دعوت و تربیت اور تعمیر سیرت کی اہمیت

حکیم سید محمود احمد سرور سہارنپوری

(۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء کو ہمدرد سنٹر لاہور میں مجلس فکر ونظر کے زیر اہتمام ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں خطاب۔)


الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وخاتم النبیین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔

محترم صدر! میرے بزرگو اور بھائیو!

میں اسے اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتا ہوں کہ اہل علم اور اہل فکر ودانش کے اس اجتماع میں مجھے ’’دعوت اور تربیت‘‘ کے عنوان سے آپ کے سامنے خیالات کے اظہار کا موقع نصیب ہو رہا ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے میں محترم حافظ حسین احمد اور محترم پروفیسر محمد ابراہیم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ نے جنہیں نصف صدی کے بعد یہ توفیق بخشی کہ وہ پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے متحدہ مجلس عمل کو یہ توفیق نصیب فرمائی کہ آج ایک صوبے میں بغیر کسی کے تعاون کے اسے مکمل حکومت بنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔

اس برصغیر میں تقریباً ڈیڑھ پونے دو سو سال سے اسلام کے نفاذ کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آپ ان پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو ان کوششوں کے اخلاص، ان کے ایثار، ان کے زہد وتقویٰ اور ان کی کوششوں میں کوئی کمی اور کجی دکھائی نہیں دے گی لیکن یہ کوششیں کام یابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مقصود اسلام کے نظام کا نفاذ ہے، وہ کسی اور کے ہاتھوں سے ہو یا آپ کے ہاتھوں سے۔ ہمارا محبوب اسلام ہے۔ اس سلسلے میں ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے بھی اسلام نافذ کرنے کا موقع مہیا کر دے، ہم اس کے دست وبازو بن جائیں۔ ہم اس کو قوت فراہم کریں۔ ہم اس کی حمایت کریں اور جو کچھ بھی اس کے لیے کر سکتے ہوں، کریں۔ بغیر اس لالچ وخواہش کے کہ اس میں ہمیں کچھ حصہ ملے، ہمارا نام آئے، ہمیں کوئی اعزاز ملے، کوئی عہدہ نصیب ہو۔ ہمیں اپنے اس کام کو چونکہ خدا کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے اور جو اجر بھی لینا ہے، وہ اللہ ہی سے لینا ہے لہٰذا جب تک اس جذبے کے تحت ملت اسلامیہ پاکستان اپنے فرائض کو ادا کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوگی، یہ کوشش کام یابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔

جو لوگ اسلامی نظام کے نفا ذ کے اس اعزاز کے حامل ہیں، انہیں تعجیل اور افتراق سے بھی بچنا ہوگا اور اپنے اندر کی انانیت کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔ پاکستان اسلام کے نفاذ کے لیے ہی بنا تھا۔ لوگ جتنے چاہے مغالطے دیں کہ مذہبی قوتوں نے اس کی مخالفت کی تھی مگر درحقیقت راس کماری سے لے کر پشاور تک سارے علمائے حق پاکستان کے حق میں تھے۔ چاہے کسی نے جلسے جلوسوں میں حصہ لیا یا نہیں لیا۔ میں آپ کو یاد دلا دوں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولانا داؤد غزنوی، مولانا خیر محمد ملتانی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری، یہ سارے کون تھے؟ یہ سارے علما تھے، یہ سب تحریک پاکستان کے موید تھے۔ یہ سب علما بغیر کسی وزارت کے لالچ کے پاکستان کے لیے کام کرنے والے تھے۔ یہ ایک ٹیم تھی۔ آپ نے دیکھا کہ ایک ایسی انہونی ہو گئی جس کے لیے مخالفین پاکستان یہ کہتے تھے کہ یہ دیوانے کا خواب ہے، پاکستان نہیں بنے گا۔ لیکن پاکستان بن گیا۔ بن گیا تو مخالفین کہنے لگے کہ پاکستان نہیں چلے گا اور یہ چل گیا، چل رہا ہے، الحمد للہ۔ ان شاء اللہ یہ چلتا رہے گا۔ 

یہ بات میں نے اس لیے عرض کی کہ وہ ایک اتحاد تھا ساری ملت اسلامیہ برصغیر کا جس نے پاکستان اس لیے بنایا کہ وہ یہاں اسلام نافذ کرے گی، اسلامی نظام زندگی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے گی۔ آپ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن پاکستان بن جانے کے بعد اسے بنانے والوں نے سمجھا کہ اب ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ چند بزرگوں کے اس دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد ہم کمر کھول کر بیٹھ گئے۔ ہم نے اس کی نگرانی نہیں کی۔ بیج ڈالنے کے بعد، کھیت پوری طرح تیار کر لینے کے بعد اسے تیار کرنے والے، بنانے والے اگر اس کی نگرانی نہیں کرتے تو پھر وہ پھل حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ ٹیم اس لیے ناکام ہو گئی کہ اس نے اگلے مرحلے کے لیے کام نہیں کیا تھا۔ پھر دوبارہ ہمارا اتحاد ہوا۔ کہایہ جاتا تھا کہ کون سا اسلام؟ شیعہ کا اسلام، سنی کا اسلام، بریلوی کا اسلام، دیوبندی کا اسلام، کس کا اسلام؟ تو علما نے متحد ہو کر یہ ۳۱ نکات مقرر کر کے اس بات کا اظہار کر دیا کہ یہ اسلام ہے۔ ان علما میں تمام مکاتب فکر کے نمائندے تھے۔ ان علما نے یہ طے کر دیا کہ یہ اسلام ہے یعنی حاکمیت اللہ کی، قانون کتاب وسنت کا۔ اگر کوئی قانون کتاب وسنت کے خلاف ہے تو وہ تبدیل کر دیا جائے گا اور آئندہ قوانین کتاب وسنت کے مطابق بنائے جائیں گے، ان کے خلاف نہیں بنائے جائیں گے۔

قرارداد مقاصد کی صورت میں یہ اسلام کا بنیادی کام ہوا تھا اور یہ علما کے اتحاد ہی کا نتیجہ تھا۔ مجھے ایک بات یہ بھی کہنی ہے کہ اسلامی تحریکوں نے گزشتہ عرصے میں جو کچھ بھی کام یابی حاصل کی، اس کا کیا ہوا؟ ایران میں اسلام کے نام پر انقلاب آیا تو ہم نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس انقلاب کے خلاف کتابیں لکھی جانے لگیں۔ اس موقع پر ایک غلطی انقلاب لانے والوں نے بھی کی۔ ایک جگہ اسے مستحکم کیے بغیر انہوں نے کہا کہ ہم اس انقلاب کو برآمد کریں گے۔ پھر کہیں انقلاب آیا تو کہا گیا کہ یہ دیوبندیوں کا انقلاب ہے۔ اگر اسلام کو اس طرح تقسیم کیا جاتا رہا تو پھر اسلام کبھی نہیں آئے گا اس لیے کہ کہیں یہ حنبلیوں کا ہوگا، کہیں شافعیوں کا ہوگا، کہیں مالکیوں کا ہوگا، کہیں حنفیوں کا ہوگا، کہیں اہل حدیثوں کا ہوگا اور کہیں شیعوں کا ہوگا۔ پھر کہا جائے گا کہ یہ کوئی اسلام نہیں ہے۔ اسلام اللہ کی کتاب کا نام ہے۔ اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت کا نام ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اختلافات سے گریز نہ کیا جائے، اس وقت تک اتحاد کی فضا قائم نہیں ہوگی۔ ہمارا دشمن اسی دروازے سے داخل ہوتا ہے۔

یہ بات یاد رکھیے کہ سب سے پہلا کام اس اتحاد کو قائم رکھنا ہے اور تمام قسم کی سازشوں سے اسے بچانا ہے جن کے نتیجے میں ہمارے سابقہ ادوار کے اتحاد ناکام ہوتے رہے۔ آپ کو فرقہ واریت سے بھی بچنا ہے۔ ذاتی انا اور لیڈر شپ کے اس جنون کو اپنے اندر سے نکالنا ہے جس نے ماضی میں ہمیں ناکام کیا۔ آپ جب تاریخ کا تجزیہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ لوگوں نے صرف اور صرف اپنی ذات، اپنی لیڈر شپ، اپنی خواہش، اپنی نسل، اپنی جماعت، اپنی برادری اور اپنی لسانیت کے لیے سارے کا سارا نظام داؤ پر لگا دیا۔ اللہ نے آپ کو یہ اعزاز عطا کیا ہے کہ آپ تاریخ کا سنہری باب رقم کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اب یہ جواب آپ کے ذمے ہے کہ اسلام لوگوں کو کیا دیتا ہے؟ اسلام لوگوں کے مسائل کس طرح حل کرتا ہے؟ اس کام کا آغاز نفاذ تعزیر سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا آغاز فلاحی مملکت کے قیام سے ہونا چاہیے۔ فلاحی مملکت کا تصور اسلام ہی نے دیا ہے۔ نبی ﷺ کا یہ کہنا کہ جو تم میں سے قرضہ چھوڑ کر مرے، وہ میں دوں گا اور جو مال چھوڑ کر مرے، وہ اس کے بچوں کا ہے، یہ وہ فلاحی مملکت کا تصور ہے کہ جو کچھ تم نے چھوڑا، وہ تمہارا۔ جو تم پر باقی ہے، وہ ہم دیں گے۔ تمہاری ضرورتیں ہم پوری کریں گے۔ ظاہر ہے آپ آج اس پوزیشن میں تو نہیں ہیں کہ لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس دیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہر آدمی کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں لیکن بہتری کا آغاز بہرحال ہونا چاہیے۔ اور اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ جو لوگ ذمہ دار بنا دیے گئے ہیں، وہ اپنے معیار زندگی کو سابقہ معیار زندگی سے بڑھنے نہ دیں۔ اگر ان کے پاس اپنی ذاتی گاڑی ہے تو وہ سرکاری گاڑی استعمال نہ کریں۔ اگر ان کے پاس اپنی ذاتی رہائش گاہ موجود ہے تو وہ سرکاری رہائش گاہ نہ لیں۔ آپ غیر پیداواری اخراجات کم کر سکتے ہیں۔ اس راستے میں آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہوگا جس سے آپ عوامی فائدے کے کام کر سکتے ہیں۔ یہاں انصاف بکتا ہے، چاہے وہ کسی بھی صورت میں بکتا ہو۔ اس خرابی کے خاتمے کے لیے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اسلام آیا تو ہمیں یہ یہ فائدہ ملا۔ عدلیہ کے نظام میں ایسی دور رس تبدیلیاں کریں کہ جن کے ذریعے فوری اور سستا انصاف ملے۔ قانون ہر شخص کے لیے ایک ہو۔ ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی پر میری گاڑی کا چالان ہوتا ہے تو اشارے کی خلاف ورزی پر وزیر صاحب کی گاڑی کا بھی چالان ہونا چاہیے۔ اس کام میں کوئی لمبا چوڑا سرمایہ خرچ نہیں ہوتا۔ اس میں صرف انتظامیہ پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اگر کسی شخص کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ اسلام آنے کے نتیجے میں اسے، اس کے بچوں کو، اس کی نسلوں کو یہ یہ فوائدملیں گے تو وہ اپنی ضرورتیں کاٹ کر بھی آپ کا ساتھ دے گا، جس طرح آپ کو ووٹ دینے والوں نے ووٹ دیے ہیں۔ ورنہ یہاں الیکشن لڑتے ہوئے آپ کو پچاس برس ہو گئے۔ آپ کا ووٹ بینک نہیں بڑھا۔ جے یو آئی نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں تیرہ لاکھ ووٹ لیے، جے یوپی نے تیرہ لاکھ آٹھ ہزار اور جماعت اسلامی نے نو لاکھ آٹھ سو ووٹ لیے۔ مجموعی طور پر یہ سارے ووٹ پینتیس لاکھ بنتے ہیں۔ اب آپ کو تینتیس لاکھ ووٹ ملے ہیں لیکن قوم نے تینتیس لاکھ ووٹ دے کر آپ کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ایک صوبے میں آپ نے مکمل حکومت بنا لی۔ یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو یقین آ گیا کہ آپ اکٹھے ہو گئے ہیں اور آپ ہی ان کے مسائل حل کریں گے کیونکہ دوسرے ان کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔

تعمیر سیرت کے مرحلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ رہنما آدمی کو نمونے کا آدمی بننا پڑے گا۔ جو لوگ یہ علم لے کر اٹھے ہیں کہ ہم اسلامی نظام لائیں گے، ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اسمبلی کو اٹھا کر مسجد میں لے آیا جائے۔ یہ کام آپ وہیں کیجیے۔ وہاں آپ اس بات کا انتظام کیجیے کہ جو لوگ آپ کے ماتحت کام کرنے والے ہیں، انہیں نظر آئے کہ آپ خود غلط کام نہیں کرتے اس لیے نیچے بھی کسی کو غلط کام نہیں کر نے دیں گے۔ مجھ سے پہلے ایک محترم بھائی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر چیف جسٹس انصاف کرنا چاہے تو اس کے ماتحت جج اس بات پر مجبور ہیں کہ انصاف کریں۔ اوپر کے درجے پر فائز لوگوں کو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی پڑے گی تاکہ نیچے والوں کی اصلاح ہو سکے۔

نظا م تعلیم کی طرف توجہ دیجیے کیونکہ آپ صوبہ سرحد میں مرکزی حکومت کی امداد اور تائید کے بغیر اسے چلا سکتے ہیں۔ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کیجیے۔ درمیان کی جو دیوار ہے، اسے دور کر دیجیے کہ جو دین کا علم جانتا ہے، اس کے پاس دنیا کے علم کی کمی ہے اور جو دنیا کا علم جانتا ہے، اسے دین کا پتہ ہی نہیں۔ یہ آپ صوبہ سرحد میں کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

اسلام نافذ کرنے کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس ملک کے رہنے والے بے عمل تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ اسلام سے جو قلبی وابستگی رکھتے ہیں، اس میں کوئی کمی نہیں۔ آپ دیکھیں کہ جب تحریک ختم نبوت چلتی ہے تو اس میں جان دینے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو بے عمل ہیں۔ سیرت سازی کے لیے آدمی کو خود نمونہ بننا پڑتا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے نظام کا خود نمونہ ہیں۔ وہ نعرہ ہیں نہ دعویٰ بلکہ نمونہ ہیں۔ پھر ایک بات اور میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کو مسلمان سمجھ کر آپ اپنے ساتھ لے کر چلیں گے تو یہ آپ کے دست وبازو بنیں گے۔ آپ کی قوت بڑھے گی۔ اللہ نے آپ کو سرحد اور بلوچستان میں طاقت دی۔ یہ طاقت وہاں سے آگے بڑھے گی۔ اگر آپ نے لوگوں کو مسلمان سمجھ کر ساتھ ملانے کی کوشش نہ کی تو یہ یاد رکھیے کہ آپ کا مخالف بہت چالاک ہے۔

آپ محاذ آرائی کے ہر عمل سے گریز کیجیے۔ کسی کو برانگیختہ کرنے یا اشتعال دلانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو کوئی چار باتیں کہہ دیتا ہے تو آپ خاموشی سے سن لیجیے اور اس لیے سن لیجیے کہ آپ مثبت طور پر اسلامی نظام کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، محاذ آرائی کر کے اپنے راستے کو تنگ کرنا نہیں چاہتے۔ جو قوتیں اسلام کو ناکام کرنا چاہتی ہیں، وہ آپ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گی اس لیے اشتعال دلانے سے بھی بچیے اور اشتعال میں آنے سے بھی بچیے۔ یہ ہماری دردمندانہ اور مخلصانہ گزارش ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے ان بد نتائج سے بچا جا سکتا ہے جن میں آپ کو آلودہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برصغیر سے اور سارے عالم اسلام سے جو سامراجی نظام گیا اور نوآبادیاتی سسٹم ختم ہوا، وہ دوسری جنگ عظیم کے حالات کا جبر تھا کہ فرانس، پرتگال، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک اپنی نوآبادیات کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اب نوآبادیاتی نظام کا دوسرا منصوبہ شروع ہوا ہے۔ دوسرے انداز سے، دوسرے نام سے، اور یاد رکھیے کہ ان کے منصوبے ہمارے منصوبوں کی طرح دو سالہ، چار سالہ اور پانچ سالہ منصوبے نہیں ہوتے۔ اب نوآبادیاتی نظام کا جو منصوبہ ہے، وہ سارے ترقی پذیر ممالک پر لاگو کر کے ان کے سارے ذرائع کو، سارے وسائل کو اس طرح قبضے میں لے لینے کا ہے کہ تیل مسلمانوں کا ہو، فائدہ ان کو پہنچے۔ گیس مسلمانوں کاہو، فائدہ ان کو پہنچے۔ کانیں مسلمانوں کی ہوں، فائدہ وہ اٹھائیں۔ اسی غرض کے لیے یہ سارے کا سارا جال بچھایا گیا ہے۔ کیسی عجیب وغریب صورت حال ہے کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا ہے اور ۵۹ اسلامی ممالک ایسے خاموش ہیں کہ کسی طرف سے یہ آواز تک نہیں آتی کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ۵۹ ممالک اس طرح متحد ہیں کہ ان کی کوئی پوزیشن نہیں۔ تاریخ میں آج تک ایسا مرحلہ نہیں آیا تھا کہ کسی اتحاد کی کوئی پوزیشن ہی نہ ہو۔

میں ایک بار پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جذباتیت سے اس ساری صورت حال کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مرحلہ آتا ہے جب جذباتی فضا آدمی کو اس حال تک پہنچا دیتی ہے کہ اسے اپنے ہی موقف سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ ابھی ہم اس مرحلے پر نہیں ہیں کہ ہمیں اپنے ہی موقف سے دست بردار ہونا پڑے۔

ذرائع ابلاغ کو اس حد تک کنٹرول کیا جائے کہ وہ اسلامی معاملات کو اسلام ہی کے نقطہ نظر سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ صوبہ سرحد میں ریڈیو اور ٹی وی کے جو اوقات خاص آپ کے لیے ہیں، ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیے اور اسلامی کلچر کو فروغ دیجیے۔ ہم ہر حال میں ان شاء اللہ آپ کا دست وبازو بننے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا آپ سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ ہے نہ ہم آپ سے کسی ستائش کی تمنا رکھتے ہیں۔ ہم نے انتخابات میں بھی آپ کے کہے بغیر آپ کا ساتھ دیا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔ اس کا اجر ہم نے اللہ سے لینا ہے۔ جب ہم سے سوال ہوگا کہ تم نے اللہ کے دین کے لیے کیا کیا تھا تو ہم کہہ دیں گے کہ اے اللہ! آپ نے ان لوگوں کو دین کے نفاذ کا اختیار دیا تھا، ہم ان کے جوتوں کی گرد جھاڑنے کے لیے ان کے ساتھ تھے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ دل سے آپ کے ساتھ ہیں۔ اپنی قوتوں سے آپ کے ساتھ ہیں۔ جن کے پاس کچھ نہیں، ان کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو درست طور پر کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائیے۔ آمین

دین و حکمت

(اپریل ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter