خلافت اسلامیہ کی اہمیت

الشیخ عمر بکری محمد

اپنی پوری تیرہ سو سالہ تاریخ میں اسلامی نظام (خلافت) نے انسانی جدوجہد کے ہر پہلو سے، خواہ وہ معاشی ہو، جنگی ہو یا انصاف ہو، دنیا پر اعلی حکمرانی کی۔ لیکن جب مصطفی کمال نے ۱۹۲۴ء میں اقتدار سنبھال لیا اور ترکی کو لامذہب مملکت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا تو اس شاندار حکومت کاخاتمہ ہو گیا۔ ہمیں بحیثیت مسلمان یہ چاہئے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ اسلامی ریاست میں ہمارے آباؤ اجداد کس طریقے سے تہذیب وتمدن کی اعلی بلندی پر پہنچے تھے اور پھر ساری انسانیت کی رہنمائی کرنے لگے تھے اور آج ہم کیوں ذلیل ہو رہے ہیں؟ ۲۳ سال کے مختصر عرصہ میں اسلامی نظام نے قبل از اسلام کے جاہل عرب معاشرہ کو دنیا کے سب سے جدید اور پر شکوہ معاشرے میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اسلام کی بنیا د اللہ تعالی پر ایمان لانے پر ہے جو کائنات کا خالق ہے اور جس نے قرآن کو اپنے پیغمبر محمد ﷺ کے ذریعہ بھیجا۔ خدا کا نظریہ یا دین جو اس بنیاد سے نکلتا ہے اس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر رکھا ہے جس نے انسان کے تعلق کو خالق سے جوڑا حتی کہ انسان کا اپنے آپ سے بھی تعلق جوڑا اور پھر اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق جوڑا مثلا تنازعات، کاروبار اور جنگ وغیرہ۔ خدا کے اس نظریے کا نفاذ پوری شکل میں ایسے ہوا تھا جسے ہم نظام خلافت کے نام سے جانتے ہیں۔

کسی بھی عمل کو پرکھنے کامعیار یہ ہے کہ اس کا حوالہ اور ماخذ قرآن ہو، سنت نبوی ہو، قیاس ہو اور اجماع صحابہؓ ہو۔ عمل کو پرکھنے کامعیار یہ ہے کہ اس کے کرنے میں خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے تو وہ حق ہے اور اگر غضب کا باعث ہے تو پھر وہ عمل باطل ہے۔ اس طرح اسلام نے راز فاش کر دیا اور عقلی طور پر جواب دے دیا کہ سب سے زیادہ دلچسپ سوال کیا ہیں؟ مثلا میں کہاں سے آیا ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور میں کہاں جا رہا ہوں؟

ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ انسان کو خدا نے تخلیق کیا ہے اور انسان محدود ہے، اس کا علم محدود ہے خاص کر اپنے ارد گرد کے ماحول سے۔ لہذا وہ اس قابل نہیں ہے کہ زندگی کا ایسا نظام بنائے جو اس کی خواہشات اور فطرت سے ہم آہنگ ہو۔ مثال کے طور پر یہ تو صرف رولس رائس کار کو بنانے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی کار میں کیا کیا ہدایات موجود ہیں تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ کارکردگی دکھائی جا سکے۔ اسی طرح انسان ہے، اسے بھی اپنے بنانے والے کی ہدایات پر چلنا پڑتا ہے ، تب ہی اس کی زندگی کے اعمال طے کریں گے کہ اس عارضی زندگی میں اللہ کی ہدایات کا کتنا اتباع کیا ہے اور اسی حساب سے انسان کے لیے سزا یاجزا ہے۔

اسلام کے موثر نظام نے مسلمانوں کو انسانی کاوشوں کے تمام پہلوؤں میں ذہنی اعتبار سے اعلی بنا دیا ہے اور یہ ترقی خاص طور پر فوج میں نمایاں نظر آتی تھی کہ جس میں مسلم افواج کفار کے مقابلے میں ناقابل تسخیر ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ حتی کہ مسلمانوں کی تھوڑی سے تعداد بھی ہمیشہ وسیع کافر افواج پر غالب آجاتی تھی اور انہیں شکست دے دیتی تھی۔ اسلامی ریاست کی شاندار تاریخ اس حقیقت کی غماز ہے اوراس میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ کے دور میں مسلمان مصر پر قابض ہو گئے اور پھر سپین پر طارق بن زیادکا قبضہ اور وہ بھی چند ہزا ر سپاہیوں کے ساتھ۔ یہ تو اسلام کی بے شمار فتوحات میں سے صرف دو مثالیں تھیں۔ ماضی کے ان مسلمانوں کا بڑا مقام تھا کیونکہ وہ اپنے خالق کے مکمل نظام کا اتباع کرتے تھے۔ ہم آج کے مسلمان بڑا نیچا مقام رکھتے ہیں کیونکہ ہم ایک نامکمل نظام کی پیروی کرتے ہیں جو انسانی دماغوں کی اختراع ہے، مثلا جمہوریت، اشتراکیت وغیرہ۔ مومن وہ ہے جو مکمل طور پر اسلام کی پیروی کرتا ہے اور اللہ ہمیشہ اسے فتح سے نوازتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ارشاد ربانی ہے : ’’اللہ مومنوں کو منع فرماتا ہے اس بات سے کہ وہ کافروں کو اپنے اوپر غالب کر لیں‘‘ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زبردست اور باوقار اسلامی ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تقریبا پچاس غیر موثر ریاستوں میں بٹ گئی ہے۔ اور یہ تما م تر ریاستیں کفار کے خاص مفادات کا حصہ بن گئی ہیں۔ ان ٹوٹی ہوئی مسلم ریاستوں کے وسائل کفار ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ استعمال کر رہے ہیں جن کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ کسی طرح اسلام کو دوبارہ ایک سیاسی قوت بن کر دنیا پر چھا جانے سے روکیں اور کفار ہمارے وسائل کو آہستہ آہستہ زبردست لوٹ مار کا نشانہ بنائیں اور جو تھوڑا بہت بچ جائے وہ بھی انہی کی جیبوں میں ہم خود بھریں تاکہ شہریوں کے لیے کچھ بھی نہ رہے اور ظاہر ہے کہ وسیع پیمانے پر مسلمان ممالک میں غربت اسی کا نتیجہ ہے۔ لیکن الحمد للہ ، اللہ ہمیں آہستہ آہستہ مگر یقیناًجگا رہا ہے کہ ہم یہ محسوس کر لیں کہ ہماری پوزیشن غیر محفوظ اور نشانے پر ہے۔ اسی طرح گھناؤنے جرائم کے ذریعے جو کٹھ پتلی حکومتیں بے گناہ مسلمانوں کے خلاف ڈھا رہی ہیں، اور کفار کی نسل کشی کی مہمیں جو مسلمانوں کے خلاف بوسنیا، کشمیر، فلسطین اور چیچنیا میں چلائی جا رہی ہیں، یہ سب کچھ مسلمان ممالک میں بٹھائی گئی کٹھ پتلی انتظامیہ کے تحت ہو رہا ہے جو ہمیشہ چند روایتی الفاظ سے اظہار رد عمل کرتے ہیں : ’’ہم پر لازم ہے کہ ہم بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں‘‘ اور پھر مکمل لاپروائی برتتے ہیں۔

ان خطرات کو محسوس کر لینے سے ایک امیدکی کرن نظر آجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ان مسئلوں کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔ اگر یہ مسئلہ مکمل طور پر اجاگر ہو جائے تو پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ ہے کہ انہیں کمزور بنا دینے کا نظام ان پر تھوپ دیا گیا ہے۔ اور ایسا کفار نے اپنی کٹھ پتلی حکومتوں کی مدد سے کیا ہے لیکن اس زوال کا علاج یہ ہے کہ ہم خالق کے کامل نظام کی طرف واپس آ جائیں۔ یہ شرط ہے کہ اپنے دین کا مطالعہ کریں اور اسلام کے بھولے ہوئے حصے کو تلاش کر کے نافذ کریں جو کہ ابھی تک ہمارے اعمال سے خارج ہے۔ مسلمان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے ڈھانچہ کو اور اس سے متعلقہ امور جو کہ اسلام سے اخذ کردہ ہوں اور ان کا کام ریاست کو چلانا ہو، ان کو سمجھے۔ الحمد للہ، سچے مسلمانوں کے گروہ ان موضوعات کا مطالعہ گہرائیوں تک کر چکے ہیں۔ اب ہم مسلمان لوگوں سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس علم سے آراستہ کریں تاکہ اسلام اور اس کے نظام حکومت پر ان کا یقین مضبوط ہو اور وہ انہیں اس خلیفہ کی ریاست کے لیے تیار کرے جو اب ان شاء اللہ قریب ہی ہے۔

اسلام اور عصر حاضر

(فروری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter