضل ہادی شنواری کی طرف سے ملک میں کیبل نیٹ ورک اور فحاشی کے دیگر مراکز پر پابندی لگانے کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا گیا اور پاکستان کی حکومت اور عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھی افغانستان کی سپریم کورٹ کی طرح اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ اور مغرب کی بے حیا اور عریاں ثقافت کی روک تھام کے لیے ٹھوس طرز عمل اختیار کریں اور پاکستان کی نظریاتی حیثیت اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں۔

اجلاس میں ایک اور قرارداد کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے ملک کو نجات دلانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔

اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے صوبہ سرحد میں اکرم درانی کی حکومت کی طرف سے اسلامی قوانین کے نفاذ کے عزائم اور اعلانات کاخیر مقدم کیا گیا اور اس سلسلے میں پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے مکمل حمایت وتعاون کا یقین دلایا گیا۔

اجلاس میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے نام پر بے حیائی اور رقص وسرود کے فروغ کی سرکاری پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک قرارداد میں کہا گیا کہ حکومتی طبقے ملک میں مغربی اور ہندو ثقافت کی ترویج کے لیے سرکاری وسائل استعمال کر کے پاکستان کے بنیادی نظریہ اور دستور کے تقاضوں سے انحراف کر رہے ہیں جس کا تمام محب وطن حلقوں کو نوٹس لینا چاہیے۔

اجلاس میں کشمیر، افغانستان، فلسطین، چیچنیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں عالمی استعمار کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد کے ذریعہ ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا گیا۔

عراق پر امریکی حملہ اور جامعہ ازہر کا فتویٰ

مصر اور عالم عرب میں الازہر یونیورسٹی کے فتویٰ نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے فتویٰ کمیٹی کے سربراہ شیخ علی ابو الحسن کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مصر کے علاوہ دیگر عرب ملکوں کے علما اور دانش وروں میں بھی ایک ہل چل مچی ہوئی ہے۔ عالمی صہیونیت کے علم بردار شیخ پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوجیوں کے قتل کا فتویٰ دیا ہے جس سے ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے جو اس وقت مشرق وسطیٰ میں عراق پر حملے کے لیے جمع ہے۔

شیخ کا کہنا ہے کہ صہیونی ان کے فتوے کو غلط رنگ میں پیش کر رہے ہیں چنانچہ لندن اور جدہ سے شائع ہونے والے ویکلی ’’المجلہ‘‘ کے نمائندے عوض الغنام اور احمد الخطیب نے مفتی الازہر اور فتویٰ کمیٹی کے سربراہ شیخ علی ابو الحسن کا انٹرویو لیا اور ان سے اصل حقیقت دریافت کی جس کی تفصیل یہ ہے:

سب سے پہلے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کا اصل فتویٰ کیا تھا؟ شیخ علی نے بتایا کہ عالمی صہیونیت مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ میرے فتوے کو بھی توڑ مروڑ کر غلط معنی پہنائے گئے ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ اگر عراق پر حملہ کسی جارحیت کے جواب میں ہوا یا کسی حق دار کو اس کا حق دلانے کے لیے ہوا تو یہ انصاف کی بات ہوگی اور شرعاً یہ جائز ہوگا۔ اگر امریکہ عراق پر حملہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ملک ہے اور وہ اس پر قبضہ کر کے دولت لوٹنا چاہتا ہے تو پھر امریکی فوجیوں کا خون مباح ہے اور ان سے لڑنا اور قتل کرنا جہاد ہوگا۔ یہاں امریکی ہونے کی وجہ سے کسی کے قتل کا فتویٰ نہیں ہے بلکہ ایک کمزور مسلمان قوم کے خلاف جارحیت کرنے والوں کے خون کو مباح قرار دیا گیا ہے۔

’’آپ ہی نے ۱۹۹۰ء میں فتویٰ دیا تھا کہ ’’ڈیزرٹ سٹارم‘‘ میں امریکی فوج کا ساتھ دینا جائز ہے مگر اب آپ اس کے خلاف فتویٰ دے رہے ہیں تو یہ تناقض نہیں ہے؟‘‘ اس سوال پر شیخ علی ابو الحسن نے کہا کہ اس وقت عراق نے اپنے برادر ملک کویت کے خلاف جارحیت کی تھی۔ امریکہ عراق کو اس سرکشی کی سزا دے کر کویت کے مسلمانوں کو ان کا حق دلا رہا تھا اور یہ ازروئے قرآن جائز ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں مفتی الازہر نے کہا کہ عراق کو غیر مسلح کرنا تو ایک بہانہ ہے۔ دراصل بش نے عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ شروع کر رکھی ہے جو افغانستان سے ہوتے ہوئے اب عراق تک آن پہنچی ہے اور اگر عالمی صہیونیت کے مفاد میں لڑی جانے والی یہ صلیبی جنگ یہاں نہ رکی تو کل یمن کی باری، پھر کسی اور مسلمان ملک کی۔

اس سوال کے جواب میں کہ بش نے معذرت کے ساتھ کروسیڈ کے الفاظ واپس لے لیے تھے، شیخ نے کہا کہ جارج بش ایک طاقت ور ملک کے سربراہ ہیں، جلدی میں سچ ان کی زبان پر آ گیا۔ قرآن کہتا ہے: ’’نفرت اور بغض ان کی زبانوں پر آ گیا ہے، مگر جو کچھ ابھی ان کے سینوں میں بھرا ہے، وہ اس سے بھی بڑا ہے۔‘‘ امریکی اور اسرائیل کے صہیونی تو اسلام کو سب سے بڑا خطرہ کہتے ہیں۔

اس سوال پر کہ امریکی فوج کے ساتھ کوئی سپاہی اپنے ملک کے حکم پرعراق کے خلاف لڑتا ہے تو جائز ہوگا؟ شیخ نے کہا کہ ہمارا وطن دین اسلام ہے۔ ہم اپنی اسلامی سرزمین کا دفاع تو ضرور کریں گے مگر مسلمان کا وطن تو سارا جہاں ہے، وہ تو صرف حق اور سچ کا ساتھ دیتا ہے۔

شیخ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اس فتوے پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے، آپ کے ملک کی سیاسی قیادت آپ سے ناراض نہیں ہوئی؟ تو انہوں نے کہا کہ مصر کی سیاسی قیادت حقائق سے آگاہ ہے۔ پھر شیخ الازہربھی تو فرما چکے ہیں کہ عراق کے خلاف مدد ناجائز ہے۔ سب کو علم ہے کہ عالم اسلام اپنی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اسرائیل کے پاس بھی تو بڑی تباہی کا اسلحہ ہول ناک مقدار میں موجود ہے مگر بش کو صرف مسلمانوں کا اسلحہ نظر آتا ہے۔

امریکہ بھی تو ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے نتیجے میں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس سوال کے جواب میں الازہر یونیورسٹی کی فتویٰ کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ جارج بش نے بغیر تحقیق کے ہی اسامہ بن لادن کو ملزم ٹھہرایا۔ پھر اس ایک فرد کو سزا دینے کے لیے لاکھوں افغانیوں کو موت کی نیند سلا دیا اور اب باقی اسلامی ملکوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ انصاف نہیں، ظلم ہے۔ ایک فرد کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا کو سزا دیان صرف یہودیوں کی خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔

پوچھا گیا کہ آپ نے تو یہودیوں کا خون بھی مباح قرار دیا ہے تو شیخ علی نے جواب دیا کہ یہودی اہل کتاب ہیں، جن کا تحفظ اور ان سے نیکی کے لیے تعاون ہمارا ایمان ہے۔ بات دراصل عالمی صہیونیت کی ہے۔ صہیونیوں نے اسلام کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے بدنام کر کے مسلمانوں کے خلاف دنیا میں زہر پھیلا رکھا ہے۔ ہمارا فتویٰ صہیونیوں کی اس عداوت، نفرت اور انتقام کے خلاف ہے۔ ہم نے صرف ان کے خون کو مباح قرار دیا ہے۔ انہوں نے ہی دنیا کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔ 

( رپورٹ: ڈاکٹر ظہور احمد اظہر۔ بہ شکریہ روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور)

فاضل عربی کا نصاب اور ’پاکستان عربی سوسائٹی‘ کی تجاویز

عربی زبان کے ممتاز ادیب اور پاکستان عربی سوسائٹی کے صدر مولانا محمد بشیر نے انٹر بورڈز کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فاضل عربی کے ڈیڑھ سو سالہ پرانے نصاب تعلیم کو تبدیل کر کے اسے نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق اس طرح ترتیب دے کہ اسے پڑھنے والے طلبہ اور طالبات عربی زبان اور شرعی علوم کے بنیادی اور ضروری فنون سے واقعتاً آگاہ ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ فاضل عربی کا نصاب متحدہ ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں اس پس منظر میں مرتب کیا گیا تھا کہ اس کا مطالعہ اور تیاری ایسے طلبہ کرتے تھے جو اس وقت کے دینی مدارس میں پانچ یا چھ سال تک علوم اسلامیہ اور عربی زبان کے جملہ فنون کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر چکے ہوتے تھے اس لیے اس وقت کے نوجوان علما مدارس سے فراغت کے بعد نئی تیاری کر کے یہ امتحان دیا کرتے تھے جبکہ فاضل عربی کی سند علما کی سب سے بڑی ڈگری شمار ہوتی تھی اس لیے ماضی میں ہمارے کئی اکابر علما کے پاس اپنی دینی درس گاہ کی سند کے علاوہ حکومت سے منظور شدہ صرف یہی سند ہوتی تھی جس کی بنیاد پر وہ اونچے اونچے مناصب پر تعینات ہوتے چلے آ رہے تھے۔ بعد میں مختلف اسباب کی بنا پر اس نصاب کے حاملین کا معیار بتدریج گرتا رہا اور اب اسے پڑھنے اور اس کا امتحان پاس کرنے والے کا معیار گرتے گرتے زیرو تک پہنچ چکا ہے۔ اب یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ صرف ایسے خلاصوں اور گائیڈوں کو دیکھ کر ہی امتحان کی تیاری کرتے ہیں جو نہایت فرسودہ اور طرح طرح کی اغلاط سے پر ہوتے ہیں اور اصل کتابوں کو کوئی پڑھتا ہے نہ دیکھتا ہے۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہمارے دینی تصورات اور دینی علوم سے محبت کے یکسر منافی ہے۔

ان حالات میں پاکستان عربی سوسائٹی نے فاضل عربی کے نصاب تعلیم اور امتحان کی اصلاح وترقی کے لیے ماہرین تعلیم، علماء کرام اور عربی معلمین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو نیا نصاب مرتب کرکے اسے متعلقہ بورڈ سے منظور کرائے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ انٹر بورڈز کمیٹی اس بارے میں اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے اس اہم کورس کی جلد اصلاح کرے گی۔انہوں نے اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے علما اور اساتذہ سے درخواست کی ہے کہ وہ اس بارے میں کمیٹی کی راہ نمائی کریں اور اپنی تجاویز اور آرا کو مرتب کر کے کمیٹی کو ارسال کریں۔ عربی سوسائٹی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کورس کی تمام نصابی اور معاون کتابوں کو ایک سال کے اندر پوری صحت کے ساتھ اور نہایت خوب صورت طباعت میں شائع کرنے کا اہتمام کریں گے۔

اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے پاکستانی عربی سوسائٹی، 96 آئی اینڈ ٹی سنٹر، جی نائن ون اسلام آباد سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ فون : 2253733

اخبار و آثار

(مارچ ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter