جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ اسلام آباد اور راول پنڈی کے زیر اہتمام اسلام آباد اور راول پنڈی کے سینکڑوں علماء کرام نے ۶ فروری ۲۰۰۱ء کو اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے خاموش مظاہرہ کیا اور اقوام متحدہ کے سفارتی افسران کو مندرجہ ذیل یادداشت پیش کی۔ مظاہرہ کی قیادت پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا قاری سعید الرحمن کے ہمراہ جمعیۃ اہل السنۃ کے راہ نماؤں مولانا قاری محمد نذیر فاروقی، مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا قاری محمد زرین، مولانا ظہور احمد علوی، مولانا عبد الخالق، مولانا گوہر رحمان، مولانا حافظ محمد صدیق اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے کی۔
جناب سیکرٹری جنرل صاحب اقوام متحدہ
جناب عالی!
پاکستان میں دینی رہنماؤں کے خلاف جاری دہشت گردی کے حوالے سے چند معروضات گوش گزار کرنے کے لیے یہ عریضہ پیش خدمت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق آپ اس سلسلہ میں ذاتی دلچسپی لے کر متاثرین کی داد رسی کریں گے۔
۱۔ دین اسلام ایک فطری دین ہے اوراس میں ہر انسان کو مکمل تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی دینی، مذہبی، سیاسی اور معاشی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا اور اس کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ اللہ کریم کا یہ واضح حکم جو مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم میں موجود ہے، یہ ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جب مدینے کی طرف ہجرت فرمائی تو مدینہ میں یہودی آباد تھے۔ حضرت محمد ﷺ نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو چودہ نکات پر مشتمل تھا اور میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے میں یہودیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ دنیا کا یہ عظیم الشان اور اعلی ترین معاہدہ آنحضرت ﷺکی سیرت کی کتابوں میں اصل الفاظ کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں انسانی حقوق کی رعایت اس حد تک کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی تیز دھار آلہ مثلا چھری وغیرہ کسی کو پکڑائے تو اس کی دھار دوسرے شخص کی طرف نہ کرے بلکہ اس کا دستہ اس کو دے، کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی لا پروائی سے اس شخص کا ہاتھ زخمی ہو جائے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص نیزہ یا تیز دھار والی کوئی چیز ہاتھ میں لے کرہجوم کی جگہ مثلا بازار وغیرہ میں چلے تو اس کی دھار کی نوک اپنے ہاتھ میں پکڑے تاکہ اس سے کسی شخص کے زخمی ہونے کا اندیشہ نہ رہے۔ اور صرف انسانوں کی بات نہیں، ہمارے دین اور ہمارے آقا ﷺ نے ہمیں جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ حقوق کے حوالے سے ہمارے نبی کریم ﷺ کی یہ تعلیمات اور ارشادات آپ کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہیں اور ہر فرد بشر ان کا مطالعہ کر کے ان سے آگاہی حاصل کر سکتاہے۔
صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں علماء کرام ،دینی مدارس کے فضلا اور مدارس سے متعلق افراد اسی تعلیم کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ یہ صرف زبانی کلامی دعوے کی بات نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی بات ہے جس کو ہر ذی شعور تسلیم کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آج تقریبا" دنیا کے اکثر ممالک میں پاکستانی دینی مدارس کے فارغ التحصیل علما، حفاظ اور قرا موجود ہیں۔ ان کی نگرانی کر کے، ان کی باتیں سن کر، ان کے خیالات وافکار سے آگاہی حاصل کر کے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کو کس قسم کی تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اگر بیرون دنیا میں ان کا کردار، ان کی تعلیم اورطرز تعلیم صحیح اور انسانیت کے مطابق ہے تو یہ اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ ان کا نظام تعلیم انہی مثبت خطوط کے مطابق ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ چودہ پندرہ سال دہشت گردی، تخریب کاری، لڑائی بھڑائی، مارو جلاؤ اور گھیراؤ کی تعلیم حاصل کریں اور فارغ ہونے کے بعد یہ ساری تربیت بھول کر ایک شریف، امن پسند مصلح معاشرہ اور عابد وزاہد کا روپ دھار لیں اور ان کی پوری زندگی میں اس تعلیم کی جھلک تک نظر نہ آئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دینی مدارس میں کسی منفی پہلو کی تعلیم نہیں دی جاتی۔
۲۔ پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے بعض دوسرے ممالک میں دو طرز ہائے تعلیم موجود ہیں: ایک انگریزی یا عصری طرز تعلیم اور دوسرا دینی ومذہبی طرز تعلیم۔ ان دونوں طریقوں کی ہزاروں درس گاہیں موجود ہیں لیکن دونوں میں ایک واضح فرق ہے۔ عصری تعلیم کی درسگاہوں میں طلبہ کے آپس کے اختلافات، اساتذہ کے خلاف ہڑتالیں، ہم درس افراد کا قتل، سڑکیں بلاک کرنا، جلاؤ گھیراؤ، پتھراؤ، سرکاری وغیر سرکاری املاک کی تباہی، یونین سازی، افراتفری روزمرہ کا معمول ہیں لیکن دینی مدارس میں آج تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا لیکن منفی پروپیگنڈا دینی مدارس اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف ہی کیا جاتا ہے۔
دینی مدارس پر دہشت گردی، مذہبی منافرت، قتل وغارت گری کا الزام تو بڑے زور وشور سے عائد کیا جاتا ہے لیکن آج تک کوئی ادارہ، تنظیم اس الزام کو ایک فیصد بھی ثابت نہیں کر سکی۔ حکومت پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل سے رپورٹ مرتب کرائی۔ مرتب کنندگان نے جب رپورٹ پیش کی تو سات جگہوں کی نشان دہی کی کہ یہاں دہشت گردی ہوئی ہے۔ جب اراکین نے دریافت کیا کہ ان سات جگہوں نے دہشت گردی کی ہے یا یہ دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں تو بتایا گیا کہ یہ جگہیں دہشت گردی کا نشانہ بنی ہیں، انہوں نے کہیں دہشت گردی نہیں کی۔
دینی مدارس اور دینی رہنما اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف اور انصاف کے علمبردار ہیں اور حق وصداقت کی بات کرتے ہیں۔
۳۔ پاکستان میں ایک عرصہ سے دینی مدارس، مساجد،امام بارگاہوں اور خانقاہوں کے خلاف ایک منظم سازش شروع ہے۔ مساجد، مدارس اور امام بارگاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں، گولیاں چلائی جاتی ہیں، نمازیوں کو شہید کیا جاتا ہے، علماء کرام کو قتل کیا جاتا ہے اور بد امنی پھیلائی جاتی ہے۔ اب تک سینکڑوں علما اور ذاکرین کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ان میں مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ایثار القاسمی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، صادق حسین، مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، مولانا مفتی عبد السمیع، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا محمد عبد اللہ، علامہ عارف الحسینی، علامہ مرید عباس یزدانی، مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا احسان اللہ فاروقی، مولانا احسان الہی ظہیر، جناب سید صلاح الدین، جناب حکیم سعید جیسے حضرات شامل ہیں۔ جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو برسراقتدار افراد کے لگے بندھے بیانات چھپنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ہم مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے، ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ، یہ بزدلانہ حرکت ہے، اس سے ہمارے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے، مجرموں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے بیانات داغ دیے جاتے ہیں اور چند دنوں کے لیے مساجد اور امام بارگاہوں کے پہرے کا نظام شروع کر دیا جاتا ہے جوآہستہ آہستہ نرم کر دیا جاتا ہے اور مجرموں کو پھر کارروائی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔بعض دفعہ شہید کے لواحقین کچھ لوگوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، تفتیش میں مدد دیتے ہیں، دلچسپی ظاہر کرتے ہیں لیکن ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر حکومت کی طرف سے مقرر تفتیشی ٹیم متوفی کے پس ماندگان کو صاف صاف کہہ دیتی ہے کہ اب آپ خاموش ہو جائیں، اس سے آگے تفتیش نہیں بڑھائی جا سکتی۔ اگر لواحقین اصرار کریں تو ان سے واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ اس مسئلہ کو چھوڑ دیں ورنہ آپ کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، آپ کے بچے اغوا ہو سکتے ہیں، آپ کو قتل کیا جا سکتا ہے وغیرہ۔ اس طرح کی دھمکیاں دے کر ان کو چپ کرا دیا جاتا ہے۔ مولانا محمد عبد اللہ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار وغیرہ حضرات کے کیسوں میں اسی طرح لواحقین کی زبان بند کرائی گئی ہے۔
پاکستان میں شیعہ سنی علمی اختلاف تو ضرور موجود ہے لیکن قتل وغارت گری کا اختلاف اتنے وسیع پیمانے پر موجود نہیں ہے، تاہم ہمیں اس بات کا ضرور اقرار کرنا چاہئے کہ شیعہ سنی اختلافات کی وجہ سے کہیں کہیں کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن ان فرقوں کے مابین باقاعدہ جنگ کی کوئی کیفیت نہیں ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ جب شیعہ یا سنی کسی بھی فریق کے افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہیں تو دوسرے فریق کی طرف سے اس کی مذمت کی جاتی ہے اور متاثرہ فریق کو انصاف مہیا کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔ اس لیے شیعہ سنی اختلاف تو موجود ہے، شیعہ سنی جنگ نہیں۔ اس کا دوسراثبوت یہ ہے کہ ایک ہی آبادی میں، اڑوس پڑوس میں شیعہ سنی اکٹھے رہتے اور کاروبار اور لین دین کرتے ہیں۔
۴۔ موجودہ حالات کے پیش نظر پاکستان کے علماء کرام آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ بین الاقوامی انسانی حقوق کے سٹیج پر اس بات کی رپورٹ طلب کریں اور حکومت پاکستان سے اس قتل وغارت گری، دہشت گردی، لوٹ مار، افراتفری کی وجہ دریافت کریں کہ بلا وجہ علماء کرام، دینی مدارس، مساجد، امام بارگاہوں کو تخریب کاری کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے اور ان مسلسل واقعات کا کوئی بھی مجرم آج تک کیوں کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکا؟ اگر حکومت تحفظ فراہم کرنے میں ناکام یا معذور ہے تو پھر ان اداروں کو مطلع کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری ان معروضات پر ہمدردی سے غور کریں گے اور مناسب اقدام کریں گے۔ اگر آپ کوئی اقدام نہیں کرسکتے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اقوام متحدہ علما کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات سے باخبر ہونے کے باوجود مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔