امریکہ ۔ ہمارا دوست یا دشمن؟

ڈاکٹر محمد فاروق خان

(جذباتیت اور سطح بینی کی جس کیفیت نے اس وقت امت مسلمہ کی پوری ذہانت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس کے مظاہر میں سے ایک بہت نمایاں مظہر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مخالف رائے، بالخصوص فریق مخالف کے موقف کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنے اور معروضی انداز میں اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے ۔ یہ طرز فکر ہمارے بیشتر مسائل کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اصلاح اس وقت امت مسلمہ کی سب سے بڑی فکری ضرورت بن چکی ہے۔ ذیل میں دانش سرا پاکستان کے صدر ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی ایک تحریر شائع کی جا رہی ہے جس میں انہوں نے عالم اسلام کے حوالے سے امریکہ کے کردار کا معروضی انداز میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے تجزیے سے یقیناًاختلاف کیا جا سکتا ہے اور ہم اس اہم موضوع پر اہل دانش کی سنجیدہ تحریروں کو خوش آمدید کہیں گے۔ مدیر)


عالم اسلام کے اندر اس وقت اس سوال پر بڑی بحث ہو رہی ہے کہ آیا امریکہ پورے عالم اسلام اور بذات خود مذہب اسلام کو دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے یا وہ درحقیقت عالم اسلام کا دوست ہے ۔یا پھر یہ کہ وہ عالم اسلام کا نہ دوست ہے نہ دشمن ، بلکہ وہ عالم اسلام کے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ محض تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے ۔

جو مکتب فکر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ پورے عالم اسلام اور بذات خود مذہب اسلام کا دشمن ہے ،ا س کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ دراصل اسی استعماری اور سامراجی قو ت کا تسلسل ہے جس نے مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگیں چھیڑیں اور جو بعد میں یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی شکل میں ایشیا اور پھر افریقہ پر قابض ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ پچھلے پچاس برس سے اسرائیل کی مسلسل اور غیر متزلزل حمایت کر رہا ہے ۔امریکہ نے ۱۹۹۰ء میں خلیجی جنگ کے بعد تمام خلیجی ملکوں اور سعودی عر ب میں اپنے فوجی اڈے قائم کرلیے ۔ ’’القاعدہ‘‘ کے بہانے سے اس نے طالبان کی حکومت ختم کر دی اور اب عراق کے درپے ہے۔ اس کے بعد اغلباً ایران اور پھر پاکستان کی باری ہے ۔

دوستی کی بات کرنے والا مکتب فکر درج بالا دلائل کو غلط سمجھتا ہے ۔ اس کے خیال میں صلیبی جنگوں سے پہلے او ر صلیبی جنگوں کے بعد ایک لمبے عرصے تک مسلم ملکوں اور یورپی طاقتوں میں دوستی بھی رہی ہے ۔اس دوران میں خود عیسائی یورپی ملکوں میں بھی آپس میں بڑی خون ریز لڑائیاں ہوئی ہیں ۔اس کے بعد افریقہ اور ایشیا پر یورپی قبضہ دراصل ٹیکنالوجی کی قوت کا مظہر تھا ۔اس میں بھی عیسائی یورپی طاقتیں آپس میں کبھی متحد نہیں رہیں ،بلکہ انگریزوں، فرانسیسیوں، پرتگیزیوں اور ولندیزیوں کے درمیان اس دوران میں بڑی جنگیں ہوئی ہیں ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی اصلاً یورپی عیسائی طاقتوں کی آپس کی لڑائی تھی جس میں دونوں طرف سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔آج امریکہ عالم اسلام کے غریب ممالک کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے ،خصوصاً پاکستان کی ترقی کی ایک ایک اینٹ امریکی امداد کی مرہون منت ہے ۔امر یکہ نے مسلمان ممالک کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، سوائے ان مواقع کے کہ جب کسی نے خود آگے بڑھ کر امریکی مفادات یا امریکہ پر براہ راست حملہ کر دیا ہو ۔دو یورپی مسلمان ملکوں یعنی بوسنیا اور کوسووو کی آزادی دراصل امریکہ ہی کی مرہون منت ہے ۔

ورکنگ ریلیشن شپ یا تعلقاتِ کار والے مکتب فکر کے خیال میں بین الاقوامی تعلقات میں نہ مستقل دوستی چلتی ہے ،نہ مستقل دشمنی ، بلکہ ہر ملک اپنے وقتی مفادات کی خاطر دوسروں سے تعلقات کار رکھتا ہے ۔امریکہ کی اصل دلچسپی اس خواہش سے ہے کہ اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت برقرار رہے اور اس کے مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔اس کی پچھلی تمام تاریخ اس امر کی گواہ رہی ہے کہ اس نے دوسرے ملکوں سے تعلقات ہمیشہ اسی وجہ سے اور یا پھر اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے رکھے ہیں اور اس میں ا س نے مذہب ،رنگ اور نسل کا خیال کم ہی رکھا ہے۔ پچھلے پچاس برس میں اس کا سب سے بڑا دشمن کمیونزم رہا ہے جس کا علم بردار سفید فام عیسائی روس اور مشرقی یورپ تھا۔ تیس چالیس برس پہلے عراق، شام ،لیبیا ،ایران اور کئی دوسرے ممالک میں امریکہ مخالف انقلاب آئے ، مگر امریکہ نے ان پر حملہ نہیں کیا ، اس لیے کہ یہ حملے اس کو بہت مہنگے پڑتے ۔ کئی بدھسٹ ممالک مثلاً جاپان ،جنوبی کوریا ،تائیوان اور تھائی لینڈ سے اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں اس نے سفید فام نسلی امتیاز پر مبنی حکومتوں کو ختم کرنے اور افریقی اکثریت کی حکومت کو قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ایسے جھگڑے جن میں ایک فریق عیسائیوں پر مشتمل تھا ، مثلاً اریٹریا اور صومالیہ کی آویزش ،جنوبی سوڈان کی لڑائی اور بیافرا کے مسئلے پر اس نے عیسائیوں کا ساتھ نہیں دیا ۔افریقہ کے غریب ترین عیسائی ممالک کی امداد میں امریکہ نے کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی ۔اس کے برعکس اس نے کئی مسلمان ممالک مثلاً انڈونیشیا ،بنگلہ دیش ،سعودی عرب ،کویت ،ترکی اور مراکش وغیرہ سے قریبی تعلق رکھا ہے ۔

درج بالا تینوں نقطہ ہاے نظر کے دلائل میں وزن موجود ہے۔مناسب ہے کہ ان میں سے بعض امور پر خصوصی توجہ دی جائے خصوصاً ان مسائل پر جن کا تعلق موجودہ حالات سے ہے ،تفصیل سے روشنی ڈالی جائے ۔

مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخی کشمکش

امریکی اقدامات کے تجزیے میں یہ نکتہ بھی باربار آتا ہے کہ یہ دراصل عالم اسلام اور عیسائی دنیا کے درمیان تاریخی کشمکش کی ایک کڑی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ پر ہماری نظر رہے۔

مسلمانوں نے اپنے ابتدائی چھ سو برس میں جتنا علاقہ فتح کیا ،سوائے اندلس ،بھارت اورفلسطین کے ،کم و بیش باقی تمام علاقہ اب بھی عالم اسلام میں شامل ہے ۔اندلس کی حکومت کے خاتمے کی اصل وجہ آپس کی خانہ جنگی تھی۔ اس کے برعکس برصغیر پر جن مسلمان حکمرانوں نے قبضہ کیا ، انھیں یہاں اسلام کی دعوت پھیلانے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔البتہ ارض فلسطین خصوصاً یروشلم ہمیشہ سے کشمکش کا مرکز رہا ہے ۔یروشلم پر مسلمانوں نے ۶۴۰ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد ۱۰۹۶ء یعنی اگلے ساڑھے چار سو بر س سے بھی زیادہ عرصہ اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ۔اس کے بعد ایک سوبرس تک اس علاقے پر عیسائی طاقتوں کا قبضہ رہا۔ ۱۰۹۶ء سے لے کر ۱۲۷۱ء تک یعنی کم و بیش دوسو برس میں مسلم طاقتوں اور عیسائی طاقتوں کے درمیان آٹھ بڑی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں پہلے عیسائی طاقتوں اور بعد میں مسلم طاقتوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اگلے سات سو برس مزید اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ۔حتیٰ کہ جب عثمانی سلطنت نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا تو برطانیہ نے جرمنی کے ساتھ ساتھ عثمانی مملکت کو بھی شکست دیتے ہوئے اس کے زیر قبضہ تمام عرب علاقوں بشمول فلسطین و یروشلم پر قبضہ کر لیا ۔اگلے تیس برس تک یہاں انگریزوں کا قبضہ رہا ۔ان کے جانے پر فلسطین کا آدھا حصہ اسرائیل اور آدھا حصہ اردن کے قبضے میں آگیا ۔بیت المقدس اردن کے قبضے میں رہا حتیٰ کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا پچھلے پینتیس برس سے یروشلم اسرائیل کے قبضے میں ہے۔

گویا ارض فلسطین کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پچھلی ایک صدی سے ہلال و صلیب اور ہلال و ڈیو ڈسٹار کی کشمکش جاری ہے ۔تاہم باقی عالم اسلام پر یہ بات صادق نہیں آتی۔اس بحث کے بعد یہ ضروری ہے کہ ان حالیہ اہم ترین مسائل کا تجزیہ کیا جائے جہاں امریکہ کے مقابل مسلمان قوتیں صف آرا ہیں ۔

ا۔ طالبان اور القاعدہ

اس ضمن میں امریکہ مخا لف نقطۂ نظر کے دلائل درج ذیل ہیں:

  • ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ القاعدہ کا کام نہیں ہے ۔اس حملے کی منصوبہ بندی ،فنی مہارت اور اس پر عمل درآمد کے لیے جو ٹیکنالوجی چاہیے وہ القاعدہ کے بس کی بات نہیں ہے ۔اس لیے امریکہ کا یہ الزام بے بنیاد ہے 
  • اس حملے سے سب سے زیادہ فائدہ یہودیوں کو پہنچا ہے ۔نیز ۱۱ ستمبر کے دن ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والے چار ہزار یہودی غیر حاضر تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حملہ یہودیوں نے کیا ہے اور یہودیوں کو اس کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا ۔
  • ملاعمر نے یہ پیش کش کی تھی کہ بن لادن پر افغانستان میں مقدمہ چلایا جائے ، مگر اسے یک سر نظر انداز کر دیا گیا۔
  • افغانستان پر امریکی بم باری کے نتیجے میں تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ بڑا ظلم اور سفاکی تھی ۔
  • امریکہ کی نظر وسط ایشیا کے تیل پر ہے جس کے لیے اس نے افغانستا ن کو فتح کیا ۔باقی تو محض بہانے ہیں۔
ان دلائل کے جواب میں امریکیوں کا نقطۂ نظریہ ہے:
  • پوری دنیا میں القاعدہ ہی واحد ایسی آرگنائزیشن ہے جس نے امریکہ کے خلاف باقاعدہ تحریری طورپر پہلے ۱۹۹۶ء میں اور پھر ۲۳ فروری ۱۹۹۸ کو اعلان جنگ کیا تھا ۔کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کے مجرم گرفتار ہو کر اعتراف جرم بھی کرچکے ہیں اور ان کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ ان سب نے القاعدہ سے تعلق کا اعتراف کیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے تمام ۱۹ ہائی جیکروں کی شناخت ہو چکی ہے۔وہ سب عرب تھے اور القاعدہ کے کارکن تھے ۔اس کام کی تربیت انھوں نے امریکہ ہی میں امریکہ کی اندرونی آزادیوں کی بدولت حاصل کی تھی ۔بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے ذمہ داروں نے کئی وڈیو اور آڈیوٹیپس میں اس حملے کا اعتراف کیا ہے ۔اس کے بعد بھی دنیا میں کئی حملے ہوئے ہیں مثلاً بالی انڈونیشیا والا دھماکا ۔ان سب میں القاعدہ ہی کے کار کنوں کو پکڑ ا گیا ہے ۔ہم یہ چاہتے تھے کہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں پر امریکہ یا اقوام متحدہ کے کسی ادارے کے تحت مقدمہ چلایا جائے ۔
  • یہودیوں کے ملوث ہونے والی بات محض افسانہ تھا جس کا کوئی ثبوت ہی نہیں ۔ممکن ہے کہ اس دن کچھ یہودی غیر حاضر ہوں ، مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے ایک اہم مذہبی تہوار یوم کپور کا دن تھا ، اس حملے میں اسرائیل کے ۴۹ شہری بھی ہلاک ہوئے تھے جو سب کے سب یہودی تھے ۔ یہودیوں کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا ۔ویسے بھی احمقانہ ایکشن کا فائدہ مخالف کو پہنچتا ہے ۔اس لیے یہ کوئی دلیل نہیں بنتی ۔امریکہ پہلے بھی اسرائیل کا حامی تھا اور اب بھی ہے ۔
  • طالبان انتظامیہ کے تحت بن لادن پر مقدمہ چلانا محض ایک مذاق ہوتا، اس لیے کہ کئی برس سے بن لادن ان کا فنانسر اور طالبان اس کے پشتی بان تھے ۔
  • ہمارے اندازے کے مطابق امریکی بم باری سے پانچ ہزار کے لگ بھگ عام افراد ہلاک ہوئے ۔اگرچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا تاہم اس طرح کا نقصان کسی بھی جنگ کا ناگزیر حصہ ہو تا ہے ۔
  • اگر وسط ایشیا کی تیل کی پائپ لائنوں پر قبضہ ہمارا بنیادی مقصد ہو تا تو ہم ۱۹۸۸ ء میں افغانستان میں اپنی دلچسپی کیوں ختم کرتے ؟ دوبارہ افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی جیسا ڈرامہ کرنے کی کیاضرورت تھی؟یہ سب کچھ تو اس کے بغیر بھی ہم کر سکتے تھے ۔

تبصرہ

کئی سوال ایسے ہیں جن کا جواب کسی بھی فریق کے پاس نہیں ہے ۔یہ بات معلوم ہے کہ بن لادن کو اصل غصہ سعودی سرزمین میں امریکی افواج کی موجودگی پر تھا ۔امریکیوں کے لیے یہاں سے اپنی افواج نکال کر کہیں اور تعینات کرنے میں کیا مشکل تھی اور انھوں نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟اسی طرح امریکہ کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ اس نے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ختم کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟دوسری طرف طالبان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کے باوجود انھوں نے مسلسل بن لادن کو کیوں پناہ دی ۔اور پھر یہ کہ انھوں نے اپنے ملک اور حکومت کو امریکہ سے بچانے کی خاطر بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر نے سے انکار کیوں کیا ۔امریکہ مجبور ہوتا کہ بن لادن پر بہترین منصفانہ طریقے سے مقدمہ چلائے ۔بن لادن اسی مقدمے کو اپنے موقف کے لیے بڑی خوب صورتی سے استعمال کر سکتا تھا ۔اور اگر اسے اس مقدمے میں بڑی سے بڑی سزا بھی ہو جاتی تو کم از کم امریکہ کو افغانستان پر حملے کا بہانہ تو نہ ملتا ۔

اس معاملے میں پاکستان کے کردار پر تبصرہ بھی ناگزیر ہے ۔یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ تک پاکستان پوری طرح طالبا ن کا حامی تھا ۔اس کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے ،مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس وقت کی فوجی حکومت نے امریکہ کو لاجسٹک مدد کیوں فراہم کی اور کئی ہوائی اڈے کیوں ان کے حوالے کیے؟ وہ اس معاملے میں بآسانی معذرت کر سکتا تھا ۔اگرچہ اس سے امریکہ کا طالبان انتظامیہ پر حملہ زیادہ سے زیادہ کچھ مشکلات کاشکار ہو جاتا ، مگر پاکستان ایک غلط اقدام سے تو بچ جاتا ۔

ب۔ مسئلۂ فلسطین

اگر یہ کہا جائے کہ عالم اسلا م میں امریکہ کی منفی تصویر کا اصل سبب یہی مسئلہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ اس مسئلے میں امریکی مخالف نقطۂ نظر کے دلائل حسب ذیل ہیں: 

  • اسرائیلی ریاست کی تخلیق برطانیہ کا ایک بڑا ظلم تھا اور اس ریاست کی مسلسل تعمیر اور حمایت امریکہ کی ایک بڑی بے انصافی ہے ۔مشرق وسطیٰ کی اب تک تمام خوں ریزی کی اصلاً ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہو تی ہے ۔
  • امریکہ نے ہر معاملے میں اسرئیل کی اندھا دھند حمایت کی ہے ۔اسرائیل کے صر یحاً ناجائز اقدامات پر بھی امریکہ نے کچھ نہیں کیا ۔کئی دفعہ ایسا بھی ہو ا ہے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورموں پر امریکہ اور اسرائیل ایک طرف تھے اور باقی سار ی دنیا دوسری طرف ۔
  • اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔اس کے باوجود امریکہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کبھی اسرائیل پر حقیقی دباؤ نہیں ڈالا۔ اگر امریکہ چاہے تو مختصر عرصے میں مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔
دوسری طرف امریکیوں کے دلائل درج ذیل ہیں:
  • اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کی غلطیوں اور خود عربوں کی عملی مدد کا بھی بڑا کردار ہے ۔اگر سلطنت عثمانیہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ نہ دیتی تو برطانیہ اس پر کبھی حملہ نہ کرتا اور اگر سرزمین عرب کا ہاشمی خاندان انگریزوں کی مدد نہ کرتا تو وہ کبھی فلسطین پر قابض نہیں ہو سکتے تھے ۔اور اگر مصر و مراکش اپنے ہاں کے یہودیوں کو اسرائیل جانے کی اجازت نہ دیتے تو اسرائیل کی آبادی نہیں بڑھ سکتی تھی۔
  • اسرائیل کی مسلسل عملی حمایت امریکہ کے علاوہ روس،چین ،بھارت اور بہت سے دوسرے ملکوں نے بھی کی ہے۔
  • امریکہ کی یہودی کمیونٹی (تعداد:۵۲ لاکھ )انتہائی منظم ،مال دار اور باصلاحیت ہے ۔اسرائیل کی حمایت میں یہ کمیونٹی مکمل متحد ہے ۔کوئی امریکی حکومت اس کمیونٹی کی مخالفت مول لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔اس لیے یہ ہر امریکی حکومت کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت کرے۔اس کے برعکس امریکی مسلمان اور امریکی عرب بالکل غیر منظم اور بیسیوں متحارب تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ان کے درمیان اتحاد عمل اور فکری ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اس لیے امریکی سیاست پر ان کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
  • خود عالم عرب بھی فلسطین کے معاملے میں بالکل غیر متحد اور تضادات کا شکار ہے ۔۱۹۶۷ء تک آدھا فلسطین اردن اور آدھا مصر کے قبضے میں تھا۔ مگر ان دونوں ممالک نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست نہیں بننے دی ۔ اگر یہ دونوں ممالک اپنے ہاں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لے آتے تو ہم فوراً اس کو تسلیم کر لیتے۔
  • عالم عرب نے اقوام متحدہ کی متعدد قرار دادیں تسلیم نہ کرکے بے بصیرتی کا ثبوت دیا ۔اگر ۱۹۴۸ء کی قرار دادمان لی جاتی تو اسرائیل آج کی نسبت ایک تہائی ہو تا اور اسی وقت فلسطینی ریاست بھی بن جاتی۔
  • فلسطینیوں نے ۲۰۰۰ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں صدر کلنٹن کا پیش کردہ حل نہ مان کر بڑی غلطی کی جس کے مطابق مغربی کنارے کا دو تہائی حصہ، آدھا یروشلم بشمول مسجد اقصیٰ اور پورا غزہ فلسطینی ریاست میں شامل ہو جاتا۔ اسرائیل نے اس کو مان لیا تھا ۔
  • مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد جمہوری ریاست ہے ۔یہ آمریت کے سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ ہے، اس لیے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔

تبصرہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔اس کے بجٹ کا دس پندرہ فی صد حصہ امریکی حکومت کی امداد اوردس پندرہ فی صد حصہ امریکی یہودی تنظیموں کی امداد پر مشتمل ہو تا ہے۔ اگر ۱۹۷۳ء میں امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ پہنچتا تو مصر اس کو شکست دے چکا تھا۔ دراصل امریکہ اپنی اندرونی سیاست کی مجبوری کی وجہ سے فلسطین کے معاملے میں دہرے معیا ر سے کام لے رہا ہے ۔فلسطین کے معاملے میں عالم عرب کی غلطیاں اور تضادات اپنی جگہ پر ،مگر ان کو وجہ جواز بنا کر امریکہ اپنی غلطیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔

اسرائیل اپنے عرب شہریوں سے جو سلوک کرتا ہے ،وہ عملاً دوسرے درجے کے شہریوں والا سلوک ہے ۔ یہ واحد ملک ہے جہاں مذہب ،کلچر اور نسل ایک ہے اور اسے ایک ہی رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ یہ ملک ہمیشہ ایک خالص یہودی ملک رہے ۔ایسا ملک دکھاوے کے لیے تو جمہوریت کا ڈراما رچا سکتا ہے ، مگر حقیقت میں کبھی جمہوری ملک نہیں بن سکتا ۔اگر ساری دنیا کے یہودی اسرائیل چلے جائیں (جو کہ ناممکن ہے ، اس لیے کہ خود اس ریاست کی بقا اور اس کو مسلسل مدد دینے کی خاطر آدھے سے زیادہ یہودیوں کا اس ملک سے باہر رہنا ضروری ہے)تب بھی یہ ایک چھوٹا سا ملک ہی رہے گا اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں بالآخر اسے نقصان پہنچا کر رہیں گی ۔

امریکہ جس طرح اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کر رہا ہے ، یہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے ۔امریکہ کو علم ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری اسلحہ موجود ہے اور وہ اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی واقف ہے ۔اس کے باوجود اسرائیل کے ہر نقصان اور اس کے بجٹ کے ہر خسارے کوامریکہ پورا کر تا ہے ۔امریکی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ میں اسرائیلی نواز یہودی لابی کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے ۔تاہم یہ سب کچھ سراسر نا انصافی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کا ردعمل بھی یقیناًجاری رہے گا ۔

فلسطینیوں کی طرف سے ا نتفادہ کی دوسری پر تشدد تحریک اور خود کش حملے ،جو ستمبر ۲۰۰۰ سے جاری ہیں ،یقیناًدرست حکمت عملی کے آئینہ دار نہیں ہیں ۔ صبر کے ساتھ حل کا انتظار خود فلسطینیوں کے مفاد میں ہے،خواہ اس میں جتنی بھی مدت لگے۔ تاہم اس دنیا میں زیادہ تر حکمت و دانش کا اصول نہیں ، بلکہ عمل اور رد عمل کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے جس کی زد ہر ایک پر پڑتی ہے۔

ج۔ مسئلۂ عراق

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بش انتظامیہ نے صدام حسین کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے ۔امریکہ کی انتہائی خواہش ہے کہ وہ جلد از جلد عراق پر حملہ کرکے صدام انتظامیہ کی حکومت ختم کرکے وہاں اپنی پسند کی حکومت بنالے ۔ اس مسئلے پر امریکی نقطۂ نظر در ج ذیل ہے: 

  • عراق کے پاس کیمیائی ، حیاتیاتی اور وسیع تباہی پھیلانے والے دوسرے ہتھیار موجود ہیں جنھیں اس نے اپنے باشندوں کے خلاف بھی استعمال کیا ہے اور ایران کے ساتھ جنگ میں بھی استعمال کیا ہے ۔صدام ایک غیر ذمہ دار آمر ہے ۔ماضی میں اس نے کویت پر بھی قبضہ کر لیا تھا ۔یہ خدشہ ہے کہ وہ مزید ہتھیا رتیا ر کر کے انھیں عالمی امن کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔چنانچہ اس مقصد کے لیے اس پر گرفت کرنی چاہیے اور اس کی حکومت ختم کرنی چاہیے۔

اس مسئلے پر امریکی مخالف نقطۂ نظر درج ذیل ہے:

  • دراصل امریکہ عراقی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ بہانے تراش رہا ہے ۔ورنہ عراق نے کردوں کا قتل عام ۱۹۸۸ء میں کیا تھا۔ اب اس کا بدلہ لینے کا کیا موقع ہے ۔اسی طرح عراق نے کویت پر قبضہ ۱۹۹۰ء میں کیا تھا ۔اگر صدام برائی کی جڑ ہے تو اسے حکمرانی سے اتارنے کا صحیح وقت وہ تھا نہ کہ اب۔
  • امر یکہ کا عراق پر حملہ مسلمانوں کے اندر ایک بڑے رد عمل کو جنم دے گا ۔کون نہیں جانتا کہ اسرائیل کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیا ر تو کیا ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔امریکہ نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا ۔خود امریکہ کے پاس بھی یہ ہتھیا ر موجود ہیں ۔پہلے وہ اپنے ہتھیاروں کو کیوں تلف نہیں کر لیتا؟
  • طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عراق پر امریکی حملے سے پوری دنیا میں یہ تاثر پختہ ہو جائے گا کہ امریکہ کے پاس ہر مسئلے کا علاج جنگ ہے۔ یوں امریکہ کو دنیا ایک عالمی دہشت گرد کے روپ میں دیکھنے لگے گی۔یہ خوف و دہشت کی فضا سارے عالم اور بدر جہ آخر خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔

تبصرہ

یہ بات واضح ہے کہ امریکہ ہر قیمت پر صدام کی حکمرانی کو ختم کر نا چاہتا ہے، مگر اس کے لیے وہ اقوام متحدہ سے اخلاقی جواز ملنے کی خواہش رکھتا ہے ۔ابھی تک صدام نے (طالبان کے برعکس )اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے امریکی حملے سے اپنے آپ کو بچایا ہو ا ہے ۔راقم الحروف کے نزدیک تیل والی تھیوری کمزور ہے اور اس میں کئی جھول ہیں۔ امریکہ کو تیل کی کمی کا مسئلہ نہ آج درپیش ہے ،نہ مستقبل میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ دراصل امریکہ کا خیال ہے کہ دہشت گردی انھی مسلمان ملکوں میں پروان چڑھتی ہے جہاں آمریت ہے ۔چونکہ تمام عرب ملکوں میں آمریت ہے ، اس لیے اس کو ختم کرکے یہاں جمہوریت آنی چاہیے۔جمہوری عمل کی ابتدا اگر عراق سے ہو جائے تو بہت جلد تمام عالم عرب اپنے آپ کو جمہوریت قبول کرنے پر مجبور پائے گا ۔امریکہ کا یہ نقطۂ نظر نہایت کمزور ہے ، بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ ایسے حملے کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عراق ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ، بلکہ عالم عرب کے اندرمزید ردعمل جنم لے گا اور بعید نہیں کہ وہا ں کے آمر مزید مضبوط ہو جائیں ۔

یہ قوی امکان موجود ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی قرار داد کا انتظار کیے بغیر عراق پر کسی بہانے سے حملہ کر دے ۔ اگر اس نے ایسا کیا تو عالم اسلام کے اندر امریکی مخالف جذبات جائز طور پراپنی انتہا کو پہنچ جائیں گے ۔ممکن ہے کہ اس حملے میں بھی امریکہ کو وقتی کامیابی مل جائے ، لیکن بدرجۂ آخر یہ اس کے لیے بہت گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا ۔البتہ اگر اس ضمن میں اقوام متحدہ کی طرف سے عراق کے خلاف متفقہ قرارداد آجاتی ہے تو پھر صورت حال مختلف ہوگی ۔ 

د۔ پاکستان کی امر یکہ سے شکایت 

اہل پاکستان امریکہ سے بڑی شکا یات رکھتے ہیں ۔اس ضمن میں پاکستانی دانش وروں کا نقطۂ نظر در ج ذیل ہے:

  • پاکستان نے بالکل ابتدا ہی سے اپنے آپ کو امریکی کیمپ کا حصہ بنا لیا تھا ۔اس کے باوجود امریکہ نے کبھی پاکستا ن کی حقیقی مدد نہیں کی ۔کشمیر کے مسئلے پر اس نے پاکستا ن کی کوئی مدد نہیں کی ۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں اس نے بھار ت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی فاضل پرزوں پر پابندی لگا کر ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، اس لیے کہ امریکی اسلحہ تو صرف پاکستا ن کے پاس تھا ۔۱۹۷۱ء کی جنگ میں امریکہ نے بنگلہ دیش کی تخلیق رکوانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔اسی طرح جب افغانستان سے روسی افواج چلی گئیں تو امریکہ نے بعد کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں تنہا چھوڑ کر اس خطے میں اپنی دلچسپی ختم کر دی۔

اس کے مقابلے میں امریکی نقطۂ نظر د رج ذیل ہے:

  • پاکستان برضا ورغبت اور اپنے فیصلے سے مغربی کیمپ کے قریب آیا تھا ۔ہم نے اسے خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اسے یہ بتایا ہے کہ بھارت بھی بہت بڑا اور اہم ملک ہے ۔ہمارے اور اس کے درمیان بہت سی اقدار و روا یات مشترک ہیں۔اس لیے ہم بھارت سے بھی لازماً قریبی تعلقات رکھیں گے ۔
  • مسئلۂ کشمیر کے ضمن میں ہم نے اقوام متحدہ میں ہمیشہ پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے ۔ہمارے نزدیک یہ ایک متنازع علاقہ ہے جس کا آخری فیصلہ باہمی گفت وشنید اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ تاہم یہ مسئلہ پر امن طریقہ سے حل ہو نا چاہیے۔ہم نے ہمیشہ پاکستان سے کہا ہے کہ اس مسئلے پر پاک بھارت جنگ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گی ۔
  • پاکستان کو ہم نے تمام اسلحہ اس شرط کے ساتھ دیا تھا کہ اسے صرف کمیونسٹ خطرے کے خلاف دفاعی طور پر استعمال کیا جائے گا ۔جب ہمیں معلوم ہوا کہ ۱۹۶۵ء میں یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے تو ہم نے اس کے فاضل پرزوں کی فراہمی پر پابندی لگا دی ۔پاکستان نے یہ جنگ ہمارے مشورے سے شروع نہیں کی تھی 
  • بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کی اپنی غلطیوں ،کوتاہیوں اور سیاسی عدم توا زن کا نتیجہ تھا ۔وہاں کے ۹۴ فی صد عوام اپنے لیے علیحدہ ملک چاہتے تھے۔ بحیثیت ایک جمہوری ملک کے ہم اس سے کیسے نظریں چراسکتے تھے۔ البتہ جب ہمیں معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش کے بعد اندر اگاندھی اب مغربی پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کر چکی ہیں تو ہمارے ہی دباؤ پر وہ اس ارادے سے باز آئیں ۔
  • ہم نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ افغانستان میں ہماری دلچسپی صرف روسی افواج کے نکلنے تک محدود ہے۔افغان مجاہد تنظیمیں پاکستان کے زیر اثر تھیں اور پاکستان نے ہی انہیں تخلیق کیا تھا ۔اگر یہ سب تنظیمیں آپس میں لڑنے لگیں اور پاکستا ن ان کی خانہ جنگی پر قابو نہ پاسکا یا اس میں فریق بن گیا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
  • مثبت طور پر ہم نے پاکستان کی دوستی کی پوری قدر کی ہے ۔پاکستان ان چار ممالک میں شامل ہے جنھیں پچھلے پچاس برس میں سب سے زیادہ امریکی امداد ملی ہے۔ پاکستان کا ہر اہم پروجیکٹ براہ راست یا بلواسطہ امریکی امداد یا قرضے ہی کا مرہون منت ہے ۔پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مہیا کردہ قرضے اکثر و بیشتر صرف ایک فیصد برائے نام سود پر دیے گئے ہیں۔ اربوں ڈالر کی ناقابل واپسی امداد اس کے علاوہ ہے۔

تبصرہ

ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں ’’کاروبار ‘‘پر نہیں ، بلکہ لوافیئرپر یقین رکھتے ہیں، اس لیے ہم ہمیشہ امریکہ سے وہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جن کے پورا کرنے کا امریکہ نے کبھی کہا نہیں ہو تا ۔ہمار ا خیال ہوتا ہے کہ شاید امریکی انتظامیہ ہر وقت پاکستان ہی کے بارے میں سوچتی رہتی ہے اور امریکی صدر صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستان کے اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔اسی لیے تو ہر اردو اخبار میں روزانہ امریکہ پر لعن طعن کے دو تین جذباتی مضامین لازماً موجود ہوتے ہیں جن میں امریکی انتظامیہ کو ’’زریں اور قیمتی ‘‘مشوروں سے بھی نوازا گیا ہو تا ہے تاکہ وہ ان پر عمل کر کے بھارت سے لڑ کر کشمیر کو آزاد ی دلوا کر پاکستا ن کو پلیٹ میں پیش کر کے اپنی عاقبت سنوار لے۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہر صدر ،وزیر اعظم ،چیف آ ف اسٹاف حتیٰ کہ وزیر خارجہ کا نام بھی وائٹ ہاؤس سے منظور ہو کر آتا ہے۔ ہر تبدیلی اور انقلاب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے ۔اور وہ فرد جس دن امریکہ کی نظر ا لتفات سے محروم ہو جائے ،اسی دن وہ اقتدار سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

جب تک ہم’’ محبت‘‘، ’’ردعمل‘‘ اور’’ سازش کی تھیوری‘‘والی نفسیات سے چھٹکارا پا کر بین الاقوامی تعلقات کو ایک کاروبار کی شکل میں نہیں دیکھیں گے تب تک امریکہ سے ہمارے گلے شکوے جاری رہیں گے ۔جس دن ہم یہ عزم کر لیں کہ ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے، امریکہ سے تعلقات کار یقیناًرکھیں گے ، مگر اس پر کلی انحصار نہیں کریں گے ، وہی ہماری فریادی و احتجاجی ذہنیت کا آخری دن اور قومی وقار کا پہلا دن ہو گا ۔

ر۔ دہشت گردی کے متعلق مختلف موقف 

اگرچہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف ابھی تک متعین نہیں کی جا سکی، تاہم امریکہ کی نظر میں ہر وہ مسلح عمل دہشت گردی ہے جو کسی غیر حکومتی مسلح تنظیم کی طرف سے عام لوگوں کے خلا ف ہو ۔گویا اگر کوئی مقامی پرائیویٹ مسلح تنظیم اپنے کسی مقصد کے لیے خا لصتاً فوجی تنصیبات پر حملے کرتی ہے تو وہ دہشت گردی نہیں ۔اسی لیے اس کے نزدیک کشمیر میں بر سر پیکار ’’حزب المجاہدین‘‘ دہشت گرد تنظیم نہیں ، اس لیے کہ وہ صرف مسلح افواج پر حملے کرتی ہے اور اس میں غیر مقامی لوگ نہیں ۔اس کے برعکس اس کے خیال میں ’’لشکر طیبہ‘‘ دہشت گرد تنظیم ہے ، اس لیے کہ اس میں سرحد پار سے لوگ بھرتی ہو تے ہیں اور وہ غیر مسلح لوگوں کو بھی ٹارگٹ بناتی ہے۔چنانچہ اسی معیار کے تحت امریکہ نے بہت سی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہو ا ہے ۔ان میں کچھ غیر مسلم عیسائی اور نسلی تنظیمیں بھی شامل ہیں، تاہم ان کی بڑی اکثریت القاعدہ جیسی مسلمان تنظیموں پر مشتمل ہے ۔خود یہ تنظیمیں اپنے آپ کو دہشت گرد کہلانے سے انکار کرتی ہیں۔ان کے خیال میں وہ بہت اچھے مقاصد کے لیے مسلح جدو جہد کر رہی ہیں اور اس جدوجہد کا ایک راستہ غاصب ملک کے بظاہر عام باشندوں کا قتل بھی ہے تاکہ اس ملک کو جھنجھوڑا جا سکے ۔یہ تنظیمیں اپنے بہت سے کارکنوں کو خود کش حملوں کے لیے بھی تیار کرتی ہیں تا کہ دشمن کے ٹارگٹ پر زیادہ سے زیادہ تباہی کا مقصد حاصل کیا جاسکے ۔اس خود کشی کو وہ اعلیٰ ترین قربانی گر دانتی ہیں۔ کئی ممالک ان تنظیموں کے موقف سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان مقبوضہ کشمیر کے اندر مسلح تنظیموں کو اصلاً آزادی کی تحریکیں سمجھتا ہے ۔اسی طرح اکثر عرب ممالک ’’حماس‘‘ جیسی مسلح تنظیموں اور ان کے خود کش حملوں کو صحیح سمجھتے ہیں ۔اگرچہ ان کے خیال میں حکمت عملی کے طور پر غیر فوجی مقامات پر حملے آج کے حالا ت میں مناسب نہیں ہیں۔

امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ کر رہیں گے اور ان کے کسی مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے ۔دوسری طرف ان تنظیموں کا فیصلہ ہے کہ وہ آخر دم تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی ۔اس صورت حال میں ہمار ے سامنے تین سوالات آتے ہیں ۔ایک یہ کہ کیا مسلح تنظیموں سے مقابلہ کرنے کا امریکی طریقہ صحیح ہے ؟دوسرا یہ کہ کیا ان تنظیموں کے غیر مسلح لوگوں پر حملے اور خود کش جتھوں کی تیاری ایک صحیح طرز عمل ہے ؟تیسرا یہ کہ اگر امریکہ اور ان تنظیموں ، دونوں کی رائے صحیح نہیں ہے تو پھر صحیح طرز عمل کیا ہے ؟ 

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک ان تنظیموں کے قیام کے پیچھے اصل وجوہات و محرکات کا تجزیہ کرکے ان کا حل نہیں لایا جائے گا ، تب تک ان کی سرگرمیاں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیں گی ۔ممکن ہے امریکہ موجودہ لہر پر قابو پالے ، مگر ان تنظیموں کی راکھ سے نئی نئی کونپلیں پھوٹیں گی ۔عالم اسلام کے اندر ان تنظیموں کے نمو پانے کی اصل وجوہات غربت، غیرجمہوری حکومتیں اور اسرائیل کا ظلم و ستم ہیں۔امریکہ کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے ایک معقول اور قابل عمل حل (جو آج کے حالات میں پورے غزہ ،اور عرب اردن بشمول مشرقی یروشلم و بیت المقدس پر مشتمل فلسطینی ریاست کا قیام ہے) کو پیش کر کے پہلے اس پر امریکی یہودیوں سے اتفاق رائے حاصل کرے اور پھر اپنی سفارت کاری سے کام لے کر اس پر اسرائیل کو قائل کرے۔اگر امریکہ عالم اسلام کے اندر اپنے انتہائی منفی امیج کو کچھ بھی بہتر کر ناچاہتا ہے تو اسے ایسا کرنا پڑ ے گا۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ مسلح تنظیمیں خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقاصد اور خلوص کے ساتھ اپنی جدوجہد کررہی ہو ں ، تاہم تاریخ کا بھی یہ فیصلہ ہے اور انسانی ضمیر بھی اس پر شا ہد ہے کہ غیر مسلح لوگوں کو مارنے کا فعل غلط ہے ۔اس سے دوسری قوم میں انتقام اور رد عمل پیدا ہو تا ہے ۔جذباتیت پروان چڑھتی ہے۔گفتگو اور مکالمہ ممکن نہیں رہتا ۔تاریخ اس پر شا ہد ہے کہ پر امن ،مظلومانہ ،عدم تشدد اورقومی اتحاد پر مبنی جد و جہد ہمیشہ کامیاب رہی ہے ۔جب کہ متشدد اور متفرق جد وجہد اکثر و بیشتر ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔آج اہل فلسطین اور اہل کشمیر ، دونوں بیسیوں سیاسی اور مسلح تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔بھلا ایسی جدوجہد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟آج اگر اہل فلسطین اور اہل کشمیر ایک سیاسی تنظیم کے تحت منظم ہو جائیں۔اپنی علیحدہ علیحدہ بیسیوں شناختیں ختم کر د یں او رخالصتاً پر امن جد و جہد شروع کر دیں توچند سال کے اندر اندر بغیر کسی بیرونی مدد کے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔مسلح تنظیموں کی حرکت ان کی آزادی کو دور تو کر سکتی ہے ،قریب نہیں لا سکتی ۔

اسی طرح خود کش جتھے تر تیب دینے کا نقصان بھی اسی قوم کو ہو تا ہے ۔خود کشی کے لیے وہی فرد تیار ہو تا ہے جو انتہائی پرعزم، باصلاحیت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو ، جب کہ ان حملوں میں مرنے والے مخالف قوم کے لوگ تو بس عام افراد ہوتے ہیں جو اتفاق سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ جب قوم کے باصلاحیت اور پر عزم نوجوان ان حملوں میں کام آجائیں تو اوسط درجے کے لوگ ہی پیچھے بچتے ہیں ۔جاپان نے بھی دوسر ی جنگ عظیم میں اپنے پائلٹوں کو دشمن کے بحری جہازوں سے ٹکر ا کر ایسا ہی غلط فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے پاس پائلٹوں کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ چنانچہ یہ بھی کوئی صحیح حکمت عملی نہیں ہے۔

تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ امریکہ سے مطلوب رویے کی بات تو ہم نے محض بر سبیل تذکرہ کی۔ امریکہ بھلا ہماری بات کیوں مانے گا ۔ہمار ا اصلی مقصد تو اپنی قوم اور اپنی امت کو حکمت و تدبیر کا راستہ سمجھا نا ہے ۔ایسا راستہ جس پر چل کر وہ حالیہ مصیبت سے نکل جائیں اور ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو جائیں۔

حالات و مشاہدات

(اپریل ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter