علم کا مقام اور اہل علم کی ذمہ داریاں

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

(اکتوبر ۱۹۸۱ء میں کشمیر یونیورسٹی سری نگر نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس اللہ سر ہ العزیز کو ’’ڈاکٹر آف لٹریسی‘‘ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ اس موقع پر منعقد ہونے والے کانووکیشن سے حضرت مولانا ندوی رحمہ اللہ تعالی نے جو فکر انگیز خطاب فرمایا، وہ اہل علم کے استفادہ کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


جناب چانسلر صاحب (بی کے نہرو، گورنر کشمیر)، پرو چانسلر صاحب (شیخ محمد عبد اللہ، چیف منسٹر کشمیر)، وائس چانسلر صاحب (ڈاکٹر وحید الدین ملک) ،اساتذۂ جامعہ، فضلاء کرام اور معزز حاضرین!

میرا عقیدہ ہے کہ علم ایک اکائی ہے جو بٹ نہیں سکتی۔ اس کو قدیم وجدید، مشرقی ومغربی، نظری وعملی میں تقسیم کرنا صحیح نہیں اور جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے

دلیل کم نظری قصہء جدید وقدیم

میں علم کو ایک صداقت مانتا ہوں جو خدا کی وہ دین ہے جو کسی ملک وقوم کی ملک نہیں اور نہ ہونی چاہئے۔ مجھے علم کی کثرت میں بھی وحدت نظر آتی ہے۔ وہ وحدت سچائی ہے، سچ کی تلاش ہے، علمی ذوق ہے، اور اس کو پانے کی خوشی ہے۔ اس کے باوجود میں جناب چانسلر صاحب، وائس چانسلر صاحب اور اس جامعہ کے ذمہ داروں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے ایک علمی اعزاز کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جس کا انتساب اور تعلق قدیم طرز تعلیم سے ہے۔

میں علم، ادب، شاعری، فلسفہ ،حکمت کسی میں اس اصول کا قائل نہیں ہوں کہ جو اس کی وردی پہن کر آئے، وہی عالم اور دانش ور ہے اور یہ مان لیا گیا ہے کہ جس کے جسم پر وردی نہ ہو، وہ نہ مستحق خطاب ہے نہ لائق سماعت۔ بد قسمتی سے ادب وشاعری میں بھی یہی حال ہے۔ جو ادب کی دکان نہ لگائے، اور اس پر ادب کا سائن بورڈ آویزاں نہ کرے، اور ادب کی وردی پہن کر ادبی محفل میں نہ آئے، وہ ’’بے ادب‘‘ ہے۔ لوگوں نے ان پیدائشی ادیبوں اور شاعروں کا قصور کبھی معاف نہیں کیا جن کے جسم پر وہ وردی دکھائی نہ دیتی ہو یا جن کو بد قسمتی سے ان وردیوں میں سے کوئی وردی نہ مل سکی ہو۔ میں علم کی آفاقیت اور علم کی تازگی کا قائل ہوں، جس میں خدا کی رہنمائی ہر دور میں شامل رہی ہے۔ اگر خلوص ہے اور سچی طلب ہے تو خدا کی طرف سے کسی وقت فیضان میں کمی نہیں۔

حضرات !

اس موقر دانش گاہ کے جلسہ تقسیم اسناد میں جو فلک بوس ہمالیہ کی ایک سرسبز وحسین وادی میں منعقد ہو رہا ہے، مجھے بے اختیار وہ واقعہ یاد آتا ہے جو عرب کے ایک خشک علاقہ میں ایک پہاڑ پر جو نہ بلند تھا اور نہ سرسبز،تقریبا چودہ سو سال پہلے پیش آیا تھا اور جس نے تاریخ انسانی ہی نہیں بلکہ تقدیر انسانی پر ایسا گہرا اور لازوال اثر ڈالا ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی اور جس کا اس ’’لوح وقلم‘‘ سے خاص تعلق ہے جس پر علم وتہذیب اور تحقیق وتصنیف کی اساس ہے اور جس کے بغیر نہ یہ عظیم دانش گاہیں وجود میں آتیں اور نہ یہ وسیع کتب خانے جن سے دنیا کی زینت اور زندگی کی قدر وقیمت ہے۔میری مراد پہلی وحی کے واقعہ سے ہے جو ۱۲ فروری ۶۱۱ء کے لگ بھگ نبی عربی محمد ﷺ پر مکہ کے قریب غار حرا میں نازل ہوئی۔ اس کے الفاظ یہ تھے:

اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ خلق الانسان من خلق ۔ اقرا وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم ۔ علم الانسان ما لم یعلم(سورہ علق، ۱ تا ۵)

(اے محمد) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا ۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔

خالق کائنات نے اپنی وحی کی اس پہلی قسط اور باران رحمت کے اس پہلے چھینٹے میں بھی اس حقیقت کے اعلان کو موخر وملتوی نہیں فرمایا کہ علم کی قسمت سے وابستہ ہے غار حرا کی اس تنہائی میں جہاں ایک نبی امی اللہ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لیے پیغام لینے گیا تھا اور جس کا یہ حال تھا کہ اس نے قلم کو حرکت دینا خود بھی نہیں سیکھا تھا، جو قلم کے فن سے یکسر واقف نہ تھا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر کہیں مل سکتی ہے؟ اور اس بلندی کا تصور بھی ہو سکتا ہے کہ اس نبی امی پر ایک امت امی اور ایک ناخواندہ ملک کے درمیان (جہاں جامعات اور دانش گاہیں تو بڑی چیز ہیں، حرف شناسی بھی عام نہیں تھی) پہلی بار وحی نازل ہوتی ہے اور آسمان وزمین کا رابطہ صدیوں بعد قائم ہوتا ہے تو اس کی ابتدا ہوتی ہے اقرا سے۔ جو خود پڑھا ہوا نہیں تھا، اس پر جو وحی نازل ہوتی ہے، اس میں اس کو خطاب کیا جاتا ہے کہ پڑھو۔ یہ اشارہ تھا اس طرف کہ آپ کو جو امت دی جانے والی ہے، وہ امت صرف طالب علم ہی نہ ہوگی بلکہ معلم عالم اور علم آموز ہوگی۔ وہ علم کی اس دنیا میں اشاعت کرنے والی ہوگی۔ جو دور آپ کے حصے میں آیا ہے، وہ دور امیت کا نہیں ہوگا، وہ دور وحشت کا دور نہیں ہوگا، وہ دور جہالت کا دور نہیں ہوگا، وہ دور علم دشمنی کا دور نہیں ہوگا ،وہ دور علم کا دور ہوگا، عقل کا دور ہوگا، حکمت کا دور ہوگا، تعمیر کا دور ہوگا، انسان دوستی کا دور ہوگا، وہ دور ترقی کا دور ہوگا۔

باسم ربک الذی خلق (اس پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا) بڑی غلطی یہ تھی کہ علم کا رشتہ رب سے ٹوٹ گیا تھا اس لیے علم سیدھے راستے سے ہٹ گیا تھا۔ اس ٹوٹے ہوئے رشتہ کو یہاں جوڑا گیا۔ جب علم کو یاد کیا گیا، اس کو یہ عزت بخشی گئی تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی بھی آگاہی دی گئی کہ اس علم کی ابتدا اسم رب سے ہونی چاہئے اس لیے کہ علم اسی کا دیا ہوا ہے، اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اسکی رہنمائی میں یہ متوازن ترقی کر سکتا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی انقلاب آفریں، انقلاب انگیز اور صاعقہ آسا آواز تھی جو ہماری دنیا کے کانوں نے سنی تھی، جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اگر دنیا کے ادیبوں اور دانش وروں کو دعوت دی جاتی کہ آپ لوگ قیاس کیجئے کہ جو وحی نازل ہونے والی ہے، اس کی ابتدا کس چیز سے ہوگی؟ اس میں کس چیز کو اولیت دی جائے گی تو میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ایک آدمی بھی جو اس امی قوم اور اس کے مزاج اور دماغ سے واقف تھا، یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اقرا کے لفظ سے شروع ہوگی۔

یہ ایک انقلاب انگیز دعوت تھی کہ علم کا سفر خدائے حکیم وعلیم کی رہنمائی میں شروع کیا جا نا چاہئے اس لیے کہ یہ سفر بہت طویل، پر پیچ اور بہت پر خطر ہے ۔ یہاں دن دہاڑے قافلے لٹتے ہیں، قدم قدم پر مہیب وعمیق گھاٹیاں ہیں، گہرے دریا ہیں، قدم قدم پر سانپ اور بچھو ہیں، اس لیے اس میں ایک رہبر کامل کی رفاقت ہونی چاہئے اور وہ رہبر کامل حقیقتا خدا کی ذات ہے۔ مجرد علم وادب نہیں، وہ علم مقصود نہیں جو بیل بوٹے بنانے کا نام ہے، جو محض کھلنوں سے کھیلنے کا نام ہے۔وہ علم نہیں جو محض دل بہلانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جو ایک کو دوسرے سے لڑانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جو قوموں کو قوموں سے ٹکرانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جو اپنے معدہ کی خندق کو بھرنے کا ذریعہ سکھانے کا نام ہے، وہ علم نہیں جوزبان کو صرف استعمال کرنا سکھاتا ہے، بلکہ اقرا باسم ربک الذی خلق ۔ خلق الانسان من علق ۔ اقرا وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم ۔ علم الانسان ما لم یعلم ’’پڑھو، تمہارا رب بڑا کریم ہے۔‘‘ وہ تمہاری ضرورتوں سے، تمہاری کمزوریوں ے کیسے ناآشنا ہو سکتا ہے؟ اقرا وربک الاکرم ۔ الذی علم بالقلم آپ خیال کیجئے کہ قلم کا رتبہ اس سے زیادہ کس نے بڑھایا ہوگا کہ اس غار حرا کی پہلی وحی نے بھی قلم کو فراموش نہیں کیا۔ وہ قلم جو شاید ڈھونڈنے سے بھی مکہ کیکسی گھر میں نہ ملتا۔ اگر آپ اسے تلاش کرنے کے لیے نکلتے تو شاید معلوم نہیں کسی ورقہ بن نوفل کے یا کسی کاتب کے جو دیار عجم سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ کر آیا ہو، گھر میں ملتا۔

اور پھر ایک بہت بڑی انقلاب انگیز اور لافانی حقیقت بیان کی کہ علم کی کوئی انتہا نہیں۔ علم الانسان ما لم یعلم ۔انسان کو سکھایا جس کا اس کو پہلے سے علم نہ تھا۔ سائنس کیا ہے؟ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ انسان چاند پر جا رہا ہے، خلا کو ہم نے طے کر لیا ہے، دنیا کی طنابیں کھینچ لی ہیں، یہ سب علم الانسان ما لم یعلم کا کرشمہ نہیں تو کیا ہے؟

حضرات !

اجازت دیجئے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وادئ علم کے ایک مسافر کی حیثیت سے کچھ مشورے، کچھ تجربے پیش کروں۔

جامعات کا پہلا کام سیرت سازی ہے۔ یونیورسٹی ایسا کیرکٹر بنائے جو اپنے ضمیر کو بقول اقبال ایک کف جو کے بدلے میں بیچنے کے لیے تیار نہ ہو۔ آج کل کے فلسفے اور نظام یہ سمجھتے ہیں کہ اس بازار میں سب کی قیمت مقرر ہے ، کوئی اگر کم قیمت پر نہیں خریدا جا سکتا تو زیادہ قیمت پر خرید لیا جائے گا۔ ایک جامعہ کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ سیرت سازی کا کام کرے۔ وہ ایسے صاحب علم افراد پیدا کرے جو اپنے ضمیر کا سودا نہ کر سکیں، جن کو دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تخریبی فلسفہ، کوئی غلط دعوت وتحریک کسی دام خرید نہ سکے، جو اقبال کے الفاظ میں پورے اعتماد وافتخار کے ساتھ کہہ سکیں

کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلام طغرل وسنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں

دوسرا فرض یہ ہے کہ ہماری جامعات سے ایسے نوجوان نکلیں جو اپنی زندگیاں حق وصداقت اور علم وہدایت کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، جن کو کسی کے لیے بھوکا رہنے میں وہ لذت آئے جو کسی کو پیٹ بھر کر کھانے اور نائے ونوش میں آتی ہے، جن کو کھونے میں وہ مسرت حاصل ہو جو بعض اوقات کسی کو پانے میں نہیں ہوتی، جو اپنی جوانی کی بہترین توانائیاں، ذہن کی بہترین صلاحیتیں اور اپنے جامعہ کا بہترین عطیہ جس سے ان کی جھولی بھر دی گئی ہے، انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے صرف کریں۔

دانش گاہوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ اعلی صلاحیت کے لوگ کتنی تعداد میں پیدا کر رہی ہیں؟ میں صفائی سے کہتا ہوں کہ اب کسی ملک کی یہ تعریف نہیں کہ وہاں بڑی تعداد میں یونیورسٹیاں ہیں، یہ کوتاہ نظری اب بہت پرانی ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ علم کے شوق میں، جستجو کی راہ میں، علم واخلاق کے پھیلانے اور برائیوں، بد اخلاقیوں، سفاکی ودرندگی، دولت وقوت کی پرستش کو روکنے کے لیے کتنے آدمی اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں، اپنی قوم کو صاحب شعور، مہذب اور باضمیر قوم بنانے کے لیے کتنی تعداد میں نوجوان موجود ہیں جو اپنی ذاتی سربلندی اور ترقی سے آنکھیں بند کر کے اس مقصد کے لیے اپنے کو وقف کرتے ہیں۔ اصل معیار یہ ہے کہ کتنے نوجوان ایسے ہیں جو دنیا کی تمام آسائشوں اور ترقیوں سے آنکھیں بند کر کے کسی گوشے میں ٹھوس علمی وتعمیری کام کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ادب، شاعری، فنون لطیفہ، حکمت وفلسفہ، تصنیف وتالیف سب کا مقصد یہ ہے کہ ملک وملت میں ایک نئی زندگی اور روح پیدا ہو اور وہ سراب کی نمود اور شعلہ کی بھڑک نہ ہو۔ میں اس وقت ترجمان حقیقت ڈاکٹر محمد اقبال کے یہ شعر پڑھوں گا جو انہوں نے اگرچہ کسی ادیب یا شاعر سے مخاطب ہو کر کہے تھے لیکن یہ علم وادب، فلسفہ وحکمت سب پر صادق آتے ہیں:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

حضرات!

اب آخر میں مجھے اپنے ان قابل مبارک باد بھائیوں سے جو یہاں سے سند لے کے جا رہے ہیں، یا ان خوش نصیب عزیزوں سے جو ابھی اس چمن علم کی خوشہ چینی میں مصروف ہیں، کچھ کہنے کی اجازت دیجئے۔ میں اپنی بات کہنے میں (جو شاید کسی قدر خشک اور سنجیدہ ہو) ایک دلچسپ کہانی کا سہارا لوں گا، جو شاید آپ کے کانوں کا ذائقہ تبدیل کرنے میں مدد کرے۔

راوی صادق البیان کہتا ہے کہ ایک بار چند طلبا تفریح کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے۔ طبیعت موج پر تھی، وقت سہانا تھا، ہوا نشاط انگیز اور کیف آور تھی اور کام کچھ نہ تھا۔ یہ نوعمر طلبا خاموش کیسے بیٹھ سکتے تھے۔ جاہل ملاح دلچسپی کا اچھا ذریعہ اور فقرہ بازی، مذاق وتفریح طبع کے لیے بے حد موزوں تھا۔ چنانچہ ایک تیز طرار صاحبزادے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ’’چچا میاں آپ نے کون سے علوم پڑھے ہیں؟‘‘

ملاح نے جواب دیا ’’میاں میں نے کچھ پڑھا لکھا نہیں‘‘

صاحبزادہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ’’ارے آپ نے سائنس نہیں پڑھی؟‘‘

ملاح نے کہا ’’میں نے تو اس کا نام بھی نہیں سنا‘‘

دوسرے صاحبزادہ بولے ’’جیومیٹری اور الجبرا تو آپ ضرور جانتے ہوں گے؟’’

ملاح نے کہا ’’حضور یہ نام میرے لیے بالکل نئے ہیں‘‘

اب تیسرے صاحبزادے نے شوشہ چھوڑا ’’مگر آپ نے جیوگرافی اور ہسٹری تو پڑھی ہی ہوگی؟’’

ملاح نے جواب دیا ’’سرکار یہ شہر کے نام ہیں یا آدمی کے؟‘‘

ملاح کے اس جواب پر لڑکے اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے اور انہوں نے قہقہہ لگایا۔ پھر انہوں نے پوچھا ’’چچا میاں تمہاری عمر کیا ہوگی؟’’ ملاح نے بتایا ’’یہی کوئی چالیس سال‘‘ لڑکوں نے کہا ’’آپ نے اپنی آدھی عمر برباد کی اور کچھ پڑھا لکھا نہیں‘‘

ملاح بے چارہ خفیف سا ہو کر رہ گیا اور چپ سادھ لی۔

قدرت کا تماشا دیکھئے کہ کشتی کچھ ہی دور گئی تھی کہ دریا میں طوفان آ گیا، موجیں منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی تھیں اور کشتی ہچکولے لے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اب ڈوبی تب ڈوبی۔ دریا کے سفر کا لڑکوں کا پہلا تجربہ تھا، ان کے اوسان خطا ہو گئے، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اب جاہل ملاح کی باری آئی۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے منہ بنا کر پوچھا، بھیا تم نے کون کون سے علم پڑھے ہیں؟

لڑکے اس بھولے بھالے جاہل ملاح کا مقصد نہیں سمجھ سکے اور کالج یا مدرسہ میں پڑھے ہوئے علوم کی لمبی فہرست گنانی شروع کر دی اور جب وہ یہ بھاری بھرکم اور مرعوب کن نام گنا چکے تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’ٹھیک ہے، یہ سب تو پڑھا لیکن کیا پیراکی بھی سیکھی ہے؟ اگر خدا نخواستہ کشتی الٹ جائے تو کنارے کیسے پہنچ سکو گے؟ ‘‘ لڑکوں میں کوئی پیرنا نہیں جانتا تھا، انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ جواب دیا ’’چچا جان یہی ایک علم ہم سے رہ گیا تھا، ہم اسے نہیں سیکھ سکے‘‘

لڑکوں کا جواب سن کر ملاح زور سے ہنسا اور کہا ’’میاں میں نے تو اپنی آدھی عمر کھوئی مگر تم نے تو پوری عمر ڈبوئی اس لیے کہ اس طوفان میں تمہارا پڑھا لکھا کام نہ آئے گا، آج پیراکی ہی تمہاری جان بچا سکتی ہے اور وہ تم جانتے ہی نہیں۔‘‘

آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں جو بظاہر دنیا کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں، صورت حال یہی ہے کہ زندگی کا سفینہ گرداب میں ہے، دریا کی موجیں خونخوار نہنگوں کی طرح منہ پھیلائے ہوئے بڑھ رہی ہیں، ساحل دور ہے او رخطرہ قریب، لیکن کشتی کے معزز ولائق سواریوں کو سب کچھ آتا ہے مگر ملاحی کا فن اور پیراکی کا علم نہیں آتا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے سب کچھ سیکھا ہے، لیکن بھلے مانسوں، شریف، خدا شناس اور انسانیت دوست انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا فن نہیں سیکھا۔ اقبال نے اپنے ان اشعار میں اسی نازک صورت حال اور اس عجیب وغریب تضاد کی تصویر کھینچی ہے جس کا اس بیسویں صدی کا مہذب اور تعلیم یافتہ فرد بلکہ معاشرہ کا معاشرہ شکار ہے:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع وضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

شریفانہ انسانی زندگی گزارنے کا بنیادی فن خدا ترسی، انسان دوستی، ضبط نفس کی ہمت وصلاحیت، ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینے کی عادت، انسانیت کا احترام، انسانی جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کا جذبہ، حقوق کے مطالبہ پر ادائے فرض کو ترجیح، مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت وحفاظت اور ظالموں اور طاقت وروں سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ، ان انسانوں سے جو دولت وجاہت کے سوا کوئی جوہر نہیں رکھتے، عدم مرعوبیت وبے خوفی، ہر موقع پر اور خود اپنی قوم ،اپنی جماعت کے مقابلے میں کلمہ حق کہنے کی جرات، اپنے اور پرائے کے معاملہ میں انصاف کی ترازو کی تول، کسی دانا وبینا طاقت کی نگرانی کا یقین اور اس کے سامنے جواب دہی اور حساب کا کھٹکا، یہی صحیح ،خوشگواروبے خطر اور کامیاب زندگی گزارنے کی بنیادی شرطیں اور ایک اچھے وخوش اسلوب معاشرہ اور ایک طاقتور ومحفوظ وباعزت ملک کی حقیقی ضرورتیں اور اس کے تحفظ کی ضمانتیں ہیں۔ اس کی تعلیم اور اس کے لیے مناسب ماحول مہیا کرنا دانش گاہوں کا اولین فرض اور اس کا حصول تعلیم یافتہ نسل اور ملک کے دانش وروں کی پہلی ذمہ داری ہے، اور ہم کو اس جیسے تمام مواقع پر دیکھنا چاہئے کہ اس کام کی تکمیل میں ہماری دانش گاہیں کتنی کامیاب اور ان کے سند یافتہ افراد وفضلا کتنے قابل مبارک باد ہیں اور آئندہ ان مقاصد کے حصول اور تکمیل کے لیے ہم کیا عزائم رکھتے ہیں، اور ہم نے کیا انتظامات سوچے ہیں۔

آخر میں، میں پھر آپ کی عزت افزائی، اعتماد اور جذبہ محبت واحترام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس کا آپ نے اپنے اس اقدام کی شکل میں اظہار فرمایا ہے۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(مارچ ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter