قرآن مجید دین کا بنیادی ماخذ ہے۔ چنانچہ وہ جہاں دین کے بنیادی احکام بیان کرتا ہے، وہاں ان دوسرے مآخذ کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے جن کی مدد سے عملی زندگی کے مختلف مسائل کے حل کے لیے ایک مفصل ضابطہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فقہ اسلامی کے تمام بنیادی مآخذ کا ثبوت خود قرآن مجید سے ملتا ہے۔
فقہ اسلامی کے مآخذ دو طرح کے ہیں: نقلی اور عقلی۔ نقلی مآخذ میں قرآن کے علاوہ سنت، اجماع اور سابقہ شریعتیں شامل ہیں، جبکہ عقلی مآخذ کے تحت قیاس، مصالح مرسلہ، سد ذرائع، عرف اور استصحاب حال زیر بحث آتے ہیں۔
سنت
قرآن مجید نہایت واضح طور پر سنت کو دین کا ماخذ قرار دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری محض یہ نہیں تھی کہ آپ کتاب اللہ کو پہنچا دیں بلکہ اس کی تبیین اور اس کے احکام کی تشریح بھی آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھی۔چنانچہ ارشاد ہے:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ۔
یقیناًاللہ نے مومنوں پر انہی میں ایک رسول بھیج کر بڑا احسان کیا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا، اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ (۱)
سورۂ نحل میں ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم۔
اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی جو ایک یاددہانی ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تبیین کریں۔ (۲)
قرآن مجید واشگاف انداز میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کوایمان کی بنیاد قرار دیتا اور آپ کی اتباع کو لازم قرار دیتا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہے:
یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر۔
اے ایمان والو، اللہ کی، اس کے رسول کی اور اپنے اہل حل وعقد کی اطاعت کرو۔ اگر کسی بات میں تمہارا باہم اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ (۳)
سورۃ النساء ہی میں ہے:
فلا وربک لایومنون حتی یحکموک فی ما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما۔
آپ کے رب کی قسم، یہ ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنے باہمی تنازعات میں حکم تسلیم نہ کر لیں اور پھر آپ جو بھی فیصلہ کریں، اس سے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہ کریں اور اس کو پوری طرح تسلیم کر لیں۔ (۴)
سورۃ النور میں ہے:
فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم۔
تو وہ لوگ جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اس بات سے ڈریں کہ ان پر کوئی آزمائش آن پڑے یا ایک دردناک عذاب ان کو اپنی گرفت میں لے لے۔ (۵)
سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے :
وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا۔
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کو طے کر دیں تو وہ اپنا اختیار استعمال کریں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، وہ کھلی گمراہی میں جا پڑے گا۔ (۶)
سورۃ الحشر میں فرمایا:
وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔
اور رسول تمہیں جو حکم دیں، اس کو لے لو اور جس کام سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔ (۷)
اجماع
قرآن وسنت کے بعد اجماع فقہ اسلامی کاتیسرا ماخذ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے لیے قرآن مجید کی درج ذیل آیات سے استدلال کیا گیا ہے:
سورۃ آل عمران میں فرمایا:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ۔
تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (پر حق کی شہادت دینے) کے لیے مامور کیا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (۸)
سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا۔
اور جس نے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کی اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر چلا، تو ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا اور اس کو جہنم میں جلائیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ (۹)
سابقہ شریعتوں کے احکام
پچھلی شریعتوں کے جن احکام کا ذکر قرآن نے کیا ہے اور ان کے منسوخ ہونے پر کوئی قرینہ نہیں، وہ بھی فقہ اسلامی میں حجت تسلیم کیے گئے ہیں۔ مثلا سورۃ النساء میں فرمایا:
وکتبنا علیہم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والجروح قصاص۔
اور ہم نے تورات میں ان پر لازم کیا کہ جان کے بدلے جان ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ (۱۰)
بعض اہل علم نے مرتد کے لیے قتل کی سزا پر سورۂ بقرہ میں بنو اسرائیل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تو اللہ تعالی نے سزا کے طور پر حکم دیا:
فاقتلوا انفسکم۔
تم اپنے ساتھیوں کو قتل کرو۔ (۱۱)
قیاس
فقہ اسلامی کے عقلی مآخذ میں پہلا ماخذ قیاس ہے اور اس کی حجیت بھی قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورۃ الحشر میں اللہ تعالی نے بنو نضیر کی جلا وطنی کا حال بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:
فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اے اہل نظر، ان کے حال سے عبرت حاصل کرو۔ (۱۲)
عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حال پر اپنے حال کو قیاس کرو اور ان کاموں سے بچو جن کی پاداش میں یہود کو یہ سزا دی گئی۔
اس کے علاوہ قرآن مجید نے بعض نظائر کے ذریعے سے بھی اہل علم کو قیا س کی تعلیم دی ہے۔ سورۃ الانعام میں حرام اشیا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس او فسقا اھل لغیر اللہ بہ۔
تم کہہ دو کہ مجھ پر جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا دم مسفوح ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا کوئی ایسا جانورہو جسے گناہ کرتے ہوئے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ (۱۳)
اس آیت میں حصر کے ساتھ چار چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے، لیکن ساتھ ساتھ خنزیر کو ناپاک اور ما اہل لغیر اللہ کو فسق قرار دیتے ہوئے ان کی حرمت کی علت بھی بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح مردار اور دم مسفوح کی حرمت بھی علت پر مبنی ہے۔ چنانچہ خود قرآن نے سورہ مائدہ میں انہی علتوں کی بنیاد پر چند اور چیزیں بھی محرمات کی فہرست میں شامل کی ہیں:
حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ والمنخنقۃ والموقوذۃ والمتردیۃ۔
تم پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں :مردار، خون، خنزیر کا گوشت ، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور، ایسا جانور جو گلا گھٹنے سے، چوٹ لگنے سے،
والنطیحۃ وما اکل السبع الا ما ذکیتم وما ذبح علی النصب وان تستقسموا بالازلام ذلکم فسق۔
اوپر سے نیچے گر کر یا سینگ لگنے سے مر جائے، ایسا جانور جس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو، (یہ سب حرام ہیں) صرف وہ جانور حلال ہے جسے تم نے ذبح کیا ہو۔ ایسا جانور بھی حرام ہے جسے کسی تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ تم تیروں کے ذریعے سے گوشت تقسیم کرو۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ (۱۴)
یہاں علت کی بنا پر پانچ چیزوں کا الحاق میتہ کے ساتھ اور دو چیزوں کا الحاق ما اہل لغیر اللہ کے ساتھ کیا گیا ہے اور آگے علت بھی بیان کی گئی ہے کہ ذلکم فسق۔ یعنی جیسے طبعی موت مرنے والا جانور شرعی طریقے سے ذبح نہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے، اسی طرح گلا گھٹنے کی وجہ سے، گر کر، اور سینگ لگنے کی وجہ سے مرنے والے جانور بھی حرام ہیں۔ اور جیسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور اعتقادی فسق کی وجہ سے حرام ہے، اسی طرح وہ جانور بھی حرام ہے جسے استھانوں پر ذبح کیا گیا ہو یا مشرکانہ طریقے سے اس پر جوئے کے تیر چلائے گئے ہوں۔
مصالح مرسلہ
قرآن مجید جگہ جگہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی جو شریعت انسانوں کے لیے نازل کی ہے، اس کا مقصد انسانوں کی صلاح وفلاح اور ان کی دنیاوی واخروی بہبود ہے۔ شریعت کے تمام احکام میں عقل وفطرت پر مبنی انسانی مصالح کی رعایت کی گئی ہے۔ مصالح کا مفہوم دو لفظوں میں جلب منفعت اور دفع حرج یعنی فائدے کا حصول اور نقصان کو دور کرناہے اور قرآن مجید ان کو دین کے بنیادی اصولوں کی حیثیت سے بیان کرتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر۔
اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔ (۱۵)
سورۃ النساء میں فرمایا:
یرید اللہ ان یخفف عنکم۔
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے سختی کو ہٹا دے۔ (۱۶)
سورۃ الحج میں فرمایا:
ما جعل علیکم فی الدین من حرج۔
اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ (۱۷)
بہت سے جزوی احکام کے ذکر کے تحت بھی قرآن مجید نے ان اصولوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ لے پالک بیٹے کے حکم کے ضمن میں فرمایا:
لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاءھم اذا قضوا منھن وطرا۔
تاکہ مسلمانوں کو اپنے لے پالک بیتوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ ہو جب وہ ان سے قطع تعلق کر لیں۔ (۱۸)
تیمم کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا :
ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج۔
اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے۔ (۱۹)
وراثت کی تقسیم کے ضمن میں فرمایا:
لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا۔
تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے پہلو سے تمہارے زیادہ قریب ہے (اس لیے اللہ نے یہ حصے خود متعین کر دیے ہیں) (۲۰)
کھانے پینے میں حرام اشیا کے ذکر کے بعد فرمایا:
فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ۔
تو جو مجبور ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ خواہش نفس کے تحت اور ضرورت سے زیادہ نہ کھائے۔ (۲۱)
بچے کی رضاعت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لا تضار والدۃ بولدھا ولا مولود لہ بولدہ۔
نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ باپ کو (۲۲)
کفار کے ظلم کا شکار مسلمانوں کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر۔
اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔ (۲۳)
قصاص کے قانون کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب۔
اے ارباب عقل، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ (۲۴)
دس گنا دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ میں ٹھہرنے کے حکم کو منسوخ کرکے فرمایا:
الآن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفا۔
اب اللہ نے تمہارے لیے تخفیف کر دی اور جان لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے۔ (۲۵)
مال فے کی تقسیم کے بارے میں ہدایات دینے کے بعد فرمایا:
کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم۔
تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ مال تمہارے مال داروں کے مابین ہی گردش کرتا رہے۔ (۲۶)
سورۃ البقرۃ میں دیت کا حکم دے کر فرمایا:
ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ۔
یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی اور مہربانی ہے۔ (۲۷)
سورۃ البقرۃ میں یتیموں کے مال کو سرپرستوں کے مال میں ملا لینے کی اجازت دینے کے بعد فرمایا:
ولو شاء اللہ لاعنتکم۔
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (لیکن اللہ آسانی چاہتا ہے) (۲۸)
اس سے واضح ہے کہ جب شریعت کے منصوص احکام میں تمام تر انسانی مصالح ملحوظ ہیں تو غیر منصوص احکام میں بھی ان مصالح کی رعایت ملحوظ رہنی چاہئے، چنانچہ جمہور فقہا نے، جزوی اختلافات سے قطع نظر،اصولی طور پرمصالح کو فقہ اسلامی کا ایک اہم ماخذ تسلیم کیا ہے۔
سد ذرائع
سد ذرائع کا اصول درحقیقت ان مصالح ہی کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے جن کی شریعت میں رعایت کی گئی ہے۔ ا س کا مطلب ہے ان چیزوں سے بچنا جو کسی پہلو سے شریعت کے معین کردہ مصالح کو نقصان پہنچا سکتی یااس کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب کا باعث بن سکتی ہیں۔قرآن مجید نے اس اصول کی بھی وضاحت کی ہے اور اسے بہت سے شرعی احکام کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے:
سورۂ نور میں دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے متعلق بعض ہدایات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون۔
یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو (۲۹)
اسی سلسلہ بیان میں آگے لباس کے بارے میں بعض ہدایات دے کر فرمایا:
ذلک ازکی لھم۔
یہ ان کیلیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (۳۰)
اسی طرح سورۃ الاحزاب میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج کو مخاطب کر کے فرمایا:
فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا۔
تم نرم لہجے میں بات نہ کرو، تاکہ وہ آدمی جس کے دل میں بیماری ہے، کسی توقع میں مبتلا نہ ہو، اور بھلے طریقے سے بات کرو۔ (۳۱)
آگے ازواج مطہرات کے حوالے سے امت کو بعض آداب کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا:
ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن۔
یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ (۳۲)
اسی ضمن میں آگے چل کر مسلمان عورتوں کے لیے حجاب کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا:
ذلک ادنی ان یعرفن فلا یؤذین۔
یہ اس بات کے زیادہ قرین ہے کہ ان کا (آوارہ عورتوں سے) امتیاز ہو جائے اور ان کو ایذا نہ پہنچائی جائے۔ (۳۳)
اس سے واضح ہے کہ مذکورہ تمام ہدایات کا مقصد معاشرتی شرم وحیا اور خانگی پردہ داری کی حفاظت ہے جو ظاہر ہے کہ ان ہدایات کی پامالی کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتی۔
قرآن مجید میں بعض ایسے معاملات میں بھی سد ذرائع کے تحت بعض ہدایات دی گئی ہیں جن کا تعلق بنیادی طور پر دین وشریعت سے نہیں بلکہ دیگرانفرادی یا اجتماعی مصلحتوں سے ہے :
سورۃ البقرۃمیں گواہی سے متعلق ہدایات کے ضمن میں ارشاد ہے:
فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتین ممن ترضون من الشھداء ان تضل احداھما فتذکر احداھما الاخری۔
اگر گواہی کے لیے دو مرد نہ مل سکیں تو پھر اپنے پسندیدہ گواہوں میں سے ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو تاکہ اگر ایک بھولے تو دوسری اس کو یاد کرا دے۔ (۳۴)
مزید فرمایا:
ولا تسئموا ان تکتبوہ صغیرا او کبیرا الی اجلہ ذلکم اقسط عند اللہ واقوم للشھادۃ وادنی الا ترتابوا ۔
معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی باہم طے ہونے والی مدت کو لکھ لینے سے مت اکتاؤ۔ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والاہے، گواہی کے لحاظ سے بھی بہتر ہے اور اس کے بھی زیادہ قرین ہے کہ تم کسی شک وشبہے میں مت پڑو۔ (۳۵)
سورۂ آل عمران میں کفار کے ساتھ دوستی کی حدود بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے:
یایھا الذین آمنوا لا تتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم خبالا ودوا ما عنتم۔
اے ایمان والو، کفار کو اپنا بھیدی نہ بناؤ۔ وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور تمہارے مشقت میں پڑنے کو پسند کرتے ہیں۔ (۳۶)
سورۃ النسائمیں اہم معاملات سے متعلق اطلاعات اور خبروں کے حوالے سے درج ذیل ہدایت دی:
واذا جاء ھم امر من الامن او الخوف اذاعوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم۔
اور جب امن یا جنگ کی کوئی بات ان تک پہنچتی ہے تو یہ فورا اس کو نشر کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ اسے رسول یا اپنے اہل حل وعقد کے پاس لے جاتے تو ان میں سے معاملے کی گہرائی تک پہنچنے والے لوگ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے۔ (۳۷)
اسی طرح قرآن مجید کے درج ذیل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ سد ذرائع کے تحت بعض مباح چیزوں کو واجب کیا جا سکتا اور بعض پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے:
رسول اللہ ﷺ کی مجالس میں مسلمانوں کو اگر کسی بات کی وضاحت دریافت کرنا ہوتی تو وہ آپ ﷺ کو راعنا (یعنی ہمارا لحاظ کیجئے) کے لفظ سے مخاطب کرتے۔ یہود مدینہ شرارت اور گستاخی کے لیے اسی لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر یوں ادا کرتے راعینا (ہمارا چرواہا) چنانچہ اللہ تعالی نے یہ ہدایت نازل فرمائی کہ مسلمان راعنا کا لفظ ہی استعمال نہ کریں تاکہ یہود کو یہ خباثت کرنے کا موقع نہ مل سکے:
یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا۔
اے اہل ایمان، تم راعنا مت کہا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو۔ (۳۸)
رسول اللہ ﷺ کو تنگ کرنے کے لیے منافقین نے یہ روش اپنائی تھی کہ وقت بوقت رسول اللہ ﷺ کے پاس آ جاتے اور محض آپ کا وقت ضائع کرنے کے لیے بے مقصد باتیں کرتے رہتے۔ قرآن مجید نے ان کی اس شرارت کا سد باب کرنے کے لیے حکم دیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺسے مشورہ کرنا چاہیں، وہ اس سے پہلے صدقہ کر کے آئیں:
اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدیکم نجواکم صدقۃ۔
جب تم رسول سے کوئی مشورہ کرنا چاہو تو مشورے سے پہلے صدقہ کر کے آیا کرو۔ (۳۹)
عرف
کسی معاشرے کا عرف ورواج اگر شریعت کے منصوص احکام یا اس کے مزاج کے خلاف نہ ہو تو فقہ اسلامی میں وہ قانون سازی کے ایک مستقل ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے جن احکام کے ضمن میں معاشرے کے رواج کی پیروی کی ہدایت کیہے، ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
۱۔ دیت:
فمن عفی لہ من اخیہ شئی فاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان۔
پس جس کو اپنے بھائی کی طرف سے معافی مل جائے تو وہ دستور کی پیروی کرے اور اچھے طریقے سے اس کو دیت ادا کر دے۔ (۴۰)
۲۔ عورتوں کی خانگی ذمہ داریاں اور حقوق:
ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔
دستور کے مطابق ان کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ (۴۱)
۳۔ عورتوں کا نفقہ:
وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف۔
بچے کی ماں کا نفقہ اور اس کا کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہے۔ (۴۲)
۴۔ اجرت رضاعت:
لا جناح علیکم اذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف۔
تم پر کوئی حرج نہیں (کہ بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے) اگر تم وہ اجرت ان کو دو جو تم نے دستور کے مطابق دینا طے کی ہے۔ (۴۳)
۵۔ بیوہ عورتوں کا حق نکاح :
فلا جناح علیکم فی ما فعلن فی انفسھن بالمعروف۔
تو دستور کے مطابق وہ اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں، اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (۴۴)
۶۔ مطلقہ عورتوں کے لیے متاع:
وللمطلقات متاع بالمعروف۔
اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ سامان دے دو۔ (۴۵)
۷۔ یتیم کے سرپرست کااس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا:
ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف۔
جو محتاج ہے تو وہ دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ (۴۶)
۸۔ عورتو ں کا مہر:
وآتوھن اجورھن بالمعروف۔
دستور کے مطابق ان کو ان کے مہر دو۔ (۴۷)
استصحاب حال
استصحاب حال کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بوقت نزاع کسی خاص حالت میں موجود ہے تو اس کی اسی حالت کو درست سمجھا اور اسے اسی پر برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ ہو جائے۔ قرآن مجید میں اس اصول کا اطلاق قذف کے مسئلے میں ملتا ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد ہے:
والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ۔
اورجو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں پھر اس پر چار گواہ نہیں لاتے تو تم ان کو اسی (۸۰) درے لگاؤ۔ (۴۸)
یعنی چونکہ ان عورتوں کی عام شہرت پاک دامن ہونے کی ہے اور ان کے چال چلن کے بارے میں معاشرے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں پائے جاتے، اس لیے قانون کی نظر میں وہ پاک دامن ہی شمار ہوں گی اور اگر کوئی ان پر بدکاری کا الزام لگاتا ہے تو اس کا ثبوت اس کے ذمے ہے اور اس کے لیے اسے چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے، ورنہ اسے جھوٹا قرار دے کر اس پر قذف کی حد جاری کی جائے گی۔
حوالہ جات
(۱) آل عمرا ن : ۱۶۴
(۲) النحل : ۴۴
(۳) النساء : ۵۹
(۴) النساء : ۶۵
(۵) النور : ۶۳
(۶) الاحزاب : ۳۶
(۷) الحشر : ۷
(۸) آل عمران : ۱۱۰
(۹) النساء : ۱۱۵
(۱۰) المائدہ : ۴۵
(۱۱) البقرہ : ۵۴
(۱۲) الحشر : ۲
(۱۳) الانعام : ۱۴۶
(۱۴) المائدہ : ۳
(۱۵) البقرہ : ۱۸۵
(۱۶) النساء : ۲۸
(۱۷) الحج : ۷۸
(۱۸) الاحزاب : ۳۷
(۱۹) المائدہ : ۶
(۲۰) النساء : ۱۱
(۲۱) البقرہ :۱۷۳
(۲۲) البقرہ :۲۳۳
(۲۳) الانفال : ۷۳
(۲۴) البقرہ : ۱۷۹
(۲۵) الانفال : ۶۶
(۲۶) الحشر : ۷
(۲۷) البقرہ : ۱۷۸
(۲۸) البقرہ :۲۲۰
(۲۹) النور : ۲۷
(۳۰) النور :۳۰
(۳۱) الاحزاب : ۳۲
(۳۲) الاحزاب : ۵۳
(۳۳) الاحزاب : ۵۹
(۳۴) البقرہ : ۲۸۲
(۳۵) البقرہ : ۲۸۲
(۳۶) آل عمران : ۱۱۸
(۳۷) النساء : ۸۳
(۳۸) البقرہ : ۱۰۴
(۳۹) المجادلہ : ۱۲
(۴۰) البقرہ : ۱۷۸
(۴۱) البقرہ : ۲۲۸
(۴۲) البقرہ : ۲۳۳
(۴۳) البقرہ : ۲۳۳
(۴۴) البقرہ : ۲۳۴
(۴۵) البقرہ : ۲۴۱
(۴۶) النساء : ۶
(۴۷) النساء : ۲۵
(۴۸) النور : ۴