امریکہ کا خدا بیزار سسٹم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۶ فروری ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا میں سینٹ کے ریاستی ارکان نے ایک یادگاری سکہ پر ’’ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں امریکہ کے قدیم باشندوں ’’ریڈ انڈین‘‘ کے اعزاز اور توقیر کے لیے ایک سلور ڈالر جاری کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس پر جنگلی بھینس کی تصویر کے ساتھ IN GOD WE TRUST (ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں) کے الفاظ کندہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ چاندی کا یہ یادگاری سکہ سکولوں میں بھی آویزاں کرنے کی تجویز ہے مگر ریاستی سینٹ کے ارکان نے سرکاری سکولوں میں یہ ماٹو آویزاں کرنے کے مسودہ قانون کو رد کر دیا ہے۔ خبرنگار کے تبصرہ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح امریکہ میں ریاست اور کلیسا کی علیحدگی کے آئینی تصور نے خدا کی ذات کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔

امریکہ کے آئین میں خدا، بائبل، کلیسا اور مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر ریاستی معاملات میں ان کے کسی قسم کے تعلق یا مداخلت کی نفی کی گئی ہے اور اسی بنیاد پر کسی بھی ریاستی، قانونی یا اجتماعی معاملہ کے حوالے سے مذاہب کے ذکر کو وہاں پسند نہیں کیا جاتا بلکہ قانونی طور پر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اجتماعی معاملات میں خدا، بائبل، کلیسا اور مذہب کی دخل اندازی سے شہریوں کی آزادی رائے، خود مختاری اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق مجروح ہوتا ہے اس لیے مذہب اور اس کے متعلقات کو فرد کے ذاتی معاملات تک محدود رکھا جائے، ریاستی اور اجتماعی امور کے تعین پر صرف اور صرف سوسائٹی کا اختیار باقی رہنے دیاجائے اور سوسائٹی کی اکثریت کسی بھی معاملہ میں جو فیصلہ کر دے، اسے حرف آخر تصور کیا جائے۔ اسی فلسفہ اور تصور کا نام سیکولر ازم ہے اور یہ فلسفہ نہ صرف دنیا کی اکثر حکومتوں کے دساتیر کی بنیاد ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے قواعد وضوابط اور فیصلوں کی پشت پر بھی اسی فلسفہ اور تصور کی کارفرمائی ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر ’’سیکولر ازم‘‘ کو ’’غیر فرقہ وارانہ حکومت‘‘ کے معنی میں پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیکولر ازم کی بنیاد مذہب کی نفی پر نہیں بلکہ اس سے مراد کسی ایک فرقہ پر دوسرے فرقہ کی بالادستی کو روکنا ہے اس لیے اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ محض ایک فریب کاری ہے اور اس کا اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ جس فلسفہ اور نظام میں خدا کے نام اور اس پر بھروسہ کے الفاظ کو محض علامتی طور پر کسی ماٹو میں بھی قبول کرنے کی گنجائش نہ ہو ، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مذہب یا اس کی کسی بنیاد کی نفی نہیں کرتا، بلکہ صرف رواداری کی تلقین کرتا ہے، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اس مسئلہ کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ، سیکولر ممالک اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے اجتماعی نظام اور دستور وقانون کے حوالے سے مسلم ممالک سے جو تقاضے کیے جا رہے ہیں اور ان کے سامنے جو ایجنڈا اب تک پیش کیا گیا ہے، اس میں صرف فرقہ وارانہ رواداری کے معاملات شامل نہیں ہیں بلکہ ریاستی نظام کو مذہب اور مذہبی اقدار سے کلیتا لا تعلق کردینے کے مطالبات بھی اس ایجنڈے کا حصہ ہیں اور پارلیمنٹ کے غیر مشروط اختیارات اور قانون سازی میں عوامی نمائندوں کو فائنل اتھارٹی قرار دینے کا تصور ریاستی نظم سے مذہب کو بے دخل کر دینے ہی کا دوسرا رخ ہے۔

مذکورہ خبر میں ’’ریڈ انڈین‘‘ کا بھی تذکرہ ہے جن کی توقیر اور اعزاز کے لیے یہ یادگاری سکہ جاری کیا جا رہا ہے۔ ’’ریڈ انڈین‘‘ امریکہ کے اصل اور قدیمی باشندے ہیں۔ جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو امریکہ بالکل غیر آباد براعظم نہیں تھا بلکہ وہاں پہلے سے انسان آباد تھے حتی کہ اب یہ بات تحقیقی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ عرب اور مسلمان کولمبس سے بہت پہلے امریکہ پہنچ چکے تھے لیکن اسی دور میں اندلس کی اسلامی ریاست کے خاتمہ اور صلیبی قوتوں کے تسلط کے باعث امریکہ میں بھی مسلمانوں کے بجائے عیسائی یورپیوں نے قبضہ جما لیا اور پھر امریکہ یورپی آباد کاروں ہی کا ملک بن کر رہ گیا حتی کہ امریکہ کی اصل آبادی کو بھی ان یورپیوں نے ’’ریڈ انڈین‘‘ کا نام دے کر اچھوت بنا دیا اور رفتہ رفتہ پورے نظام سے بے دخل کر دیا۔ ’’ریڈ انڈین’’ آج بھی امریکہ میں موجود ہیں لیکن امریکی نظام میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں اور انہیں ان کے جائز حقوق دینے کے بجائے ان کے اعزاز وتوقیر کے لیے ’’یادگاری سکے‘‘ جاری کر کے انہیں بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

بہرحال یہ امریکہ کے ’’خدا بیزار سسٹم‘‘ کی ایک جھلک ہے جسے بین الاقوامی فلسفہ اور ورلڈ سسٹم کے نام پر پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن قرآن وسنت کی ابدی اور آفاقی تعلیمات پر یقین رکھنے والے مسلمانوں اور اہل دین کے ہوتے ہوئے یہ خواب کبھی تعبیر کی منزل حاصل نہیں کر سکے گا۔

مشاہدات و تاثرات

(مارچ ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter