ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے موجودہ شمارے میں دینی مدارس کے معاشرتی کردار کے حوالے سے کی جانے والی ایک بحث کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ بات جناب عطاء الحق قاسمی کے کالم میں منقول مولانا زاہد الراشدی کے بیان سے شروع ہوتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانان عالم کے پیچھے رہ جانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ جوابی بحث کرنے والوں نے اس موضوع کو صرف برصغیر تک محدود کر دیا اور سرسید احمد خان کو خواہ مخواہ بیچ میں لاکھڑا کیا کہ انہوں نے ’’مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرنے کی ٹھانی اور (علما کی جانب سے) بدترین ظلم کا نشانہ بنے۔‘‘ گویا کہ اگر یہ ’’ظلم‘‘ نہ ہوتا تو دنیا کے مسلمان اپنا جائز مقام ضروری طور پر حاصل کر لیتے اور مصائب وآلام کے اس دور سے نہ گزرتے جس سے دوچار ہیں۔
’’مظلوم سرسید‘‘ کے بارے میں یہ مسلک رکھنے والوں کا ارشاد سر آنکھوں پر کہ یہ ان کا قصور نہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ میں سرسید کے متعلق یہی کچھ بتایا جاتا ہے اور اس بات کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ ان کی مبینہ تعلیمی جدوجہد کے پیچھے کیا جذبہ کارفرما تھا اور یہ کہ ان کی نظر میں جدید علوم کی تخصیص کیا تھی۔ کیا انہوں نے اپنے قائم کردہ مدرسۃ العلوم کے نصاب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے مضامین شامل کیے؟ تحقیق کیجیے تو معلوم ہو کہ سرسید آخر دم تک ٹیکنیکل تعلیم تک کے مخالف رہے۔ ان کے مدرسے کا آغاز ۱۸۷۵ء میں ہوا اور اس کے بائیس برس بعد بھی یعنی اپنے انتقال سے چند ماہ پیشتر تک وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ ’’بڑی ضرورت ہندوستان میں اعلیٰ درجے کی دماغی تعلیم کی اور اخلاقی اور سوشل حالت کی درستی کی ہے۔‘‘ (۱) ان کے مبینہ جدید علوم وفنون کا حدود اربعہ یہی کچھ تھا کیونکہ کالج کے قیام میں جو مقاصد کارفرما تھے، وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم سے قطعاً پورا نہ ہو سکتے تھے بلکہ ’’اعلیٰ درجے کی دماغی تعلیم‘‘ ہی کے ذریعے ممکن تھے۔ وہ مقاصد کیا تھے؟ اس کا پتہ ہمیں نصابی دانش وروں یا ذرائع ابلاغ کے تصوراتی تخلیق کاروں کے بجائے سرسید اور ان کے رفقا کے اصل بیانات اور تحریروں میں ملے گا جن کا ذکر ہمارے تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ میں ممنوع ہے۔
کالج کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وائسرائے کو جو سپاس نامہ پیش کیا گیا، اس میں ’’بانیان کالج کی نگاہ میں نمایاں مقاصد‘‘ کے ضمن میں بتایا گیا ہے کہ اس کا ایک اہم مقصد ’’ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کی لائق وکارآمد رعایا بنانا ہے۔‘‘ (۲)
کالج کے ٹرسٹیوں نے ایک موقع پر یہ اعلان کیا کہ ’’من جملہ کالج کے مقاصد اہم کے یہ مقصد نہایت اہم ہے کہ یہاں کے طلبہ کے دلوں میں حکومت برطانیہ کی برکات کا سچا اعتراف اور انگلش کیرکٹر کا نقش پیدا ہو۔‘‘ (۳)
سرسید نے اپنے ایک خطاب میں بیان کیا کہ ’’اس کالج کا بڑا مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد ہو۔‘‘ (۴)
ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’میرا سب سے بڑا مقصد کالج کے قائم کرنے سے یہ ہے، مسلمانوں میں اور انگریزوں میں دوستانہ راہ ورسم پیدا ہو اور آپس کا تعصب اور نفرت دور ہو۔‘‘ (۵)
یہ مقصد وقتی نہیں تھا۔ سرسید عمر بھر اسی دھن میں مگن رہے۔ ان کے عظیم رفیق کار اور سوانح نگار الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:
’’ان کے مقصد محمدن کالج قائم کرنے سے صرف یہی نہ تھا کہ مسلمانوں کی اولاد اس میں تعلیم پائے بلکہ سب سے بڑا مقصد، جو ۵۷ء سے لے کر آخر دم تک ان کے پیش نظر رہا، یہ تھا کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں یک جہتی، میل جول اور اتحاد کو ترقی ہو۔‘‘ (۶)
پھر اس مقصد کو محض الفاظ تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی رہی۔ طلبہ کے لیے بورڈنگ ہاؤس میں رہائش اسی وجہ سے ضروری قرار دی گئی تھی اور یہ جگہ ان کے لیے تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ مولانا حالی بیان کرتے ہیں:
’’شریفانہ اور باقاعدہ اطاعت وفرمانبرداری، جو ہر قوم کا اور خاص کر محکوم قوم کا زیور ہے، اس کی عادت ڈلوانے اور مشق کرانے کے جو ذریعے اس بورڈنگ ہاؤس میں موجود ہیں، ظاہراً ہندوستان کے کسی انسٹی ٹیوشن میں موجود نہیں ہیں۔‘‘ (۷)
سرسید کے دست راست نواب محسن الملک اس کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
’’ایک بورڈر جب مدرسۃ العلوم کی چار دیواری میں قدم رکھتا ہے، اپنے تئیں نئی آب وہوا اور ایک نئی زندگی میں پاتا ہے اور اپنے گرد وپیش کی تمام چیزوں میں زندہ دلی اور شگفتگی اور حرکت اور جوش دیکھتا ہے۔ اس کے کانوں میں ہر طرف سے محبت، ہمدردی اور گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی کی آوازیں آتی ہیں۔‘‘ (۸)
سرسید نے جو بیج بویا، اس کی توصیف بیان کرتے ہوئے مولانا حالی لکھتے ہیں:
’’وہ اپنی قوم میں وفاداری، اخلاص اور اطاعت کے ہمیشہ کے لیے بیج بو گیا ہے۔ وہ ان کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا بار آور درخت لگا گیا ہے جس کا پھل انگلش نیشن کی محنت اور انگلش گورنمنٹ کی وفاداری وفرمانبرداری ہے۔‘‘ (۹)
اسی مفہوم کو نواب محسن الملک نے ان الفاظ میں بیان کیا:
’’اس کا بیج تو بویا سرسید نے، اب جبکہ یہ پھلے پھولے گا اور اس میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تہذیب، شائستگی، علمی قابلیت اور گورنمنٹ کی وفادار رعایا ہونے کی حیثیت سے آپ اپنی مثال ہوں گے تو اس وقت گورنمنٹ انگریزی کی برکتوں اور آزادی کی بشارت دیتے پھریں گے۔‘‘ (۱۰)
درج بالا حقائق کو جان کر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ سرسید کی تعلیمی جدوجہد کے پیچھے ان کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا تو اسے حسن ظن ہی کہا جا سکتا ہے۔ چلیے، ایک لمحے کے لیے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ برصغیر کے علما نے سرسید پر واقعی ’’ظلم‘‘ کیا اور ان کی تعلیمی کاوشوں کو ملیا میٹ کرنا چاہا تو کیا وہ اس میں کام یاب ہوئے؟ قطعاً نہیں۔ ان کے جاری کردہ سکول نے پہلے کالج کی سطح تک ترقی کی اور پھر ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی صورت اختیار کر گیا۔ ہزاروں مسلمان طلبہ اس سے فیض یاب ہوئے۔ انہوں نے کسی مولوی کے کہنے پر وہاں دی جانے والی تعلیم سے منہ نہیں موڑا۔ اس کے باوجود برصغیر کے مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے۔ کیا دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کے سرسید بھی اپنے اپنے ہاں کے مولویوں کے ’’بدترین ظلم‘‘ کا نشانہ بنے جو وہ ملک بھی ترقی کی منازل طے نہ کر سکا؟ ترکی کے بارے میں کیا رائے ہے کہ وہاں سرسید سے ہزار گنا ترقی پسند مصطفی کمال اور عصمت انونو جیسے افراد حکمران ہوئے جنہوں نے مولویوں کی پیداوار کا قلع قمع کر کے اپنے ملک کو الف سے یا تک یورپین بنا دیا۔ وہاں کے مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کس قدر ترقی کی اور اپنی قوم کو کون سا جائز مقام دلا دیا جو ہم آج تک نہیں حاصل کر پائے؟
حوالہ جات
(۱) سرسید کے آخری مضامین، مطبوعہ لاہور، ۱۸۹۸ء، ص ۱۴۱
(۲) بحوالہ دی لائف اینڈ ورک آف سرسید، مولفہ گراہم، مطبوعہ لندن، ۱۹۰۹ء، ص ۱۷۹
(۳) بحوالہ تذکرہ وقار، محمد امین زبیری، مطبوعہ آگرہ، ۱۹۳۸ء، ص ۲۱۲
(۴) روئیداد محمدن ایجوکیشنل کانفرنس اجلاس نہم، مطبوعہ آگرہ، ۱۸۹۵ء، ص ۱۷۰
(۵) مکمل مجموعہ لکچرز واسپیچز سرسید، مطبوعہ لاہور، ۱۹۰۰ء، ص ۴۳۰
(۶) حیات جاوید، الطاف حسین حالی، مطبوعہ کانپور، ۱۹۰۱ء، حصہ اول، ص ۲۹۲
(۷) ایضاً، حصہ دوم، ص ۹۲
(۸) مجموعہ لکچرز واسپیچز محسن الملک، مطبوعہ لاہور ۱۹۰۴ء، ص ۴۰۶
(۹) مقالات حالی، حصہ دوم، مطبوعہ دہلی، ۱۹۳۶ء، ص ۴۸
(۱۰) مجموعہ لکچرز واسپیچز محسن الملک، محولہ بالا، ص ۴۸۶