مشکلات ومصائب میں سنت نبویؐ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مدیر ’’الشریعہ‘‘ مولانا زاہد الراشدی نے ۱۲ جنوری سے ۲۱ جنوری ۲۰۰۱ء تک متحدہ عرب امارات کا تبلیغی دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور متعدد علمی ودینی مراکز میں گئے۔ انہوں نے یہ دورہ جمعیۃ طلباء اسلام پاکستان کے سابق راہ نما جناب محمد فاروق شیخ اور جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کے سیکرٹری اطلاعات حافظ بشیر احمد چیمہ کی دعوت پر کیا اور دبی ، شارجہ، عجمان، ام القوین، راس الخیمۃ اور الفجیرۃ کی ریاستوں میں احباب سے ملاقاتیں کیں۔ اتفاق سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن صاحب بھی ان دنوں متحدہ عرب امارات کے دورے پر تھے چنانچہ دونوں راہ نماؤں نے دبی کی مسجد الغریر، مسجد الرفاعۃ اور مسجد بلال بن رباحؓ میں عام اجتماعات سے خطاب کیا اور حافظ بشیر احمد چیمہ کی طرف سے دیے گئے عصرانہ میں شرکت کی۔ مسجد بلال بن رباحؓ میں عام اجتماع سے مولانا زاہد الراشدی کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ)


بعد الحمد والصلوۃ۔ آج کے اس اجتماع سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمن تفصیلی خطاب کریں گے۔ ان سے قبل مجھے کچھ گزارشات پیش کرنے کو کہا گیا ہے، ا س لیے بطور تمہید چند باتیں آپ سے عرض کروں گا۔ مجھ سے پہلے ہمارے فاضل دوست مولانا مفتی عبد الرحمن نے اپنے خطاب میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ذکر کیا ہے اور اسے درپیش مشکلات کا حوالہ دیا ہے۔ بلا شبہ ’’طالبان‘‘ آج کے دور کا مظلوم ترین طبقہ ہے جس کے خلاف کفر ونفاق کی پوری دنیا متحد ہو گئی ہے اور انہیں عالمی استعمار کے سامنے جھکانے یا مٹا دینے کے لیے منصوبے بن چکے ہیں۔

طالبان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کا صرف نام نہیں لیتے بلکہ اپنے ملک میں اسلامی احکام وقوانین کو عملی طور پر نافذ بھی کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ کسی قسم کے بین الاقوامی دباؤ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا اصل جرم یہی ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف پابندیوں اور ان کی اقتصادی ناکہ بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات کوئی نئی نہیں ہے، اس سے قبل بھی اہل حق اس قسم کی مشکلات کا شکار ہوتے آ رہے ہیں حتی کہ خود نبی اکرم ﷺ کو بھی مکہ مکرمہ کے کفار کی طرف سے اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب قریش کے باقی خاندانوں نے بنو ہاشم سے مطالبہ کیا تھا کہ محمد ﷺ کو قتل کے لیے ان کے حوالے کر دیا جائے لیکن بنو ہاشم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں قریش کے تمام قبائل نے مل کر بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا اور جناب نبی اکرم ﷺ اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رہے۔

کفار کی طرف سے ان کے خلاف یہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں کہ ان کے ساتھ لین دین نہیں ہوگا، ان سے رشتہ داری قائم نہیں کی جائے گی، ان کے پاس خوراک وغیرہ کی کوئی چیز نہیں جانے دی جائے گی اور ان کی معاشی ناکہ بندی ہوگی۔ اس دوران نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا اندازہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے اس ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم درختوں کے پتے کھا کر گزارے کیا کرتے تھے اور راستے میں پڑا ہوا خشک چمڑا اٹھا لیتے تھے اور اسے گرم پانی میں نرم کر کے چبا کر نگل لیا کرتے تھے۔

سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وادی میں بھوکے بچے جب روتے چلاتے تو ارد گرد گھومنے والے مشرکین یہ آوازیں سن کو خوش ہوا کرتے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ اور ان کے خاندان کو محصور رہنا پڑا لیکن مشرکین کی عائد کردہ یہ پابندیاں اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور اسلام کی دعوت وتبلیغ کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ اس دوران حضرت ابو ذر غفاریؓ اور بہت سے دیگر حضرات نے اسلام قبول کیا اور مشرکین کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی پابندیاں اور ناکہ بندی تین سال گزرنے کے باوجود کارگر نہیں ہو رہی تو کچھ سمجھ دار مشرکین نے آگے بڑھ کر وہ معاہدہ ختم کرا دیا۔ اس لیے آج بھی یہ پابندیاں اسلام کا راستہ نہیں روک سکیں گی اور اگر طالبان حکومت اپنے مشن اور پروگرام پر استقامت کے ساتھ گامزن رہی تو پابندیاں لگانے والوں کو بہت جلداندازہ ہو جائے گا کہ ان کا فیصلہ کس قدر غلط تھا۔

میں اس موقع پر اس صورت حال کے حوالہ سے آپ حضرات کی خدمت میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مشکلات ومصائب کے بارے میں اسلام کا مزاج کیا ہے؟ اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس پر سیرت نبوی سے دو واقعات پیش کروں گا تاکہ یہ بات ہمارے سامنے رہے کہ مشکلات ومصائب کے دور میں سنت نبوی کیا ہے۔

ایک واقعہ تو اس وقت کا ہے جب نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت ظاہری کیفیت یہ تھی کہ خود اپنی جان کے تحفظ کا مسئلہ درپیش تھا، رات کی تاریکی میں چھپ کر مکہ مکرمہ سے نکلے تھے، سفر کے لیے عام راستہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ خفیہ راستے سے سفر کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے ہمراہ تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے اور راستہ میں چلتے ہوئے کسی کو اپنے نام بتانے میں بھی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہ تو ظاہری کیفیت تھی کہ بظاہر جان کا بچانا مشکل ہو رہا تھا لیکن اسی دوران سراقہ بن مالکؓ جناب نبی اکرم ﷺ کو راستہ میں ملے اور پکڑنے میں ناکام ہو کر امان چاہی تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ’’سراقہ، میں تمہارے ہاتھوں میں کسری بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں‘‘

یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے قدرت کے ساتھ ساتھ حکمت کا بھی اظہار تھا جس میں ہمارے لیے دو سبق ہیں۔ ایک یہ کہ خدائی فیصلے ظاہری حالات پر نہیں ہوتے۔ ظاہری حالات جس قدر بھی ناموافق ہوں، اگر مسلمان کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ مضبوط ہے اور اس کا ایمان ویقین پختہ ہے تو ظاہری حالات کی ناسازگاری اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ اور دوسرا سبق یہ ہے کہ مسلمان کو ظاہری حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، مشکلات کتنی ہی کیوں نہ ہوں ،اسے اپنا ہدف سامنے رکھنا چاہئے اور ٹارگٹ میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہئے۔ اب دیکھئے کہ جناب نبی اکرم ﷺ ظاہری طور پر کس حال میں ہیں کہ چھپ کر اور جان بچا کر مدینہ منورہ پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن نظر کہاں ہے؟ کسری کے کنگنوں پر جو اس وقت کی ایک بڑی سلطنت کا حکمران تھا اور سراقہ بن مالکؓ سے فرمایا جا رہا ہے کہ اسے کسری کے کنگن پہنائے جائیں گے اور پھر یہ صرف ایک وقتی بات نہیں تھی بلکہ پیش گوئی تھی جو حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور خلافت میں فارس فتح ہوا، کسری کے شاہی خزانے غنیمت کے مال میں مدینہ منورہ آئے، ان میں وہ کنگن بھی تھے جو کسری بادشاہ دربار میں پہنا کرتا تھا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے کسری کے کنگن انہیں پہنائے کہ اگرچہ سونے کے کنگن پہننا مرد کے لیے جائز نہیں ہے لیکن جناب نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کنگن کچھ دیر کے لیے تمہیں پہنا رہا ہوں۔ اس طرح جناب نبی اکرم ﷺ نے ہمیں سبق دیا کہ مشکلات ومصائب اور حالات کی ناساز گاری سے گھبرا کر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور اپنے ہدف اور ٹارگٹ میں کوئی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے۔

دوسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے کہ مسلمانو ں کے مقابلہ میں بدر و احد کی جنگ میں ناکام ونامراد ہو کر قریش مکہ نے یہ بات سمجھ لی کہ وہ اکیلے جناب نبی اکرم ﷺ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے عرب قبائل سے گٹھ جوڑ کر کے مسلمانوں کے خلاف ان کا متحدہ محاذ بنوایا اور ایک بہت بڑا لشکر لے کر مدینہ منورہ کی طرف یلغار کر دی۔ یہ غزوۂ احزاب کی بات ہے جسے غزوۂ خندق بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ایک طرف عرب قبائل کا بہت بڑا متحدہ محاذ تھا اور دوسری طرف جناب نبی اکرم ﷺ اور ان کے ساتھی تھے جن کی تعداد چھوٹے بڑے سب ملا کر ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے خندق کھودنے کا پروگرام بنایا اور خود صحابہ کرام کے ساتھ مل کر دن رات خندق کھودنے میں مصروف رہے۔ قرآن کریم نے سورۃ الاحزاب میں اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اہل ایمان کو یاد دلایا ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم پر چاروں طرف سے لشکر چڑھ دوڑے تھے، جب تمہاری آنکھیں خوف کے مارے پتھرا گئی تھیں، جب خوف کی شدت سے تمہارے دل سینوں سے اچھل کر حلق میں پھنس گئے تھے، جب تم اللہ تعالی کی مدد کے بارے میں گمانوں کا شکار ہونے لگے تھے، جب مومنوں کو آزمائش میں ڈال دیا گیا تھا اور جب ان پر شدید زلزلے کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔

یہ اس وقت کی ظاہری کیفیت تھی جس کا نقشہ قرآن کریم ان الفاظ میں کھینچ رہا ہے اور روایات میں آتا ہے کہ بہت سے خندق کھودنے والوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور بعض لوگوں نے بھوک کی شدت سے یپٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے حتی کہ ایک صاحب نے جناب نبی اکرم ﷺ کو اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ اس نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھا کر دکھا دیا جہاں دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اس صورت حال میں جب ظاہری طور پر سخت مایوسی اور شدید خوف کی کیفیت مدینہ منورہ کی آبادی کا احاطہ کیے ہوئے تھی، جناب نبی اکرم ﷺ سے خندق میں ایک چٹان کے سخت ضربوں کے باوجود نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی، چنانچہ نبی اکرم ﷺ خود تشریف لے گئے اور کدال کی ایک ہی ضرب سے چٹان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ جب آپ نے کدال سے چٹان پر ضرب لگائی تو وہاں سے چمک اٹھی اور جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس چمک میں قیصر وکسری کے محلات دکھائی دیے ہیں‘‘

ظاہری کیفیت دیکھئے کہ خوف اور مایوسی کا کیا عالم ہے؟ اور اس حالت میں نظر کی بلندی ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے شاہی محلات دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی اتفاقی بات نہیں تھی بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے خوش خبری تھی اور یہ سبق تھا کہ ظاہری حالات سے مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھو، اس پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اپنے مشن پر گامزن رہو اور اپنے ٹارگٹ اور ہدف میں کوئی کمزوری نہ آنے دو۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام تر سازوسامان اور لشکر کی کثرت کے باوجود قبائل عرب کی یہ یلغار ناکام ہوئی اور اللہ تعالی نے جناب نبی اکرم ﷺ کو نہ صرف فتح عطا فرمائی بلکہ اس پیش گوئی کے مطابق قیصر وکسری کے شاہی محلات بھی اپنے اپنے وقت میں مسلمانوں کو عطا فرمائے۔

قرآن کریم میں ہے کہ آزمائش اور ابتلا کے اس سخت ترین دور کے بعد غزوۂ احزاب میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد اس طرح کی کہ ہوا کوتیز کر دیا اور غیبی لشکر آسمان سے اتارے جنہوں نے محاصرہ کرنے والے کافروں کے لشکر کو تتر بتر کر دیا اور وہ کوئی مقصد حاصل کیے بغیر ناکام واپس لوٹ گئے۔

اس لیے ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ طالبان کی اسلامی حکومت اگر اسلام کے مکمل اور عملی نفاذ کے مشن پر قائم رہتی ہے اور ظاہری حالات کی ناسازگاری سے خوفزدہ نہیں ہوتی تو اس کے لیے بھی غیب کی قدرتیں حرکت میں آئیں گی اور امریکہ کی قیادت میں عالمی استعمار کا ان کے خلاف متحدہ محاذ اسی طرح ناکام ہوگا جس طرح جناب نبی اکرم ﷺ کے خلاف قبائل عرب کا اتحاد ناکام ہو گیا تھا البتہ ہمیں اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں پر ضرور نگاہ رکھنی چاہئے کہ اپنے مظلوم طالبان بھائیوں کی اس مشکل وقت میں ہم کیا مدد کر سکتے ہیں اور ان کا ہاتھ کس طرح بٹا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے نباہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

سیرت و تاریخ

(فروری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter